ایک دن بغداد کی شاہراہوں پر ایک مجذوب چیختا پھر رہا تھا۔ "لوگو! خدا کی نا فرمانیوں سے باز آ جاؤ۔ چنگ و رباب توڑ دو اور شراب کے ذخیرے نالیوں میں بہا دو۔۔۔ورنہ قدرت کا پیمانۂ برداشت چھلکنے والا ہے۔ عذاب کے دن گنے جا چکے ہیں، بس کچھ گھڑیاں باقی ہیں، ابھی توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ سرکشی چھوڑ دو، نہیں تو تمہارے کاندھوں سے گردنوں کے بوجھ کم کر دیے جائیں گے، بڑا خون بہے گا، بڑی رسوائی ہو گی۔"
ہر گزرتے ہوئےلمحے کے ساتھ مجذوب کی لے تیز ہوتی جا رہی تھی۔ شروع میں لوگ اسے پاگل سمجھ کر ایک دلچسپ تماشے سے لطف اندوز ہوتے رہے مگر وہ دیوانہ تو بڑے پتے کی باتیں کر رہا تھا۔ بڑے خوفناک راز فاش کر رہا تھا۔ آخر عشرت کدوں میں رہنے والوں کو اس وحشی کے نعرے گراں گزرنے لگے۔ مجذوب سے کہا گیا کہ وہ نعرہ زنی بند کر دے۔ اس کی بے ہنگم آوازوں سے شرفاء کے سکون میں خلل پڑتا ہے۔ وہ کس عذاب کی باتیں کرتا ہے؟ عذاب ہمیں چھو بھی نہیں سکتا کہ ہم اہلِ ایمان ہیں۔ کئی بار تنبیہ کی گئی لیکن مجذوب نے اپنا چلن نہیں بدلا۔ وہ پریشاں بالوں اور بوسیدہ کپڑوں کے ساتھ ہر گلی کوچے میں چیختا پھر رہا تھا۔
"اے بے خبرو! سرخ آندھی آنے والی ہے۔ اس کے تیز جھونکوں میں تمہارے پتھروں کے مکان روئی کے تیز گالوں کی مانند اڑ جائیں گے۔ اب اس قہر سے تمہیں کوئی نہیں بچا سکتا۔ ہلاکت اور بربادی تمہارا مقدر ہو چکی ہے۔"
عیش و عشرت میں ڈوبے ہوئے لوگ موت کی خبریں سننے کے لئے تیار نہیں تھے۔ آخر معززینِ شہر نے مجذوب کی باتوں کو بد شگونی کی علامت قرار دے کر ایک سنگدلانہ حکم جاری کر دیا۔ اب وہ بے ضرر انسان جدھر جاتا لوگ اس پہ غلاظت پھینکتے تھے۔ مجذوب ان کی اس حرکت پہ قہقہے لگاتا تھا۔
"میرے جسم پہ گندگی کیا اچھالتے ہو۔ اپنے مسخ چہروں اور غلیظ لباسوں کی طرف دیکھو۔ عنقریب ان پر سیاہی ملی جانے والی ہے، اور کچھ دن خدا کے نظام کا مذاق اڑا لو۔ پھر وقت تمہارا اس طرح مذاق اڑائے گا کہ تم موت کو پکارو گے مگر موت بھی تمہیں قبول نہیں کرے گی۔"
اس کے بعد لوگ تشدد پر اتر آئے۔ مجذوب جہاں سے گزرتا تھا، جوان اور بچے اس پر پتھر برساتے تھے۔ لاغر اور نحیف جسم اپنے خون میں نہا گیا۔ بدمست انسانوں کے قہقہے بلند ہوئے۔ مجذوب بغداد کی ایک شاہراہ پر کھڑا لڑکھڑا رہا تھا۔ اس خوں رنگ تماشے دیکھنے کے لئے سینکڑوں انسان جمع ہو گئے تھے۔ مجذوب نے ہجوم کی طرف دیکھا اور بڑے اداس لہجے میں بولا۔
"کیا تم میں سے ایک شخص بھی ایسا نہیں ہے جو ان سنگدلوں کو منع کرے اور میری طرف آنے والے پتھروں کو روک لے؟"
مجذوب کی فریاد سن کر لوگوں کے قہقہے کچھ اور بلند ہو گئے۔ کسی نے سنگ باری کرنے والوں کو منع نہیں کیا۔ پورے مجمع کا ضمیر مر چکا تھا۔
"عذاب لکھا جا چکا۔" مجذوب آسمان کی طرف منہ اٹھا کر چیخا "لکھنے والے نے لوحِ محفوظ پر لکھ دیا۔ آگ، خون، موت، ذلت اور بربادی۔" پھر مجذوب نے بہتے ہوئے خون کو اپنے چہرے پہ مل لیا، چند پتھر اور برسے۔ مجذوب زمین پر گر پڑا۔
"مسخرا آسمان کی خبریں دیتا ہے۔" لوگ دیوانہ وار ہنس رہے تھے۔ "یہ خبر نہیں کہ خود اپنا کیا حال ہونے والا ہے؟" ایک مجبور انسان پہ مشقِ ستم کرنے کے بعد ہجوم منتشر ہو گیا، مجذوب کے جسم سے خون بہہ بہہ کر زمین پر جمتا رہا۔
آخر بغداد کے با ہوش شہریوں نے ایک دیوانے سے نجات حاصل کر لی، اس دن کے بعد پھر کسی نے مجذوب کو نہیں دیکھا۔ وہ اپنا کام ختم کر کے بہت دور جا چکا تھا۔
شہر کی فضائیں نغمہ بار تھیں۔ موسیقی کی پُر شور آوازوں نے گناہ کے خوابیدہ جذبوں کو بیدار کر دیا تھا، سیم تن بدنوں کے رقص نے جذبات کی دنیا میں وہ طوفان اٹھائے تھے کہ اہلِ دل اقتدار کی بینائی زائل ہو گئی تھی اور امراء اندھے ہو گئے تھے۔ سرحدی محافظوں کے بازو شل ہو گئے تھے اور تلواریں شاخِ گل کی مانند لہرا رہی تھیں۔
اور پھر اہلِ بغداد کو قہرِ خداوندی نے آ پکڑا۔ ہلاکو خان رات کے اندھیرے میں شمشیر بکف آگے بڑھ رہا تھا۔۔۔ اور عظیم الشان اسلامی سلطنت کے نگہبان ہاتھوں میں چنگ و رباب لئے ہوئے جھوم رہے تھے پھر ہر طرف فتنہ و فساد کی آگ بھڑک اٹھی۔ سنگِ سرخ سے بنے ہوئے سر بہ فلک محلات میں آگ لگی ہوئی تھی اور علم و حکمت کے ذخیرے سوکھی لکڑیوں کی طرح جل رہے تھے۔ شاندار تہذیب و تمدن کے آثار وحشیوں کے نیزوں کی زد پر تھے۔ ہلاکو خان کے سامنے عالمانہ تقریریں کرنے والے بے شمار تھے مگر وہ تلوار کے سوا کوئی زبان نہیں سمجھتا تھا۔ اس فتنۂ عظیم کو صرف جرات و شجاعت کے ہتھیاروں سے روکا جا سکتا تھا مگر مسلمان بہت پہلے ان ہتھیاروں کو زنگ آلود سمجھ کر اپنے اسلحہ خانوں میں دفن کر چکے تھے۔ اس لئے چنگیز خان کا سفاک پوتا مسلمانوں کے سروں کے مینار بنا رہا تھا اور اہلِ بغداد ایک درندے سے تہذیب و شائستگی کی زبان میں رحم و کرم کی بھیک مانگ رہے تھے۔ پھر یوں ہوا ؎
آگ اس گھر کو ایسی لگی کہ جو تھا جل گیا
اب ہلاکو خان کا رخ نیشا پور کی طرف تھا۔ یہاں بھی موت کی سرخ آندھی نے تباہی مچا دی۔ علم و حکمت کے کیسے کیسے تناور درخت جڑوں سے اکھڑ گئے، جن لوگوں نے کچھ دن پہلے بغداد کی شاہراہوں پہ ایک مجذوب کو چیختے ہوئے دیکھا تھا، آج انہیں اس پاگل انسان کی باتیں یاد آ رہی تھیں مگر وقت گزر چکا تھا۔ اچانک خبر آئی کہ تاتاریوں نے حضرت شیخ فرید الدین عطارؒ جیسے بزرگ کو بھی شہید کر دیا۔ معرفت کا یہ مینار کیا گرا کہ گھروں میں سہمے ہوئے مسلمان موت کے خوف سے کانپنے لگے۔ اب ان کے درمیان سے وہ شخص بھی اٹھ گیا تھا، جس کی دعائیں آسمان پر سنی جاتی تھیں۔
دوسری جانگداز خبر آئی کہ حضرت شیخ نجم الدین کبریٰؒ نے بھی جامِ شہادت پی لیا۔ اس طرح کہ آپ نے خانقاہ سے باہر آ کر آخری سانس تک ہلاکو کی فوج سے جنگ کی اور مرتے وقت اپنی قوم کو ایک ہی پیغام دیا کہ مکانوں کو چھوڑ کر میدانِ کار زار میں نکل آؤ۔ حضرت نجم الدین کبریٰؒ کی شہادت نے مسلمانوں کی امید کی آخری کرن بھی بجھا دی تھی۔ معرفت کے اس بلند ترین مینار کے زمین پر گرتے ہی زلزلہ آ گیا تھا اور ظلم و ستم کی رات مزید طویل ہو گئی تھی۔
خون کا سیلاب راستا بناتا ہوا مسلمانوں کے سر سبز و شاداب علاقوں سے گزر رہا تھا ، اب ہلاکو خان کے لہو آشام لشکر کا رخ روم کے شہر "قونیہ" کی جانب تھا۔ اس لشکر کی سالاری بیچو خان کو سونپی گئی تھی۔ بیچو خان نے اپنی فوجیں شہر کے چاروں طرف پھیلا دیں اور قونیہ کا مکمل محاصرہ کر لیا۔ چند روز تک تو اہلِ شہر کو خوف و دہشت کے سوا کسی تکلیف کا احساس نہیں ہوا مگر جب محاصرے نے طول پکڑا تو قونیہ کے باشندوں کا سامانِ رسد بند ہو گیا، جس سے ہر طرف بد حواسی پھیل گئی۔ اہلِ شہر میں مشورے ہونے لگے۔
کسی نے کہا۔ "بیچو خان سے مصالحت کی بات کی جائے اور اس کے مطالبات مان کر اس عذاب سے نجات حاصل کی جائے۔"
فوراً ہی دوسرے شخص نے جواب دیا۔ "ہلاکو خان مسلمانوں کے خون کا پیاسا ہے، وہ علی الاعلان خود کو خدا کا قہر کہتا ہے، اس کے نزدیک امن و عافیت جیسے الفاظ کوئی مفہوم نہیں رکھتے۔"
"پھر کیا ہو گا؟" ہر زبان پر ایک ہی سوال تھا۔ آخر جب تمام ذہن سوچتے سوچتے مفلوج ہو گئے تو امیروں کی محفل میں ایک پریشان حال شخص داخل ہوا۔ اس مفلس انسان کو دیکھ کر دولت مندوں کی پیشانیوں پر بل پڑ گئے مگر وہ لوگوں کے احساسات سے بے نیاز اندر چلا آیا اور بد مستوں کے درمیان کھڑے ہو کر با رعب لہجے میں کہنے لگا۔
"لوگو! تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اپنے ایک ہم مذہب کو دیکھ کر بد حواس ہو گئے ہو۔ میں تم سے بھیک مانگنے نہیں آیا کہ مجھے دیکھ کر تمہارے چہروں پر نفرت برسنے لگی ہے۔ اسی تنگ دلی اور بے ضمیری نے تمہیں یہ خوفناک دن دکھائے ہیں۔ تم اپنے عشرت کدوں میں شرابِ سرخ سے دل بہلاتے رہے اور مخلوقِ خدا اپنے خون میں نہاتی رہی۔ اب دولت کے یہ ذخیرے لے کر کہاں جاؤ گے کہ زمین تم پر تنگ ہو چکی ہے اور آسمان بہت دور ہے۔"
یہ کہہ کر وہ اجنبی کچھ دیر کے لئے خاموش ہو گیا۔ پوری محفل پر سکوتِ مرگ طاری تھا، ہر شخص کے چہرے سے ظاہر ہوتا تھا جیسے وہ نزع کی حالت میں گرفتار ہو۔
"میں تمہیں صرف یہ بتانے کے لئے آیا ہوں کہ اس قہرِ آسمانی کا بس ایک ہی علاج ہے۔" اجنبی نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا۔
"ہاں! ہاں! ہمیں بتاؤ۔" تمام امراء بیک زبان چیخے۔ "ہم اپنے سیم و زر کے سارے انبار لٹا دیں گے، خدا کے لئے ہمیں اس اذیت ناک صورت حال سے نجات دلاؤ۔ ہم گزرنے والے ہر لمحے کے ساتھ مرتے ہیں اور پھر دوسری ساعت میں جی اٹھتے ہیں۔ ہلاکو خان کی دہشت ہمیں وقت سے پہلے مار ڈالے گی۔" سب کے سب گداگروں کی طرح چیخ رہے تھے۔
"اس درویش کے پاس جاؤ جو تمہارے عشرت کدوں پر تھوک کر اپنی خانقاہ میں گوشہ نشین ہو گیا ہے۔" اجنبی نے نہایت تلخ لہجے میں کہا۔ اس کے ایک ایک لفظ سے اہلِ محفل کے لئے شدید نفرت کا اظہار ہو رہا تھا۔ "وہ تمہارے سیم و زر کے ذخیروں کا محتاج نہیں۔ وہ تو خود شہنشاہ ہے۔ ایسا شہنشاہ جس کے سامنے ہلاکو خان کے سپاہی بھی حقیر کیڑوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ اس کے پاس جاؤ اگر وہ دعا کیلئے ہاتھ اٹھا دے تو ممکن ہے کہ تمہارے سروں پر آگ کے شعلوں کے بجائے ابرِ رحمت برس جائے۔ اللہ اس کی بہت سنتا ہے۔"
اجنبی کی باتیں سن کر اہلِ محفل بد حواسی کے عالم میں کھڑے ہو گئے۔ وہ اسی وقت درویش کے آستانے پہ حاضر ہونا چاہتے تھے۔
"سنو۔۔۔" اجنبی نے پکار کر کہا۔ "وہ آسانی سے نہیں مانے گا۔ اس کے دروازے پر بھکاریوں کی طرح جانا۔ وہ تمہاری قیمتی پوشاکوں اور زر نگار قباؤں سے نفرت کرتا ہے۔"
یہ کہہ کر اجنبی محفل سے نکل گیا۔ تھوڑی دور تک لوگوں نے اسے جاتے دیکھا اور پھر وہ اچانک نظروں سے غائب ہو گیا۔ تمام لوگ اس بات پر حیران تھے کہ وہ کون تھا؟ کیوں آیا تھا اور یکایک کہاں غائب ہو گیا؟ یہ ایک بڑا اہم واقعہ تھا مگر لوگوں کے پاس سوچنے کے لئے وقت نہیں تھا۔ وہ انسان ہی سہی لیکن فرشتۂ رحمت بن کر آیا تھا۔ اس نے آگ اور خون کے درمیان گھرے ہوئے لوگوں کو سلامتی کی راہ دکھائی تھی۔
اب قونیہ کے معززین اور شرفاء کی جماعت اس درویش کے آستانے کی طرف بڑھ رہی تھی۔ فاصلے ختم ہوئے، اجازت طلب کی گئی۔ درویش فطرتاً مہمان نواز تھا۔اس نے اپنے ہم وطنوں کو اندر بلا لیا۔ لوگ کانپتے قدموں سے درویش کے روبرو پہنچے، ان کی آنکھوں کی پتلیاں لرز رہی تھیں اور چہرے موت کے خوف سے زرد تھے۔بعض نے بڑی ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا مگر اس طرح کہ ان کی آواز لرز رہی تھی۔
"میرے پاس کیوں آئے ہو؟" درویش نے بیزاری کے لہجے میں کہا۔ "اس کائنات میں میری کیا حیثیت ہے؟ تم اس کی بارگاہ میں کیوں نہیں گئے جو لوحِ محفوظ کا مالک ہے۔ جس کے ایک اشارے پر تقدیریں بنتی اور بگڑتی ہیں۔"
"شیخ! وہ ہماری نہیں سنتا۔" قونیہ کے امراء نے رقت آمیز لہجے میں کہا۔ "ہم بہت گناہ گار ہیں، ہمارے لئے درِ توبہ بند ہو چکا ہے۔"
"یہ سب غلط ہے۔" اگرچہ درویش کے ہونٹوں پہ ہر وقت ایک دلنواز تبسم نمایاں رہتا تھا مگر وہ قونیہ کے امراء کی بات سن کر یکایک غضب ناک ہو گیا۔ "کوئی نہیں جانتا کہ درِ توبہ کب بند ہو گا؟ جاؤ اسی کو پکارو! وہی اپنے بندوں کی سنتا ہے۔ اگر وہ نہیں سنے گا تو پھر اس کائنات میں کون سننے والا ہے؟"
امراء نے محسوس کر لیا کہ درویش اپنا دامن بچا رہا ہے۔ اجنبی نے انہیں پہلے ہی خبردار کر دیا تھا کہ درویش آسانی سے ان کی بات نہیں مانے گا۔ اس لئے وہ مزید گریہ و زاری کرنے لگے۔ "آسمان سے ہماری فریادوں کا جواب نہیں آتا۔ شیخ! ہم تیرے آستانے سے واپس نہیں جائیں گے اگر موت ہمارا مقدر بن چکی ہے تو پھر ہم تیرے قدموں میں مر جانا پسند کریں گے۔"
"تم نے دیکھا کہ شیخ فرید الدین عطارؒ شہید کر دئیے گئے۔ حضرت نجم الدین کبریٰؒ اپنے خون میں نہا کے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ میں تو ان کے قدموں کی خاک بھی نہیں ہوں۔ پھر تمہارے لئے کیسے دعا کروں۔؟ کیسے کیسے پارسا اس فتنۂ عظیم میں زندگی سے محروم ہو گئے۔ جب ان کی دعائیں قہرِ آسمانی کو نہ روک سکیں تو پھر میں کس شمار میں ہوں؟" درویش بڑے درد ناک لہجے میں اپنی عاجزی کا اظہار کر رہا تھا۔۔۔مگر لوگ اس کی بات سننے کے لئے تیار نہیں تھے۔ انہیں صرف اپنے جان و مال کی فکر تھی۔ وہ درویش کے سامنے بہت دیر تک گریہ و زاری کرتے رہے۔
آخر درویش مجبور ہو گیا۔ اس سے مخلوقِ خدا کی چیخیں نہیں سنی جاتی تھیں۔ وہ اٹھا اور اپنا مصلّیٰ لے کر خانقاہ سے نکل گیا۔ لوگوں نے بڑی حیرت سے درویش کے طرزِ عمل کو دیکھا۔ وہاں موجود ہر شخص یہی سمجھ رہا تھا کہ درویش ان کے شورِ فغاں سے تنگ آ کر خانقاہ کو چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ پورے مجمع پر کچھ دیر کے لئے سکوتِ مرگ سا طاری رہا۔ پھر تمام لوگ خانقاہ سے باہر نکل آئے اور درویش کو دیکھنے لگے جو ساری دنیا سے بے نیاز تیز تیز قدموں کے ساتھ ایک سمت چلا جا رہا تھا۔
قونیہ کے تمام شرفاء اور امراء درویش کو خاموشی سے دیکھتے رہے مگر کسی میں اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ اس کے پیچھے جاتے۔ بس درویش کے چند خادم بے قرار ہو کر اپنے مخدوم کے پیچھے بھاگے۔ ان کے لئے اس مردِ قلندر کا یہ انداز نا قابلِ فہم تھا۔ خادم درویش کے قریب پہنچ گئے مگر اس سے یہ پوچھنے کی جرات نہ کر سکے کہ وہ کہاں جا رہا ہے؟ درویش جس طرف سے بھی گزرتا تھا، کچھ لوگ اس کے ہمراہ ہو جاتے تھے۔۔۔مگر اس نے نظر اٹھا کر بھی ان کی طرف نہیں دیکھا۔
اب وہ شہر کی حدود سے باہر نکل آیا تھا۔ اس کے ہمراہ چلنے والے خوف سے لرزنے لگے۔ سامنے ہلاکو کے سپہ سالا بیچو خان کا لشکر نظر آ رہا تھا۔ درویش یکایک مڑا اور ان لوگوں سے سخت لہجے میں مخاطب ہوا۔
"تم اپنے گھروں کو واپس جاؤ۔ کیا یہ کوئی تماشا ہو رہا ہے؟ اس قہرِ آسمانی سے خدا کی پناہ مانگو۔" یہ کہہ کر درویش آگے بڑھا۔ اس کا انجانا سفر دوبارہ شروع ہو گیا تھا۔
ساتھ جانے والے اسی مقام پہ رک گئے جہاں اس نے ٹھہر جانے کا حکم دیا تھا۔ درویش آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ وہ منگول لشکر کے قریب تر ہوتا چلا گیا۔ تمام اہلِ شہر اور خادم جو اس وقت وہاں موجود تھے، خوف و دہشت سے کانپنے لگے۔ درویش کا ناتواں جسم منگول تیر اندازوں کے نشانے پر تھا۔ تاتاریوں کے ترکش سے نکلا ہوا ایک تیر بھی درویش کا کام تمام کر سکتا تھا۔۔۔مگر وہ مردِ خدا آج ہر شے سے بے نیاز تھا۔ اس کے قدم تیزی سے اٹھ رہے تھے پھر وہ قونیہ کے ان باشندوں کی نظروں سے اوجھل گیا جو اسے بیچو خان کے لشکر کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔
فاصلے مزید کم ہو گئے۔ درویش ایک بلند ٹیلے پر چڑھنے لگا۔ اس ٹیلے کے دوسری طرف تاتاریوں کا لشکر خیمہ زن تھا۔ درویش چوٹی تک پہنچا پھر اس نے اپنے اطراف پر نظر ڈالی۔ دور تک منگول سپاہی بکھرے ہوئے تھے اور نگاہوں کے سامنے سپہ سالار بیچو خان کا خیمہ تھا، جو دوسرے خیموں سے زیادہ وسیع اور نمایاں نظر آ رہا تھا۔ درویش نے ٹیلے پر مصلّیٰ بچھا دیا۔ ایک لمحے کے لئے آسمان کی طرف دیکھا اور نماز کی نیت باندھ لی۔ ابھی چند ساعتیں بھی نہیں گزری تھیں کہ کسی تاتاری کی نظر درویش پر پڑی۔ اس نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے سینکڑوں منگول سپاہی درویش کی طرف متوجہ ہو گئے جہاں ایک مسلمان اپنے اللہ کی عبادت میں مشغول تھا۔ دشمن سپاہی اس کی عبادت کا مفہوم تو نہیں سمجھ سکے مگر انہیں یہ خیال ضرور ہوا کہ وہ کوئی مسلمان جاسوس ہے جو بیچو خان کے لشکر کی مخبری کرنے آیا ہے۔
اس خیال کے پیدا ہوتے ہی منگول سپاہیوں میں ہلچل مچ گئی۔ اگرچہ درویش تنہا تھا لیکن جنگی اصول کے مطابق اس کی موجودگی نہایت خطرناک تھی۔ سپاہیوں نے اپنے کاندھوں پر لٹکتی ہوئی کمانیں اتار لیں۔ برق رفتاری کے ساتھ تیر چڑھائے۔ پوری قوت کا مظاہرہ کیا مگر کوئی ایک کمان بھی نہ کھینچ سکی۔ تنگ آ کر سپاہیوں نے اپنے گھوڑوں کو استعمال کرنا چاہا تاکہ ٹیلے پر پہنچ کر مسلمان درویش کو تلواروں سے قتل کر ڈالیں لیکن اس وقت منگول سپاہیوں کی بے چارگی قابلِ دید تھی جب ان کے گھوڑے اپنی جگہ سے جنبش تک نہ کر سکے۔ تاتاریوں نے بے زبان جانوروں کو پیٹنا شروع کر دیا۔ فضاء میں گھوڑوں کی چیخیں بلند ہوتی رہیں مگر انہیں ایک قدم بھی آگے نہ بڑھایا جا سکا۔ بڑی عجیب صورتحال تھی۔ سارے لشکر میں ایک ہنگامہ سا برپا ہو گیا۔ سپاہیوں کا شور سن کر بیچو خان بھی اپنے خیمے سے باہر نکل آیا۔ سپاہیوں سے ان ہنگامے کا سبب دریافت کیا تو بے شمار انگلیاں ٹیلے کی طرف اٹھ گئیں جہاں درویش اب بھی اپنے خدا کے آگے ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔
"یہ کیسی دیوانگی کی باتیں ہیں؟" بیچو خان نے چیخ کر کہا۔ "کوئی بھی ذی ہوش انسان تمہاری احمقانہ گفتگو پر یقین نہیں کر سکتا۔" یہ کہہ کر بیچو خان نے ایک سپاہی سے تیر کمان طلب کیا۔ وہ ایک ماہر تیر انداز تھا۔ ہلاکو کے پورے لشکر میں اس کی یہ صفت مشہور تھی۔ تمام سپاہی حیران و پریشان کھڑے بیچو خان کی طرف دیکھ رہے تھے۔ ان کی سانسیں رکی ہوئی تھیں اور ذہنوں میں ایک ہی خیال گردش کر رہا تھا کہ اگر منگول سپہ سالار مسلمان جاسوس کو ہلاک کرنے میں کامیاب ہو گیا تو پھر قیامت ٹوٹ پڑے گی۔ وہ اس کی وحشیانہ عادتوں سے واقف تھے۔
آخر بیچو خان نے اپنی کمان کھینچی اور ایک قہر آلود نظر ان سپاہیوں پہ ڈالی جن کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ اپنی کمانیں کھینچنے سے عاجز رہے تھے۔ سپاہیوں کی جان پر بن آئی تھی اور اب انہیں اپنی موت صاف نظر آنے لگی تھی۔ بیچو خان نے پوری طاقت سے کمان کھینچی پھر فضاء میں ایک مخصوص آواز ابھری اور ترکش سے تیر چھوٹ گیا۔ منگول سپاہی پتھرائی ہوئی آنکھوں سے تیر کو دیکھ رہے تھے۔ چند ثانیوں کی بات تھی۔ تاتاریوں کا خیال تھا کہ دوسرے ہی لمحے مسلمان جاسوس کی لاش ٹیلے کی بلندیوں سے زمین کی پستیوں میں چلی جائے گی۔۔۔مگر ایسا نہیں ہوا۔ بیچو خان کا چھوڑا ہوا تیر درویش کے قریب سے نکل گیا۔ منگول سپہ سالار کا چہرہ احساسِ ندامت سے زرد ہو گیا۔ نشانہ چوک جانے پر وہ نا قابلِ بیان اذیت و کرب میں مبتلا تھا۔ شدید غضب کے عالم میں اس نے ترکش پر دوسرا تیر چڑھایا۔ اس بار کمان کو یہاں تک کھینچا کہ اس کے ٹوٹ جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ نشانہ درست ہوتے ہی بیچو خان نے تیر چھوڑ دیا۔۔۔مگر اس مرتبہ بھی وہی ہوا۔ تیر سیدھا نشانے پر تھا مگر درویش کے قریب پہنچتے ہی کٹ کر دوسری طرف نکل گیا۔ اس کے بعد سپہ سالا بیچو خان اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا پھر اس نے مسلمان جاسوس پر تیروں کی بارش کر دی۔۔۔لیکن ایک تیر بھی درویش کے جسم کو نہ چھو سکا۔ انتہائی طیش کے عالم میں بیچو خان نے کمان اٹھا کر سپاہی کے سر پر دے ماری اور تیزی سے اپنے خیمے میں داخل ہو گیا۔ تلوار نکالی اور دوبارہ خیمے سے باہر آیا۔ وہ مسلمان جاسوس کو اپنے ہاتھ سے تہہِ تیغ کرنا چاہتا تھا۔ بیچو خان غضب ناک حالت میں آگے بڑھا مگر بمشکل تمام تھوڑی ہی دور جا سکا۔ اچانک منگول سپہ سالار کو محسوس ہوا جیسے زمین نے اس کے پاؤں پکڑ لئے ہوں۔۔۔وہ بہت دیر تک ہوا میں اپنی شمشیر لہراتا رہا۔ اس کے ہاتھ مسلسل گردش کر رہے تھے مگر ٹانگیں پتھر کی ہو کر رہ گئی تھیں۔ آخر وہ اپنی بے کسی پر رو پڑا۔ اس نے گھبرا کر سپاہیوں کی طرف دیکھا۔ سب کے سب سر جھکائے کھڑے تھے۔
"اے جادوگر! ہمیں معاف کر دے۔" اچانک بیچو خان کی تیز آواز فضاء میں گونجی۔ "ہم قونیہ کا محاصرہ اٹھا کر واپس جا رہے ہیں اے عظیم ساحر! ہمیں جانے دے کہ ہم غلطی سے تیرے علاقے میں آ گئے ہیں۔ ہماری بھول کو درگزر کر! بے شک! تو اس مملکت کا شہنشاہ ہے۔ ہمیں اجازت دے کہ ہم اپنے گھروں کو واپس لوٹ جائیں۔" منگول سپہ سالار بیچو خان اس طرح فریاد کر رہا تھا جیسے واقعتہً کسی طاقتور شہنشاہ سے رحم کی بھیک مانگ رہا ہو۔
ابھی بیچو خان کے الفاظ کی گونج باقی تھی کہ یکایک اس کے پیروں میں خون کی گردش بحال ہو گئی۔ منگول سپہ سالار نے اپنی تلوار نیچی کر لی اور سر جھکائے ہوئے خیمے میں واپس آ گیا۔ کچھ دیر پہلے جس شخص کو جاسوس کے نام سے پکارا جا رہا تھا، اب وہی بے اسلحہ و نہتا انسان فاتح ٹھہرا تھا۔۔۔اور بیچو خان جیسا طاقتور دشمن ناکام و نا مراد لوٹ رہا تھا۔ جب منگول سپاہی قونیہ کی حدود سے باہر نکل رہے تھے، اس وقت بیچو خان کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔ وہ اپنے فوجیوں سے کہہ رہا تھا۔
"گھوڑوں کی رفتار تیز کر دو۔ یہ پورا علاقہ جادو کے زیر اثر ہے۔ اس بوڑھے ساحر نے ہر چیز کو باندھ کر رکھ دیا ہے۔" ان الفاظ کے ادا ہوتے ہی گھوڑوں کی پشت پر تازیانے برسنے لگے۔ فضاء حیوانوں کی چیخوں سے گونجنے لگی۔ راستوں سے گرد و غبار اٹھا اور پھر فتنۂ ہلاکو کا نقیب کسی نا معلوم منزل کی طرف روانہ ہو گیا۔
شہر قونیہ کے باشندے بہت خوش تھے۔ ایک درویش کی دعاؤں کے سبب ان کے سروں سے عذابِ آسمانی ٹل گیا تھا۔ درویش اپنی خانقاہ کی طرف آیا تو انسانی ہجوم نے اسے گھیر لیا۔ لوگ اپنی عقیدت کا اظہار کرنے کے لئے اس کے ہاتھوں کو بوسہ دینا چاہتے تھے مگر وہ ان تمام رسموں سے بیزار تھا۔ اس نے انتہائی تلخ لہجے میں لوگوں کو مخاطب کیا۔
"اگر آج نا فرمانوں کی جماعت قہرِ خداوندی سے بچ گئی تو کل خیر نہیں۔ اس سے پہلے کہ درد ناک عذاب تمہیں آ پکڑے، اپنے گناہوں سے توبہ کر لو۔ بے خبروں کے لئے وقت کا ہر لمحہ رہزن ہے۔ اپنے ایمانوں کی حفاظت کرو ورنہ وقت کے بے رحم قزاق تمہارا سب سے قیمتی سرمایہ لوٹ کر لے جائیں گے۔" یہ کہہ کر درویش خانقاہ میں چلا گیا اور اندر سے دروازہ بند کر لیا۔
مریدوں اور خدمت گاروں نے سنا۔ وہ اپنے رب کے حضور ہچکیوں سے رو رہا تھا۔ "اے عزیز و جلیل! تو نے دنیا کے سامنے میری شرم رکھ لی ورنہ یہ گناہ گار تو رسوا ہو چلا تھا۔ اگر میں اپنی جان بھی نذر کر دوں تو تیرے اس احسان کا شکر ادا نہیں ہو سکتا۔"
جن کی دعاؤں کے سبب شہر قونیہ فتنۂ ہلاکو سے ۔۔
السلام علیکم
*٢٠ اپریل بروز پیر کو عالمی یوم درود و سلام کا حصّہ بنیں اور اس دن زیادہ سے زیادہ درود و سلام کا ورد کریں۔*
_*نحمده و نصلى على ر سوله الكريم اما بعد فاعوذبالله من الشيطان الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم ان الله وملائكته يصلون على النبي يا ايها الذين امنوا صلوا عليه وسلموا تسليما صدق الله العظيم*_
*🌸 بے شک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں نبی پراے ایمان والو تم بھی ان پر خوب درود و سلام بھیجا کرو 🌸*
✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨
اس آیت کریمہ میں مسلمانوں کو متنبہ فرمایا گیاکہ اے درود پڑھنے والو تم یہ خیال نہ کرنا کہ ہمارے محبوب پر ہماری رحمتیں تمہارے مانگنے پرموقوف ہین۔ ہمارےمحبوب تمہارے درود کےحاجتمندہین۔تمھاری پیدائش تمہارا درود پڑھنا تو کل سےھوا۔ ان پر رحمتوں کی بارش تو جب سے ہو رہی ہے۔ جب کب کا بھی وجود نہ تھا جب وہاں کہاں سے پہلے ان پر رحمتیں ہیں۔ تم سے دعا منگوانا تمہارے بھلے کے لیے ہے۔جب رب ہماری حمد و ثنا کا محتاج نہیں ہے کہ وہ محمود ہے چاہے کوئی حمد کریےیانہ کرے۔۔۔ایسے ہی ہمارے نبی بھی کسی کی نعت خوانی کے محتاج نہیں ھیں۔ وہ محمد ہیں چاہے ان کی کوئی نعت پڑھے یا نہ پڑھے حمد الہی کے لیے حضور کافی ہیں ۔نعت مصطفٰی کے لئے رب کافی ہے
*وہی رب ہے جس نے تجھ کو ہمہ تن کرم بنایا*
*ہمیں بھیک مانگنے کو تیرا آستاں بتایا*
🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿
ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام نے ماں حوا کی مہر دس مرتبہ درود پڑھ کر ادا کیا جو ہمیں وراثت میں ملی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی آدم کی نیک اولادیں اپنے باپ کی سنت پر عمل کر رہی ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام پڑھ رہی ہیں اور آدم کی کمینی اولادیں اپنے باپ کی سنت سے انحراف کرتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ دراصل درود و سلام اہل سنت والجماعت کے ہی مقدر میں ہے کیونکہ قرآن کریم نے *یا ایھا الذین اٰمنو صلو علیہ وسلمو تسلیما* کہہ کر واضح فرما دیا
🌴🌴🌴🌴🌴🌴🌴🌴🌴🌴🌴🌴
حدیث رسول میں ہے آقا نے ارشاد فرمایا جو مجھ پر درود بھیجتا ہے اس پر فرشتے درود بھیجتے ہیں۔ خدا خود اپنی شان کے مطابق درود بھیجتاھے۔ جس کے باعث تمام آسمان والے اور زمین والے درود بھیجتے ہیں حتی کہ سمندر درخت پرندے چرندے یہاں تک کہ کوئی چیز ایسی باقی نہیں رہتی جو نبی پر درود نہ بھیجتی ہو۔
جب نبی پر آسمان والے زمین والے سمندر درخت چرند پرند تک میرے آقا پر درود بھیجتے ہیں تو ہم انسان *اشرف المخلوقات* ہیں۔ ہمیں بدرجہ اولی نبی پر درود و سلام بھیجنا چاہیے۔
حدیث رسول میں ہے آقا ارشاد فرماتے ہیں *من نسی الصلاۃ علی نسی طریق الجنہ* _*جو مجھ پر درود پڑھنا بھول گیا وہ جنت کا راستہ بھول گیا۔*_
قابل داد و تحسین ہیں *محترم جناب الحاج سعید بھائی* بانی رضا اکیڈمی جنہوں نے نبی کی ولادت مبارکہ شریف 20 اپریل بروز دوشنبہ عیسوی تقویم کے اعتبار سے نکال کر کے لوگوں کی توجہ مبذول کرائی۔جیسےہم بارہ ربیع الاول شریف کو درود و سلام کی کثرت کرتے ہیں۔ایسے ہی ہم 20 اپریل بروز دوشنبہ ہر جگہ ہر مکان مین سبھی لوگ مل کر خوب خوب نبی کریمﷺ پر درود و سلام کی کثرت کریں اوراس مہلک وبا کرونا وائرس سے دفاع کے لیے لیے اس درود و سلام کے طفیل اللہ کی بارگاہ میں دعا کریں کیونکہ دورودپاک پاک دعاؤں کی قبولیت کا ذریعہ ہے۔ درود پاک دافع البلاء ہے انشاللہ 20 اپریل سے درود و سلام کی برکت سے کورونا وائرس خود بھاگتا ہوا نظر آئے گا۔
*شافی و نافی ہو تم کا فی و وافی ہو تم*
*درد کو کردو دوا تم پہ کروڑوں درود*
آپ سے ایک عریضہ یہ بھی ہے کہ آپ حضراتِ جناب سعید بھائی اور ان کے رفقاء کے لیے بھی خصوصیت کے ساتھ دعاؤں سے نوازیں۔ کیوں کی جناب سعید بھائی ہر موقع پر قوم کی فلاح و بہبود کے لئے پیش پیش رہتے ہیں۔ اس لیے انہیں خصوصیت کے ساتھ دعاؤں میں یاد رکھیں۔
یہ ناچیز بھی رب کی بارگاہ میں دعا گو ہے کہ رب کریم اپنے حبیب کے صدقے اور اس درود و سلام کے وسیلے سے اللہ تعالی ہر مومن کو تمام ارضی و سماوی آفات و بلیات سے محفوظ فرمائے اور سب کے جان و مال اہل و عیال عزت و آبرو کی حفاظت فرمائے اور سب کے علم میں عمر میں رزق میں بے پناہ برکت عطا فرمائے اور جناب سعید بھائی اور ان کے رفقاء کو نظر بد سے بچائے اور بلندی کی راہوں پر گامزن فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ
: حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کبھی کوئی خواہش نہیں کی
ایک دن مچھلی کھانے کو دل چاہا تو اپنے غلام یرکا سے اظہار فرمایا۔۔
یرکا آپ کا بڑا وفادار غلام تھا ایک دن آپ نے فرمایا یرکا آج مچھلی کھانے کو دل کرتا ہے۔
لیکن مسئلہ یہ ہے آٹھ میل دور جانا پڑے گا دریا کے پاس مچھلی لینے اور آٹھ میل واپس آنا پڑے گا مچھلی لے کے ۔۔
پھر آپ نے فرمایا رہنے دو کھاتے ہی نہیں ایک چھوٹی سی خواہش کیلئے اپنے آپ کو اتنی مشقت میں ڈالنا اچھا نہیں لگتا کہ اٹھ میل جانا اور اٹھ میل واپس آنا صرف میری مچھلی کے لئے؟
چھوڑو یرکا۔۔۔۔۔۔۔ اگر قریب سے ملتی تو اور بات تھی۔
غلام کہتا ہے میں کئی سالوں سے آپ کا خادم تھا لیکن کبھی آپ نے کوئی خواہش کی ہی نہیں تھی پر آج جب خواہش کی ہے
تو میں نے دل میں خیال کیا کہ حضرت عمر فاروق نے پہلی مرتبہ خواہش کی ہے اور میں پوری نہ کروں۔؟
ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔۔
غلام کہتے ہیں جناب عمرؓ ظہر کی نماز پڑھنے گئے تو مجھے معلوم تھا ان کے پاس کچھ مہمان آئے ہوئے ہیں عصر انکی وہیں ہوجائے گی۔
غلام کہتا ہے کہ میں نے حضرت عمرؓ کے پیچھے نماز پڑھی اور دو رکعت سنت نماز پڑھ کرمیں گھوڑے پر بیٹھا عربی نسل کا گھوڑہ تھا دوڑا کر میں دریا پر پہنچ گیا..
عربی نسل کے گھوڑے کو آٹھ میل کیا کہتے ؟؟
وہاں پہنچ کر میں نے ایک ٹوکرا مچھلی کا خریدا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی عصر کی نماز ہونے سے پہلے میں واپس بھی آگیا اور گھوڑے کو میں نے ٹھنڈی چھاؤں میں باندھ دیا تاکہ اس کا جو پسینہ آیا ہوا ہے وہ خشک ہو جائے اور کہیں حضرت عمر فاروق دیکھ نا لیں
غلام کہتا ہے کے کہ گھوڑے کا پسینہ تو خشک ہوگیا پر پسینے کی وجہ سے گردوغبار گھوڑے پر جم گیا تھا جو واضح نظر آرہا تھا کہ گھوڑا کہیں سفر پہ گیا تھا پھر میں نے سوچا کہ حضرت عمرؓ فاروق دیکھ نہ لیں ۔۔
پھر میں جلدی سے گھوڑے کو کنویں پر لے گیا اور اسے جلدی سے غسل کرایا اور اسے لا کر چھاؤں میں باندھ دیا۔۔ (جب ہماری خواہشات ہوتی ہیں تو کیا حال ہوتا ہے لیکن یہ خواہش پوری کر کے ڈر رہے ہیں کیونکہ ضمیر زندہ ہے)
فرماتے ہیں جب عصر کی نماز پڑھ کر حضرت عمر فاروق آئے میں نے بھی نماز ان کے پیچھے پڑھی تھی۔
گھر آئے تو میں نے کہا حضور اللہ نے آپ کی خواہش پوری کردی ہے۔
مچھلی کا بندوبست ہوگیا ہےاور بس تھوڑی دیر میں مچھلی پکا کے پیش کرتا ہوں۔
کہتا ہے میں نے یہ لفظ کہے تو جناب عمر فاروق اٹھے اور گھوڑے کے پاس چلے گئے گھوڑے کی پشت پہ ہاتھ پھیرا،
اس کی ٹانگوں پہ ہاتھ پھیرا اور پھر اس کے کانوں کے پاس گئے اور گھوڑے کا پھر ایک کان اٹھایا اور کہنے لگے یرکا تو نے سارا گھوڑا تو دھو دیا لیکن کانوں کے پیچھے سے پسینہ صاف کرنا تجھے یاد ہی نہیں رہا۔۔
اور یہاں تو پانی ڈالنا بھول گیا۔۔
حضرت عمرؓ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گئے اور کہنے لگے
"اوہ یار یرکا ادھر آ تیری وفا میں مجھے کوئی شک نہیں ہے
اور میں کوئی زیادہ نیک آدمی بھی نہیں ہوں،
کوئی پرہیز گار بھی نہیں ہوں ،
میں تو دعائیں مانگتا ہوں
اے اللہ میری نیکیاں اور برائیاں برابر کرکے مجھے معاف فرما دے۔۔
میں نے کوئی زیادہ تقوی اختیار نہیں کیا اور بات کو جاری رکھتے ہوئے فرمانے لگے یار اک بات تو بتا اگر یہ گھوڑا قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں فریاد کرے کہ یا اللہ عمر نے مجھے اپنی ایک خواہش پوری کرنے کے لیے 16 میل کا سفر طے کرایا
اے اللہ میں جانور تھا،
بےزبان تھا
16 میل کا سفر ایک خواہش پوری کرنے کیلئے
تو پھر یرکا تو بتا میرے جیسا وجود کا کمزور آدمی مالک کے حضور گھوڑے کے سوال کا جواب کیسے دے گا؟"
یرکا کہتا ہے میں اپنے باپ کے فوت ہونے پر اتنا نہیں رویا تھا جتنا آج رویا میں تڑپ اٹھا کے حضور یہ والی سوچ (یہاں تولوگ اپنے ملازم کو نیچا دکھا کر اپنا افسر ہونا ظاہر کرتے ہیں)غلام رونے لگا حضرت عمرؓ فاروق کہنے لگے اب اس طرح کر گھوڑے کو تھوڑا چارہ اضافی ڈال دے اور یہ جو مچھلی لے کے آئے ہو اسے مدینے کے غریب گھروں میں تقسیم کر دو اور انہیں یہ مچھلی دے کر کہنا کے تیری بخشش کی بھی دعا کریں اور عمر کی معافی کی بھی دعا کریں۔“
صرف آپ ہی پڑھ کر آگے نہ بڑھ جائیں بلکہ اوروں کو بھی شریک کریں, یہ صدقہ جاریہ ہوگا, اس میں آپ کا بمشکل ایک لمحہ صرف ہو گا لیکن ہو سکتا ہے اس ایک لمحہ کی اٹھائی ہوئی تکلیف سے آپ کی شیئر کردہ تحریر ہزاروں لوگوں کے لیے سبق آموز ثابت ہو .. جزاک اللہ خیرا کثیرا.
: حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کبھی کوئی خواہش نہیں کی
ایک دن مچھلی کھانے کو دل چاہا تو اپنے غلام یرکا سے اظہار فرمایا۔۔
یرکا آپ کا بڑا وفادار غلام تھا ایک دن آپ نے فرمایا یرکا آج مچھلی کھانے کو دل کرتا ہے۔
لیکن مسئلہ یہ ہے آٹھ میل دور جانا پڑے گا دریا کے پاس مچھلی لینے اور آٹھ میل واپس آنا پڑے گا مچھلی لے کے ۔۔
پھر آپ نے فرمایا رہنے دو کھاتے ہی نہیں ایک چھوٹی سی خواہش کیلئے اپنے آپ کو اتنی مشقت میں ڈالنا اچھا نہیں لگتا کہ اٹھ میل جانا اور اٹھ میل واپس آنا صرف میری مچھلی کے لئے؟
چھوڑو یرکا۔۔۔۔۔۔۔ اگر قریب سے ملتی تو اور بات تھی۔
غلام کہتا ہے میں کئی سالوں سے آپ کا خادم تھا لیکن کبھی آپ نے کوئی خواہش کی ہی نہیں تھی پر آج جب خواہش کی ہے
تو میں نے دل میں خیال کیا کہ حضرت عمر فاروق نے پہلی مرتبہ خواہش کی ہے اور میں پوری نہ کروں۔؟
ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔۔
غلام کہتے ہیں جناب عمرؓ ظہر کی نماز پڑھنے گئے تو مجھے معلوم تھا ان کے پاس کچھ مہمان آئے ہوئے ہیں عصر انکی وہیں ہوجائے گی۔
غلام کہتا ہے کہ میں نے حضرت عمرؓ کے پیچھے نماز پڑھی اور دو رکعت سنت نماز پڑھ کرمیں گھوڑے پر بیٹھا عربی نسل کا گھوڑہ تھا دوڑا کر میں دریا پر پہنچ گیا..
عربی نسل کے گھوڑے کو آٹھ میل کیا کہتے ؟؟
وہاں پہنچ کر میں نے ایک ٹوکرا مچھلی کا خریدا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی عصر کی نماز ہونے سے پہلے میں واپس بھی آگیا اور گھوڑے کو میں نے ٹھنڈی چھاؤں میں باندھ دیا تاکہ اس کا جو پسینہ آیا ہوا ہے وہ خشک ہو جائے اور کہیں حضرت عمر فاروق دیکھ نا لیں
غلام کہتا ہے کے کہ گھوڑے کا پسینہ تو خشک ہوگیا پر پسینے کی وجہ سے گردوغبار گھوڑے پر جم گیا تھا جو واضح نظر آرہا تھا کہ گھوڑا کہیں سفر پہ گیا تھا پھر میں نے سوچا کہ حضرت عمرؓ فاروق دیکھ نہ لیں ۔۔
پھر میں جلدی سے گھوڑے کو کنویں پر لے گیا اور اسے جلدی سے غسل کرایا اور اسے لا کر چھاؤں میں باندھ دیا۔۔ (جب ہماری خواہشات ہوتی ہیں تو کیا حال ہوتا ہے لیکن یہ خواہش پوری کر کے ڈر رہے ہیں کیونکہ ضمیر زندہ ہے)
فرماتے ہیں جب عصر کی نماز پڑھ کر حضرت عمر فاروق آئے میں نے بھی نماز ان کے پیچھے پڑھی تھی۔
گھر آئے تو میں نے کہا حضور اللہ نے آپ کی خواہش پوری کردی ہے۔
مچھلی کا بندوبست ہوگیا ہےاور بس تھوڑی دیر میں مچھلی پکا کے پیش کرتا ہوں۔
کہتا ہے میں نے یہ لفظ کہے تو جناب عمر فاروق اٹھے اور گھوڑے کے پاس چلے گئے گھوڑے کی پشت پہ ہاتھ پھیرا،
اس کی ٹانگوں پہ ہاتھ پھیرا اور پھر اس کے کانوں کے پاس گئے اور گھوڑے کا پھر ایک کان اٹھایا اور کہنے لگے یرکا تو نے سارا گھوڑا تو دھو دیا لیکن کانوں کے پیچھے سے پسینہ صاف کرنا تجھے یاد ہی نہیں رہا۔۔
اور یہاں تو پانی ڈالنا بھول گیا۔۔
حضرت عمرؓ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گئے اور کہنے لگے
"اوہ یار یرکا ادھر آ تیری وفا میں مجھے کوئی شک نہیں ہے
اور میں کوئی زیادہ نیک آدمی بھی نہیں ہوں،
کوئی پرہیز گار بھی نہیں ہوں ،
میں تو دعائیں مانگتا ہوں
اے اللہ میری نیکیاں اور برائیاں برابر کرکے مجھے معاف فرما دے۔۔
میں نے کوئی زیادہ تقوی اختیار نہیں کیا اور بات کو جاری رکھتے ہوئے فرمانے لگے یار اک بات تو بتا اگر یہ گھوڑا قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں فریاد کرے کہ یا اللہ عمر نے مجھے اپنی ایک خواہش پوری کرنے کے لیے 16 میل کا سفر طے کرایا
اے اللہ میں جانور تھا،
بےزبان تھا
16 میل کا سفر ایک خواہش پوری کرنے کیلئے
تو پھر یرکا تو بتا میرے جیسا وجود کا کمزور آدمی مالک کے حضور گھوڑے کے سوال کا جواب کیسے دے گا؟"
یرکا کہتا ہے میں اپنے باپ کے فوت ہونے پر اتنا نہیں رویا تھا جتنا آج رویا میں تڑپ اٹھا کے حضور یہ والی سوچ (یہاں تولوگ اپنے ملازم کو نیچا دکھا کر اپنا افسر ہونا ظاہر کرتے ہیں)غلام رونے لگا حضرت عمرؓ فاروق کہنے لگے اب اس طرح کر گھوڑے کو تھوڑا چارہ اضافی ڈال دے اور یہ جو مچھلی لے کے آئے ہو اسے مدینے کے غریب گھروں میں تقسیم کر دو اور انہیں یہ مچھلی دے کر کہنا کے تیری بخشش کی بھی دعا کریں اور عمر کی معافی کی بھی دعا کریں۔“
صرف آپ ہی پڑھ کر آگے نہ بڑھ جائیں بلکہ اوروں کو بھی شریک کریں, یہ صدقہ جاریہ ہوگا, اس میں آپ کا بمشکل ایک لمحہ صرف ہو گا لیکن ہو سکتا ہے اس ایک لمحہ کی اٹھائی ہوئی تکلیف سے آپ کی شیئر کردہ تحریر ہزاروں لوگوں کے لیے سبق آموز ثابت ہو .. جزاک اللہ خیرا کثیرا.
: *مدارس اسلامیہ میں جو طلبہ لوک ڈاؤن کی وجہ ست پھنسے ہوئے ہیں انہیں کیسے ان کے گھر سلامتی کے ساتھ پہنچایا جائے؟*
جامعہ اکل کوا مہاراشٹرا کی انتظامیہ نے نے جب سے ملک میں کرونا وائرس کے آثار نظر آنے لگے اور لوک ڈاؤن کی کا اعلان ہوا نندربار ضلع کلکٹر اور مہاراشٹرا الیکشن میں کانگریس سے کامیاب علاقے کے منتخب نمائندے کیسی پاڈوی سے رابطہ بنائے رکھا اور ان سے مسلسل مطالبہ کیا کہ ہمارے ان طلبہ کو سلامتی کے ساتھ جب تک ان کے گھر پہنچانے کی شکل نہیں بنتی ہم انہیں اپنے پاس رکھیں گے آخر کار ضلع کے ان ذمہ داروں نے بہار اسام بنگال جھاڑ کھنڈ کے 5500 طلبہ کے لیے 6 ٹرینوں کا انتظام کیا جن میں سے دو آج 1850 طلباء کو لیکر الحمدللہ روانہ ہو چکی ہے بقیہ دو آئندہ کل اور مزید دو پرسوں ان شاء اللہ روانہ ہوگی.
میں اپنے اس کامیاب تجربہ کے بارے میں دیگر ذمہ داران مدارس کے بار بار مطالبہ پر یہ آپ کی خدمت میں طریقہ کار بیان کر رہا ہوں.
1- کلکٹر صاحب سے مل کر طلبہ کے ان کے وطن واپسی کا مطالبہ کریں اس لیے کہ لوک ڈاؤن میں یہ ساری ذمہ داری کلکٹر کے حوالے کی گئی ہے.
2- کرایہ بھی حکومت کے ذمہ ہے لہذا ان سے صاف کہہ دیں کہ وہ اس کا انتظام کریں.
3- طلبہ سرکاری ہسپتال سے چیک اپ کروا کر میڈیکل سرٹیفکیٹ بنوالیں.
4- طلبہ مرکزی حکومت کے مطابق ہوم کورنٹائن ہونگے یعنی 14 دن اپنے گھر ہی میں رہینگے.
حذیفہ وستانوی
السلام علیکم
۹
*دنیا کی سب سے بڑی سازش بے نقاب*
تحقیق. تحریر محمد الیاس آرائیں
۔
یہ منصوبہ اسرائیل میں تیار کیا گیا جس میں امریکا، برطانیہ اور بھارت کے بڑے سازشی دماغ شریک ہوئے۔ (بعض سعودی ذرائع کے مطابق ان میں ایرانی خفیہ حکام اور قادیانیوں کے نمائندے بھی شامل تھے) روس اور چین کو شامل نہیں کیا گیا کیونکہ ان کے بعض مسلمان ملکوں سے قریبی تعلقات ہیں۔ اور یہ سازش تو ہے ہی مسلمانوں کے خلاف۔
منصوبے کے بلو پرنٹ کے مطابق پوری دنیا کا میڈیا چونکہ یہودیوں کے قبضے میں ہے، اس لیے اسے ایک جھوٹ موٹ کے وائرس کا پروپیگنڈا کرنے کی ذمے داری دی گئی۔ امریکا یا اسرائیل پر کوئی شک نہ کرے، اس لیے اس کا آغاز چین سے کیا گیا۔
چین کی مرکزی حکومت کو اس معاملے سے بے خبر رکھتے ہوئے ووہان کی مقامی انتظامیہ کو کروڑوں ڈالر دے کر خریدا گیا جبکہ اسپتالوں کے ڈاکٹروں کو بھی بھاری رشوت دی گئی۔ انھوں نے شور مچایا کہ ان کے شہر میں ایک وائرس پھیل گیا ہے جو ہلاکت خیز ہے۔
چین کی بھولی بھالی مرکزی حکومت اسے حقیقت سمجھی اور لاک ڈاؤن لگادیا۔ اب نہ کوئی شہر میں آسکتا تھا اور نہ جاسکتا تھا۔ ووہان کے ڈاکٹروں نے ہر بیماری کے مریض کو مار کے کہنا شروع کردیا کہ سیکڑوں مرگئے، ہزاروں مرگئے۔ حد یہ کہ معمولی نزلہ زکام کے مریضوں کو بھی زبردستی وینٹی لیٹر لگاکر مارا گیا۔
چین کے دوسرے شہروں میں بھی یہودیوں کے ایجنٹ ڈاکٹروں نے یہی کہہ کر کافی لوگوں کی جان لے لی۔ اسی کے ساتھ یورپ اور امریکہ کے میڈیا نے جھوٹی خبریں دینا شروع کردیں کہ چین سے آنے والوں نے ان کے ملکوں میں وائرس پھیلا دیا ہے۔
اتنی دیر میں چین کی انٹیلی جنس نے حقیقت کا سراغ لگالیا اور ووہان کی انتظامیہ اور اسپتالوں کی کالی بھیڑوں کو گرفتار کرلیا۔ ان سب کو سزائے موت دے دی گئی اور شہر کھول دیا گیا۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس کے بعد سے چین میں نہ کوئی مریض سامنے آرہا ہے اور نہ کوئی شخص مر رہا ہے۔
لیکن مغرب کو جو موقع چاہیے تھا، وہ مل چکا تھا۔ امریکا اور یورپ کے ملکوں نے لاک ڈاؤن کردیا اور روزانہ بڑھا چڑھا کر مریضوں اور اموات کا ڈیٹا دینا شروع کردیا۔ اب لاک ڈاؤن ہے تو بھلا کون اسپتال جاکر دیکھے کہ کوئی بیمار آ بھی رہا ہے یا نہیں؟ کوئی مر بھی رہا ہے یا نہیں؟
ہم سب جانتے ہیں کہ پوری دنیا کے کاروبار پر ہنود و یہود کا قبضہ ہے۔ دنیا کے سارے ارب پتی کون ہیں؟ بل گیٹس جیسے یہودی ہیں یا انیل امبانی جیسے ہندو ہیں۔ فیس بک کا مالک بھی یہودی ہے۔ یہ سب خوب پروپیگنڈا کررہے ہیں۔ قادیانی قدم قدم پر ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔
تمام ائیرلائنز کو اربوں ڈالر دے کر خاموش کروایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ تمھارا نقصان پورا کردیں گے، بس پروازیں بند کردو۔ امریکا اور یورپ کے دفاتر اور کاروباری مراکز بند ہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ وہاں حکومتیں اپنے عوام کو گھر بیٹھے تنخواہیں دے رہی ہیں، کیوں؟ کیونکہ انھیں یہودی اربوں ڈالر دے رہے ہیں۔
متاثر کون ہورہے ہیں؟ جنوبی امریکا اور افریقا کے غریب ملک اور مسلمان۔ عمران خان کو شک ہوگیا ہے اسی لیے وہ بار بار مغربی ملکوں سے کہہ رہے ہیں کہ غریب ملکوں کے قرضے معاف کرو۔ مغربی ممالک اور آئی ایم ایف مخلص ہوتے اور واقعی کوئی وبا آئی ہوتی تو قرضے معاف کیے جاچکے ہوتے۔ لیکن وہ کبھی ایسا نہیں کریں گے کیونکہ یہی تو اصل سازش ہے۔
روس پہلے اس سازش میں شریک نہیں تھا۔ اس کے ملک سے کسی مریض یا موت کا ذکر نہیں آرہا تھا۔ لیکن پھر پیوٹن کو اعتماد میں لیا گیا۔ اس کے لیے چیچنیا کے نوجوان مصیبت بنے ہوئے ہیں۔ اسے جب معلوم ہوا کہ سازش کا نتیجہ کیا نکلے گا تو وہ بھی مان گیا۔ اب آپ خود دیکھیں، روزانہ روس میں ہزاروں لوگوں کے مرنے کی جھوٹی خبریں آنا شروع ہوگئی ہیں۔
پاکستان کا میڈیا بھی اس سازش میں شریک ہے۔ اسی لیے یہودیوں کے ایجنٹ میر شکیل الرحمان کو نیب نے پکڑا ہوا ہے کیونکہ آئی ایس آئی کو اندر کی بات معلوم ہوگئی ہے۔ لیکن یہ کھیل اتنا بڑا ہے کہ مالک کی گرفتاری کے باوجود جیو اور دوسرے چینل مسلسل پروپیگنڈا کررہے ہیں کہ پاکستان میں اتنے لوگ بیمار ہوگئے، اتنے لوگ مر گئے۔
سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے جو ہمیشہ غیر ملکی طاقتوں کی آلہ کار رہی ہے۔ اسی لیے اس نے سب سے پہلے لاک ڈاؤن کیا اور وزیراعلیٰ نے یہودیوں کی زبان میں عوام کو ڈرایا دھمکایا۔ پاکستان کی بے بس حکومت سب کھیل دیکھ رہی ہے اور مجبور ہے۔
اب تک پورے ملک میں بلکہ پوری دنیا میں ایک بھی شخص ایسا نہیں جو قسم کھاکر کہہ سکے کہ اس نے کرونا وائرس کا کوئی مریض دیکھا ہے یا کوئی اس سے مرا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا ہو تو پتا چلے۔ یہ سب جھوٹ ہے۔
آپ جانتے ہیں کہ امریکا اور یورپ کے ڈاکٹر بار بار کہہ رہے ہیں کہ کرونا وائرس کا کوئی علاج نہیں۔ ایسا اس لیے کہہ رہے ہیں کہ وائرس ہے ہی نہیں۔ ہوتا تو اس کا علاج کیا جاتا۔
اسی طرح اب جعلی خبریں آرہی ہیں کہ امریکا اور یورپ میں ویکسین بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ کیا آپ نے سنا کہ چین سے ایسی کوئی خبر آئی ہو؟ چین دنیا کی ہر چیز بناتا ہے، پھر ویکسین کیوں نہیں بنارہا؟ اس لیے کہ وائرس ہو تو اس کی ویکسین بنائی جائے۔ چین کو تو حقیقت معلوم ہوچکی ہے۔
اب اصل میں ہوگا یہ کہ امریکا اعلان کرے گا کہ اس نے ویکسین بنالی ہے۔ اس کا خوب پروپیگنڈا ہوگا۔ کسی یہودی ڈاکٹر کو اس جعلی کارنامے پر نوبیل انعام بھی دیا جائے گا۔ پھر ویکسین کے نام پر ایک دوا پوری دنیا میں پھیلائی جائے گی۔
یورپ اور امریکا میں یہ دوا مردانہ طاقت میں اضافے کی ہوگی۔ لیکن ایشیا، افریقہ اور جنوبی امریکا کو جو دوا فراہم کی جائے گی، اسے پینے والے کمزور ہوجائیں گے۔ وہ بچے پیدا کرنے سے معذور ہوجائیں گے۔ اگر اولاد ہوگی بھی تو وہ جسمانی طور پر کمزور ہوگی۔ یعنی یہ نسل نہیں تو اگلی نسل ضرور بانجھ ہوگی۔
یورپ اور امریکا کینیڈا میں مقیم مسلمانوں کو بھی وہی دوا دی جائے گی جس سے ان کی تعداد کم ہو۔ کیا یہ کوئی راز ہے کہ امریکا اور یورپ مسلمان پناہ گزینوں سے تنگ آچکے ہیں اور ان سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔
اس سے پہلے بھی ہنود و یہود اور قادیانیوں کے ایما پر امریکا، یورپ اور اقوام متحدہ کئی بار مسلمانوں کی آبادی کم کرنے کے حربے آزما چکے ہیں۔ قادیانیوں کی کمپنی شیزان کی مصنوعات میں دوائیں ملائی گئیں لیکن مسلمانوں نے انھیں خریدنا چھوڑ دیا۔ پھر آیوڈین ملا نمک پھیلا گیا لیکن خوش قسمتی سے اس کا مسلمانوں پر اثر نہیں ہوا۔ پھر پولیو ویکسین میں نسل کشی کے قطرے ملائے گئے لیکن اس کا پول بھی کھل گیا۔
ہر طرف سے مایوس ہوکر عالمی طاقتوں نے اس بڑے کھیل کا آغاز کیا ہے۔ لیکن ہم راسخ العقیدہ مسلمانوں کا ایمان ہے کہ ہنود و یہود و قنود کا کوئی منصوبہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔
اور ایسی طرح ہمارے پاکستان میں سب بک چکے ہیں
ابھی کچھ دن پہلے اکرم نام کے بندے کے ساتھ واقعہ پیش آیا اس کو بھی مار دیا گیا اس کے گھر والوں کا کہنا تھا وہ ایک سال سے شوگر کا مریض تھا شوگر زیادہ ہونے کی وجہ سے بے ہوش ہو جاتا تھا مرحوم کے مرنے سے ایک دن پہلے شوگر زیادہ ہوگیا تھا اور سانس لینا مشکل ہوگیا تھا مریض کو انڈس ہسپتال لے کے آئے اور انہوں نے اسکو چیک کر کے جناح ہسپتال منتقل کر دیا گیا
ہسپتال منتقل ہونے کے بعد ایک دن وارڈ میں ہو گیا اور مرحوم کی تکلیف بھی ختم ہو گئی رات کو 4 بجے ایک ایمبولینس آتی ہے مرحوم کا ایک بیٹا نیچے ہی تھا اس نے ایمبولینس کے ڈرائیور سے پوچا کہ آپ لوگ کرونا ٹیم کے ہو اور یہاں کیسے آئے ہو تو ڈرائیور کا کہنا تھا کہ ہم وارڈ نمبر 23 سے ڈیڈ بوڈی لینے آئے ہیں تو ان سے ڈیڈ بوڈی کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا کہ کرونا کا مریض فوت ہوگیا ہے اسکا نام اکرم ہے اس کی ڈیڈ بوڈی لینے آئے ہیں تو مرحوم کے بیٹے نے کہا میرا والد تو زندہ ہے اور وہ چل پھر بھی رہا اور باتیں بھی کر رہا ہے وہ تو زندہ ہے ڈرائیور کہنے لگا ہمیں جو آرڈر ملا ہے ہم وہ فالو کر رہے ہیں
اس کے بعد 5:30 پہ مرحوم کا بیٹا کسی کام سے وارڈ سے نیچے آتا ہے اور 15 منٹ کے بعد دوبارہ وارڈ میں جاتا ہے تو سامنے سے ڈاکٹر آتا دکھائی دیا تو ڈاکٹر قریب آیا اور مجھے بتایا آپ کا والد فوت ہو گیا ہے , بیٹا
مجھے بہت حیرت ہوئی کہ ڈرائیور اور ایمبولینس کو فوت ہونے سے 2 گھنٹے پہلے کیسے پتا چلا کہ اس مریض کی ڈیتھ ہو جائے گی اور اسکی ڈیڈ بوڈی لینے کے لئے 2 گھنٹے پہلے ہی پہنچ گئے شاید ہو سکتا ہے ملک الموت نے انکو پہلے سے بتا دیا ہو کہ یہ بندہ مر جاے گا تم لوگ 2 گھنٹے پہلے ایمبولینس لے کے پہنچ جاؤ 🤔
مرحوم کے گھر والوں کا کہنا ہے ہمارے بندے کو مارا گیا ہے. بیٹا
اسی طرح اور لوگ جن کے رشتہ داروں کے مریض مر گئے ہیں سب کی داستان ایک جیسی ہے اور لاشوں پہ سیاست ہو رہی ہے اور لاشوں کو بیچا جا رہا ہے زرائع کے مطابق ایک لاکھ سے تیس لاکھ تک ایک ڈیڈ بوڈی بیچی جا رہی ہیں اور یہ بھی ایک عالمی سازش ہے
کیونکہ شک و شبہات اور مشقوق حرکتوں سے پتا چلتا ہے کہ کوئی خفیہ سازش ہو رہی ہے
کرونا وائرس سے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ ڈرایا جا رہا ہے اور اگر یہ حقیقت ہوتی اور یہ پھیلنے والی وبا ہوتی تو جس طرح کی بے احتیاطی ہو رہی ہے اس تو یہ وبا بہت زیادہ پھیل جاتی اور اموات بہت زیادہ سے زیادہ ہوتی.
ہماری حکومت اور سپریم کورٹ سے استدعا ہے اس پہ تحقیقات کروائی جائیں جو لوگ کرونا وبا کی وجہ سے فوت ہو گئے ہیں انکا پوسٹ مارٹم کروایا جاے
محمد الیاس آرائیں
اور انکے گھر والوں سے پوچھا جائے انکو پہلے سے کیا بیماری تھی ابھی تک کوئی بھی کرونا کا مریض اپنے گھر پہ نہیں مرا
جو بھی مر رہے ہیں وہ ہسپتال میں مر رہے ہیں اور ہر مرنے والے کی کہانی اسی طرح ہے جیسے اکرم کی ڈیتھ ہوئی ہے
کچھ زرائع سے پتا چلا ہے اب تک جو بھی ڈاکٹر کرونا کی وجہ سے فوت ہوئے ہیں وہ اس سسٹم سے باغی ہو گئے تھے تو انکو ٹھکانے لگا دیا گیا تانکہ پردہ فاش نہ ہو جائے میری اس تحقیقات سے ہو سکتا ہے وہ مجھ پہ بھی اٹیک کرے اور اس راز کو فاش کرنے کے جرم میں مجھے الیاس آرائیں کو مارا بھی جا سکتا ہے
میری زندہ ضمیر اپنے اداروں سے التماس ہے وہ خود بھی تحقیقات کریں اور اس وبا کی اصلیت کو سامنے لایا جائے
یہ تھی کرونا کی اصلیت
اور اگر لائیو کرونا وائرس پہ تحقیقات کرنی ہے تو اس کے لئے میں حاضر ہوں کرونا کے مریض کے ساتھ 14 دن رہوں گا کیمرہ کی نظر کے سامنے اور میرے پاس کوئی ڈاکٹر نہ آئے تو دیکھ لینا کچھ نہیں ہوگا نہ ہی کرونا کا مریض مرے گا اور نہ ہی میں مروں گا کرونا کی وجہ سے. ْ
اس ثابت ہو جائے گا کہ کرونا کچھ بھی نہیں ہے
میری آپ لوگوں سے التماس ہے اس پوسٹ کو شئیر کریں تانکہ سب کو عالمی سازشوں کا پتا چل جائے یہ ایک عالمی سازش ہے جو کہ صرف اور صرف مسلمانوں کے خلاف ہے اور یہودی اسکی ویکسین بنا کہ مسلمانوں کے خلاف استعمال کریں گے اور ہر ایک پہ لازم ہوگا وہ کرونا کا ٹیسٹ کروائیں اور وہ ویکسین کروائیں جو مسلمانوں کے خلاف بنائی جائے
منجانب
*مولانا محمد پرویز رضا دارالعلوم اہلسنت فیضان مصطفی اشرف نگر بھوانی گنج
9670556798/6307986692