: اللّٰہ کے لئے ایک بارپورا ضرور پڑھیں شاید آپ کا ایمان مضبوط اور ہوجائے۔۔///////////////////بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم**************************حق کی آواز ہمیشہ بلند رہتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں یہاں مولانا احمد رضا خان کا ترجمہ تحریر کرتاہوں کیوں کہ مجھے اور مولویوں پر سے پھروسہ اٹھ چکاہے ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔: خَتَمَ اللّٰهُ عَلَىٰ o8 وَعَلٰى سَمۡعِهِمۡؕ وَعَلٰىٓ اَبۡصَارِهِمۡ غِشَاوَةٌ وَّلَهُمۡ عَذَابٌ عَظِيۡمٌ
اللہ نے ان کے دلوں پر اور کانوں پر مہر کردی اور ان کی آنکھوں پر گھٹاٹوپ ہے، اور ان کے لئے بڑا عذاب،۔۔۔۔ اب آپ کسی ایک تبلیغی جماعت والے کو صوفیزم کاقائل کرلیں نہیں ہونگے
: وَمِنَ النَّاسِ مَنۡ يَّقُوۡلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَبِالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَمَا هُمۡ بِمُؤۡمِنِيۡنَۘ
اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور پچھلے دن پر ایمان لائے اور وہ ایمان والے نہیں،۔۔۔۔یہ کیسا ایمان اللّٰہ زانی رسول بے اختیار بتانا
: يُخٰدِعُوۡنَ اللّٰهَ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا ۚ وَمَا يَخۡدَعُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡفُسَهُمۡ وَمَا يَشۡعُرُوۡنَؕ
فریب دیا چاہتے ہیں اللہ اور ایمان والوں کو اور حقیقت میں فریب نہیں دیتے مگر اپنی جانوں کو اور انہیں شعور نہیں۔۔۔۔۔۔۔یہ اپنے آپ کو ایسے نرک میں ڈال چکے ہیں جس میں وہ ہر ایمان والے کو لانا چاہتے ہیں
: فِىۡ قُلُوۡبِهِمۡ مَّرَضٌۙ فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًا ۚ وَّلَهُمۡ عَذَابٌ اَلِيۡمٌۙۢبِمَا كَانُوۡا يَكۡذِبُوۡنَ
ان کے دلوں میں بیماری ہے تو اللہ نے ان کی بیماری اور بڑھائی اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے، بدلا ان کے جھوٹ کا -۔۔۔۔۔۔۔۔۔قرآن ۔حدیث کا غلط استعمال اس جماعت نے کیا
: وَاِذَا قِيۡلَ لَهُمۡ لَا تُفۡسِدُوۡا فِىۡ الۡاَرۡضِۙ قَالُوۡاۤ اِنَّمَا نَحۡنُ مُصۡلِحُوۡنَ
اوران سے کہا جائے زمین میں فساد نہ کرو، تو کہتے ہیں ہم تو سنوارنے والے ہیں،۔۔۔۔۔۔۔۔۔جیش محمد۔لشکرطیبہ۔طالبان جیسی تنظیموں سے آج پوری دنیا پریشان ہے مگر ان کا کہنا ہے ہم دنیا کواچھی طرح سنوارنے والے لوگ ہیں
اَلَا ۤ اِنَّهُمۡ هُمُ الۡمُفۡسِدُوۡنَ وَلٰـكِنۡ لَّا يَشۡعُرُوۡنَ
سنتا ہے وہی فسادی ہیں مگر انہیں شعور نہیں،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔:یہ لوگ جانتے ہیں حقیقت میں ہم ہی روئے زمین پر فساد برپا کرتے ہیں لیکن اپنے فسادی نہیں کہلوانا نہیں چاہتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَاِذَا قِيۡلَ لَهُمۡ اٰمِنُوۡا كَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوۡاۤ اَنُؤۡمِنُ كَمَاۤ اٰمَنَ السُّفَهَآءُ ؕ اَلَاۤ اِنَّهُمۡ هُمُ السُّفَهَآءُ وَلٰـكِنۡ لَّا يَعۡلَمُوۡنَ
اور جب ان سے کہا جائے ایمان لاؤ جیسے اور لوگ ایمان لائے تو کہیں کیا ہم احمقوں کی طرح ایمان لے آئیں سنتا ہے وہی احمق ہیں مگر جانتے نہیں -۔۔۔۔۔اب ان کے نزدیک ابوبکر وعمر وعثمان وعلی حسن و حسین غوث وخواجہ۔۔ابدال وقطب وقلندر۔سب۔احمق ہیں معاذاللہ اللّٰہ تیری پناہ
وَاِذَا لَقُوۡا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا قَالُوۡاۤ اٰمَنَّا ۖۚ وَاِذَا خَلَوۡا اِلٰى شَيٰطِيۡنِهِمۡۙ قَالُوۡاۤ اِنَّا مَعَكُمۡۙ اِنَّمَا نَحۡنُ مُسۡتَهۡزِءُوۡنَ
اور جب ایمان والوں سے ملیں تو کہیں ہم ایمان لائے اور جب اپنے شیطانوں کے پاس اکیلے ہوں تو کہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں، ہم تو یونہی ہنسی کرتے ہیں-۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان کی یہ عادت بہت گھٹیا ہے جب آپ سے یعنی اہلسنت والجماعت سے ملاقات کریں گے تو ایسی صورت بنا لیتے ہیں جیسے یہ تو سب سے بڑے عاشق ۔ہیں مگر اپنی جماعت میں کہتے ہیں ہم تو ان کا مزا لے رہے تھے ہے**********************************کیاآپ تو شامل نہیں۔*********************************************۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ قتل ہے دین کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ اچھا موقع تھا ملک سے ان ناپاک عزائم کے نظریات کو ملک سے نکالکر اس زمیں کو پاک کرنے کی جو قریب 100سال والے عقائد پیش کرکے لوگوں کو گمراہ کرنے کی بے لگام کوششوں میں مصروف رہے ہیں لیکن افسوس ہے ان لوگوں پر جو بے موقع محل ان کی تائید میں آگئے ہیں اب ان کے بارے میں کیا کہا جائے ایمان کی سلامتی بہت ضروری ہے کوئی بھی شخص کسی کی قبر میں نہیں جانے والا لفظ دیگر ان سے یارانہ کربیٹھے ہیں ابھی وقت ہے اپنے ایمان کو بچاؤ جیسا کہ معلوم ہونا چاہئے ایمان مکمل تب ہوتا ہےکہ دشمن خداورسول عزوجل صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کو اپنا دشمن جانے اور ان سے علاقہ برداری کی جائے۔کیاآپ نہیں چاہتے کہ مصطفیٰ کائنات علیہ السلام آپ کی شفاعت کریں لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ یہ جماعت مصطفیٰ کریم علیہ السلام کی شفاعت کی قائل نہیں اب آپ تائید کیسے کرسکتے ہیں۔ کیا حق وانصاف کے لیے امام حسین علی جدہ السلام نے اپنے بچوں کی قربانی پیش نہیں کی ۔لیکن کیا یہ بھی غلط ہے کہ اسی جماعت نے آپ کو باغی ٹھرایا اور غاصب کہا آپ کو کچھ وقت کے لئے اس فانی دنیا میں رہنا ہے تو مرکزاصلی کیوں بھلا بیٹھے ہیں آپ ان کی تائید کیسے کرسکتے ہیں جب کہ آپ کریم آقا صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی شفاعت چاہتے ہیں آپ کے نزدیک ان کی تائید کیسے ممکن ہے جو امام حسین اور ان ساتھیوں کو دشنام کرتے ہیں یہ مسلمان ہیں کیا۔ میرے لحاظ سے تو ہرگز نہیں ہمیں تو بہت خوشی ہوئی کہ کوئی تو ان لوطیوں کے بارے میں کھل کر سامنے آیا میں نہ ان کے گھر ہوں نہ ان کے گاؤں شہر کا صحیح بات تو یہ ہے کہ نہ وہ ہم کو جانتے ہیں نہ ہی میں ان کو پھر بھی میں موجودہ وقت میں ان کے ساتھ ہوں مجھے یہ بات کہنے پر کوئی افسوس نہیں کہ ان کے والد کے والد بھی ایک بار اکیلے میدان میں اترے تھے اور ان کافتوی تھا تقسیم ہند پر وہ اس کے خلاف تھے وہ بھی حکومت کے خلاف لیکن یہی جماعت ہے جو اپنے کو تبلیغی جماعت کہتے ہیں اس وقت ان خلاف فتویٰ دیا تھا غالباً ان کا نام مولانا حشمت علی خان لکھنوی تھا ان کہنا تھا اس سب ایک ساتھ فتویٰ جاری کرو کی تقسیم ہند حرام تو حکومت گٹھنوں کے بل آجائے گی اگر ایسا نہ ہوا تو تم لوگ ہمیشہ تکلیف کے دور سے گزرو گے آج ان کی بات ہمیں یاد آتی ہے اگر ۔۔چہ ان کے لڑکے پوتے ہمارے خیالات سے متفق نہ ہوں ہمیں اپنا نہیں جانتےپھربھی ان کی بات میں سچائی ہے جو بیان انہوں نے دیا ہے میڈیا پر کاش اگر سبھی خانقاہ والے لوگ ان کے ساتھ ہوجاتے تو اس جماعت پر ہمیشہ کے لئے پابندی عائد کردی جاتی لیکن جو ہم کہ رہے ہیں وہ ان تمام خانقاہوں سے آواز اٹھنی چاہیئے لیکن نہیں آپ کواس چیز کا ڈر ہے کہ مرید ناراض ہوجائیں گے اب میں ان مسلمان حضرات سے ایک سوال کرتا ہوں آپ ایمان پیر صاحب پر نہیں لائے ہیں اللّٰہ ورسول عزوجل صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر لائیں ہیں اور جو بنیاد کاقائل نہیں اس سے نرمی کیسی مطلب آپ مسلمان نہیں اللّٰہ کے واسطے ایسا نہ کریں آپ کی قبر میں نہ راقم الحروف جائے گا نہ آپ کا بھائی باپ ماں ماموں بھتیجا بھانجہ کوئی آپ بھی آپ کی قبر میں نہیں جانے والا آپ کو پچاس ساٹھ سال کے بعد اسی کالی کوٹھری میں اکیلے جانا ہے تو ان بدعقیدوں کا ساتھ نہ دیں ورنہ قبر کی تنہائی آپ کو بہت رلائے گی اور وفادارئیے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم آپ کو آرام سکون بخشے گی اب آپ کی مرضی ہے کہ آپ کسے چنتے ہیں اللّٰہ ورسول عزوجل صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو یا چار دن کی حمایت کرکے ہمیشگی کے عذاب کو اپنے سرلینا چاہیتے ہیں ہم تو ان لوگوں سے بہت خوش ہیں جو اللّٰہ کے دین میں فساد کرنے والے کی تردید کرتے ہیں بھلے وہ ہم سے متفق نہیں میرے دوست آپ کا ایمان اتنا کمزور ہوگیا کہ بجائے انہیں کچھ کہنے کے آپ اپنے رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے غلاموں کو گمراہ بدین کہنے لگے اگر آپ ان کی مدد نہیں کرسکتے تو خاموش ہی ہوجاتے کہ کم ازکم کوئی تو ان فسادیوں کے خلاف بولا اسے ان کی حالت پرہی چھوڑ دیتے مگر کیسے آپ کو مسلمان ہونا ثابت کرنا تھا کہ وہ مسلمان ہیں یاد رکھیں عام آدمی کی آپ تائید کریں کہ وہ نہیں جانتا کہ یہ کس مرض میں مبتلا ہیں لیکن ان کی تائید آپ کو محشر میں بہت بھاری قیمت چکانی پڑے گی کہ یہ سب کچھ حق جانتے ہوئے بھی حق تسلیم نہیں کرتے مزید جتنی جماعتیں ہیں غیر مقلدین کی ہر کسی فرد کو چالیس دن کے بعد گستاخیاں سکھائی جاتی ہیں پہلے نہیں اگر آپ جاننا چاہتے ہیں تو تجربہ کرلیں پھر وہ لوگ کبھی حق جاننا نہیں چاہتے وہ صرف چلہ گاہ تک محدود رہ جاتے ہیں ہم ان لوگوں کو بہت قریب سے جانتے ہیں اس بلاء کو ہم نے بہت قریب سے دیکھا ہے ہم جانتے ہیں ہم نے خود اس جماعت میں جانے والے تین بچوں نکالا ہے ان کے بیان نے میری روح وجود کو ہلاکررکھ دیا جب ان لوگوں نے بتایا جماعت کے امیر نے ان لوگوں کے ساتھ کیا کیا ۔کیا سنوکیاکچھ ہوتا ہے جماعت میں جانے والے 15.16.14سال کے بچوں کے ساتھ وہ حرکتیں ہوتی ہیں جو قوم لوط کرگئی ہے وہ بھی خانئہ خدا میں اس سے زیادہ کیا بیان کروں فقط اس جماعت سے دور رہنا ہی بھلائی ہے شیطان کا بھل سپورٹ دستیاب ہے اس جماعت کو ان کی انہیں حرکتوں سے بیزار ہوں مہربانی کرکے اس جماعت کے قریب نہ آئیں ورنہ آخرت برباد ہو جائے گی میں ان مولویوں کی طرف سے نہیں کہ رہا ہوں جو ان کو گمراہ بدین مرتد آتنک وادی کہتے ہیں بلکہ خداورسول عزوجل صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے۔۔آپ خودبچیں اور اپنی نسلوں کو بھی بچائیں بہت افسوس گا کہ خدانخواستہ اسی حالت میں موت واقع ہوئی تو کل آپ اللّٰہ کے حضور کیا جواب دیں گے کیا اپنے آپ کو بچاپائیں گے ہر گز نہیں بلکہ کچھ جواب نہ ہوگا پھر بھی آپ دل سے بتائیں کہ یہ عذاب یعنی بدنامی کسی اہلسنت والجماعت پر بھی لگ سکتی تھی آخر کیوں انہیں لوگوں پر گری یہی مشیت ایزدی ہے کہ اس پرفتن دور میں کون اپنے آپ کو بچاپاتا میں اس بات پر کافی وقت سے غور کررہاتھا آخر کار اس طرح سمجھا کہ یہ بھی ایمان والوں پر ایک طرح سے امتحان ہے جس کا ریجلٹ بروز حشر مل ہی جائے گا ہم ان لوگوں سے نفرت نہیں کرتے ہیں بلکہ اپنا سمجھ کر بتارہے ہیں ہم تو دشمن خداورسول عزوجل صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم سے دل نفرت کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے ان شاءاللہ آپ کا کیا معاملہ ہے وللہ تعالیٰ اعلم لیکن کچھ بھی ہو آپ ان لوگوں سے نفرت نہ کریں جنہیں یہ سب معاملات کفر ان کے معلوم نہیں ان کو سمجھائیں کہ ان لوگوں نے دین میں کتنا رخنہ ڈالا ہے اور کتنی نفرت کی بیج کو پانی دیا ہے کیا آپ کو نہیں معلوم کہ حضرت ابرہیم علیہ السلام کو جب آگے نمرود میں ڈالا گیا تو وہاں دو قسم کے جانوروں کا ظہور ہوا تھا ایک مینڈک دریائی دوسرا بڑا بچکھپڑا جسے گرگٹ غالباً کہا گیاہے ان دونوں کی پہلے بڑی اچھی دوستی تھی لیکن دشمنی اس وقت ظاہر ہوتی ہے جب آپ کے یار کے ساتھ آپ کا ساتھی دھوکہ کرے کچھ ایسا ہی ہوا تھا اس جگے جب آگے نمرود میں حضرت ابرہیم علیہ السلام کوڈالا گیا مینڈک دریائی جوتھا وہ دوڑا گرگٹ نے پوچھا صاحب کہاں کہا اللّٰہ کے نبی کو نمرود نے آگ میں ڈالا ہے میں آگ بچھانے جانے جارہاہوں بولا ٹھیک ہے پھر تو ہم بھی جائیں گے پھر کیا تھا دونوں پہنچ گئے اور اپنے اپنے کام میں لگ گئے ایک پانی ڈالتا تو ایک پھونک مارتا بہر کیف اب آپ سمجھیں کہ مینڈک کے تھوڑے سے پانی سے آگ کا کیا ہوتا اور گرگٹ کی تھوڑی سی ہوا سے آگ کاکیا ہوتا یہاں وفاداری اور بے وفائی ظاہر ہونا تھا ایک نے چاہا آگ بچھے ایک نے چاہا آگ لگے اب غور کریں کہ کیا ہماری طرف سے تھوڑی سی کوشش وفاداری اور بے وفائی کا ثبوت کل محشر میں پیش کرنے والی ہے ہمارے ساتھ بظاہر تھوڑی جماعت ہے تو اس کامطلب یہ نہیں ہم حق پر نہیں ایمان والوں کی تعداد ہمیشہ سے کم رہی ہے اور آگے بھی کم رہے گی اب ان کی بات کرلیں جو یہ کہتے ہیں کہ کئی ملکوں میں یہ کام کررہے ہیں کون تبلیغی جماعت والے تو آپ اپنے اوپر کسی ایک چیز کی چاہت لیکر دل ودماغ سے سنجیدہ ہوکر سوچیں کہ ہماری زندگی میں کسی نیک نیت سے پانے والا پھل کتنےمنہگااورکتنے وقت میں ملتا ہے چاہے اولاد کی نعمت ہویانیک مال کی نعمت آپ کہیں گے کافی وقت لگتا ہے تو ہماری آنکھیں بند ہیں اسے کھونے کی ضرورت ہے جیسے شیطانی کام بہت تیزی سے کام کرتا ہے جب کہ ہمیں معلوم تک نہیں ہوتا کہ کس مقصد سے یہ لوگ کام کررہے ہیں برعکس اس کے کہ ہم کوئی ایسا طریق اپنی زندگی میں اپنائیں جو اللہ ورسول عزوجل صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم تک لے جاتا ہو کافی عرصہ لگ جائے گا لیکن وہ مژدہ آپ کو جلدی نہیں ملے گا لیکن دونوں کاموں میں فرق ہے کیسے تو بتا دیں کہ ہمارے معاشرے میں آج کل کالے جادو کے اثرات مرتب جلد جاتے ہیں لیکن اس کے برعکس آپ کسی کی بھلائی کے لئے کوئی اسم اعظم لکھ کردیں وہ بہت دیر سے کام کریگا اب آپ کو کیسے سمجھائیں آپ نے انگریزی دوا کا استعمال کیا ہوگا جو فوراً درد دور کرتا ہے لیکن اس کے اثرات ختم ہوتے ہی پھر وہی حال ہوجاتا ہے برعکس اس کے کہ آپ حکیمانہ نسخے اپنائیں وہ بہت تاخیر سے کام کریگا لیکن آپ کو ہمیشہ کے لئے اس مرض سے نجات دلاتا ہے بلکل یہی حال ہے حق اور باطل کا باطل کے پیچھے ہزاروں شیطانی ہاتھ موجود ہوتے ہیں ۔وہ بھی جب وہ اپنے کومسلمان کہکر اپنے ہی نبی کی امت ہوکر اپنے ہی نبی کو بےیارومددگار کہے اپنے ہی نبی کی بیوی جو امت کی ماں ہوتی ہیں ان کو گالی دے یہاں تک اپنے خالق ومالک کو زنا کرنے والا اور شراب پینے والا بتائے تو شیطان ان کی انہیں عادتوں سے خوش ہوکر ان کو بڑھاوا دیتا ہے اور یہ لوگ روئے زمین پر تیزی پھیلنا شروع کر دیتے ہیں اب ان کے مقابل ہمارے جیسے لوگ جو رات دن برائیوں میں گزار دیتے ہیں اتر تو سکتے نہیں ان کے لئے اللّٰہ پاک ان کا انتخاب فرماتا ہے جو ان کو بدتر مخلوق سمجھتے ہیں وہ بھی وقت کے ساتھ ان کو گرفت میں لاتے ہیں جس سے شیطانی جال کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہوجاتا ہے لیکن یہ آسان نہیں جو شیطانی قوتوں کے خلاف زہر افشانی کرتا ہے اس کے ہزاروں افراد دشمن ہو جاتے ہیں اور ان کو انسانیت کا دشمن سمجھ بیٹھے ہیں مگر ان کے ایک جملے اس وقت کام آتے ہیں جب ملک الموت سامنے ہوتے ہیں اور معاذاللہ کلمہ طیبہ پڑھنے نہیں دیتے استغفر اللّٰہ۔۔اللہ تیری پناہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔**کیا آپ عقلمندہیں**۔___________________________________________________________________________ میرے دوست اپنے باپ کے دشمن کواپنا دشمن جانا ماں کو کوئی زندگی میں ایک بار گالی دے اسے آپ کبھی نہیں بھول سکتے۔ ===============================================تونبی کے دشمن کو اپنا دوست کیسے بناسکتے ہیں جوقوم ام المومنین عائشہ صدیقہ کو گالی دے اس کی حمایت کیسے ممکن ہے ========================اب ذرا انصاف سے کام لینا==========یہ دین ہے گھر کا کھیل نہیں۔۔ از۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک گمنام ۔آپ کے ایمانی رشتے میں بھائی ہے
اللّٰہ کے لئے ایک بارپورا ضرور پڑھیں شاید آپ کا ایمان مضبوط اور ہوجائے۔۔///////////////////بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم**************************حق کی آواز ہمیشہ بلند رہتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں یہاں مولانا احمد رضا خان کا ترجمہ تحریر کرتاہوں کیوں کہ مجھے اور مولویوں پر سے پھروسہ اٹھ چکاہے ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔: خَتَمَ اللّٰهُ عَلَىٰ قُلُوۡبِهِمۡ وَعَلٰى سَمۡعِهِمۡؕ وَعَلٰىٓ اَبۡصَارِهِمۡ غِشَاوَةٌ وَّلَهُمۡ عَذَابٌ عَظِيۡمٌ
اللہ نے ان کے دلوں پر اور کانوں پر مہر کردی اور ان کی آنکھوں پر گھٹاٹوپ ہے، اور ان کے لئے بڑا عذاب،۔۔۔۔ اب آپ کسی ایک تبلیغی جماعت والے کو صوفیزم کاقائل کرلیں نہیں ہونگے
: وَمِنَ النَّاسِ مَنۡ يَّقُوۡلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَبِالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَمَا هُمۡ بِمُؤۡمِنِيۡنَۘ
اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور پچھلے دن پر ایمان لائے اور وہ ایمان والے نہیں،۔۔۔۔یہ کیسا ایمان اللّٰہ زانی رسول بے اختیار بتانا
: يُخٰدِعُوۡنَ اللّٰهَ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا ۚ وَمَا يَخۡدَعُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡفُسَهُمۡ وَمَا يَشۡعُرُوۡنَؕ
فریب دیا چاہتے ہیں اللہ اور ایمان والوں کو اور حقیقت میں فریب نہیں دیتے مگر اپنی جانوں کو اور انہیں شعور نہیں۔۔۔۔۔۔۔یہ اپنے آپ کو ایسے نرک میں ڈال چکے ہیں جس میں وہ ہر ایمان والے کو لانا چاہتے ہیں
: فِىۡ قُلُوۡبِهِمۡ مَّرَضٌۙ فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًا ۚ وَّلَهُمۡ عَذَابٌ اَلِيۡمٌۙۢبِمَا كَانُوۡا يَكۡذِبُوۡنَ
ان کے دلوں میں بیماری ہے تو اللہ نے ان کی بیماری اور بڑھائی اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے، بدلا ان کے جھوٹ کا -۔۔۔۔۔۔۔۔۔قرآن ۔حدیث کا غلط استعمال اس جماعت نے کیا
: وَاِذَا قِيۡلَ لَهُمۡ لَا تُفۡسِدُوۡا فِىۡ الۡاَرۡضِۙ قَالُوۡاۤ اِنَّمَا نَحۡنُ مُصۡلِحُوۡنَ
اوران سے کہا جائے زمین میں فساد نہ کرو، تو کہتے ہیں ہم تو سنوارنے والے ہیں،۔۔۔۔۔۔۔۔۔جیش محمد۔لشکرطیبہ۔طالبان جیسی تنظیموں سے آج پوری دنیا پریشان ہے مگر ان کا کہنا ہے ہم دنیا کواچھی طرح سنوارنے والے لوگ ہیں
اَلَا ۤ اِنَّهُمۡ هُمُ الۡمُفۡسِدُوۡنَ وَلٰـكِنۡ لَّا يَشۡعُرُوۡنَ
سنتا ہے وہی فسادی ہیں مگر انہیں شعور نہیں،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔:یہ لوگ جانتے ہیں حقیقت میں ہم ہی روئے زمین پر فساد برپا کرتے ہیں لیکن اپنے فسادی نہیں کہلوانا نہیں چاہتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَاِذَا قِيۡلَ لَهُمۡ اٰمِنُوۡا كَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوۡاۤ اَنُؤۡمِنُ كَمَاۤ اٰمَنَ السُّفَهَآءُ ؕ اَلَاۤ اِنَّهُمۡ هُمُ السُّفَهَآءُ وَلٰـكِنۡ لَّا يَعۡلَمُوۡنَ
اور جب ان سے کہا جائے ایمان لاؤ جیسے اور لوگ ایمان لائے تو کہیں کیا ہم احمقوں کی طرح ایمان لے آئیں سنتا ہے وہی احمق ہیں مگر جانتے نہیں -۔۔۔۔۔اب ان کے نزدیک ابوبکر وعمر وعثمان وعلی حسن و حسین غوث وخواجہ۔۔ابدال وقطب وقلندر۔سب۔احمق ہیں معاذاللہ اللّٰہ تیری پناہ
وَاِذَا لَقُوۡا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا قَالُوۡاۤ اٰمَنَّا ۖۚ وَاِذَا خَلَوۡا اِلٰى شَيٰطِيۡنِهِمۡۙ قَالُوۡاۤ اِنَّا مَعَكُمۡۙ اِنَّمَا نَحۡنُ مُسۡتَهۡزِءُوۡنَ
اور جب ایمان والوں سے ملیں تو کہیں ہم ایمان لائے اور جب اپنے شیطانوں کے پاس اکیلے ہوں تو کہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں، ہم تو یونہی ہنسی کرتے ہیں-۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان کی یہ عادت بہت گھٹیا ہے جب آپ سے یعنی اہلسنت والجماعت سے ملاقات کریں گے تو ایسی صورت بنا لیتے ہیں جیسے یہ تو سب سے بڑے عاشق ۔ہیں مگر اپنی جماعت میں کہتے ہیں ہم تو ان کا مزا لے رہے تھے ہے**********************************کیاآپ تو شامل نہیں۔*********************************************۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ قتل ہے دین کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ اچھا موقع تھا ملک سے ان ناپاک عزائم کے نظریات کو ملک سے نکالکر اس زمیں کو پاک کرنے کی جو قریب 100سال والے عقائد پیش کرکے لوگوں کو گمراہ کرنے کی بے لگام کوششوں میں مصروف رہے ہیں لیکن افسوس ہے ان لوگوں پر جو بے موقع محل ان کی تائید میں آگئے ہیں اب ان کے بارے میں کیا کہا جائے ایمان کی سلامتی بہت ضروری ہے کوئی بھی شخص کسی کی قبر میں نہیں جانے والا لفظ دیگر ان سے یارانہ کربیٹھے ہیں ابھی وقت ہے اپنے ایمان کو بچاؤ جیسا کہ معلوم ہونا چاہئے ایمان مکمل تب ہوتا ہےکہ دشمن خداورسول عزوجل صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کو اپنا دشمن جانے اور ان سے علاقہ برداری کی جائے۔کیاآپ نہیں چاہتے کہ مصطفیٰ کائنات علیہ السلام آپ کی شفاعت کریں لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ یہ جماعت مصطفیٰ کریم علیہ السلام کی شفاعت کی قائل نہیں اب آپ تائید کیسے کرسکتے ہیں۔ کیا حق وانصاف کے لیے امام حسین علی جدہ السلام نے اپنے بچوں کی قربانی پیش نہیں کی ۔لیکن کیا یہ بھی غلط ہے کہ اسی جماعت نے آپ کو باغی ٹھرایا اور غاصب کہا آپ کو کچھ وقت کے لئے اس فانی دنیا میں رہنا ہے تو مرکزاصلی کیوں بھلا بیٹھے ہیں آپ ان کی تائید کیسے کرسکتے ہیں جب کہ آپ کریم آقا صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی شفاعت چاہتے ہیں آپ کے نزدیک ان کی تائید کیسے ممکن ہے جو امام حسین اور ان ساتھیوں کو دشنام کرتے ہیں یہ مسلمان ہیں کیا۔ میرے لحاظ سے تو ہرگز نہیں ہمیں تو بہت خوشی ہوئی کہ کوئی تو ان لوطیوں کے بارے میں کھل کر سامنے آیا میں نہ ان کے گھر ہوں نہ ان کے گاؤں شہر کا صحیح بات تو یہ ہے کہ نہ وہ ہم کو جانتے ہیں نہ ہی میں ان کو پھر بھی میں موجودہ وقت میں ان کے ساتھ ہوں مجھے یہ بات کہنے پر کوئی افسوس نہیں کہ ان کے والد کے والد بھی ایک بار اکیلے میدان میں اترے تھے اور ان کافتوی تھا تقسیم ہند پر وہ اس کے خلاف تھے وہ بھی حکومت کے خلاف لیکن یہی جماعت ہے جو اپنے کو تبلیغی جماعت کہتے ہیں اس وقت ان خلاف فتویٰ دیا تھا غالباً ان کا نام مولانا حشمت علی خان لکھنوی تھا ان کہنا تھا اس سب ایک ساتھ فتویٰ جاری کرو کی تقسیم ہند حرام تو حکومت گٹھنوں کے بل آجائے گی اگر ایسا نہ ہوا تو تم لوگ ہمیشہ تکلیف کے دور سے گزرو گے آج ان کی بات ہمیں یاد آتی ہے اگر ۔۔چہ ان کے لڑکے پوتے ہمارے خیالات سے متفق نہ ہوں ہمیں اپنا نہیں جانتےپھربھی ان کی بات میں سچائی ہے جو بیان انہوں نے دیا ہے میڈیا پر کاش اگر سبھی خانقاہ والے لوگ ان کے ساتھ ہوجاتے تو اس جماعت پر ہمیشہ کے لئے پابندی عائد کردی جاتی لیکن جو ہم کہ رہے ہیں وہ ان تمام خانقاہوں سے آواز اٹھنی چاہیئے لیکن نہیں آپ کواس چیز کا ڈر ہے کہ مرید ناراض ہوجائیں گے اب میں ان مسلمان حضرات سے ایک سوال کرتا ہوں آپ ایمان پیر صاحب پر نہیں لائے ہیں اللّٰہ ورسول عزوجل صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر لائیں ہیں اور جو بنیاد کاقائل نہیں اس سے نرمی کیسی مطلب آپ مسلمان نہیں اللّٰہ کے واسطے ایسا نہ کریں آپ کی قبر میں نہ راقم الحروف جائے گا نہ آپ کا بھائی باپ ماں ماموں بھتیجا بھانجہ کوئی آپ بھی آپ کی قبر میں نہیں جانے والا آپ کو پچاس ساٹھ سال کے بعد اسی کالی کوٹھری میں اکیلے جانا ہے تو ان بدعقیدوں کا ساتھ نہ دیں ورنہ قبر کی تنہائی آپ کو بہت رلائے گی اور وفادارئیے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم آپ کو آرام سکون بخشے گی اب آپ کی مرضی ہے کہ آپ کسے چنتے ہیں اللّٰہ ورسول عزوجل صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو یا چار دن کی حمایت کرکے ہمیشگی کے عذاب کو اپنے سرلینا چاہیتے ہیں ہم تو ان لوگوں سے بہت خوش ہیں جو اللّٰہ کے دین میں فساد کرنے والے کی تردید کرتے ہیں بھلے وہ ہم سے متفق نہیں میرے دوست آپ کا ایمان اتنا کمزور ہوگیا کہ بجائے انہیں کچھ کہنے کے آپ اپنے رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے غلاموں کو گمراہ بدین کہنے لگے اگر آپ ان کی مدد نہیں کرسکتے تو خاموش ہی ہوجاتے کہ کم ازکم کوئی تو ان فسادیوں کے خلاف بولا اسے ان کی حالت پرہی چھوڑ دیتے مگر کیسے آپ کو مسلمان ہونا ثابت کرنا تھا کہ وہ مسلمان ہیں یاد رکھیں عام آدمی کی آپ تائید کریں کہ وہ نہیں جانتا کہ یہ کس مرض میں مبتلا ہیں لیکن ان کی تائید آپ کو محشر میں بہت بھاری قیمت چکانی پڑے گی کہ یہ سب کچھ حق جانتے ہوئے بھی حق تسلیم نہیں کرتے مزید جتنی جماعتیں ہیں غیر مقلدین کی ہر کسی فرد کو چالیس دن کے بعد گستاخیاں سکھائی جاتی ہیں پہلے نہیں اگر آپ جاننا چاہتے ہیں تو تجربہ کرلیں پھر وہ لوگ کبھی حق جاننا نہیں چاہتے وہ صرف چلہ گاہ تک محدود رہ جاتے ہیں ہم ان لوگوں کو بہت قریب سے جانتے ہیں اس بلاء کو ہم نے بہت قریب سے دیکھا ہے ہم جانتے ہیں ہم نے خود اس جماعت میں جانے والے تین بچوں نکالا ہے ان کے بیان نے میری روح وجود کو ہلاکررکھ دیا جب ان لوگوں نے بتایا جماعت کے امیر نے ان لوگوں کے ساتھ کیا کیا ۔کیا سنوکیاکچھ ہوتا ہے جماعت میں جانے والے 15.16.14سال کے بچوں کے ساتھ وہ حرکتیں ہوتی ہیں جو قوم لوط کرگئی ہے وہ بھی خانئہ خدا میں اس سے زیادہ کیا بیان کروں فقط اس جماعت سے دور رہنا ہی بھلائی ہے شیطان کا بھل سپورٹ دستیاب ہے اس جماعت کو ان کی انہیں حرکتوں سے بیزار ہوں مہربانی کرکے اس جماعت کے قریب نہ آئیں ورنہ آخرت برباد ہو جائے گی میں ان مولویوں کی طرف سے نہیں کہ رہا ہوں جو ان کو گمراہ بدین مرتد آتنک وادی کہتے ہیں بلکہ خداورسول عزوجل صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے۔۔آپ خودبچیں اور اپنی نسلوں کو بھی بچائیں بہت افسوس گا کہ خدانخواستہ اسی حالت میں موت واقع ہوئی تو کل آپ اللّٰہ کے حضور کیا جواب دیں گے کیا اپنے آپ کو بچاپائیں گے ہر گز نہیں بلکہ کچھ جواب نہ ہوگا پھر بھی آپ دل سے بتائیں کہ یہ عذاب یعنی بدنامی کسی اہلسنت والجماعت پر بھی لگ سکتی تھی آخر کیوں انہیں لوگوں پر گری یہی مشیت ایزدی ہے کہ اس پرفتن دور میں کون اپنے آپ کو بچاپاتا میں اس بات پر کافی وقت سے غور کررہاتھا آخر کار اس طرح سمجھا کہ یہ بھی ایمان والوں پر ایک طرح سے امتحان ہے جس کا ریجلٹ بروز حشر مل ہی جائے گا ہم ان لوگوں سے نفرت نہیں کرتے ہیں بلکہ اپنا سمجھ کر بتارہے ہیں ہم تو دشمن خداورسول عزوجل صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم سے دل نفرت کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے ان شاءاللہ آپ کا کیا معاملہ ہے وللہ تعالیٰ اعلم لیکن کچھ بھی ہو آپ ان لوگوں سے نفرت نہ کریں جنہیں یہ سب معاملات کفر ان کے معلوم نہیں ان کو سمجھائیں کہ ان لوگوں نے دین میں کتنا رخنہ ڈالا ہے اور کتنی نفرت کی بیج کو پانی دیا ہے کیا آپ کو نہیں معلوم کہ حضرت ابرہیم علیہ السلام کو جب آگے نمرود میں ڈالا گیا تو وہاں دو قسم کے جانوروں کا ظہور ہوا تھا ایک مینڈک دریائی دوسرا بڑا بچکھپڑا جسے گرگٹ غالباً کہا گیاہے ان دونوں کی پہلے بڑی اچھی دوستی تھی لیکن دشمنی اس وقت ظاہر ہوتی ہے جب آپ کے یار کے ساتھ آپ کا ساتھی دھوکہ کرے کچھ ایسا ہی ہوا تھا اس جگے جب آگے نمرود میں حضرت ابرہیم علیہ السلام کوڈالا گیا مینڈک دریائی جوتھا وہ دوڑا گرگٹ نے پوچھا صاحب کہاں کہا اللّٰہ کے نبی کو نمرود نے آگ میں ڈالا ہے میں آگ بچھانے جانے جارہاہوں بولا ٹھیک ہے پھر تو ہم بھی جائیں گے پھر کیا تھا دونوں پہنچ گئے اور اپنے اپنے کام میں لگ گئے ایک پانی ڈالتا تو ایک پھونک مارتا بہر کیف اب آپ سمجھیں کہ مینڈک کے تھوڑے سے پانی سے آگ کا کیا ہوتا اور گرگٹ کی تھوڑی سی ہوا سے آگ کاکیا ہوتا یہاں وفاداری اور بے وفائی ظاہر ہونا تھا ایک نے چاہا آگ بچھے ایک نے چاہا آگ لگے اب غور کریں کہ کیا ہماری طرف سے تھوڑی سی کوشش وفاداری اور بے وفائی کا ثبوت کل محشر میں پیش کرنے والی ہے ہمارے ساتھ بظاہر تھوڑی جماعت ہے تو اس کامطلب یہ نہیں ہم حق پر نہیں ایمان والوں کی تعداد ہمیشہ سے کم رہی ہے اور آگے بھی کم رہے گی اب ان کی بات کرلیں جو یہ کہتے ہیں کہ کئی ملکوں میں یہ کام کررہے ہیں کون تبلیغی جماعت والے تو آپ اپنے اوپر کسی ایک چیز کی چاہت لیکر دل ودماغ سے سنجیدہ ہوکر سوچیں کہ ہماری زندگی میں کسی نیک نیت سے پانے والا پھل کتنےمنہگااورکتنے وقت میں ملتا ہے چاہے اولاد کی نعمت ہویانیک مال کی نعمت آپ کہیں گے کافی وقت لگتا ہے تو ہماری آنکھیں بند ہیں اسے کھونے کی ضرورت ہے جیسے شیطانی کام بہت تیزی سے کام کرتا ہے جب کہ ہمیں معلوم تک نہیں ہوتا کہ کس مقصد سے یہ لوگ کام کررہے ہیں برعکس اس کے کہ ہم کوئی ایسا طریق اپنی زندگی میں اپنائیں جو اللہ ورسول عزوجل صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم تک لے جاتا ہو کافی عرصہ لگ جائے گا لیکن وہ مژدہ آپ کو جلدی نہیں ملے گا لیکن دونوں کاموں میں فرق ہے کیسے تو بتا دیں کہ ہمارے معاشرے میں آج کل کالے جادو کے اثرات مرتب جلد جاتے ہیں لیکن اس کے برعکس آپ کسی کی بھلائی کے لئے کوئی اسم اعظم لکھ کردیں وہ بہت دیر سے کام کریگا اب آپ کو کیسے سمجھائیں آپ نے انگریزی دوا کا استعمال کیا ہوگا جو فوراً درد دور کرتا ہے لیکن اس کے اثرات ختم ہوتے ہی پھر وہی حال ہوجاتا ہے برعکس اس کے کہ آپ حکیمانہ نسخے اپنائیں وہ بہت تاخیر سے کام کریگا لیکن آپ کو ہمیشہ کے لئے اس مرض سے نجات دلاتا ہے بلکل یہی حال ہے حق اور باطل کا باطل کے پیچھے ہزاروں شیطانی ہاتھ موجود ہوتے ہیں ۔وہ بھی جب وہ اپنے کومسلمان کہکر اپنے ہی نبی کی امت ہوکر اپنے ہی نبی کو بےیارومددگار کہے اپنے ہی نبی کی بیوی جو امت کی ماں ہوتی ہیں ان کو گالی دے یہاں تک اپنے خالق ومالک کو زنا کرنے والا اور شراب پینے والا بتائے تو شیطان ان کی انہیں عادتوں سے خوش ہوکر ان کو بڑھاوا دیتا ہے اور یہ لوگ روئے زمین پر تیزی پھیلنا شروع کر دیتے ہیں اب ان کے مقابل ہمارے جیسے لوگ جو رات دن برائیوں میں گزار دیتے ہیں اتر تو سکتے نہیں ان کے لئے اللّٰہ پاک ان کا انتخاب فرماتا ہے جو ان کو بدتر مخلوق سمجھتے ہیں وہ بھی وقت کے ساتھ ان کو گرفت میں لاتے ہیں جس سے شیطانی جال کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہوجاتا ہے لیکن یہ آسان نہیں جو شیطانی قوتوں کے خلاف زہر افشانی کرتا ہے اس کے ہزاروں افراد دشمن ہو جاتے ہیں اور ان کو انسانیت کا دشمن سمجھ بیٹھے ہیں مگر ان کے ایک جملے اس وقت کام آتے ہیں جب ملک الموت سامنے ہوتے ہیں اور معاذاللہ کلمہ طیبہ پڑھنے نہیں دیتے استغفر اللّٰہ۔۔اللہ تیری پناہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔**کیا آپ عقلمندہیں**۔___________________________________________________________________________ میرے دوست اپنے باپ کے دشمن کواپنا دشمن جانا ماں کو کوئی زندگی میں ایک بار گالی دے اسے آپ کبھی نہیں بھول سکتے۔ ===============================================تونبی کے دشمن کو اپنا دوست کیسے بناسکتے ہیں جوقوم ام المومنین عائشہ صدیقہ کو گالی دے اس کی حمایت کیسے ممکن ہے ========================اب ذرا انصاف سے کام لینا==========یہ دین ہے گھر کا کھیل نہیں۔۔ از۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک گمنام ۔آپ کے ایمانی رشتے میں بھائی ہے
محمد پرویز رضا دارالعلوم اہلسنت فیضان مصطفی اشرف نگر بھوانی گنج 9670556798/6307986692
faizane Mustafa channel
*لاک ڈاون میں تراویح سے متعلق مسائل کے سوالات*
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام قرآن و حدیث کی روشنی میں مسئلہ ذیل کے بارے میں:
ملک میں لاک ڈاؤن میں توسیع ہوجانے کی وجہ سے رمضان المبارک کے ماہ مبارک کی اہم عبادتیں بھی گھر ہی میں انجام دینی ہوں گی، ایسے حالات میں چند سوالات درج ذیل ہیں امید کہ رہنمائ فرماکرممنون کریں گے۔
1. کیا تراویح کی نماز گھر پہ اداکرنا جائز ہوگا نیز تراویح کی جماعت کے لئے کتنے لوگوں کا ہونا ضروری ہے؟
2. اگر حفاظ نہ ملیں تو غیر حافظ کیا تراویح پڑھاسکتے ہیں، اسکی شکل کیا ہوگی؟
3. کچھ لوگ گھر میں ہی تراویح پڑھنا چاہیں اور ان میں سے کوئی بھی شرعی داڑھی والا نہ ہو لیکن قرآن صحیح پڑھنا جانتا ہو تو کیا وہ تراویح کی امامت کرسکتا ہے، اور جماعت کا ثواب ملے گا؟
4. کچھ مساجد کے امام حافظ نہیں ہوتے، باہر سے حفاظ آتے ہیں تراویح پڑھانے لیکن اس دفعہ یہ ممکن نہیں نظر آرہا ہے تو ایسی صورت میں کیا کریں؟
5۔ کچھ بچوں کاحفظ ابھی مکمل نہیں ہوا لیکن وہ بالغ ہوچکےہیں مثلا دس یا بیس پارے کےحافظ ہیں کیا وہ تراویح میں بیس پارے تیس رمضان تک پڑھاسکتےہیں ، یا بیس پارے بیس دن میں پڑھائیں پھرالم ترسےپڑھ لیں؟
6۔ عورتیں اگر آپس میں جماعت کے ساتھ گھروں میں تراویح پڑھنا چاہے تو شرعا اس کا کیا حکم ہے نیز اگر کوئ بالغ لڑکی حافظ قرآن ہے کیا وہ صرف عورتوں کوباجماعت اس طرح پڑھاسکتی ہے کہ آواز گھرسےباہرنہ نکلے؟
7. کیا موجودہ حالات میں ایسا کیا جاسکتا ہے کہ مسجد میں امام صاحب تراویح پڑھائیں اور مائک کنکشن یا آن لائن لائیو کے ذریعے امام صاحب کی آواز لوگ گھروں میں ان کر ان کی اقتدا میں تراویح پڑھ لیں؟
8۔ کیا ماسک پہن کر نماز پڑھنا درست ہے؟
9۔ کورونا بیماری کی وجہ سے سوشل ڈیسٹینسنگ یعنی لوگوں جسمانی فاصلہ بناۓ رکھنے کے لئے کہا گیا ہے تو کیا جماعت سے نماز پڑھتے وقت تھوڑا فاصلہ رکھنا جائز ہوگا؟
ان تمام سوالات کے جوابات عنایت فرمائیں
جوابات دینے کے شرائط
سنی عالم ہو
صلح کلی نہ ہو
تحریک دعوت اسلامی کی چھپی ہوئی کتابوں میں سے نہ ہو
جوابات حوالہ کے ساتھ ہو
جوابات جمعہ تک مل جانا چاہیے
جوابات لکھ کر ہی عنایت فرمائیں
اگر اس گروپ سے جوابات نہیں ملے تو اس گروپ میں جتنے بھی لوگ شامل ہیں وہ مناظرہ کرنے کے اہل نہیں مانے جاۓ گے ✍مولانا محمد عمران رضوی
غلام ازہری
_________________________
الجواب باسم ملہم الصواب :(1) تراویح کی نماز گھر پر ادا کرنا جائز ھے۔ جماعت کے قیام کیلئے امام اور ایک مقتدی بھی کافی ھے جیساکہ حدیث میں ھے: اثنا ن فما فوقهما جماعة.(ابن ما جه، السنن، کتاب إقامة الصلاةوالسنة فيها، باب الاثنان جماعة 1/ 522 رقم : 972)
دو یا دو سے زیادہ (مردوں) پر جماعت ہے۔
اس صورت میں امام، مقتدی کو اپنےدائیں جانب کھڑا کرےجیسا کہ حدیثِ مبار کہ سے ثا بت ہے :
حضرت عبدﷲ ا بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک رات میں نےحضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ نماز پڑ ھی۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بائیں طرف کھڑا ہو گیا توحضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےمیرےسرکو پیچھے کی طرف سےپکڑکر مجھے دائیں طرف کر دیا۔
(بخاری، الصحيح، کتاب الجماعة والإ مامة، با ب اذ قام الرجل عن يسار الإمام،1: 255، رقم : 693)
کتب فقہ کی عبارت سے بھی و اضح ھےکہ صرف دوآدمی قیام جماعت کیلئےکافی ھےیعنی ایک امام اوردوسرامقتدی ھواتنابھی جماعت کاقیام ھوجاتا ھےجیسا کہ در مختار میں ھے :
(ويقف الواحد)ولو صبياً،أما الو ا حدة فتتأخر (محاذياً) أي مساوياً (ليمين إما مه) على المذ هب، ولا عبرة بالرأس بل بالقدم،فلو صغير اً فالأصح ما لم يتقدم أكثر قدم ا لمؤتم لاتفسد،فلووقف عن يساره كره(اتفاقاًوكذا) يكره (خلفه على الأصح)؛ لمخالفة السنة، (والزائد) يقف (خلفه) فلو توسط اثنين كر ه تنزيهاً، وتحريماً لو أكثر.( قو له: والزائد خلفه)عدل تبعاًللوقايةعن قول الكنز:والاثنان خلفه؛لأنه غير خا ص با لاثنين ، بل المراد ما زاد على الواحد ، اثنان فأ كثر ، نعم! يفهم حكم ا لأ كثر با لأولى. وفي القهستاني: وكيفيته أن يقف أحد هما بحذائه والآخربيمينه إذا كان الزائد اثنين، ولو جاء ثالث وقف عن يسار الأول، والرابع عن يمين الثاني والخامس عن يسارالثا لث وهكذا.اهـ.وفيه إشارة إلى أن الزا ئد لوجاء بعد الشروع يقوم خلف الإمام،ويتأخر المقتدي الأول، ويأ تي تمامه قريباً (قوله: كره تنزيهاً) وفي رواية:لايكره، والأولى أصح، كما في الإمداد.(قوله وتحريماً لو أكثر) أفاد أن تقدم الإمام أمام ا لصف واجب كما أفاده في الهدا ية والفتح.(قوله:كره إجماعاً) أي للمؤ تم، و ليس على الإ مام منها شيء ، و يتخلص من الكر ا هة با لقهقر ى إ لى خلف إ ن لم يكن ا لمحل ضيقاً على الظا هر و الذي يظهر أنه ينبغي للمقتدي التأخر إ ذا جاء ثالث، فإن تأخر وإلا جذبه الثالث إن لم يخش إفساد صلاته، فإن اقتدى عن يسار الإمام يشير إليهما بالتأخر، وهو أولى من تقد مه؛ لأنه متبوع؛ ولأن الاصطفاف خلف الإمام من فعل المقتدين لا الإمام، فالأولى ثباته في مكانه و تأ خر المقتد ي، و يؤ يد ه ما في الفتح عن صحيح مسلم: قال جا بر: سرت مع النبي صلى الله عليه و سلم في غز و ة، فقا م يصلي ، فجئت حتى قمت عن يساره، فأ خذ بيدي فأدارني عن يمينه، فجا ء ابن صخر حتى قام عن يساره فأخذ بيديه جميعاً فدفعنا حتى أقامنا خلفه» اهـ وهذا كله عند الإمكان، وإلا تعين الممكن. والظا هر أيضاً أن هذا إذا لم يكن في ا لقعدة الأخيرة، وإلا اقتدى الثالث عن يسار الإمام ولا تقدم ولا تأخر
(الدر المختار مع ردالمحتار) (1/ 566)
(2) الجواب:تراویح سنت مؤکدہ ھےحا فظ کی عد م مو جو د گی میں غیر حافظ کا سورہ تراویح پڑھاناجائز ھے جس کو اپنی زبا ن میں سورہ تراویح کہتے ہیں :
جیسا کہ المبسوط میں ھے :
التراويح سنة لايجوز تركها؛ لأ ن ا لنبي صلى ا لله عليه و سلم أ قا مها ثم بين ا لعذ ر في تر ك ا لموا ظبة على أ د ا ئها با لجما عة في المسجدوهوخشيةأن تكتب علينا ثم واظب عليهاالخلفاءالراشدو ن -رضي الله عنهم- وقد قال النبي صلى ا لله عليه و سلم: « عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين من بعدي»، وأن عمر -رضي الله عنه- صلاها بالجماعة مع أجلاء الصحابة، فرضي به علي -رضي الله عنه- حتى دعا له بالخير بعد موته، كما ورد، وأمر به في عهده
(المبسوط للسرخسي ج2/ 145)
اس کی شکل یہ ھوگی کہ سورہ الم ترکیف سےپڑھائے اور والناس تک پوراکرےجس سے دس رکعت کی تکمیل ھوگی پھر ا لم ترکیف سے شروع کر ے اور و ا لناس پر ختم کرے اس طرح بیس ر کعت مکمل کرےاوریہی روزانہ کامعمو ل بنالے اگر یاد ھو تو بیس سورہ کا بھی تعین کرسکتا ھے اگر دس بھی یاد نہیں ھےتوجوکچھ بھی یاد ھے اسی کی قرآت کرے نماز ھوجائے گی جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:فاقرؤا ماتیسرمن القرآن (القرآن ) جو کچھ بھی قرآن کی آیتوں میں سے پڑھنا آسان ھو پڑ ھے۔کتب فقہ میں بھی یہی مذ کور ھے : جیسا کہ بدائع الصنائع میں ھے :
ومنها: أن يقرأ في كل ر كعة عشر آيات ، كذ ا روى الحسن عن أبي حنيفة،وقيل: يقرأفيهاكمايقرأ في أخف المكتوبات وهي المغرب، و قيل: يقرأ كما يقرأ في العشاء؛ لأ نهاتبع للعشاء، وقيل: يقرأ في كل ركعة من عشرين إلى ثلاثين؛ لأنه روي أن عمر -رضي الله عنه- دعا بثلاثة من الأئمة، فاستقرأ هم وأ مرأولهم أن يقرأفي كل ركعة بثلا ثين آيةً، وأمر الثاني أن يقرأ في كل ركعة خمسة وعشرين آيةً، و أمر الثالث أ ن يقرأ في كل ركعة عشرين آيةً، وما قاله أ بو حنيفة سنة؛إذ السنة أن يختم القرآن مر ةً في التراويح، وذلك فيما قاله أ بوحنيفة، وما أمر به عمر فهو من باب الفضيلة وهوأن يختم القرآن مرتين أو ثلاثاً، وهذا في زمانهم (في ترتيب الشرائع ج1 / 289 )
البتہ پو ر ے ر مضان کی تراویح کی نماز میں ایک ختم قرآن کرنا اوراس کی سماعت کرناسنت ھے اور د و تین ختم کرنا ا فضل ھے جیسا کہ کتب فقہ میں ھے :
والسنة فیھا الختم مرة فلا یترک لکسل القوم(ملتقی الأبحر،کتا ب الصلاة،۱: ۲۰۳، دار الکتب العلمیة بیروت)، السنة في التراویح إنما ھوالختم مرة فلایترک لکسل القو م کذا في الکافي ( الفتاوی الھند یة، ۱: ۱۱۷ :المطبعة الکبری الأمیر یة،بولاق،مصر)والختم في التراو یح مرةواحدة سنة( الفتاوی الخا نیة علی ھامش الفتاوی الھندیة، ۱: ۲۳۷، ط: المطبعة الکبری الأمیر یة،بولاق،مصر)وسن في رمضا ن عشرون رکعة بعدالعشاء قبل ا لو تر و بعد ہ بجما عة و ا لختم مرة بجلسة الخ(کنز الدقائق مع البحر الرائق،،کتاب الصلاة،باب الوتر وا لنوافل، ۳: ۱۱۵، ۱۱۶، ط: دار الکتب العلمیة بیروت )قولہ:والختم مرة معطوف علی"عشرون“بیان لسنة ا لقرا ءة فیھا و فیہ ا ختلا ف وا لجمھور علی أن السنة الختم مرة فلایترک لکسل القوم(البحرالرائق کتاب الصلاة،باب الوتر والنوافل، ۳: ۱۱۵، ۱۱۶، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)لأن السنةفیھا الختم مرة ولا یترک الختم مرة لکسل القوم بخلا ف ا لد عو ا ت في ا لتشھد حیث یترک إذا عرف منھم ا لملل (تبیین الحقائق، کتاب الصلاة ، با ب ا لو تر و ا لنوافل، ۱: ۱۸۲، ط: ا لمکتبة الإمدادیة،ملتان،باکستان) وسن ختم القرآن فیھا مرة في ا لشھر علی الصحیح(نور الإیضاح مع المراقي وحاشیة الطحطاو ي علیہ،ص:۴۱۴، ۴۱۵، ط: دار ا لکتب العلمیةبیروت)والسنةختم القرآن في التراویح مرة واحدة(المختار مع الاختیار، ۱: ۲۳۹، ط: موٴسسة الرسالة)والحاصل أن السنة في ا لتر ا و یح إنما ھي الختم مرة،وا لختم مرتین فضیلة والختم ثلاث مرات في کل عشرة مرةأفضل، و في جا مع ا لجو ا مع: الأفضل أن یختم فیہ القرآن إن لم یثقل علی القوم، و في الکافي : و الجمھور علی أن السنةالختم مرة فلایترک لکسل ا لقو م ( الفتا وی التاتارخا نیة،۲: ۳۲۴:مکتبة زکر یا دیو بند) قال الصدرالشھید:الختم في الترا و یح سنة و ا لختمان فضیلة الخ (خلاصة الفتاوی، ۱: ۶۴ : المکتبة الرشیدیة،کوئتة)وسن الختم مرة ولا یترک لکسل القوم(النقایة مع شرح النقایة، ۱: ۳۴۵،۳۴۶)، (وسن ا لختم ) أي : ختم القرآن علی الأ صح و ھو قو ل الأ کثر (مرة) في صلا ة التراویح؛ لأن شھر رمضان أنزل فیہ القرآن وکان النبي صلی اللہ علیہ و سلم یعر ضہ فیہ علی جبرائیل کل سنة مرة،وفي السنة الأخیرة عرضہ مرتین (ولا یترک) ا لختم (لکسل القوم ) (فتح باب العنایةبشرح النقایة،۱: ۳۴۵،۳۴۶)، قولہ: والختم مرة سنة “:أي: قراء ة الختم في صلاة التراویح سنة وصححہ في الخانیةوغیرھا وعز اہ في الھدایة إلی أکثر المشایخ، وفي الکافي إلی الجمہور، وفي ا لبر ھا ن : و ھو ا لمر و ي عن أبي حنیفة و المنقول في الآ ثار( رد ا لمحتار،کتاب الصلاة،باب الوتر وا لنوافل،۲:۴۹۷،مکتبةزکریا دیوبند) قال في البحر:فالمصحح في المذ ھب أن الختم سنة ( المصدر السا بق،ص:۴۹۸)(وقیل)القائل صاحب الاختیار (الأفضل في زماننا قدر مالایثقل علیھم)(الغرر والدرر مع الغنیةللشرنبلالي،۱: ۱۲۰، باکستان) قولہ:وقیل القائل صاحب الاختیا ر الخ“: أقول: عبار تہ تفید ضعفہ وفی البحر خلافہ والجمہور علی أن السنةالختم(غنیة ذوي الأحکا م في بغیة درر الحکام)
(3) الجواب : داڑھی منڈا فاسق معلن ہے اور فاسق قا بل امامت نہیں ۔ اس کو امام بنانا گناہ ھے اس کی اقتدا میں پڑھی جانے وا لی نمازمکروہ تحریمی واجب الا عادہ ھے مگر نماز بکراھت تحریم ھوجا تی ھے تو جماعت کا ثواب ملجائے گا۔
فتاوی رضویہ میں ھےکہ:فاسق کےپیچھےنماز ناقص ومکروہ اگر پڑھ لی تو پھیری جا ئے ا گر چہ مد ت گز رچکی ہو، (فتاوی رضو یہ )
صغیری میں ھے :یکرہ تقدیم ا لفاسق کراھۃ تحریم ( (فاسق کی تقدیم (یعنی امامت) مکروہ تحریمی ہے۔ت) ( صغیر ی شر ح منیۃ ا لمصلی مبا حث الا ما مت مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ص ٢٦٢)
طحطا و ی علی مر ا قی ا لفلا ح میں ہے:
"کره إمامة الفاسق، والفسق لغةً: خروج عن الاستقامة، وهو معنی قولهم: خروج الشيء عن الشيء علی وجه الفساد. وشرعاً: خروج عن طا عة ﷲ تعا لی با رتکا ب کبیرة.قال القهستاني:أي أو إصرا ر علی صغیرة. (فتجب إهانته شر عاً فلا یعظم بتقد یم الإمامة) تبع فیه الزیلعي ومفاده کون الکراهة في الفاسق تحریمیة( الطحطاوي علی مراقي الفلاح)
در مختار میں ھے :
و الأحق بالإمامة تقدیماً بل نصباً الأعلم بأحکام الصلاة فقط صحة ًوفساداً بشرط اجتنابه للفواحش الظاهرة". (1/559,560)
شا می میں ہے :
یحر م علی ا لر جل قطع لحیتہ․ ( شا می ج:۵ ص:۲۸۸)
داڑھی کاٹنا مرد کیلئے حرا م ھے
فتا و ی شا می میں ہے :
"و أما الأخذ منها أي من اللحية و هي دںو ن ذالك: أي دون القبضة، كما يفعله بعض المغاربة و مخنثة الرجال فلم يبحه أحد،و أخذ كلها فعل اليهود... و مجوس الأعاجم". (كتاب الصوم، مطلب في الاخذ من اللحية ٢/ ٤١٨، ط: سعيد)
’’حلبی کبیر ‘‘ میں ہے:
"و لو قدّموا فاسقاً يأثمون بناء علي أن كراهة تقديمه كراهة تحر يم ؛ لعدم اعتنائه بأمور دينه، و تساهله في الإتيان بلوازمه..."الخ ( كتاب الصلوة، الأولی بالإمامة، ص: ٥١٣، ٥١٤ ط: سهيل اكيدمي)
صلى خلف فاسق أو مبتدع نا ل فضل الجما عة ''. و في الشا مية:(قوله:نال فضل الجماعة) أفاد أن الصلاة خلفهما أولى من الانفراد، لكن لا ينال كما ينال خلف تقي ورع''. (شامي: ١/ ٥٦٢، ط: سعيد)
(4) الجواب : صو ر ت مذ کو رہ میں سورہ تراویح پڑھے : 'فتاوی شامی'' میں ہے:
(و ا لختم) مر ةً سنةٌ و مر تين فضيلةٌ وثلاثاً أفضل. (ولا يتر ك) الختم (لكسل القوم)، لكن في الا ختيار: الأفضل في زماننا قدر ما لا يثقل عليهم، وأقره المصنف و غيره. وفي المجتبى عن الإمام: لو قرأ ثلاثاً قصاراً أو آيةً طويلةً في الفرض فقد أحسن ولم يسئ، فما ظنك بالتراويح؟ وفي فضائل رمضان للزاهدي: أفتى أبو الفضل الكرماني والوبري أنه إذا قرأ في التراويح الفاتحة وآيةً أو آيتين لا يكره، ومن لم يكن عالماً بأهل زمانه فهو جاهل.
(قوله:الأفضل في زمانناإلخ) لأ ن تكثير الجمع أ فضل من تطو يل ا لقراءة، حلية عن المحيط. وفيه إشعاربأن هذامبني على اختلا ف الزمان، فقد تتغير الأحكام لاختلا ف الزمان في كثير من المسائل على حسب المصالح، ولهذا قال في البحر: فالحاصل أن المصحح في المذهب أن الختم سنة، لكن لا يلزم منه عدم تركه إذا لزم منه تنفير ا لقو م و تعطيل كثير من المساجدخصوصاً في زماننا فالظا هراختيارالأخف على القوم(قوله: وفي المجتبى إلخ)عبارته على ما في البحر:والمتأخرون كانوا يفتو ن في زماننا بثلاث آيات قصار أو آية طويلة حتى لا يمل القوم ولا يلز م تعطيلها، فإ ن ا لحسن روى عن الإمام أنه إ ن قر أ في المكتو بة بعد ا لفا تحة ثلا ث آ يات فقد أحسن ولم يسئ، هذا في ا لمكتو بة فما ظنك في غير ها ؟''اهـ(2/ 46، 47باب الوتروالنوافل،سعید)
(5)الجواب : پڑ ھا سکتے ہیں ا لبتہ و ہ بھی سو رہ ترا و یح کے حکم ھوگا البتہ بیس پار ہ سننے کا ثواب ملے گا :
(6) الجواب:عورتوں کی جماعت مکر و ہ تحریمی ھے : فرض نماز ہو یا نفل،عورت کاعورتوں کےلیے امام بننا بھی مکروہِ تحریمی ہے، خو ا تین کے لیے یہی حکم ہے کہ وہ تنہا اپنی نماز ادا کریں، تراو یح کی جماعت نہ کریں۔ اس کے باوجود جماعت کرتی ہیں تو اما م بھی صفوں کے بیچ میں گھڑی ھونگی :
فعلم أ ن جما عتهن وحد هن مکر وهة(إعلاء السنن ۴؍۲۲۶)
عن علي بن أبي طالب رضي اللّٰه عنه أنه قال: لاتؤم المرأة .قلت: ر جاله کلهم ثقا ت ( إ علا ء ا لسنن ۴؍۲۲۷ دار الکتب العلمیة بیروت)
شامی میں ہے :
" ویکره تحریماً جماعة ا لنساء و لو في التراویح - إلی قوله - فإن فعلن تقف الإمام وسطهن فلو قد مت أثمت".
قال الشامي:
"أفاد أن الصلاةصحیحةوأنها إذ ا توسطت لاتزول الکراهة و إنما أر شد و إلی التوسط؛ لأنه أقل کرا هة التقدم". (شامي ۲؍۳۰۵)
وفیه أيضاً: (قوله: ويكره تحريماً) صرح به في الفتح والبحر (قوله: ولوفي التراويح)أفاد أن الكرا هة في كل ماتشرع فيه جماعة الرجا ل فرض أو نفل". (1/565)
(7) ا لجو ا ب : ما ئک پر ا قتد ا مفسد صلاۃ کا با عث ھے چو نکہ ما ئک کی آ واز عین آ واز متکلم نہیں ۔ ا قتد ا ا مام کی ھے نہ کہ مائک کی ۔ مائک نمازی نہیں اور تلقن عن الخارج پر اقتدا نماز کو فاسد کرتی ھے ۔ یہی حکم دیگر آلات کا بھی ھوگا۔ واضح ھوا کہ گھر پر ا ما م کی ا قتد ا مائک و میکر و فو ن کی آ و ا ز پر کر نا ا قتدا کو فاسد کرتا ھے جس سے مقتدی کی نماز نہیں ھوگی ۔
صحت اقتداکیلئےامام اورمقتدی کے مکان کا متحد ہو نا شر ط ہے چا ہے اتحاد مکان حقیقی ھو یا حکمی ھو،مکان کےحقیقی متحد ہونے کی نظیر یہ ہے کہ امام اور مقتدی دونوں ایک ہی مسجد یا ایک ہی گھر میں کھڑے ہوں، اور حکمی متحد ہو نے کی مثا ل یہ ہے کہ امام اور مقتدی اگرچہ دو ا لگ ا لگ مقا م پر کھڑ ے ہو ں لیکن در میان میں صفیں متصل ہو ں ، لہذا صورتِ مسئو لہ میں امام اورگھرمیں پڑھنے والے مرد و خواتین چو ں کہ دو نوں الگ ا لگ مکا ن میں ہیں، اس لیے مذ کورہ امام کے پیچھے گھر میں پڑ ھنے و ا لے مرد وخواتین کی تر ا ویح کی نماز درست نہیں ہوگی۔
فتا و ی عا لمگیر ی میں ہے :
ويجوز اقتداء جار المسجد بامام المسجد وهو في بيته إذا لم يكن بينه وبين المسجد طريق عام وإ ن كا ن طر يق عا م و لكن سد ته ا لصفو ف جا ز الا قتداء لمن في بيته بإمام المسجد (ھند یہ ج1 / 88، الباب الخامس فی بیان مقا م الامام والماموم )
فتا و ی شا می میں ہے :
والصغرى ربط صلا ة المؤ تم با لإ ما م بشر و ط عشرة : نية المؤتم الاقتداء،واتحادمكانهما وصلاتهما
(قوله:واتحاد مكانهما) فلو اقتدى راجل براكب أو بالعكس أو راكب براكب دابة أخرى لم يصح لاختلا ف المكان؛فلو كاناعلى دابة واحد ة صح لا تحاده كما في ا لشا میۃ (الشامیہ ج1 / 549، 550، با ب الامامۃ، ط؛)
(8) الجواب :فقہاءِ کرام نے لکھا ہے کہ بلا عذر ناک اور منہ کسی کپڑ ے و غیر ہ سےچھپا کرنماز پڑھنا مکروہِ تحر یمی ہے، البتہ ا گر کسی عذ ر کی وجہ سے نماز میں چہر ہ کو ڈ ھا نپ لیا جا ئے یا ما سک پہنا جائے تو نماز بلا کراہت درست ہو گی؛ لہٰذاموجودہ وقت میں کر و نا وا ئرس سے بچاؤ کی تدبیر کے طور پرجو حکومتی تہدیدات ہیں اس ا ذیت سے خو د کو بچا نے کیلئے احتیاطاًماسک پہن کرنمازپڑ ھنے سے نما ز بلا کر ا ہت ا دا ہوجائے گی۔البتہ اس سےاجتناب ہی بہتر ھےکیونکہ حدیث میں مذکور ھے کہ کوئ بیمار ی متعد ی نہیں ھو تی ھے :
جیساکہ د ر ا لمختا ر :
يكره اشتمال الصماء و الاعتجار والتلثم والتنخم و كل عمل قليل بلاعذر(الدر المختارمع رد المحتا رج 1/ 652)
(قوله: والتلثم) و هو تغطية ا لأ نف والفم في الصلاة؛ لأنه يشبه فعل المجوس حال عبادتهم النير ا ن ، ز يلعي . و نقل ط عن أ بي السعود: أ نها تحر يمية ( ا لد ر ا
لمختارمع الردالمحتار ج1/ 652)
الأشباه و النظائر لابن نجيم میں ہے :
قواعد : الأولى: الضرورات تبيح ا لمحظوراتِ".(الاشباہ ١ / ٧٣، دار الكتب العلمية)
و فيه ا یضا :
أن الأ مر اذا ضا ق اتسع ، وَ إِذَا اتَّسَعَ ضَاقَ". ( ١ / ٧٢، ط: دار الكتب العلمية)
شرح القواعد الفقهية لأحمد الزرقا میں ہے :
(القاعدة السابعة عشرَة (الْمَادَّة / 18):
إ ذ ا ضا ق الْا مر اتسَع" (أَ و لا ا لشرح ) هذ ا في معنى ا لما د ة / 21 /:الضر و ر ا ت تبيح المحظو رات،وتمام القاعدةالفقهية،كمافي "مراة المجلة"واذ ا ا تسع ضا ق". وكان في معنى الشق الثاني منها أَنه إِذا دعت الضرورة والمشقة إِ لى اتساع الامر فانه يتسع إلى غا ية اندفاع الضرورةوالمشقة، فاذا اندفعت وزالت الضرورة الداعية عاد الأمر إِلى ما كان عليه قبل نز و له. و يقر ب منه المادة / 22 /: الضرورة تقدر بقدرها( ١ / ١٦٣، ط: دار القلم)
(9) الجواب : بلا ضر و ر ت د و شخصوں کےدرمیان جگہ کاخالی ر کھنا مکروہ تحر یمی اور سنت متواترہ کے خلا ف ھے احادیث میں مل کر کھڑ ے ھو نے کی تا کید آئ ھے :
شرح أبي داؤد للعيني میں ہے :
عن أنس قال: قال رسول الله سَو وا صفوفكم، فإن تسوية الصف من تمام الصلاة " .
(أخرجه البخَاري،ومسلم، وابن ما جه،وفي رواية: من حُسن الصلاة وعندالسراج من حديث شعبة: قا ل قتادة: قال أنس: إن من حسن الصلاة:/ إقامة الصف، وفي لفظ: من تمام الصلاة.)
ثم إن تَسوية الصفوف من سُنة ا لصلاةعندأبي حنيفةومالك والشا فعي،وزعم ابن حزم أنه فرض، لأ ن إقامةالصلاة فرض،وما كان من الفرض فهوفرض، قال عليه السلا م" فإ ن تسو ية ا لصف من تمام ا لصلاة ".قلنا:قوله: "فإنه من حُسن الصلاة "يد ل على أنها ليْست بفر ضِ لأن ذلك أمر زائد على نفس ا لصلاة، و معنى قو له: "من تمام ا لصلاة"من تمام كمال الصلاة وهو أيضاً- أمر زائد، فافهم". ( كتاب ا لصلاة،بَابُ:تفْريع أبْواب الصُّفُوفِ، ٣/ ٢١٨- ٢١٩، رقم: ٦٤٩، ط: مكتبة الرشد)
فتح الباري لابن حجر میں ہے :
(قَوْلُهُ: بَابُ إِثْمِ مَنْ لَمْ يُتِمَّ الصُّفُو فَ)قَالَ ابن رَشِيدٍ:أَوْرَدَفِيهِ حَدِيثَ أَ نَسٍ مَا أَ نْكَرْ تُ شَيْئًا إِ لَّا أَنَّكُمْ لَا تُقِيمُو نَ ا لصُّفُوفَ،وَتُعُقِّبَ بِأَنَّ الْإِ نْكَا رَ قَدْ يَقَعُ عَلَى تَرْ كِ السُّنَّةِ، فَلَا يَدُلُّ ذَ لِكَ عَلَى حُصُو لِ الْإِ ثْمِ، وَأُ جِيبَ بِأَنَّهُ لَعَلَّهُ حَمَلَ الْأَمْرَ فِي قَوْ لِهِ تَعَالَى: {فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ} عَلَى أَنَّ الْمُرَادَ بِا لْأَ مْرِ ا لشَّأْ نُ وَ الْحَا لُ لَا مُجَرَّدُ ا لصِّيغَةِ، فَيَلْزَمُ مِنْهُ أَنَّ مَنْ خَا لَفَ شَيْئًا مِنَ ا لْحَا لِ الَّتِي كَانَ عَلَيْهَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَأْثَمَ؛ لِمَا يَدُلُّ عَلَيْهِ الْوَعِيدُ الْمَذْكُورُ فِي الْآيَةِ، وَ إِنْكَارُ أَنَسٍ ظَاهِرٌ فِي أَنَّهُمْ خَالَفُوا مَا كَا نُواعَلَيْهِ فِي زَمَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ إِقَامَةِ ا لصُّفُو فِ ، فَعَلَى هَذَا تَسْتَلْزِمُ الْمُخَا لفَة۔ ا لتأ ثيم ، ا نْتهى كَلَام ا بن رَشِيدٍ مُلَخَّصًا. وَهُوَ ضَعِيفٌ؛ لِأَنَّهُ يُفْضِي إِلَى أَنْ لَايَبْقَى شَيْءٌ مَسْنُونٌ؛ لِأَنَّ ا لتَّأْ ثِيمَ إِ نَّمَا يَحْصُلُ عَنْ تَرْ كِ وَا جِبٍ،وَأَمَّا قَوْلُ ابن بَطَّالٍ: إِنَّ تَسْوِ يَةَ الصُّفُوفِ لَمَّا كَانَتْ مِنَ السُّنَنِ ا لْمَنْدُ و بِ إِ لَيْهَا ا لَّتِي يَسْتَحِقُّ فَا عِلُهَا ا لْمَدْ حَ عَلَيْهَا دَلَّ عَلَى أَنَّ تَارِ كَهَا يَسْتَحِقُّ الذَّمَّ، فَهُوَ مُتَعَقَّبٌ مِنْ جِهَةِ أَنَّهُ لَايَلْزَمُ مِنْ ذَمِّ تَارِكِ السُّنَّةِ أَنْ يَكُونَ آثِمًا،سَلَّمْنَا،لَكِنْ يَرُدُّ عَلَيْهِ ا لتَّعَقُّبُ ا لَّذِ ي قَبْلَهُ، وَ يُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ ا لْبُخَارِ يُّ أَخَذَ الْوُجُوبَ مِنْ صِيغَةِ الْأَمْرِفِي قَوْلِهِ:"سَوُّوا صُفُو فَكُمْ"،وَمِنْ عُمُومِ قَوْلِهِ: "صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي"، وَ مِنْ وُ رُودِ الْوَ عِيدِ عَلَى تَرْكِهِ، فَرَجَحَ عِنْدَهُ بِهَذِهِ الْقَرَائِنِ أَنَّ إِنْكَارَأَنَسٍ إِنَّمَاوَقَعَ عَلَى تَرْكِ الْوَاجِبِ وَ إِنْ كَانَ الْإِ نْكَارُ قَدْ يَقَعُ عَلَى تَرْكِ السُّنَنِ، وَ مَعَ ا لْقَوْلِ بِأَنَّ التَّسْوِيَةَوَاجِبَةٌ فَصَلَاةُ مَنْ خَا لَفَ وَلَمْ يُسَوِّ صَحِيحَةٌ لِاخْتِلَافِ ا لْجِهَتَيْنِ، وَيُؤَيِّدُ ذَلِكَ أَنَّ أَنَسًا مَعَ إِ نْكَارِهِ عَلَيْهِمْ لَمْ يَأْمُرْ هُمْ بِإِ عَادَةِ ا لصَّلَاةِ. وَأَفْرَطَ ابن حَزْمٍ، فَجَزَمَ بِا لْبُطْلَانِ، وَنَازَعَ مَنِ ادَّعَى الْإِجْمَاعَ عَلَى عَدَ مِ ا لْوُ جُوبِ بِمَا صَحَّ عَنْ عُمَرَ أَ نَّهُ ضَرَ بَ قَدَ مَ أَ بِي عُثْمَانَ النَّهْدِ يِّ لِإِ قَامَةِ الصَّفِّ، وَ بِمَا صَحَّ عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ قَالَ: كَانَ بِلَالٌ يُسَوِّ ي مَنَاكِبنَا وَ يَضْرِبُ أَ قْدَامَنَا فِي الصَّلَاةِ، فَقَالَ:مَاكَانَ عُمَرُ وَبِلَا لٌ يَضْرِبَانِ أَحَدًا عَلَى تَرْكِ غَيْرِ الْوَ اجِبِ، وَفِيهِ نَظَرٌ لِجَوَازِ أَنَّهُمَا كَانَا يَرَيَانِ التَّعْزِيرَ عَلَى تَرْكِ السُّنَّةِ". ( ٢ / ٢١٠، ط: دار المعرف)
حاشية الطحطاوي علي مراقي الفلاح میں ہے:
"قوله:"فيأمرهم الإمام بذلك" تفر يع على الحديث الدال على طلب الموالاة واسم الإشارة راجع إليها ويأمرهم أيضابأن يتراصوا ويسد وا الخلل ويستووامناكبهم وصدو رهم كمافي الدر عن الشمني وفي ا لفتح و من سنن ا لصف التراص فيه والمقاربة بين الصف والصف والاستواءفيه قوله: "استووا" أي في الصف قو له : "تستو" بحدف الياء جواب الأ مر وهذا سر علمه الشارع صلى الله عليه وسلم كما علم أ ن ا ختلا ف الصف يقتضي ا ختلا ف ا لقلو ب قو له :أقيموا الصفوف"أي عدلوههاقوله: "وحاذ وا بين المناكب"وردكأن أحدنا يلز ق منكبه بمنكب صا حبه و قد مه بقدمه قوله:وسدوا الخلل"أي الفر ج روى البزا ر بإ سنا د حسن عنه صلى الله عليه وسلم:"من سد فر جة في الصف غفر له"( باب الإما مة ، فصل : في بيان الأحق بالإما مة،ص:٣٠٦، دار الكتب العلمية)
البحر الرائق میں ہے:
وَيَنْبَغِي لِلْقَوْمِ إذَاقَامُوا إلَى الصَّلَا ةِأَنْ يَتَرَاصُّواوَيَسُدُّواالْخَلَلَ وَيُسَوُّ وا بَيْنَ مَنَاكِبِهِمْ فِي الصُّفُوفِ وَ لَا بَأْ سَ أَ نْ يَأْمُرَ هُمْ الْإِمَامُ بِذَ لِكَ وَ يَنْبَغِي أَ نْ يُكْمِلُو ا مَا يَلِي الْإِ مَا مَ مِنْ الصُّفُوفِ، ثُمَّ مَا يَلِي مَا يَلِيهِ وَ هَلُمَّ جَرًّا وَإِذَا اسْتَوَى جَانِبَا الْإِمَامِ فَإِنَّهُ يَقُومُ الْجَائِي عَنْ يَمِينِهِ، وَإِنْ تَرَجَّحَ الْيَمِينُ فَإِنَّهُ يَقُومُ عَنْ يَسَارِ هِ وَإِنْ وَجَدَفِي الصَّفِّ فُرْجَةًسَدَّهَا وَإِلَّا فَيَنْتَظِرُ حَتَّى يَجِيءَ آخَرُ كَمَا قَدَّمْنَاهُ،وَفِي فَتْحِ الْقَدِيرِوَرَوَى أَبُو دَاوُد وَالْإِمَامُ أَحْمَدُ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَ نَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : «أُ قِيمُوا الصُّفُوفَ وَ حَاذُوا بَيْنَ الْمَنَا كِبِ وَ سُدُّوا الْخَلَلَ وَلِينُوا بِأَيْدِي إ خْوَانِكُمْ وَ لَا تَذَرُوافُرُجَاتٍ لِلشَّيْطَا نِ وَمَنْ وَصَلَ صَفًّاوَصَلَهُ اللَّهُ وَمَنْ قَطَعَ صَفًّا قَطَعَهُ اللَّهُ»وَرَوَى الْبَزَّارُ بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ عَنْهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ سَدَّ فُرْجَةً فِي الصَّفِّ غُفِرَ لَهُ» وَفِي أَبِي دَاوُد عَنْهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ قَالَ : «خِيَارُكُمْ أَ لْيَنُكُمْ مَنَاكِبَ فِي الصَّلَا ةِ» وَ بِهَذَا يُعْلَمُ جَهْلُ مَنْ يَسْتَمْسِكُ عِنْدَدُخُو لِ دَاخِلٍ بِجَنْبِهِ فِي الصَّفِّ وَيَظُنُّ أَنَّ فَسْحَهُ لَهُ رِيَاءٌ بِسَبَبِ أَنَّهُ يَتَحَرَّ كُ لِأَجْلِهِ بَلْ ذَلِكَ إعَانَةٌ لَهُ عَلَى إدْرَ اكِ الْفَضِيلَةِ وَإِقَامَةٌ لِسَدِّ الْفُرُجَاتِ الْمَأْمُورِ بِهَا فِي الصَّفِّ وَالْأَحَادِيثُ فِي هَذَا كَثِيرَةٌ شَهِيرَةٌ ( بَابُ الْإِمَا مَةِ، وُقُوف الْمَأْمُومِينَ فِي الصَّلَاة خَلْف الْإِمَام،١ / ٣٧٥، دار الكتاب الإسلامي)
مشکو ۃ شر یف میں ہے :
عَنْ أَنَسٍ قَالَ:قَالَ رَسُوْلُ ﷲِصَلَّی اﷲُ عَلَیْه وَ سَلَّمَ: رَصُّوْاصُفُوْ فَکُمْ وَقَارِبُوْ بَیْنَهَا، وَحَاذُوْ بِالْاَعْنَاقِ فَوَا لَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِه إِنِّيْ لَأَرَیَ الشَّیْطَا نَ یَدْ خُلُ مِنْ خُلَلِ ا لصَّفِّ کَأَ نَّهَا ا لْحَذَفُ. (رواه أبوداؤد)
حضر ت ا نس ر ضی ا للہ تعا لیٰ عنہ سے روایت ھے کہ رسول اللہ صلی ا للہ علیہ و سلم نے فر مایا کہ ا پنی صفیں ملی ہو ئی رکھو (یعنی آپس میں خوب ملکر کھڑ ے ہو) اورصفوں کے درمیان قرب رکھو(یعنی آپس میں خوب ملکر کھڑےہو)اورصفوں کےدرمیان قر ب رکھو ( یعنی دو صفوں کے در میان ا س قد ر فا صلہ نہ ہو کہ ا یک صف اور کھڑی ہو سکے ) نیز ا پنی گر د نیں برابر رکھو (یعنی صف میں تم میں سے کوئی بلند جگہ پر کھڑا نہ ہو، بلکہ ہم و ا ر جگہ پر کھڑا ہو تاکہ سب کی گر دنیں برابر رہیں ) قسم ہے اس ذا ت کی جس کے قبضے میں میری جان ہے میں شیطان کو بکری کے کالےبچے کی طرح تمہاری صفوں کی کشادگی میں گھستے دیکھتا ہوں۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(ويمنع من الا قتداء) صف من ا لنساء بلا حائل قدر ذراع أو ارتفا عهن قدرقامة الرجل،مفتاح السعا دة أو(طريق تجري فيه عجلة)آلة يجر ها ا لثو ر ( أ و نهرتجري فيه السفن)ولوزورقًا ولو في المسجد (أوخلاء)أي فضاء(في الصحراء) أو في مسجد كبير جدًّا كمسجد القدس(يسع صفين) فأكثر إلا إذا ا تصلت ا لصفو ف فيصح مطلقًا. (قوله:تجري فيه عجلة) أي تمر و به عبر في بعض النسخ. والعجلة بفتحتين.وفي الدرر:هوالذ ي تجر ي فيه العجلة و الأ وقار اھ و هو جمع وقر بالقاف.قال في المغرب: وأكثر استعماله في حمل ا لبغل أ و الحمار كالوسق في حمل البعير (قوله: أونهرتجري فيه السفن) أي يمكن ذلك، ومثله يقال في قوله: تمر فيه عجلة ط. وأما البركة أو ا لحوض،فإن كان بحال لو وقعت ا لنجاسةفي جانب تنجس الجانب الآخر، لايمنع وإلا منع، كذا ذكره ا لصفار إسماعيل عن المحيط. وحا صله: أ ن الحوض الكبير المذ كور في كتاب ا لطها رة يمنع أي ما لم تتصل ا لصفو ف حو له كما يأتي (قوله ولو (زورقًا)) بتقديم الزاي: السفينةالصغيرة،كمافي القاموس وفي الملتقط:إذاكان كأضيق الطر يق يمنع ، و إن بحيث لايكون طر يق مثله لا يمنع سواء كان فيه ما ء أو لا(قوله:ولوفي المسجد) صر ح به في الدرر والخانية وغيرهما (قوله: أوخلاء) بالمد:المكان الذي لا شيء به قاموس". (1/584، 585، باب الإمامة، کتاب الصلاة، ط: سعید)
البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:
وينبغي للقوم إذاقاموا إلى الصلا ةأن يتراصواويسدواالخلل ويسو وا بين مناكبهم في الصفوف، ولا بأ س أ ن يأمر هم الإمام بذلك، و ينبغي أن يكملواما يلي الإمام من الصفوف،ثم ما يلي ما يليه، وهلمّ جرًّا،وإذااستوى جانبا الإمام فإ نه يقو م ا لجا ئي عن يمينه، وإن تر جح اليمين فإنه يقوم عن يساره، وإن وجد في الصف فرجه سدّها، وإلا فينتظر حتى يجيء آخر كما قدمناه، وفي فتح القدير: وروى أ بوداود والإمام أحمد عن ابن عمر أنه قال: أقيموا الصفوف وحاذوا بين المناكب وسدوا الخلل ولينوا بأيديكم( بأيدي )إخوانكم لاتذروا فرجات للشيطان، من و صل صفًّا وصله الله، و من قطع صفًّا قطعه الله.وروى البزاربإسناد حسن عنه من سدّفرجةً في الصفّ غفر له. و في أبي داود عنه: قال: خياركم أ لينكم مناكب في الصلاة". ( 1 / 375)
لیکن مو جو دہ حالات میں حکو مت کی جانب سے جو مل کر نما ز پڑھنے پرمقدمہ ۔ جرمانہ۔ جیل اوراذیت رسانی کے جو تہدیدات ہیں بقد ر ضرورت فاصلہ رکھنے پر بلا ضرورت نماز ھو جائے گی جیسا کہ دو ستون کے در میان بلاضرورت نماز ادا کرنا مکروہ تحریمی ھے مگر ضرورتا نماز بلا کراھیت ادا ھو جاتی ھے جیسا کہ حضور صدر الشر یعہ علا مہ امجد علی اعظمی علیہ الر حمہ فتا و ی ا مجد یہ میں فر ما تے ہیں کہ: بلاضرورت مقتدیوں کو دَروں میں کھڑاہونا مکروہ ہے کہ قطع صف ہے،اور قطع صف ممنو ع ،حدیث میں ارشاد فرمایا:جس نے صف کو ملایا ،ﷲ تعالیٰ اسے ملائےگا اورجس نے صف کو قطع کیا؛ ﷲ اسے قطع کرے گا(سُنن ا بوداؤد :666بحوالہ فتاویٰ امجد یہ ج1/:163)
مز ید فر ما تے ہیں کہ ’’دَ ر و ں میں کھڑ ے نہ ہو ں کہ مکروہ ہے ہاں! ا گر مُصلّیو ں ( نمازیوں)کی کثرت ہے کہ مسجد بھر گئی اور آ د می با قی ر ہیں تو دَروں میں کھڑے ہوں کہ یہ کھڑ ا ہو نا بضر ورت ہے اور مو ا ضع ضر و ر ت مستثنیٰ ہیں،دَرخارجِ مسجدنہیں ہےاس میں کھڑاہونااِس وجہ سے مکروہ وممنوع ہے کہ صف قطع ہوتی ہےاوریہ ممنوع ہے ۔امام کو دَر میں کھڑاہونا خلافِ سنّت ہے اورنمازہوجائےگی (فتاویٰ امجد یہ ،جلد1،ص:174) واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ الاکرم صلی اللہ علیہ وسلم :
_________________________
کتبہ: محمد پرویز رضا دارالعلوم اہلسنت فیضان مصطفی اشرف نگر بھوانی گنج