پیر، 27 اپریل، 2020

رمضان_المبارک_کی_تیاری_کیسے_کریں

*رمضان_المبارک_کی_تیاری_کیسے_کریں*

ماہ رمضان قریب آچکا ہے۔

 خوش نصیب ہوگا وہ جسے ایک بار پھر رمضان المبارک کی مبارک ساعتیں میسر آئیں۔
 اور انتہائی بد نصیب ہوگا وہ جسے یہ ماہ مبارک ملے اور وہ اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکے۔
رمضان المبارک سے بھر پور فائدہ اٹھا نے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے سے ہی اس کی تیاری کی جائے۔
آئیے ہم سب مل کر سوچیں کہ رمضان المبارک کی تیاری کیسے کی جائے۔

*فیصلہ*

ایک فیصلہ کریں۔ پر عزم اور مضبوط فیصلہ ۔ کہ اس ماہ مبارک کو ہم اپنی زندگی کا آخری رمضان سمجھ کر گزاریں گے۔ پتہ نہیں پھر یہ سنہری موقعہ دو بارہ ملے نہ ملے۔ یہ رمضان ہماری زندگی کا فیصلہ کن موڑ ہوگا۔ اس مرتبہ ہم پورے ایک ماہ کی مشق و تر بیت کے ذریعہ اپنی زندگی کو بالکل بدل ڈالیں گے۔ اس ایک ماہی تربیتی کورس کے ذریعہ ہمارے جسم اور ہمارے دل و دماغ نیکیوں کے عادی اور برائیوں سے متنفر ہوجائیں گے۔

*ذہنی_تیاری*
اس مبارک فیصلے کے بعد آپ ذہن کو رمضان المبارک کی تیاری کے لیے یکسو کرلیں۔ جس طرح سالانہ امتحان سے پہلے ہی آپ کے دل و دماغ پر امتحان سوار ہو جاتا ہے رمضان آپ کی توجہ اور سوچ کا محور بن جائے۔ ابھی سے طے کیجیے کہ ماہ رمضان کی کس طرح بھر پور انداز سے بر کتیں سمیٹنی ہیں۔ اس عظیم سالانہ امتحان میں کس طرح انعام کا مستحق خود کو بنانا ہے۔

*تصیح_تلاوت*

کیا آپ روانی سے صحیح صحیح قرآن مجید کی تلاوت کر لیتے ہیں؟ اگر نہیں تو دیر مت کیجیے آج ہی سے کسی کو اپنا استاد بنا لیں اور قرآن مجید کی صحیح تلاوت سیکھنا شروع کر دیں۔ آپ کے ساتھی، گھر یا پڑ وس کا کوئی بزرگ، مسجد کے امام صاحب، یاقریبی مدرسے کے کوئی مدرس۔

*اگر_ممکن_سمجھیٮ_تو_ہم_سے_بھی_آنلاین_سیکھ_سکتے_ہیٮ*

 غرض یہ کہ کوئی جھجھک اور رکا وٹ نہیں ہونی چاہئے۔ کیوں کہ #رمضان تو #قرآن کا مہینہ ہے۔ اس ماہ کا بڑا حصہ تلا وت میں گزرنا چاہئے، تلاوت کرنے میں جو لطف حاصل ہوتا ہے، وہ اٹک اٹک کر پڑھنے میں کہاں مل پاتا ہے۔ یقین جانئے جو وقت آپ کے پاس ہے وہ تلاوت قرآن سیکھنے اور اسے رواں کرنے کے لیے بہت کافی ہے بس ارادے کی دیر ہے

*قیام_لیل_کی_مشق*

رمضان المبارک میں قیام لیل کی بڑی فضیلت ہے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا: جس نے رمضان کی راتوں کو ایمان واخلاص کے ساتھ قیام کیا، اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔ بڑے خوش نصیب بندے ہوتے ہیں وہ جو رات کی تاریکیوں میں اٹھ کر اپنے رب کو یاد کرتے ہیں۔ نمازیں پڑھتے ہیں تلا وت کرتے ہیں دعا اور استغفار کرتے ہیں۔ آنسووں اور سسکیوں کے نذرانے پیش کرتے ہیں۔ اس کی مشق بھی اگر ابھی سے شروع کر دیں تو رمضان کی راتوں کا لطف دو بالا ہو جائے گا۔ کیوں کہ بغیر مشق کے رات میں اٹھنا اور اٹھ کر پھر عبادت کرنا طبیعت پر بہت شاق گزرتا ہے اور اگر پہلے سے کچھ مشق اور عادت ہو جائے تو یہ مشکل کام نہایت آسان ہو جاتا ہے۔ ویسے بھی سال کی تمام راتوں میں اٹھنا مطلوب و مسنون ہے۔

*سورتیں_یاد_کرنا*
نمازوں میں پڑھنے کے لیے قرآن مجید کی جتنی سورتیں یاد ہیں ان کے علاوہ مزید کچھ سورتیں یاد کر لیں۔ جتنی زیادہ سورتیں یاد ہوں گی اتنا ہی بھرپور قیام لیل ہوگا ۔ آغاز چھوٹی سورتوں سے کریں۔

*انفاق_کی_تیاری*

پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہایت سخی اور فیاض تھے، اور سب سے زیادہ سخی وہ رمضان میں ہوتے تھے۔ رمضان المبارک میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے اور غریبوں کی مدد کرنے کی بڑی فضلیت ہے۔ اگر آپ ابھی سے اپنے فاضل اخراجات کم کرکے اور جیب خرچ کو سمیٹ کرکے رقم جمع کر لیں تو رمضان المبارک میں انفاق کے مواقع میسر آسکتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ رمضان کے علاوہ دوسرے مہینوں میں انفاق نہیں کیا جائے۔ تاہم معمول کے انفاق کے علاوہ کچھ رقم بچا کر رمضان میں انفاق کے لیے خود کو تیار کرنا بھی رمضان کی تیاریوں میں شامل ہے۔

*مسائل_و_مقاصد_سے_واقفیت*
رمضان کی علمی و فکری تیاری بھی پہلے سے ہونا چاہیے۔ رمضان کے جملہ مسائل سے واقفیت ہو۔ رمضان کے مقاصد ابھی سے ذہن نشین کرلیے جائیں۔ قرآ ن مجید کے ترجمے اور تفسیر کی مدد سے رمضان اور روزے سے متعلق آیتوں پر غور فکر کرکے رمضان کی روح کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔جن احادیث میں رمضان اور روزوں کا خصوصی تذکرہ ہے انہیں بھی ترجمے کی مدد سے پڑھا جائے۔ علماء کرام نے رمضان المبارک پر جو مضا مین اور کتابیں لکھی ہیں ان کا مطالعہ کیا جائے۔

*بری_عادتوں_سے_چھٹکارا*
بد کلامی، فحش گوئی اور فضول باتیں روزے کی روح کے منافی ہیں۔ ویسے بھی یہ وہ چیز یں ہیں جو کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتی ہیں۔ جس زبان نے اللہ اور اس کے رسول کا نام لیا ہو اس زبان پر گالی اور فحش بات کیسے آسکتی ہے؟ ایسی پیاری زبان کو تو ہمیشہ پاک و صاف رہنا چاہیے۔
ہوتا یہ ہے کہ گزشتہ عادت یا ماحول کے زیر اثر کبھی کبھی بے خیالی میں بھی غلط بات ، گالی وغیرہ زبان پر آجاتی ہے۔ اگر ابھی سے ہم اپنی زبان پر کڑی نگاہ رکھیں تو ان شاء اللہ زبان ایسی تمام باتوں سے بالکل متنفر ہو جائے گی اور بھول کر بھی یہ گندی باتیں زبان پر نہیں آسکیں گی۔اسی طرح نگاہ اور دل کی بھی کڑی نگرانی کی ضرورت ہے۔
وقت ابھی سے فارغ کیجیے
اپنے وقت پر تفصیلی نظر ڈالئے اور ابھی سے وقت کی تنظیم اس طرح کیجیے کہ رمضان کے مہینے میں زیادہ سے زیادہ عبادت کا وقت مل سکے۔ رمضان کے جو عموی کام ابھی ہوسکیں وہ ابھی کرلیں۔ غیر ضروری کاموں کو رمضان کی مصر وفیات میں سے بالکل خارج کردیں۔

*دعا_کریں*
کوئی بھی کام اللہ کی مدد اور توفیق کے بغیر نہیں ہو سکتا ہے۔ لہذا تمام تیاریوں کے ساتھ ساتھ آئیے ہم اپنے رب کریم سے دعا کریں اور کرتے رہیں کہ رب کریم ہمیں رمضان المبارک کی رحمتوں اور بر کتوں سے زیادہ سے زیادہ فیضاب ہونے کا موقع اور توفیق دے۔
آمین 
محمد پرویز رضا دارالعلوم اہلسنت فیضان مصطفی اشرف نگر بھوانی گنج 
بسم الله الرحمن الرحيم

        بھلائی، برائی کو مٹا دیتی ہے
30/04/2020

            ابتدائے آفرینش ہی سے انسان کے ساتھ نیکی و بدی، خیر و شر کا تعلق ہے بقولِ نبی کریم صلى الله عليه وسلم تمام اولاد آدم غلطی کرنے والی ہے گناہ سے كوئی انسان پرے نہیں اور نہ ہی کوئی گناہ سے عصمت کا دعویٰ کر سکتا ہے مگر یہ اللہ رب العالمین کی خاص رحمت ہے کہ وہ بندہ کی غلطی پر دفعتاً سرزنش نہیں کرتا اور نہ ہی فوراً سزا دیتا ہے بلکہ گناہ کو ختم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے توبہ و استغفار اور نیکیوں کا دروازہ کھول رکھا ہے جس کے ذریعہ انسانی خطائیں اور لغزشیں مٹ اور دُھل جاتی ہیں، لہذا خردمندی کا تقاضا یہ ہے کہ انسانیت کے ناطے جب بھی انسان سے کسی برائی کا صدور ہوجائے تو وہ فوراً توبہ یا عمل صالح کے دروازے کو دستک دے،اللہ تعالیٰ نے اس کو اہل ایمان کا وصف قرار دیا ہے اللہ کا فرمان :

*{وَٱلَّذِینَ إِذَا فَعَلُوا۟ فَـٰحِشَةً أَوۡ ظَلَمُوۤا۟ أَنفُسَهُمۡ ذَكَرُوا۟ ٱللَّهَ فَٱسۡتَغۡفَرُوا۟ لِذُنُوبِهِمۡ وَمَن یَغۡفِرُ ٱلذُّنُوبَ إِلَّا ٱللَّهُ وَلَمۡ یُصِرُّوا۟ عَلَىٰ مَا فَعَلُوا۟ وَهُمۡ یَعۡلَمُونَ}* [آل عمران: 135]
جب ان سے کوئی فحش (برا) کام ہو جائے یا کوئی گناه کر بیٹھیں تو فوراً اللہ کا ذکر اور اپنے گناہوں کے لیے استغفار کرتے ہیں، فی الواقع اللہ تعالیٰ کے سوا اور کون گناہوں کو بخش سکتا ہے؟ اور وه لوگ باوجود علم کے کسی برے کام پر اڑ نہیں جاتے-
گناہ کے سرزد ہونے کے بعد اس کے پیچھے ہی انسان 
کو اس کی معافی کے لیے نیک عمل کرنے کی نبی صلى الله عليه وسلم نے وصیت کی ہے، 
 ایک مرتبہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ابوذر رضی اللہ عنہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :

*"اتَّقِ اللَّهَ حَيْثُمَا كُنْتَ، وَأَتْبِعِ السَّيِّئَةَ الْحَسَنَةَ تَمْحُهَا، وَخَالِقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ"* [ حسن : ترمذی، 1987] (اے ابوذر تم) جہاں بھی رہو اللہ سے ڈرو، برائی سرزد ہونے کے بعد بھلائی کروجو برائی کومٹادے-
ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے کہا :
*"إذا عَمِلْتَ سيئةً فأتبِعْها حسنةً تَمحُها قالَ: قلتُ يا رسولَ اللهِ ! أمِنَ الحسَناتِ لا إلهَ إلّا اللهُ ! قالَ: هيَ أفضَلُ الحسَناتِ"* [صحيح الترغيب للألبانى:3162 صحيح•] جب تم سے بدی ہوجائے تو نیکی کر لو جو اس بدی کو مٹا دے ابوذر نے پوچھا کیا "لا إله إلا الله " نیکیوں میں سے ہے تو آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا : یہ تو افضل نیکیوں میں سے ہے-
عبداللہ بن عمرو کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : 

*"اعْبُدِ اللهَ لا تُشْرِكْ بهِ شيئًا. قال: يا نَبِيَّ اللهِ ! زِدني، قال: إذا أَسَأْتَ فَأَحْسِنْ. قال: يا نَبِيَّ اللهِ ! زِدني، قال: اسْتَقِمْ، ولْيَحْسُنْ خُلُقُكَ"*  [صحيح الترغيب للألبانى: 2654، حسن] اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ شریک نہ بناؤ، انہوں (ایک روایت میں ہے معاذ بن جبل) نے کہا اے اللہ کے نبی! مزید نصیحت فرمائیں، آپ علیہ السلام نے فرمایا: جب تم برائی کر بیٹھو تو پیچھے ہی اچھائی کرو، پھرانہوں نے کہا کہ اے اللہ کے نبی! مزید بتائیں، آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:ثابت قدم رہو اور اپنے اخلاق اچھے بنا لو. 
حدیث مذکور میں بھی نبی کریم نے برائی ہو جانے کے معاً بعد نیکی کرنے کی طرف رہنمائی کی ہے،تاکہ اس بھلائی سے برائی کا خاتمہ ہو، اس سلسلے میں قرآن مجید کی ایک آیت کریمہ مشہور و معروف ہے،  ارشاد باری تعالیٰ ہے :
*﴿وَأَقِمِ ٱلصَّلَوٰةَ طَرَفَیِ ٱلنَّهَارِ وَزُلَفࣰا مِّنَ ٱلَّیۡلِۚ إِنَّ ٱلۡحَسَنَـٰتِ یُذۡهِبۡنَ ٱلسَّیِّـَٔاتِۚ ذَ ٰ⁠لِكَ ذِكۡرَىٰ لِلذَّ ٰ⁠كِرِینَ}* [هود:114] دن کے دونوں سروں میں نماز برپا رکھ اور رات کی کئی ساعتوں میں بھی، یقیناً نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں۔ یہ نصیحت ہے نصیحت پکڑنے والوں کے لیے - 
 نزول آیت کا اصل سبب وہ واقعہ ہے جو عہد نبوی میں پیش آیا تھا، جس کو بہتیرے محدثین نے نقل کیا ہے ، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:

*"أَنَّ رَجُلًا أَصَابَ مِنِ امْرَأَةٍ قُبْلَةً، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَأُنْزِلَتْ عَلَيْهِ : { وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ }. قَالَ الرَّجُلُ : أَلِيَ هَذِهِ ؟ قَالَ : " لِمَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ أُمَّتِي"* [بخاری :4687] 
ایک شخص نے کسی عورت کو بوسہ دے دیا اور پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے اپنا گناہ بیان کیا ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ((اور تم نماز کی پابندی کرو دن کے دونوں سروں پر اور رات کے کچھ حصوں میں بےشک نیکیاں مٹا دیتی ہیں بدیوں کو ، یہ ایک نصیحت ہے نصیحت ماننے والوں کے لئے)) ۔ ان صاحب نے عرض کیا یہ آیت صرف میرے ہی لئے ہے ( کہ نیکیاں بدیوں کو مٹا دیتی ہیں ) ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کے ہر انسان کے لئے ہے جو اس پر عمل کرے-
آیت کی تفسیر میں شیخ عبدالرحمن سعدی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
*": فهذه الصلوات الخمس، وما ألحق بها من التطوعات من أكبر الحسنات، وهي: مع أنها حسنات تقرب إلى الله، وتوجب الثواب، فإنها تذهب السيئات وتمحوها، والمراد بذلك: الصغائر، كما قيدتها الأحاديث الصحيحة عن النبي ، مثل قوله: "الصلوات الخمس، والجمعة إلى الجمعة، ورمضان إلى رمضان، مكفرات لما بينهن ما اجتنبت الكبائر"* [تفسير سعدي:سورة هود، آية 114] کہ پنج وقتہ نمازیں اور ان سے جڑی نوافل سب سے بڑی نیکیوں میں سے ہیں  یہ نمازیں ایک طرف تو اللہ سے قریب کرنے والی اور اجر و ثواب کا حقدار بنانے والی نیکیاں ہیں تو دوسری طرف برائیوں کو ختم کرنے والی مٹادینے والی نیکیاں ہیں، نیز یہاں صغائر گناہ کا مٹنا مراد ہے جیسا کہ صحیح احادیث میں اس کی قید لگائی گئی ہے نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا :جب (انسان) کبیرہ گناہوں سے اجتناب کر رہا ہو تو پانچ نمازیں ، ایک جمعہ ( دوسرے ) جمعہ تک اور ایک رمضان دوسرے رمضان تک ، درمیان کے عرصے میں ہونے والے گناہوں کو مٹانے کا سبب ہیں ۔
ایک حدیث میں آپ صلى الله عليه وسلم نے کا فرمان ہے :
*"مَا مِنْ عَبْدٍ يُذْنِبُ ذَنْبًا، فَيُحْسِنُ الطُّهُورَ، ثُمَّ يَقُومُ فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ يَسْتَغْفِرُ اللَّهَ ؛ إِلَّا غَفَرَ اللَّهُ لَهُ"*  [ابوداؤد :1521] کوئی بندہ ایسا نہیں جو کوئی گناہ کر بیٹھے پھر وضو کرے اچھی طرح ، پھر کھڑا ہو اور دو رکعتیں پڑھے اور اللہ سے استغفار کرے ، مگر اللہ اسے معاف کر دیتا ہے - 
اس ضمن میں بخاری شریف میں وارد وہ واقعہ بھی قابل ذکر ہے جس کو انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کیا ہے، 
 انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا کہ ایک صاحب کعب بن عمرو آئے اور کہا یا رسول اللہ! مجھ پر حد واجب ہوگئی ہے۔ آپ مجھ پر حد جاری کیجئے۔ بیان کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کچھ نہیں پوچھا۔ بیان کیا کہ پھر نماز کا وقت ہوگیا اور ان صاحب نے بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ جب نبی کریم نماز پڑھ چکے تو وہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کھڑے ہوگئے اور کہا یا رسول اللہ! مجھ پر حد واجب ہوگئی ہے آپ کتاب اللہ کے حکم کے مطابق مجھ پر حد جاری کیجئے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا۔ کیا تم نے ابھی ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اللہ نے تیرا گناہ معاف کردیا۔ یا فرمایا کہ تیری غلطی یا حد ( معاف کردی) [ بخاری : 6823] 
صحابہ کرام کا ارتکابِ گناہ کے بعد اس طرح نبی کریم کے روبرو اعتراف گناہ کرنا اور سزا کی مانگ کرنا ان کی حساسیت پر دلالت کرتا ہے کہ احساسِ گناہ سے ان کے قلوب کس قدر لبریز تھے وہ غلطی ہونے پر شرمندگی و ندامت کا اظہار کرتے ان کے دلوں میں اضطراب و بے چینی کی کیفیت طاری ہوجاتی اور یہ ایک چشم کشا حقیقت ہے کہ گناہ سے انسان کو دلی کوفت ہوتی ہے اور نیکی سے شرح صدر حاصل ہوتا ہے اور سچے مومن کی علامت بھی یہی ہے کہ وہ نیکی پر خوش اور برائی ہونے پر گھٹن محسوس کرتا ہے، ایک شخص نے نبی صلى الله عليه وسلم سے دریافت کیا اے اللہ کے رسول! ایمان کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا :
 *"إِذَا سَرَّتْكَ حَسَنَتُكَ، وَسَاءَتْكَ سَيِّئَتُكَ فَأَنْتَ مُؤْمِنٌ"*  [مسند احمد : 22199،السلسلة الصحيحة، 2/91] ایمان یہ ہے کہ تمہاری نیکی تمہیں خوش کر دے اور تمہاری برائی سے تمہیں تکلیف ہو - 
 برائی کے بعد بھلائی کرنے والے کی حدیث مبارک میں بہترین مثال پیش کی گئی ہے نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا :
  *"إن مَثَلَ الذي يعملُ السيئاتِ، ثم يَعملُ الحسناتِ: كَمَثَلِ رجلٍ كانت عليه دِرْعٌ ضَيِّقةٌ قد خَنَقَتْهُ، ثم عمِل حسنةً فانفَكَّت حَلْقَةٌ، ثم عمِل أخرى فانفَكَّت حَلْقَةٌ، ثم عمِل أخرى فانفَكَّت حَلْقَةٌ أخرى، حتى تَخرجَ إلى الأرضِ"* [تخريج مشكاة المصابيح للألبانى : 2313' صحيح] اس آدمی کی مثال جو بدی کے بعد نیکی کرتا ہے اس شخص کی طرح ہے جس نے نہایت تنگ زرہ پہن رکھی ہو جو اس کا گلا گھونٹ رہی ہو پھر وہ آدمی کوئی نیکی کرتا ہے تو اس کے زرہ کی گرفت ڈھیلی ہوجاتی ہے وہ پھر نیکی کرتا ہے اور زرہ کی گرفت کمزور ہوجاتی ہے پھر نیکی کرتا ہے زرہ مزید ڈھیلی ہوجاتی ہے یہاں تک وہ راحت محسوس کرنے لگتا ہے - 
اور جس کی یہ عادت بن جاتی ہے اس کی نیکیوں کا پلڑا اس کی برائیوں پر بھاری پڑ جاتا ہے. 

خلاصہ مضمون یہ ہے کہ بتقاضہ بشریت ہر انسان سے عصیان و کارِ بد کا صدور لا محالہ امر ہے لیکن صاحبِ فراست شخص وہ ہے جو حتی الامکان گناہ سے بچنے کی کوشش اور دعائیں کرتا ہے اور اگر گناہ و معصیت ہو جائے تو اس پر اڑا نہیں رہتا اور عذرِ گناہ بد تر از گناہ کے مطابق گناہ پر حیلہ حوالے نہیں تلاشتا بلکہ فوراً اچھائی کی طرف اقدام کرتا ہے اور رب تعالیٰ کے حضور اشکِ ندامت بہاتا ہے،  اللہ کے نبی صلى الله عليه وسلم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ دن میں اپنے ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ رات کا گناہ گار معافی مانگے اور اللہ تعالیٰ رات میں اپنے ہاتھ پھیلاتا ہے کہ دن میں گناہ کرنے والا معافی طلب کرے، جب بندہ اس ساعت میں اللہ سے معافی مانگتا ہے تو رب العالمین اس کی خطاؤں پر قلمِ عفو و غفران پھیر دیتا ہے. 

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں ہر قسم کے گناہ و نافرمانی سے بچائے نیکی کی توفیق عطا فرمائے آمین.