اتوار، 12 اپریل، 2020

Faizaneane Mustafa Channel

 آنکھ کا آپریشن بغیر انجکشن حضرت تاج الشریعہ ساوتھ افریقہ، ماریشش، ہرارے، زمباوے، تنزایہ وغیرہ کے تقریباً ایک درجن ممالک کے تبیلغی سفر پر ۱۴؍ مارچ ۲۰۱۵ کو بریلی شریف سے روانہ ہوئے، قیام دولت کدہ بریلی سے ہی آنکھ سے کبھی کبھی خون نکل رہا تھا، سبھی لوگوں نے حضرت سے اتنا طویل سفر کرنے سے منع کیا، مگر تاریخ دے چکے تھے، اس لیے وعدہ خلافی نہ ہو، تشریف لے گئے آپ کے ہمراہ آپ کے صاحبزادہ گرامی مولانا عسجد رضا قادری بھی تھے۔ ڈربن (ساوتھ افریقہ) پہنچنے پر آنکھ میں تکلیف زیادہ بڑھ گئی، ۲۲؍ اپریل ۲۰۱۵ کو ہاسپٹل لے جا کر آنکھ کے مشہور اور تجربہ کار داکٹر کو دکھایا، انہوں نے کچھ دوائیں تجویز کیں اور آپریشن کا مشورہ دیا۔ یہ وہ آنکھ ہے جس کا تقریباً ۲۰ سال قبل بمبئی میں آپریشن ہوچکا تھا، اسی دوران آنکھ کے تحفظ کے پیش نظر پلاسٹک کے دو ٹکڑے ڈاکٹر نے لگا دئیے تھے، وہ ٹکڑے ابھر آ گئے تھے، اس لیے آنکھ سے خون بہنے لگتا تھا۔ ڈربن کے ڈاکٹر نے کہا کہ اس آنکھ کے آپریشن کے علاوہ کوئی اور طریقہ نہیں ہے، جس سے اس پر کنٹرول پایا جاسکے۔ ۲۴؍ اپریل ۲۰۱۵ء کو آپریشن کی تاریخ مقرر کردی، حضرت کو مریدین و عقیدت مند ہاسپٹل لے کر پہنچے، آپریشن کی تیاریاں مکمل ہوگئیں۔ ڈاکٹر نے حضرت کو آپریشن سے قبل بے ہوشی کا انجکشن لگانا چاہا جیسا کہ ڈاکٹروں کا معمول ہے مگر آپ نے سختی سے منع فرما دیا، کہ اس طرح کے انجکشن میں نا جائز چیزوں کی آمیزش ہوتی ہے اور دوسری نشیلی اشیاء ہوتی ہیں، اس لیے میں انجکشن نہیں لگواسکتا۔ ڈاکٹر صاحب نے حضرت کو بہت مطمئن کرنے کی کوشش کی مگر حضرت نے انکار فرمایا، پھر ڈاکٹر صاحب نے حضرت سے دوسری گزارش کی کہ اتنا حصہ سُن کر دیتا ہوں، حضرت اس پر بھی تیار نہیں ہوئے۔ اور سُن کرنے سے بھی منع کر دیا۔ عین آپریشن کے وقت ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ڈاکٹروں کا پورا پینل حضرت کو سمجھانے کی کوشش کرتا رہا، کہ آپریشن بغیر سُن کیے یا بغیر انجکشن لگائے نہیں ہوتا ہے، حضرت نے بڑے اطمینان کے ساتھ ڈاکٹروں کے پورے پینل سے فرمایا کہ آپ لوگ بالکل بے فکری کے ساتھ میری آنکھ کا آپریشن کیجیے، میں کسی بھی طرح کی نا جائز اشیاء کا استعمال نہیں کرتا ہوں، اور نا ہی پسند کرتا ہوں، ان شاء اللہ تعالیٰ مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوگی، میرے جد امجد نے بھی بغیر انجکشن کے آپریشن کرایا تھا۔ آپ لوگ اپنا کام کریں۔ اس گفتگو کے بعد ڈاکٹروں نے ہمت جتائی اور آپریشن کا آغاز کر دیا۔ حضرت بہت مطمئن اور بالکل ساکت و جامد بیٹھے رہے، تقریباً ساڑھے تین گھنٹہ آپریشن چلا، اور آنکھ میں سات (۷) ٹانکے لگے۔ آپریشن کی تکمیل تک آپ کی زبان مبارک پر درود شریف اور قصیدہ بردہ شریف کا ورد جاری رہا۔ ڈاکٹر حضرات یہ نہیں سمجھ پا رہے تھے کہ آپ کیا پڑھ رہے ہیں 

 بارش کے لیے دعا مفتی عابد حسین رضوی صدر المدرسین مدرسہ فیض العلوم جمشید پور بیان کرتے ہیں کہ آج سے تقریباً ۱۸؍ سال قبل جب حضور تاج الشریعہ مدرسہ فیض العلوم جمشید پور تشریف لائے تھے، اس موقع پر مجھ کو حضرت کی خدمت کا موقع ملا تھا۔ غسل وغیرہ کرانے کی سعادت ملی تھی، قبل ازیں الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور میں بھی زمانہ طالب علمی میں ان کے ہاتھ پاؤں دبانے کا شرف ملا تھا۔ اس خدمت کے صلہ میں حضرت نے اپنے دست اقدس سے اپنا شجرہ بھی عطا فرمایا تھا۔ اس موقع سے ایک صاحب حضرت کے پاس آئے اور عرض کیا کہ حضور میری اہلیہ کو اسقاط حمل ہوجاتا ہے۔ حمل ٹھہرتا ہے لیکن چند دن یا چند ماہ کے بعد گر جاتا ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ سات ہوئی لے کر آؤ، میں سات سوئی لے کر حاضر ہوا۔ حضرت نے تعویذ بنا کر دیا۔ وہ تعویذ اتنا اثر انداز ہوا کہ اسقاط کا مرض زائل ہوگیا، اور وہ صاحبِ اولاد ہوگئے۔ ۲۲جون ۲۰۰۸ء محبّ محترم جناب قاری عبد الجلیل صاحب شعبۂ قرآت مدرسہ فیض العلوم جمشید پور نے فقیر سے فرمایا کہ پانچ سال قبل حضرت ازہری میاں قبلہ دار العلوم حنیفہ ضیاء القرآن لکھنؤ کی دستار بندی کی ایک کانفرنس میں خطاب کے لیے مدعو تھے۔ ان دنوں وہاں بارش نہیں ہو رہی تھی۔ سخت قحط سالی کے ایام گزر رہے تھے، لوگوں نے حضرت سے عرض کی کہ حضور بارش کے لیے دعا فرمادیں۔ حضرت نے نماز استسقا پڑھی اور دعائیں کیں، ابھی دعا کر رہی رہے تھے کہ وہاں موسلادھار بارش ہونے لگی اور سارے لوگ بھیگ گئے۔ حافظ امتیاز نعمانی صاحب نے اپنی خوش بختی پر ناز کرتے ہوئے اپنے جذبات کا انوکھے انداز میں اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ میں کلکتہ میں کثیر ازدہام کی وجہ سے چادر پکڑ کر مرید ہوا تھا، کہ کاش حضور کی جی بھر کر زیارت کرلیتا، اور مصافحہ کا موقع مل جاتا۔ کافی دنوں تک یہ مراد بر نہ آئی، ۳؍ فروری ۲۰۰۳ء کو جب حضرت باری نگر ٹیلکو تشریف لائے تو جلسہ کی صبح مدرسہ فیض العلوم میں بھی تشریف لائے، میں مدرسہ کے سامنے کھڑا تھا کہ اتنے میں حضرت کی گاڑی آگئی، اس کے بعد کیا تھا میں نے خوب حضرت سے مصافحہ کیا، ہاتھوں کو بوسہ دیا اور ہاتھ پکڑ کر حضرت علامہ علیہ الرحمہ کی سابق رہائش گاہ میں لے گیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ حضرت اپنے اس مرید کی دلی کیفیات سے آگاہ ہوگئے، اس لیے اس مرتبہ اپنا موقع عنایت فرمایا کہ اس وقت میری خوشی کی انتہا نہ رہی، اس وقت حضرت کا چہرہ اتنا وجیہ اور خوبصورت تھا کہ بیان سے باہر ہے۔ 
محمد پرویز رضا دارالعلوم اہلسنت فیضان مصطفی اشرف نگر بھوانی گنج