پیر، 27 اپریل، 2020

رمضان_المبارک_کی_تیاری_کیسے_کریں

*رمضان_المبارک_کی_تیاری_کیسے_کریں*

ماہ رمضان قریب آچکا ہے۔

 خوش نصیب ہوگا وہ جسے ایک بار پھر رمضان المبارک کی مبارک ساعتیں میسر آئیں۔
 اور انتہائی بد نصیب ہوگا وہ جسے یہ ماہ مبارک ملے اور وہ اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکے۔
رمضان المبارک سے بھر پور فائدہ اٹھا نے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے سے ہی اس کی تیاری کی جائے۔
آئیے ہم سب مل کر سوچیں کہ رمضان المبارک کی تیاری کیسے کی جائے۔

*فیصلہ*

ایک فیصلہ کریں۔ پر عزم اور مضبوط فیصلہ ۔ کہ اس ماہ مبارک کو ہم اپنی زندگی کا آخری رمضان سمجھ کر گزاریں گے۔ پتہ نہیں پھر یہ سنہری موقعہ دو بارہ ملے نہ ملے۔ یہ رمضان ہماری زندگی کا فیصلہ کن موڑ ہوگا۔ اس مرتبہ ہم پورے ایک ماہ کی مشق و تر بیت کے ذریعہ اپنی زندگی کو بالکل بدل ڈالیں گے۔ اس ایک ماہی تربیتی کورس کے ذریعہ ہمارے جسم اور ہمارے دل و دماغ نیکیوں کے عادی اور برائیوں سے متنفر ہوجائیں گے۔

*ذہنی_تیاری*
اس مبارک فیصلے کے بعد آپ ذہن کو رمضان المبارک کی تیاری کے لیے یکسو کرلیں۔ جس طرح سالانہ امتحان سے پہلے ہی آپ کے دل و دماغ پر امتحان سوار ہو جاتا ہے رمضان آپ کی توجہ اور سوچ کا محور بن جائے۔ ابھی سے طے کیجیے کہ ماہ رمضان کی کس طرح بھر پور انداز سے بر کتیں سمیٹنی ہیں۔ اس عظیم سالانہ امتحان میں کس طرح انعام کا مستحق خود کو بنانا ہے۔

*تصیح_تلاوت*

کیا آپ روانی سے صحیح صحیح قرآن مجید کی تلاوت کر لیتے ہیں؟ اگر نہیں تو دیر مت کیجیے آج ہی سے کسی کو اپنا استاد بنا لیں اور قرآن مجید کی صحیح تلاوت سیکھنا شروع کر دیں۔ آپ کے ساتھی، گھر یا پڑ وس کا کوئی بزرگ، مسجد کے امام صاحب، یاقریبی مدرسے کے کوئی مدرس۔

*اگر_ممکن_سمجھیٮ_تو_ہم_سے_بھی_آنلاین_سیکھ_سکتے_ہیٮ*

 غرض یہ کہ کوئی جھجھک اور رکا وٹ نہیں ہونی چاہئے۔ کیوں کہ #رمضان تو #قرآن کا مہینہ ہے۔ اس ماہ کا بڑا حصہ تلا وت میں گزرنا چاہئے، تلاوت کرنے میں جو لطف حاصل ہوتا ہے، وہ اٹک اٹک کر پڑھنے میں کہاں مل پاتا ہے۔ یقین جانئے جو وقت آپ کے پاس ہے وہ تلاوت قرآن سیکھنے اور اسے رواں کرنے کے لیے بہت کافی ہے بس ارادے کی دیر ہے

*قیام_لیل_کی_مشق*

رمضان المبارک میں قیام لیل کی بڑی فضیلت ہے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا: جس نے رمضان کی راتوں کو ایمان واخلاص کے ساتھ قیام کیا، اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔ بڑے خوش نصیب بندے ہوتے ہیں وہ جو رات کی تاریکیوں میں اٹھ کر اپنے رب کو یاد کرتے ہیں۔ نمازیں پڑھتے ہیں تلا وت کرتے ہیں دعا اور استغفار کرتے ہیں۔ آنسووں اور سسکیوں کے نذرانے پیش کرتے ہیں۔ اس کی مشق بھی اگر ابھی سے شروع کر دیں تو رمضان کی راتوں کا لطف دو بالا ہو جائے گا۔ کیوں کہ بغیر مشق کے رات میں اٹھنا اور اٹھ کر پھر عبادت کرنا طبیعت پر بہت شاق گزرتا ہے اور اگر پہلے سے کچھ مشق اور عادت ہو جائے تو یہ مشکل کام نہایت آسان ہو جاتا ہے۔ ویسے بھی سال کی تمام راتوں میں اٹھنا مطلوب و مسنون ہے۔

*سورتیں_یاد_کرنا*
نمازوں میں پڑھنے کے لیے قرآن مجید کی جتنی سورتیں یاد ہیں ان کے علاوہ مزید کچھ سورتیں یاد کر لیں۔ جتنی زیادہ سورتیں یاد ہوں گی اتنا ہی بھرپور قیام لیل ہوگا ۔ آغاز چھوٹی سورتوں سے کریں۔

*انفاق_کی_تیاری*

پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہایت سخی اور فیاض تھے، اور سب سے زیادہ سخی وہ رمضان میں ہوتے تھے۔ رمضان المبارک میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے اور غریبوں کی مدد کرنے کی بڑی فضلیت ہے۔ اگر آپ ابھی سے اپنے فاضل اخراجات کم کرکے اور جیب خرچ کو سمیٹ کرکے رقم جمع کر لیں تو رمضان المبارک میں انفاق کے مواقع میسر آسکتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ رمضان کے علاوہ دوسرے مہینوں میں انفاق نہیں کیا جائے۔ تاہم معمول کے انفاق کے علاوہ کچھ رقم بچا کر رمضان میں انفاق کے لیے خود کو تیار کرنا بھی رمضان کی تیاریوں میں شامل ہے۔

*مسائل_و_مقاصد_سے_واقفیت*
رمضان کی علمی و فکری تیاری بھی پہلے سے ہونا چاہیے۔ رمضان کے جملہ مسائل سے واقفیت ہو۔ رمضان کے مقاصد ابھی سے ذہن نشین کرلیے جائیں۔ قرآ ن مجید کے ترجمے اور تفسیر کی مدد سے رمضان اور روزے سے متعلق آیتوں پر غور فکر کرکے رمضان کی روح کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔جن احادیث میں رمضان اور روزوں کا خصوصی تذکرہ ہے انہیں بھی ترجمے کی مدد سے پڑھا جائے۔ علماء کرام نے رمضان المبارک پر جو مضا مین اور کتابیں لکھی ہیں ان کا مطالعہ کیا جائے۔

*بری_عادتوں_سے_چھٹکارا*
بد کلامی، فحش گوئی اور فضول باتیں روزے کی روح کے منافی ہیں۔ ویسے بھی یہ وہ چیز یں ہیں جو کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتی ہیں۔ جس زبان نے اللہ اور اس کے رسول کا نام لیا ہو اس زبان پر گالی اور فحش بات کیسے آسکتی ہے؟ ایسی پیاری زبان کو تو ہمیشہ پاک و صاف رہنا چاہیے۔
ہوتا یہ ہے کہ گزشتہ عادت یا ماحول کے زیر اثر کبھی کبھی بے خیالی میں بھی غلط بات ، گالی وغیرہ زبان پر آجاتی ہے۔ اگر ابھی سے ہم اپنی زبان پر کڑی نگاہ رکھیں تو ان شاء اللہ زبان ایسی تمام باتوں سے بالکل متنفر ہو جائے گی اور بھول کر بھی یہ گندی باتیں زبان پر نہیں آسکیں گی۔اسی طرح نگاہ اور دل کی بھی کڑی نگرانی کی ضرورت ہے۔
وقت ابھی سے فارغ کیجیے
اپنے وقت پر تفصیلی نظر ڈالئے اور ابھی سے وقت کی تنظیم اس طرح کیجیے کہ رمضان کے مہینے میں زیادہ سے زیادہ عبادت کا وقت مل سکے۔ رمضان کے جو عموی کام ابھی ہوسکیں وہ ابھی کرلیں۔ غیر ضروری کاموں کو رمضان کی مصر وفیات میں سے بالکل خارج کردیں۔

*دعا_کریں*
کوئی بھی کام اللہ کی مدد اور توفیق کے بغیر نہیں ہو سکتا ہے۔ لہذا تمام تیاریوں کے ساتھ ساتھ آئیے ہم اپنے رب کریم سے دعا کریں اور کرتے رہیں کہ رب کریم ہمیں رمضان المبارک کی رحمتوں اور بر کتوں سے زیادہ سے زیادہ فیضاب ہونے کا موقع اور توفیق دے۔
آمین 
محمد پرویز رضا دارالعلوم اہلسنت فیضان مصطفی اشرف نگر بھوانی گنج 
بسم الله الرحمن الرحيم

        بھلائی، برائی کو مٹا دیتی ہے
30/04/2020

            ابتدائے آفرینش ہی سے انسان کے ساتھ نیکی و بدی، خیر و شر کا تعلق ہے بقولِ نبی کریم صلى الله عليه وسلم تمام اولاد آدم غلطی کرنے والی ہے گناہ سے كوئی انسان پرے نہیں اور نہ ہی کوئی گناہ سے عصمت کا دعویٰ کر سکتا ہے مگر یہ اللہ رب العالمین کی خاص رحمت ہے کہ وہ بندہ کی غلطی پر دفعتاً سرزنش نہیں کرتا اور نہ ہی فوراً سزا دیتا ہے بلکہ گناہ کو ختم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے توبہ و استغفار اور نیکیوں کا دروازہ کھول رکھا ہے جس کے ذریعہ انسانی خطائیں اور لغزشیں مٹ اور دُھل جاتی ہیں، لہذا خردمندی کا تقاضا یہ ہے کہ انسانیت کے ناطے جب بھی انسان سے کسی برائی کا صدور ہوجائے تو وہ فوراً توبہ یا عمل صالح کے دروازے کو دستک دے،اللہ تعالیٰ نے اس کو اہل ایمان کا وصف قرار دیا ہے اللہ کا فرمان :

*{وَٱلَّذِینَ إِذَا فَعَلُوا۟ فَـٰحِشَةً أَوۡ ظَلَمُوۤا۟ أَنفُسَهُمۡ ذَكَرُوا۟ ٱللَّهَ فَٱسۡتَغۡفَرُوا۟ لِذُنُوبِهِمۡ وَمَن یَغۡفِرُ ٱلذُّنُوبَ إِلَّا ٱللَّهُ وَلَمۡ یُصِرُّوا۟ عَلَىٰ مَا فَعَلُوا۟ وَهُمۡ یَعۡلَمُونَ}* [آل عمران: 135]
جب ان سے کوئی فحش (برا) کام ہو جائے یا کوئی گناه کر بیٹھیں تو فوراً اللہ کا ذکر اور اپنے گناہوں کے لیے استغفار کرتے ہیں، فی الواقع اللہ تعالیٰ کے سوا اور کون گناہوں کو بخش سکتا ہے؟ اور وه لوگ باوجود علم کے کسی برے کام پر اڑ نہیں جاتے-
گناہ کے سرزد ہونے کے بعد اس کے پیچھے ہی انسان 
کو اس کی معافی کے لیے نیک عمل کرنے کی نبی صلى الله عليه وسلم نے وصیت کی ہے، 
 ایک مرتبہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ابوذر رضی اللہ عنہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :

*"اتَّقِ اللَّهَ حَيْثُمَا كُنْتَ، وَأَتْبِعِ السَّيِّئَةَ الْحَسَنَةَ تَمْحُهَا، وَخَالِقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ"* [ حسن : ترمذی، 1987] (اے ابوذر تم) جہاں بھی رہو اللہ سے ڈرو، برائی سرزد ہونے کے بعد بھلائی کروجو برائی کومٹادے-
ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے کہا :
*"إذا عَمِلْتَ سيئةً فأتبِعْها حسنةً تَمحُها قالَ: قلتُ يا رسولَ اللهِ ! أمِنَ الحسَناتِ لا إلهَ إلّا اللهُ ! قالَ: هيَ أفضَلُ الحسَناتِ"* [صحيح الترغيب للألبانى:3162 صحيح•] جب تم سے بدی ہوجائے تو نیکی کر لو جو اس بدی کو مٹا دے ابوذر نے پوچھا کیا "لا إله إلا الله " نیکیوں میں سے ہے تو آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا : یہ تو افضل نیکیوں میں سے ہے-
عبداللہ بن عمرو کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : 

*"اعْبُدِ اللهَ لا تُشْرِكْ بهِ شيئًا. قال: يا نَبِيَّ اللهِ ! زِدني، قال: إذا أَسَأْتَ فَأَحْسِنْ. قال: يا نَبِيَّ اللهِ ! زِدني، قال: اسْتَقِمْ، ولْيَحْسُنْ خُلُقُكَ"*  [صحيح الترغيب للألبانى: 2654، حسن] اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ شریک نہ بناؤ، انہوں (ایک روایت میں ہے معاذ بن جبل) نے کہا اے اللہ کے نبی! مزید نصیحت فرمائیں، آپ علیہ السلام نے فرمایا: جب تم برائی کر بیٹھو تو پیچھے ہی اچھائی کرو، پھرانہوں نے کہا کہ اے اللہ کے نبی! مزید بتائیں، آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:ثابت قدم رہو اور اپنے اخلاق اچھے بنا لو. 
حدیث مذکور میں بھی نبی کریم نے برائی ہو جانے کے معاً بعد نیکی کرنے کی طرف رہنمائی کی ہے،تاکہ اس بھلائی سے برائی کا خاتمہ ہو، اس سلسلے میں قرآن مجید کی ایک آیت کریمہ مشہور و معروف ہے،  ارشاد باری تعالیٰ ہے :
*﴿وَأَقِمِ ٱلصَّلَوٰةَ طَرَفَیِ ٱلنَّهَارِ وَزُلَفࣰا مِّنَ ٱلَّیۡلِۚ إِنَّ ٱلۡحَسَنَـٰتِ یُذۡهِبۡنَ ٱلسَّیِّـَٔاتِۚ ذَ ٰ⁠لِكَ ذِكۡرَىٰ لِلذَّ ٰ⁠كِرِینَ}* [هود:114] دن کے دونوں سروں میں نماز برپا رکھ اور رات کی کئی ساعتوں میں بھی، یقیناً نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں۔ یہ نصیحت ہے نصیحت پکڑنے والوں کے لیے - 
 نزول آیت کا اصل سبب وہ واقعہ ہے جو عہد نبوی میں پیش آیا تھا، جس کو بہتیرے محدثین نے نقل کیا ہے ، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:

*"أَنَّ رَجُلًا أَصَابَ مِنِ امْرَأَةٍ قُبْلَةً، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَأُنْزِلَتْ عَلَيْهِ : { وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ }. قَالَ الرَّجُلُ : أَلِيَ هَذِهِ ؟ قَالَ : " لِمَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ أُمَّتِي"* [بخاری :4687] 
ایک شخص نے کسی عورت کو بوسہ دے دیا اور پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے اپنا گناہ بیان کیا ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ((اور تم نماز کی پابندی کرو دن کے دونوں سروں پر اور رات کے کچھ حصوں میں بےشک نیکیاں مٹا دیتی ہیں بدیوں کو ، یہ ایک نصیحت ہے نصیحت ماننے والوں کے لئے)) ۔ ان صاحب نے عرض کیا یہ آیت صرف میرے ہی لئے ہے ( کہ نیکیاں بدیوں کو مٹا دیتی ہیں ) ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کے ہر انسان کے لئے ہے جو اس پر عمل کرے-
آیت کی تفسیر میں شیخ عبدالرحمن سعدی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
*": فهذه الصلوات الخمس، وما ألحق بها من التطوعات من أكبر الحسنات، وهي: مع أنها حسنات تقرب إلى الله، وتوجب الثواب، فإنها تذهب السيئات وتمحوها، والمراد بذلك: الصغائر، كما قيدتها الأحاديث الصحيحة عن النبي ، مثل قوله: "الصلوات الخمس، والجمعة إلى الجمعة، ورمضان إلى رمضان، مكفرات لما بينهن ما اجتنبت الكبائر"* [تفسير سعدي:سورة هود، آية 114] کہ پنج وقتہ نمازیں اور ان سے جڑی نوافل سب سے بڑی نیکیوں میں سے ہیں  یہ نمازیں ایک طرف تو اللہ سے قریب کرنے والی اور اجر و ثواب کا حقدار بنانے والی نیکیاں ہیں تو دوسری طرف برائیوں کو ختم کرنے والی مٹادینے والی نیکیاں ہیں، نیز یہاں صغائر گناہ کا مٹنا مراد ہے جیسا کہ صحیح احادیث میں اس کی قید لگائی گئی ہے نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا :جب (انسان) کبیرہ گناہوں سے اجتناب کر رہا ہو تو پانچ نمازیں ، ایک جمعہ ( دوسرے ) جمعہ تک اور ایک رمضان دوسرے رمضان تک ، درمیان کے عرصے میں ہونے والے گناہوں کو مٹانے کا سبب ہیں ۔
ایک حدیث میں آپ صلى الله عليه وسلم نے کا فرمان ہے :
*"مَا مِنْ عَبْدٍ يُذْنِبُ ذَنْبًا، فَيُحْسِنُ الطُّهُورَ، ثُمَّ يَقُومُ فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ يَسْتَغْفِرُ اللَّهَ ؛ إِلَّا غَفَرَ اللَّهُ لَهُ"*  [ابوداؤد :1521] کوئی بندہ ایسا نہیں جو کوئی گناہ کر بیٹھے پھر وضو کرے اچھی طرح ، پھر کھڑا ہو اور دو رکعتیں پڑھے اور اللہ سے استغفار کرے ، مگر اللہ اسے معاف کر دیتا ہے - 
اس ضمن میں بخاری شریف میں وارد وہ واقعہ بھی قابل ذکر ہے جس کو انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کیا ہے، 
 انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا کہ ایک صاحب کعب بن عمرو آئے اور کہا یا رسول اللہ! مجھ پر حد واجب ہوگئی ہے۔ آپ مجھ پر حد جاری کیجئے۔ بیان کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کچھ نہیں پوچھا۔ بیان کیا کہ پھر نماز کا وقت ہوگیا اور ان صاحب نے بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ جب نبی کریم نماز پڑھ چکے تو وہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کھڑے ہوگئے اور کہا یا رسول اللہ! مجھ پر حد واجب ہوگئی ہے آپ کتاب اللہ کے حکم کے مطابق مجھ پر حد جاری کیجئے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا۔ کیا تم نے ابھی ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اللہ نے تیرا گناہ معاف کردیا۔ یا فرمایا کہ تیری غلطی یا حد ( معاف کردی) [ بخاری : 6823] 
صحابہ کرام کا ارتکابِ گناہ کے بعد اس طرح نبی کریم کے روبرو اعتراف گناہ کرنا اور سزا کی مانگ کرنا ان کی حساسیت پر دلالت کرتا ہے کہ احساسِ گناہ سے ان کے قلوب کس قدر لبریز تھے وہ غلطی ہونے پر شرمندگی و ندامت کا اظہار کرتے ان کے دلوں میں اضطراب و بے چینی کی کیفیت طاری ہوجاتی اور یہ ایک چشم کشا حقیقت ہے کہ گناہ سے انسان کو دلی کوفت ہوتی ہے اور نیکی سے شرح صدر حاصل ہوتا ہے اور سچے مومن کی علامت بھی یہی ہے کہ وہ نیکی پر خوش اور برائی ہونے پر گھٹن محسوس کرتا ہے، ایک شخص نے نبی صلى الله عليه وسلم سے دریافت کیا اے اللہ کے رسول! ایمان کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا :
 *"إِذَا سَرَّتْكَ حَسَنَتُكَ، وَسَاءَتْكَ سَيِّئَتُكَ فَأَنْتَ مُؤْمِنٌ"*  [مسند احمد : 22199،السلسلة الصحيحة، 2/91] ایمان یہ ہے کہ تمہاری نیکی تمہیں خوش کر دے اور تمہاری برائی سے تمہیں تکلیف ہو - 
 برائی کے بعد بھلائی کرنے والے کی حدیث مبارک میں بہترین مثال پیش کی گئی ہے نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا :
  *"إن مَثَلَ الذي يعملُ السيئاتِ، ثم يَعملُ الحسناتِ: كَمَثَلِ رجلٍ كانت عليه دِرْعٌ ضَيِّقةٌ قد خَنَقَتْهُ، ثم عمِل حسنةً فانفَكَّت حَلْقَةٌ، ثم عمِل أخرى فانفَكَّت حَلْقَةٌ، ثم عمِل أخرى فانفَكَّت حَلْقَةٌ أخرى، حتى تَخرجَ إلى الأرضِ"* [تخريج مشكاة المصابيح للألبانى : 2313' صحيح] اس آدمی کی مثال جو بدی کے بعد نیکی کرتا ہے اس شخص کی طرح ہے جس نے نہایت تنگ زرہ پہن رکھی ہو جو اس کا گلا گھونٹ رہی ہو پھر وہ آدمی کوئی نیکی کرتا ہے تو اس کے زرہ کی گرفت ڈھیلی ہوجاتی ہے وہ پھر نیکی کرتا ہے اور زرہ کی گرفت کمزور ہوجاتی ہے پھر نیکی کرتا ہے زرہ مزید ڈھیلی ہوجاتی ہے یہاں تک وہ راحت محسوس کرنے لگتا ہے - 
اور جس کی یہ عادت بن جاتی ہے اس کی نیکیوں کا پلڑا اس کی برائیوں پر بھاری پڑ جاتا ہے. 

خلاصہ مضمون یہ ہے کہ بتقاضہ بشریت ہر انسان سے عصیان و کارِ بد کا صدور لا محالہ امر ہے لیکن صاحبِ فراست شخص وہ ہے جو حتی الامکان گناہ سے بچنے کی کوشش اور دعائیں کرتا ہے اور اگر گناہ و معصیت ہو جائے تو اس پر اڑا نہیں رہتا اور عذرِ گناہ بد تر از گناہ کے مطابق گناہ پر حیلہ حوالے نہیں تلاشتا بلکہ فوراً اچھائی کی طرف اقدام کرتا ہے اور رب تعالیٰ کے حضور اشکِ ندامت بہاتا ہے،  اللہ کے نبی صلى الله عليه وسلم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ دن میں اپنے ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ رات کا گناہ گار معافی مانگے اور اللہ تعالیٰ رات میں اپنے ہاتھ پھیلاتا ہے کہ دن میں گناہ کرنے والا معافی طلب کرے، جب بندہ اس ساعت میں اللہ سے معافی مانگتا ہے تو رب العالمین اس کی خطاؤں پر قلمِ عفو و غفران پھیر دیتا ہے. 

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں ہر قسم کے گناہ و نافرمانی سے بچائے نیکی کی توفیق عطا فرمائے آمین.

منگل، 21 اپریل، 2020

دارالعلوم اہلسنت فیضان مصطفی اشرف نگر بھوانی گنج

کیا بارہ مئی کو کرونا وائرس ختم ہوجائے گا؟! 

ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ

مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما
آج کل ایک دو تحریر اور ایک دو  بیان بہت زیادہ گردش کر رہے ہیں، جن میں اس کا بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ بارہ مئی کو ثریا ستارہ طلوع ہوگا؛ تو اس کی وجہ سے کرونا جیسی مہلک بیماری ختم ہوجائے گی یا کم ہوجائے گی، بعض تحریر تو کسی حد تک اعتدال کا دامن تھامے ہوئے ہے مگر بعض تحریر و تقریر حد اعتدال سے خارج ہوتی نظر آئی جس کی وجہ سے ایک مسلم اس بات پر یقین کرتا ہوا نظر آرہا ہے کہ بارہ مئی کو کرونا وائرس ضرور ختم ہوجائے گا یا کم ہوجائے گا بلکہ بعض لوگ اسے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا معجزہ ثابت کرتے ہوئے نظر آرہے ہے؛ اس لیے آج میں اس کے متعلق تفصیلی گفتگو کرنا مناسب سمجھتا ہوں، پہلے میں ثریا ستارہ سے متعلق احادیث ذکر کروں گا، اس کے بعد اس کے معنی و مفہوم کی وضاحت کروں گا، و ما توفیقی إلا باللہ علیه توکلت و إلیه أنیب۔
ثریا ستارہ سے متعلق جو احادیث وارد ہیں ان میں سے بعض مطلق ہیں، یعنی اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ کوئی بھی بیماری ہو،ثریا ستارہ کے طلوع ہونے سے ختم ہوجائے گی یا کم ہوجائے گی اور بعض احادیث مقید ہیں یعنی اس بات کو بیان کرتی ہیں کہ  ثریا ستارہ طلوع ہونے سے پھلوں کی بیماری ختم ہوجائے گی، سب سے پہلے ہم مطلق احادیث  ذکر کرتے ہیں:

ثریا سے متعلق مطلق احادیث
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: ((إِذَا طَلَعَ النَّجْمُ رُفِعَتِ الْعَاهَةُ عَنْ أَهْلِ كُلِّ بَلَدٍ)) (الآثار للإمام أبی یوسف، باب الغزو و الجیش، ج۱ص۲۰۵، رقم:۹۱۷، ط:دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
ترجمہ: جب نجم یعنی ثریا ستارہ طلوع ہوگا تو ہر ملک سے بیماری ختم ہوجائے گی۔
            حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ’مسند احمد‘ کے الفاظ یہ ہیں:
((إِذَا طَلَعَ النَّجْمُ ذَا صَبَاحٍ، رُفِعَتِ الْعَاهَةُ)) (مسند أحمد، ج۱۴ص۱۹۲، رقم: ۸۴۹۵، ط: مؤسسۃ الرسالۃ)
ترجمہ: جب صبح نجم یعنی ثریا ستارہ نکلے تو وبا دور ہوجائے گی۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی کی روایت میں ’التمہید‘ کے الفاظ یہ ہیں:
((مَا طَلَعَ النَّجْمُ صَبَاحًا قَطُّ وَبِقَوْمٍ عَاهَةٌ إِلَّا رُفِعَتْ عَنْهُمْ أَوْ خَفَتْ)) (التمہید لما فی الموطا من المعانی و الأسانید للإمام ابن عبد البر، ج۲ص۱۹۲، ط: وزارة عموم الأوقاف والشؤون الإسلامية - المغرب)
ترجمہ: جب کبھی نجم یعنی ثریا ستارہ طلوع ہو اور کسی قوم میں وبا ہو؛ تو وہ وبا ختم ہوجائے گی۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت:
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((مَا طَلَعَ النَّجْمُ ذَا صَبَاحٍ إِلا رُفْعِتْ كُلُّ آَفَةٍ وَعَاهَةٍ فِي الأَرْضِ أَوْ مِنَ الأَرْضِ)) (تاریخ جرجان، لحمزۃ بن یوسف الجرجانی، ص۲۹۲، ط:عالم الکتب، بیروت)
ترجمہ: جب بھی نجم یعنی ثریا ستارہ طلوع ہوگا تو اس وقت زمین کی ہر آفت کو ختم کردے گا۔
            مندرجہ بالا ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بیماری یا وبا خواہ وہ پھل سے متعلق ہو یا اس کا تعلق انسان سے ہو، اگر وبا پائی جاتی ہے؛ تو ثریا ستارہ طلوع ہونے سے ختم یا کم ہوجائے گی، مگر اس کے بر خلاف بعض احادیث مقید ہیں، یعنی وہ اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ ثریا طلوع ہونے سے جو وبا دور ہوتی ہے، وہ وبا ہے جس کا تعلق پھل سے ہے۔
ثریا سے متعلق مقید احادیث
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت:
عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ سُرَاقَةَ قَالَ: كُنَّا فِي سَفَرٍ وَمَعَنَا ابْنُ عُمَرَ فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: ((رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُسَبِّحُ فِي السَّفَرِ قَبْلَ الصَّلَاةِ وَلَا بَعْدَهَا))
قَالَ: وَسَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ عَنْ بَيْعِ الثِّمَارِ، فَقَالَ: ((نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الثِّمَارِ حَتَّى تَذْهَبَ الْعَاهَةُ)) قُلْتُ: أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَمَا تَذْهَبُ الْعَاهَةُ، مَا الْعَاهَةُ؟ قَالَ: ((طُلُوعُ الثُّرَيَّا)) (مسند أحمد، ج۹ص۵۶، رقم: ۵۰۱۲، ط: مؤسسۃ الرسالۃ)
ترجمہ: رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وبا کے جانے سے پہلے پھل بیچنے  سے منع فرمایا، راوی کہتے ہیں میں نے عرض کیا: اے ابو عبد الرحمن! وبا کا جانا کیا ہے، وبا کیا ہے؟ ابو عبد الرحمن رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ثریا ستارہ کا طلوع ہونا۔
حضرت عمرہ بنت عبد الرحمن رضی اللہ عنہا کی روایت:
عَنْ أُمِّهِ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((نَهَى عَنْ بَيْعِ الثِّمَارِ حَتَّى تَنْجُوَ مِنَ الْعَاهَةِ)) (موطا امام مالک، باب النھی عن بیع الثمار حتی یبدو صلاحھا، ج۲ص۶۱۸، رقم: ۱۲، ط:دار إحیاء التراث العربی، بیروت)
ترجمہ: رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پھل بیچنے سے منع فرمایا یہاں تک کہ پھل کو وبا سے نجات حاصل ہوجائے۔
حضرت زید ابن ثابت رضی اللہ عنہما کی روایت:
عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّهُ كَانَ ((لَا يَبِيعُ ثِمَارَهُ حَتَّى تَطْلُعَ الثُّرَيَّا)) (ایضا، ص۶۱۹، رقم:۱۳)
ترجمہ: زید بن ثابت رضی اللہ عنہما پھل نہیں بیچتے تھے یہاں تک کہ ثریا ستارہ طلوع ہوجائے۔
اسی روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی ’صحیح‘ میں تعلیقا ذکر کیا ہے: عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ الأَنْصَارِيِّ، مِنْ بَنِي حَارِثَةَ: أَنَّهُ حَدَّثَهُ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ النَّاسُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَتَبَايَعُونَ الثِّمَارَ، فَإِذَا جَدَّ النَّاسُ وَحَضَرَ تَقَاضِيهِمْ، قَالَ المُبْتَاعُ: إِنَّهُ أَصَابَ الثَّمَرَ الدُّمَانُ، أَصَابَهُ مُرَاضٌ، أَصَابَهُ قُشَامٌ، عَاهَاتٌ يَحْتَجُّونَ بِهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا كَثُرَتْ عِنْدَهُ الخُصُومَةُ فِي ذَلِكَ: ((فَإِمَّا لاَ، فَلاَ تَتَبَايَعُوا حَتَّى يَبْدُوَ صَلاَحُ الثَّمَرِ)) كَالْمَشُورَةِ يُشِيرُ بِهَا لِكَثْرَةِ خُصُومَتِهِمْ وَأَخْبَرَنِي خَارِجَةُ بْنُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ: ((لَمْ يَكُنْ يَبِيعُ ثِمَارَ أَرْضِهِ حَتَّى تَطْلُعَ الثُّرَيَّا، فَيَتَبَيَّنَ الأَصْفَرُ مِنَ الأَحْمَرِ)) (صحیح البخاری، باب بیع الثمار قبل أن یبدو صلاحھا، ج۳ص۷۶، رقم:۲۱۹۳، ط: دار طوق النجاۃ)
اور خود حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث امام طبرانی کی ’المعجم الصغیر‘ میں اسی مقید معنی کے ساتھ موجود ہے، ملاحظہ فرمائیں:
الجامع الصغیر میں ہے: ((إِذَا طَلعت الثُريِّا أمِنَ الزَّرْعُ مِنَ العاهَةِ))  طص عن أبي هريرة - رضي الله عنه . (الجامع الصغيرللإمام السیوطی، رقم:۱۵۵۸۷)
ترجمہ: جب ثریا ستارہ طلوع ہوجائے تو کھیتی وبا سے محفوظ ہوجاتی ہے۔
ان مقید روایات اور احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ ثریا طلوع ہونے سے جو وبا دور ہوتی ہے، اس کا تعلق پھلوں کی بیماری سے ہے، بہر حال یہ دو طرح کی احادیث ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ ان احادیث میں مذکور وبا سے پھلوں کی وبا مراد ہے یا انسانی وبا وغیرہ ہر طرح کی بیماری ان کے مفہوم میں شامل ہے، اس کی تعیین کے لیے احادیث اور اقوال علما کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
سب سے پہلے ہم احادیث کی طرف چلتے ہیں، یہ بات طے شدہ ہے کہ ایک حدیث دوسری حدیث کی وضاحت کرتی ہے؛ اس لیے یہاں مطلق احادیث جو مختلف معانی کا احتمال رکھتی ہیں ان کو پھلوں سے مقید  احادیث جو اپنے معنی میں متعین ہیں ان پر محمول کر دیا جائے یعنی پھلوں کی وبا سے متعین  احادیث اس کی بات کی وضاحت کر رہی ہیں کہ محتمل احادیث کی مراد یہی ہے کہ یہاں وبا سے پھلوں کی وبا مراد ہے جو انسانی وبا کو شامل نہیں۔
احادیث کے بعد اب ہم علماے عظام کی طرف رخ کرتے ہیں، احادیث کی شروحات مطالعہ کرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ اس معاملہ میں اکثر علما بھی اسی بات کے قائل ہیں کہ ثریا سے جو وبا ختم ہوتی ہے، اس سے مراد پھلوں کی وبا ہے، ملاحظہ فرمائیں:
امام ابوجعفر طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’فَعَقَلْنَا بِذَلِكَ أَنَّهُ الثُّرَيَّا، وَعَقَلْنَا بِهِ أَيْضًا أَنَّ الْمَقْصُودَ بِرَفْعِ الْعَاهَةِ عَنْهُ هُوَ ثِمَارُ النَّخْلِ‘‘۔ (شرح مشکل الآثار للإمام الطحاوی، ج۶ص۵۳، ط:مؤسسۃ الرسالۃ)
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’معنى ذلك والله أعلم على ما تقدم أن طلوع الثريا مع الفجر إنما يكون في النصف الآخر من شهر مايه وهو شهر إيار وفي ذلك يبدو صلاح الثمار بالحجاز ويظهر الإزهاء فيها وتنجو من العاهة في الأغلب ففي ذلك الوقت يجوز بيعها فيه دون ما قبله وتختلف العبارات فيما يبدو به ما يمنع من البيع ويميز ما يباع فتارة يميز ويفسدها بالإزهاء وتارة بأن تنجو الثمرة من العاهة وتارة تطلع الثريا غير أن تحديد ذلك بالإزهاء وبأن تنجو من العاهة يتعقبه الجواز على كل حال، وأما طلوع الثريا فليس بحد يتميز به وقت جواز البيع من وقت منعه.
وقد روى القعنبي عن مالك في المبسوط أنه قال ليس العمل على هذا ومعنى ذلك عندي أنه لا يباح بيع الثمرة بنفس طلوع الثريا حتى يبدو صلاحها وإنما معنى ذلك في الحديث أنه كان لا يبيع إلا بعد طلوعها وليس فيه أنه لم يكن بيع ذلك بعد طلوع الثريا إلا الإزهاء والله أعلم‘‘۔ (المنتقی شرح الموطا للامام القرطبی، النھی عن بیع الثمار حتی یبدو صلاحھا، ج۴ص۲۲۲، ط:مطبعۃ السعادۃ، مصر)
امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’وطلوعها صباحا يقع في أول فصل الصيف وذلك عند اشتداد الحر في بلاد الحجاز وابتداء نضج الثمار فالمعتبر في الحقيقة النضج وطلوع النجم علامة له وقد بينه في الحديث بقوله ويتبين الأصفر من الأحمر وروى أحمد من طريق عثمان بن عبد الله بن سراقة سألت بن عمر عن بيع الثمار فقال نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع الثمار حتى تذهب العاهة قلت ومتى ذلك قال حتى تطلع الثريا ووقع في رواية بن أبي الزناد عن أبيه عن خارجة عن أبيه قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة ونحن نتبايع الثمار قبل أن يبدو صلاحها فسمع خصومة فقال ما هذا فذكر الحديث فأفاد مع ذكر السبب وقت صدور النهي المذكور‘‘۔ (فتح الباری للإمام ابن حجر العسقلانی، باب بیع الثمار قبل أن یبدو صلاحہ، ج۴ص۳۹۵، ط:دار المعرفۃ، بیروت)
امام بدر الدین عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وطلوعها صباحا يقع في أول فصل الصيف، وذلك عند اشتداد الحر في بلاد الحجاز وابتداء نضج الثمار، والمعتبر في الحقيقة النضج وطلوع النجم علامة له، وقد بينه في الحديث بقوله: ويتبين الأصفر من الأحمر‘‘۔ (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری للإمام بدر الدین العینی، باب بیع الثمار قبل أن یبدو صلاحھا، ج۱۲ص۴، ط:دار إحیاء التراث العربی، بیروت)
ارشاد الساری میں ہے: ’’قال أبو الزناد: (وأخبرني) بالإفراد (خارجة بن زيد بن ثابت) أحد الفقهاء السبعة والواو للعطف على سابقه (أن) أباه (زيد بن ثابت لم يكن يبيع ثمار أرضه حتى تطلع الثريا) النجم المعروف وهي تطلع مع الفجر أوّل فصل الصيف عند اشتداد الحر في بلاد الحجاز وابتداء نضج الثمار، والمعتبر في الحقيقة النضج وطلوع النجم علامة له، وقد بيّنه بقوله: (فيتبين الأصفر من الأحمر) وفي حديث أبي هريرة عند أبي داود مرفوعًا: إذا طلع النجم صباحًا رفعت العاهة عن كل بلد. وقوله: كالمشورة يشير بها قال الداودي الشارح تأويل بعض نقلة الحديث وعلى تقدير أن يكون من قول زيد بن ثابت فلعل ذلك كان في أوّل الأمر، ثم ورد الجزم بالنهي كما بينه حديث ابن عمر وغيره. وقال ابن المنير: أورد حديث زيد معلمًا وفيه إيماء إلى أن النهي لم يكن عزيمة وإنما كان مشورة، وذلك حي الجواز إلا أنه أعقبه بأن زيدًا راوي الحديث كان لا يبيعها حتى يبدوَ صلاحها.
وأحاديث النهي بعد هذا مبتوتة فكأنه قطع على الكوفيين احتجاجهم بحديث زيد بأن فعله يعارض روايته ولا يرد عليهم ذلك أن فعل أحد الجائزين لا يدل على منع الآخر، وحاصله أن زيدًا امتنع من بيع ثماره قبل بدوّ صلاحها ولم يفسر امتناعه هل كان لأنه حرام أو كان لأنه غير مصلحة في حقه انتهى‘‘۔ (ارشاد الساری لشرح صحیح البخاری للإمام القسطلانی، باب بیع الثمار قبل أن یبدو صلاحھا، ج۴ص۸۸، ط: المطبعۃ الکبری الأمیریۃ، مصر)
امام علی القاری علیہ رحمۃ الباری فرماتے ہیں: (وبه عن عطاء، عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إذا طلع النجم اللام للعهد (رفعت العاهة) أي الآفة عن كل بلد من زرعها وثمارها۔۔۔۔۔۔۔۔قال الخرقي: إنما أراد بهذا الحديث أرض الحجاز لأن في أبان يقع الحصاد بها وتدرك الثمار فيها وقال القبتي: أحسبه أراد عاهة الثمار خاصة. (شرح مسند أبی حنیفۃ للإمام علی القاری، ص۱۴۱، ط:دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
امام زرقانی لکھتے ہیں: ’’وَطُلُوعُهَا صَبَاحًا يَقَعُ فِي أَوَّلِ فَصْلِ الصَّيْفِ، وَذَلِكَ عِنْدَ اشْتِدَادِ الْحَرِّ وَابْتِدَاءِ نُضْجِ الثِّمَارِ، وَهُوَ الْمُعْتَبَرُ فِي الْحَقِيقَةِ، وَطُلُوعُ النَّجْمِ عَلَامَةٌ لَهُ، وَقَدْ بَيَّنَهُ بِقَوْلِهِ فِي رِوَايَةِ الْبُخَارِيِّ مِنْ طَرِيقِ اللَّيْثِ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ خَارِجَةَ عَنْ أَبِيهِ، فَزَادَ عَلَى مَا هُنَا فَيَتَبَيَّنُ الْأَصْفَرُ مِنَ الْأَحْمَرِ‘‘۔ (شرح الزرقانی علی المؤطا، باب النھی عن بیع الثمار حتی یبد و صلاحھا، ج۳ص۳۹۵، ط:مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، القاھرۃ)
امام صغانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وَقَدْ بَيَّنَ ذَلِكَ حَدِيثُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ «كَانَ النَّاسُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يَبْتَاعُونَ الثِّمَارَ فَإِذَا جَذَّ النَّاسُ وَحَضَرَ تَقَاضِيهِمْ قَالَ الْمُبْتَاعُ إنَّهُ أَصَابَ الثَّمَرَ الدَّمَانِ وَهُوَ فَسَادُ الطَّلْعِ وَسَوَادُهُ مُرَاضٌ قُشَامٌ عَاهَاتٌ يَحْتَجُّونَ بِهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – لَمَّا كَثُرَتْ عِنْدَهُ الْخُصُومَةُ فِي ذَلِكَ فَأَمَّا لَا فَلَا تَبْتَاعُوا حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُ الثَّمَرَةِ كَالْمَشُورَةِ يُشِيرُ بِهَا لِكَثْرَةِ خُصُومَاتِهِمْ» انْتَهَى، وَأَفْهَمَ قَوْلُهُ كَالْمَشُورَةِ أَنَّ النَّهْيَ لِلتَّنْزِيهِ لَا لِلتَّحْرِيمِ كَأَنَّهُ فَهِمَهُ مِنْ السِّيَاقِ وَإِلَّا فَأَصْلُهُ التَّحْرِيمُ، وَكَانَ زَيْدٌ لَا يَبِيعُ ثِمَارَ أَرْضِهِ حَتَّى تَطْلُعَ الثُّرَيَّا فَيَتَبَيَّنُ الْأَصْفَرَ مِنْ الْأَحْمَرِ. وَأَخْرَجَ أَبُو دَاوُد مِنْ حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ مَرْفُوعًا «إذَا طَلَعَ النَّجْمُ صَبَاحًا رُفِعَتْ الْعَاهَةُ مِنْ كُلِّ بَلَدٍ» وَالنَّجْمُ الثُّرَيَّا وَالْمُرَادُ طُلُوعُهَا صَبَاحًا وَهُوَ فِي أَوَّلِ فَصْلِ الصَّيْفِ وَذَلِكَ عِنْدَ اشْتِدَادِ الْحُرِّ بِبِلَادِ الْحِجَازِ وَابْتِدَاءِ نُضْجِ الثِّمَارِ وَهُوَ الْمُعْتَبَرُ حَقِيقَةً وَطُلُوعُ الثُّرَيَّا عَلَامَةٌ‘‘۔ (سبل السلام للإمام محمد إسماعیل الصنعانی، بیع الثمر قبل بدو صلاحہ، ج۲ص۶۵، ط: دار الحدیث)
البدر التمام میں ہے: ’’والنجم هو الثريا، والمراد طلوعها صباحًا، وهو في أول فصل الصيف، وذلك عند اشتداد الحر في بلاد الحجاز وابتداء نضج الثمار، وهو المعتبر حقيقة، وطلوع الثريا علامة له‘‘۔ (البدر التمام شرح بلوغ المرام، للحسین بن محمد المغربی، ج۶ص۲۱۳، ط:دار ھجر)
ان مندرجہ بالا شروحات کے علاوہ بھی اکثر شروحات میں اس مفہوم کی حدیث کو ’باب بیع الثمر قبل بدو صلاحہ یا باب النھی عن بیع الثمار حتی یبد و صلاحھا‘ کے تحت رکھا ہے، جس سے صاف واضح ہوجاتا ہے کہ یہ سب لوگ اس بات کے قائل ہیں کی احادیث میں ثریا کے طلوع ہونے سے جو وبا دور ہوتی وہ پھلوں والی وبا ہے۔
بعض علما اس بات کے قائل ہیں کہ ثریا سے جو وبا ختم ہوجاتی ہے وہ انسانی اور پھلوں والی، دونوں وبا کو شامل ہے، امام مناوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’(أَبُو نعيم فِي الطِّبّ) النَّبَوِيّ (عَن عَائِشَة مَا طلع النَّجْم) يَعْنِي الثريا فانه اسْمهَا بالغلبة لعدم خفائها لكثرتها (صباحا قطّ) أَي عِنْد الصُّبْح (وبقوم) فِي رِوَايَة وبالناس (عاهة) فِي أنفسهم من نَحْو مرض ووباء أَو فِي مَالهم من نَحْو ثَمَر وَزرع (الا رفعت عَنْهُم) بِالْكُلِّيَّةِ (أَو خفت) أَي أخذت فِي النَّقْص والانحطاط وَمُدَّة مغيبها نَيف وَخَمْسُونَ لَيْلَة (حم عَن أبي هُرَيْرَة) باسناد حسن‘‘۔ (التیسیر شرح الجامع الصغیر، للإمام المناوی، ج۲ص۳۵۲، ط: مکتبۃ الإمام الشافعی، الریاض)
لیکن آپ ہی کی کتاب ’فیض القدیر‘ میں یہ بھی ہے: ’’قيل: أراد بهذا الخبر أرض الحجاز لأن الحصاد يقع بها في أيار وتدرك الثمار وتأمن من العاهة فالمراد عاهة الثمار خاصة‘‘۔ (فیض القدیر شرح الجامع الصغیر، ج۵ص۴۵۴، ط: المکتبۃ التجاریۃ الکبری، مصر)
امام سمعانی رحمہ اللہ زیر بحث حدیث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’وَذَلِكَ مثل الوباء والطواعين والأسقام وَمَا يشبهها‘‘۔ (تفسیر السمعانی، ج۶ص۳۰۶، ط: دار الوطن، الریاض)
دیگر ایک دو مفسرین کرام نے بھی یہی عام معنی لیا ہے، مگر اکثر محدثین کرام نے خاص معنی مراد لیا اور وہ یہی کہ ثریا کی وجہ سے جو وبا دور ہوگی وہ پھلوں کی وبا ہے۔
ثریا کی وجہ سے وبا تمام ملک یا پھر بعض ملک سے ختم ہوگی
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: ((إِذَا طَلَعَ النَّجْمُ رُفِعَتِ الْعَاهَةُ عَنْ أَهْلِ كُلِّ بَلَدٍ)) (الآثار للإمام أبی یوسف، باب الغزو و الجیش، ج۱ص۲۰۵، رقم:۹۱۷، ط:دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ثریا ستارہ طلوع ہونے سے ہر ملک کی وبا دور ہوجائے گی، مگر بعض محدثین کرام نے یہ صراحت کی ہے کہ اس سے مراد حجاز کی وبا کا دور ہونا ہے۔
امام ابن بطال رحمہ اللہ حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’يعنى: الحجاز، والله أعلم‘‘۔ (شرح صحیح البخاری، باب بیع الثمار قبل أن یبدو صلاحھا، ج۶ص۳۱۶، ط:مکتبۃ الرشد، الریاض)
امام ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وَقَوْلُهُ لِلْبَلَدِ يَجُوزُ أَنَّهُ يُرِيدُ الْبِلَادَ الَّتِي فِيهَا النَّخْلُ وَيَجُوزُ أَنْ يُرِيدَ الْحِجَازَ خَاصَّةً‘‘۔ (الاستذکار، باب النھی عن بیع الثمار حتی یبدو صلاحھا، ج۶ص۳۰۶، ط:دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
امام ابن ملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’يعني: الحجاز‘‘۔ (التوضیح لشرح الجامع الصحیح للإمام ابن الملقن، باب بیع الثمار قبل أن یبدو صلاحھا، ج۱۴ص۴۸۸،  ط: دار النوادر، دمشق)
امام عراقی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’كَمَا قَالَ بَعْضُهُمْ فِي الْحِجَازِ خَاصَّةً لِشِدَّةِ حَرِّهِ‘‘۔ (طرح التثریب فی شرح التقریب للإمام زین الدین العراقی، حدیث نھی بیع الثمار حتی یبدو صلاحھا، ج۶ص۱۲۶، ط: الطبعۃ المصریۃ القدیمۃ)
اور ان کے علاوہ بعض دیگر علما نے بھی حجاز ہی کے ساتھ اس وبا کو خاص قرار دیا ہے جیسا کہ اوپر مذکور شدہ بعض عبارتوں سے بخوبی واضح ہے۔
مہینہ اور تاریخ کی تعیین
            گزشتہ مباحث میں ذکر کردہ بعض احادیث سے معلوم ہوگیا کہ نجم سے مراد ثریا ستارہ جو صبح کو طلوع ہوہوتا ہے، امام طحاوی رحمہ اللہ مزید وضاحت کر رہے ہیں کہ ثریا ستارہ مئی کے مہینہ کی بارہ تاریخ کو طلوع ہوگا، ملاحظہ فرمائیں:
’’وَطَلَبْنَا فِي أَيِّ شَهْرٍ يَكُونُ فِيهِ ذَلِكَ مِنْ شُهُورِ السَّنَةِ عَلَى حِسَابِ الْمِصْرِيِّينَ؟ فَوَجَدْنَاهُ بَشَنْسَ، وَطَلَبْنَا الْيَوْمَ الَّذِي يَكُونُ فِيهِ ذَلِكَ فِي طُلُوعِ فَجْرِهِ مِنْ أَيَّامِهِ فَوَجَدْنَاهُ الْيَوْمَ التَّاسِعَ عَشَرَ مِنْ أَيَّامِهِ، وَطَلَبْنَا مَا يُقَابِلُ ذَلِكَ مِنَ الشُّهُورِ السُّرْيَانِيَّةِ الَّتِي يَعْتَبِرُ أَهْلُ الْعِرَاقِ بِهَا ذَلِكَ فَوَجَدْنَاهُ أَيَارَ , وَطَلَبْنَا الْيَوْمَ الَّذِي يَكُونُ ذَلِكَ فِي فَجْرِهِ فَإِذَا هُوَ الْيَوْمُ الثَّانِيَ عَشَرَ مِنْ أَيَّامِهِ , وَهَذَانِ الشَّهْرَانِ اللَّذَانِ يَكُونُ فِيهِمَا حَمْلُ النَّخْلِ - أَعْنِي بِحَمْلِهَا إِيَّاهُ ظُهُورَهُ فِيهَا لَا غَيْرَ ذَلِكَ - وَتُؤْمَنُ بِالْوَقْتِ الَّذِي ذَكَرْنَاهُ مِنْهُمَا عَلَيْهَا الْعَاهَةُ الْمَخُوفَةُ عَلَيْهَا كَانَتْ قَبْلَ ذَلِكَ , وَاللهَ عَزَّ وَجَلَّ نَسْأَلُهُ التَّوْفِيقَ‘‘۔ (شرح مشکل الآثار للإمام الطحاوی،  ج۶ص۵۷، رقم: ۲۲۸۶، ط: مؤسسۃ الرسالۃ)
ثریا کی وجہ سے بیماری دور ہونا اغلبی یا دوامی
امام ابن عبد البر حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ وغیرہ ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’هَذَا كُلُّهُ عَلَى الْأَغْلَبِ وَمَا وَقَعَ نَادِرًا فَلَيْسَ بِأَصْلٍ يُبْنَى عَلَيْهِ فِي شَيْءٍ‘‘۔ (التمہید لما فی الموطا من المعانی و الأسانید للإمام ابن عبد البر، ج۲ص۱۹۲، ط: وزارة عموم الأوقاف والشؤون الإسلامية،  المغرب)
            اس تفصیلی بیان سے مندرجہ ذیل باتیں واضح ہوگئیں:
            (۱)ایک دوسری حدیث کی وضاحت کرتی ہے؛ اس لیے یہاں ثریا کی وجہ سے دور ہونے والی وبا عام نہیں بلکہ پھلوں والی وبا ہے۔
            (۲) اکثر علماے کرام ثریا کے ذریعہ پھلوں کی وبا دور ہونے کے قائل ہیں؛ اس لیے ہمیں ان احادیث کو انسانی وبا یا عام وبا پر محمول نہیں کرنا چاہیے۔
            (۳) جن حضرات نے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ اکثر علما حدیث میں مذکور وبا سے انسانی وبا یا عام وبا مراد لیتے ہیں، وہ درست نہیں۔
            (۴) ثریا کے طلوع ہونے سے وبا کا دور ہونا اغلبی ہے لازمی نہیں۔
            تنبیہ: ثریا ستارہ میں بذات خود کوئی تاثیر نہیں کہ وہ وبا دور کرے بلکہ اللہ تعالی نے اس کو صرف وبا دور ہونے کی علامت بنا یاہے، یعنی ہمار یہ عقیدہ ہونا ضروری ہے کہ اللہ تعالی جب چاہے گا تبھی ثریا کے طلوع ہونے سے وبا دور ہوگی ورنہ نہیں جیسے کہ ہم کسی بیماری کی وجہ سے دوا کھاتے ہیں تو ہمارا یہی عقیدہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالی جب چاہے تو ہی شفا حاصل ہوگی ورنہ نہیں۔
             اہم پیغام: بہر کیف ہم ثریا سے متعلق احادیث کو عام مانیں یا خاص، اتنے بیان سے تو یہ معلوم ہوگیا کہ جب علماے کرام کے درمیان زیر بحث موضوع احادیث کے تعیین معنی میں اختلاف ہے؛ تو یہ احادیث قطعی الدلالۃ نہ رہیں جن کی بنا پر یقینی طور پر یہ کہا جاسکے کہ انسانی وبا یا عام وبا مراد ہے اور پھر اس کی بنیاد پر حتمی طور سے یہ فیصلہ کرنے کی کوشش کی جائے کہ بارہ مئی کو ثریا طوع ہوتے ہی کرونا وائرس ختم ہوجائے گایا کم ہوجائے گا، البتہ بعض احادیث کے ظاہری معنی کو لے کر اور علما کے بعض اقوال کے پیش نظر اللہ جل شانہ سے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ ثریا کے طلوع سے یہ انسانی وبا کم  یا ختم کردے مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تعیین معنی میں اختلاف کے باوجود ہم یہ کہتے بیٹھیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمادیا؛ تو بارہ مئی کو یہ ہوکر رہے گا اور نجات مل کر رہے گی، نہیں زیر بحث احادیث کے پیش نظر آپ ایسا نہیں کہ سکتے، اگر آپ ایسا کہیں گے ؛ تو آپ اسلام اور مسلمان کی جگ ہنسائی کا سبب بن سکتے ہیں، جیسا کہ اس بات سے جگ ہنسائی ہوئی کہ مسلمان کو کرونا وائرس ہوگا ہیں نہیں، خاص کر  اس وقت جب کہ زیر بحث احادیث کے تعیین معنی میں اختلاف کے ساتھ وبا دور ہونا اغلبی ہے یعنی کبھی ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ثریا طلو ع ہو اور وبا دور نہ ہو؛ لہذا مسلمانوں کو چاہیے کہ حد اعتدال قائم و دائم رکھیں اور کسی طرح بھی اسلام و مسلمان کے لیے جگ ہنسائی کا سبب نہ بنیں، مگر أنا عند ظن عبدی کے پیش نظر اللہ تعالی سے شفا یابی کی امید قوی رکھیں، اللہ تعالی ہم سب کو اپنے اپنے اعمال کی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صدقہ ہم سب کو ہر وبا سے محفوظ رکھے، آمین۔
            اللہ تعالی کے فضل و کرم سے  یہ مضمون پانچ گھنٹے کے اندر مکمل ہوا، و الحمد للہ الذي بنعمته تتم الصالحات و صلی اللہ علی خیر خلقه محمد و آله و أصحابه أجمعی

ﻗﺎﺑﻞ ﻏﻮﺭ ﺗﺤﺮﯾﺮ۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک یہودی لیڈر کی چونکا دینے والی تحریر 

ﻋﺮﺏ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺟﻨﮓ ﭼﮭﮍﻧﮯ ﮐﻮ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻣﺮﯾﮑﯽ ﺳﯿﻨﯿﭩﺮ ﺍﯾﮏ ﺍﮨﻢ ﮐﺎﻡ ﮐﮯ ﺳﻠﺴﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﺁﯾﺎ۔ ﻭﮦ ﺍﺳﻠﺤﮧ ﮐﻤﯿﭩﯽ ﮐﺎ ﺳﺮﺑﺮﺍﮦ ﺗﮭﺎ۔ ﺍُﺳﮯ ﻓﻮﺭﺍً ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﯽ ﻭﺯﯾﺮﺍﻋﻈﻢ ’’ ﮔﻮﻟﮉ ﻣﺎﺋﯿﺮ ‘‘ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﻟﮯ ﺟﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ۔ ﮔﻮﻟﮉ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﮔﮭﺮﯾﻠﻮ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﻣﺎﻧﻨﺪ ﺳﯿﻨﯿﭩﺮ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﻘﺒﺎﻝ ﮐﯿﺎﺍﻭﺭ ﺍُﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﭽﻦ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﮔﺌﯽ۔ ﯾﮩﺎﮞ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﺳﯿﻨﯿﭩﺮ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺳﯽ ﮈﺍﺋﯿﻨﮓ ﭨﯿﺒﻞ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮐﺮﺳﯽ ﭘﺮ ﺑﭩﮭﺎ ﮐﺮ، ﭼﻮﻟﮩﮯ ﭘﺮ ﭼﺎﺋﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﻭﮨﯿﮟ ﺁﺑﯿﭩﮭﯽ۔ 
ﺍُﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﺗﻮﭘﻮﮞ، ﻃﯿﺎﺭﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺰﺍﺋﻠﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﻮﺩﺍ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ ﺍﺑﮭﯽ ﺑﮭﺎﺅ ﺗﺎﺅ ﺟﺎﺭﯼ ﺗﮭﺎﮐﮧ ﺍُﺳﮯ ﭼﺎﺋﮯ ﭘﮑﻨﮯ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺁﺋﯽ۔ ﻭﮦ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﺍُﭨﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﭼﺎﺋﮯ ﺩﻭ ﭘﯿﺎﻟﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍُﻧﮉﯾﻠﯽ ۔ ﺍﯾﮏ ﭘﯿﺎﻟﯽ ﺳﯿﻨﯿﭩﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺭﮐﮫ ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﮔﯿﭧ ﭘﺮ ﮐﮭﮍﮮ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﮔﺎﺭﮈ ﮐﻮ ﺗﮭﻤﺎ ﺩﯼ۔ﭘﮭﺮ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﻣﯿﺰ ﭘﺮ ﺁﺑﯿﭩﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﺳﯿﻨﯿﭩﺮ ﺳﮯ ﻣﺤﻮ ﮐﻼﻡ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ۔ﭼﻨﺪﻟﻤﺤﻮﮞ ﮐﯽ ﮔﻔﺖ ﻭ ﺷﻨﯿﺪ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﺎﺅ ﺗﺎﺅ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺷﺮﺍﺋﻂ ﻃﮯ ﭘﺎﮔﺌﯿﮟ۔ ﺍﺱ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﮔﻮﻟﮉ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﺍُﭨﮭﯽ، ﭘﯿﺎﻟﯿﺎﮞ ﺳﻤﯿﭩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍُﻧﮩﯿﮟ ﺩﮬﻮ ﮐﺮ ﻭﺍﭘﺲ ﺳﯿﻨﯿﭩﺮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﭘﻠﭩﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻟﯽ ’’ : ﻣﺠﮭﮯ ﯾﮧ ﺳﻮﺩﺍ ﻣﻨﻈﻮﺭ ﮨﮯ۔ﺁﭖ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﯼ ﻣﻌﺎﺋﺪ ﮮ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺳﯿﮑﺮﭨﺮﯼ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﯿﮑﺮﭨﺮﯼ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺑﮭﺠﻮﺍﺩﯾﺠﺌﮯ۔ ‘‘ ۔
ﯾﺎﺩ ﺭﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﺍُﺱ ﻭﻗﺖ ﺍﻗﺘﺼﺎﺩﯼ ﺑﺤﺮﺍﻥ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﺗﮭﺎ، ﻣﮕﺮ ﮔﻮﻟﮉ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﻧﮯ ﮐﺘﻨﯽ ’’ ﺳﺎﺩﮔﯽ ‘‘ ﺳﮯ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﻠﺤﮯ ﮐﯽ ﺧﺮﯾﺪﺍﺭﯼ ﮐﺎ ﺍﺗﻨﺎ ﺑﮍﺍ ﺳﻮﺩﺍ ﮐﺮ ﮈﺍﻻ۔ 
ﺣﯿﺮﺕ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺧﻮﺩ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻠﯽ ﮐﺎﺑﯿﻨﮧ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺑﮭﺎﺭﯼ ﺳﻮﺩﮮ ﮐﻮ ﺭﺩ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ ﺍُﺱ ﮐﺎ ﻣﺆﻗﻒ ﺗﮭﺎ ، ﺍِﺱ ﺧﺮﯾﺪﺍﺭﯼ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻠﯽ ﻗﻮﻡ ﮐﻮ ﺑﺮﺳﻮﮞ ﺗﮏ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻭﻗﺖ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﭘﺮ ﺍﮐﺘﻔﺎ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ۔
 ﮔﻮﻟﮉ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﻧﮯ ﮐﺎﺑﯿﻨﮧ ﮐﮯ ﺍﺭﮐﺎﻥ ﮐﺎ ﻣﺆﻗﻒ ﺳُﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ’’ : ﺁﭘﮑﺎ ﺧﺪﺷﮧ ﺩﺭﺳﺖ ﮨﮯ ، ﻟﯿﮑﻦ ﺍﮔﺮ ﮨﻢ ﯾﮧ ﺟﻨﮓ ﺟﯿﺖ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﻧﮯ ﻋﺮﺑﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﺴﭙﺎﺋﯽ ﭘﺮ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺗﻮ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮨﻤﯿﮟ ﻓﺎﺗﺢ قرار ﺩﮮ ﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺟﺐ ﮐﺴﯽ ﻗﻮﻡ ﮐﻮ ﻓﺎﺗﺢ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ، ﺗﻮ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﻨﮓ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻓﺎﺗﺢ ﻗﻮﻡ ﻧﮯ ﮐﺘﻨﮯ ﺍﻧﮉﮮ ﮐﮭﺎﺋﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﺯﺍﻧﮧ ﮐﺘﻨﯽ ﺑﺎﺭ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ، ﺍُﺱ ﮐﮯ ﺩﺳﺘﺮ ﺧﻮﺍﻥ ﭘﺮ ﺷﮩﺪ، ﻣﮑﮭﻦ، ﺟﯿﻢ ﺗﮭﺎ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍُﻧﮑﮯ ﺟﻮﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﺘﻨﮯ ﺳﻮﺭﺍﺥ ﺗﮭﮯ ﯾﺎ ﺍُﻥ ﮐﯽ ﺗﻠﻮﺍﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﻧﯿﺎﻡ ﭘﮭﭩﮯ ﭘﺮﺍﻧﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﻓﺎﺗﺢ ﺻﺮﻑ ﻓﺎﺗﺢ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔ ‘‘ ۔
ﮔﻮﻟﮉ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﮐﯽ ﺩﻟﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﻭﺯﻥ ﺗﮭﺎ، ﻟﮩٰﺬﺍ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻠﯽ ﮐﺎﺑﯿﻨﮧ ﮐﻮ ﺍِﺱ ﺳﻮﺩﮮ ﮐﯽ ﻣﻨﻈﻮﺭﯼ ﺩﯾﻨﺎ ﭘﮍﯼ۔ 
ﺁﻧﯿﻮﺍﻟﮯ ﻭﻗﺖ ﻧﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﮔﻮﻟﮉ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﮐﺎ ﺍِﻗﺪﺍﻡ ﺩﺭﺳﺖ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺩﻧﯿﺎ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ، ﺍُﺳﯽ ﺍﺳﻠﺤﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﮩﺎﺯﻭﮞ ﺳﮯ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻋﺮﺑﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﻭﮞ ﭘﺮ ﺩﺳﺘﮏ ﺩﮮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ 
ﺟﻨﮓ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﻋﺮﺏ ﺍﯾﮏ ﺑﻮﮌﮬﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﮯ ﺷﺮﻣﻨﺎﮎ ﺷﮑﺴﺖ ﮐﮭﺎ ﮔﺌﮯ۔ ( ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﮏ ﻋﺠﯿﺐ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻣﺖ ﻣﺴﻠﻤﮧ ﮐﻮ ﺑﯿﺴﻮﯾﮟ ﺻﺪﯼ ﻣﯿﮟ ﭨﮑﮍﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﮐﺮ ﺩﯾﻨﮯ ﻣﯿﮟ ، ﺩﻭ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﺭﮨﺎ ۔ ﯾﻌﻨﯽ ﻋﺮﺑﻮﮞ ﮐﻮ ﺧﺘﻢ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﮔﻮﻟﮉ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﻋﺠﻢ ﮐﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﺷﮑﺴﺖ ﺩﯾﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺪﺭﺍ ﮔﺎﻧﺪﮬﯽ ﮐﺎ )
ﺟﻨﮓ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﻋﺮ ﺻﮧ ﺑﻌﺪ ﻭﺍﺷﻨﮕﭩﻦ ﭘﻮﺳﭧ ﮐﮯ ﻧﻤﺎﺋﻨﺪﮮ ﻧﮯ ﮔﻮﻟﮉ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﮐﺎ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﯿﺎ ’’ : ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﺍﺳﻠﺤﮧ ﺧﺮﯾﺪﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺁﭘﮑﮯ ﺫﮨﻦ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﺩﻟﯿﻞ ﺁﺋﯽ ﺗﮭﯽ ، ﻭﮦ ﻓﻮﺭﺍً ﺁﭘﮑﮯ ﺫﮨﻦ ﻣﯿﮟ ﺁﺋﯽ ﺗﮭﯽ ، ﯾﺎ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯ ﺣﮑﻤﺖ ﻋﻤﻠﯽ ﺗﯿﺎ ﺭ ﮐﺮ ﺭﮐﮭﯽ ﺗﮭﯽ۔۔؟ ‘‘ 
۔ﮔﻮﻟﮉ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﻧﮯ ﺟﻮ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﭼﻮﻧﮑﺎ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ، ﻭﮦ ﺑﻮﻟﯽ ’’ : ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺍﺳﺘﺪﻻ ﻝ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﺷﻤﻨﻮﮞ ( ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ( ﮐﮯ ﻧﺒﯽ ) ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ) ﺳﮯ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ، ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﻃﺎﻟﺒﮧ ﺗﮭﯽ ﺗﻮ ﻣﺬﺍﮨﺐ ﮐﺎ ﻣﻮﺍﺯﻧﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﭘﺴﻨﺪﯾﺪﮦ ﻣﻮﺿﻮﻉ ﺗﮭﺎ۔ 
ﺍُﻧﮩﯽ ﺩﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺳﻮﺍﻧﺢ ﺣﯿﺎ ﺕ ﭘﮍﮬﯽ ۔ ﺍُﺱ ﮐﺘﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﻨﻒ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺟﮕﮧ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎﮐﮧ ﺟﺐ ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﺎ ﻭﺻﺎﻝ ﮨﻮ ﺍﺗﻮ ﺍُﻧﮑﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺍِﺗﻨﯽ ﺭﻗﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﭼﺮﺍﻍ ﺟﻼﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺗﯿﻞ ﺧﺮﯾﺪﺍ ﺟﺎ ﺳﮑﮯ ، ﻟﮩٰﺬﺍ ﺍُﻧﮑﯽ ﺍﮨﻠﯿﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺎﺋﺸﮧ ﺻﺪﯾﻘﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮩﺎ ﻧﮯ ﺍُﻧﮑﯽ ﺯﺭﮦ ﺑﮑﺘﺮ ﺭﮨﻦ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺗﯿﻞ ﺧﺮﯾﺪﺍ، ﻟﯿﮑﻦ ﺍُﺳﻮﻗﺖ ﺑﮭﯽ ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﺣﺠﺮﮮ ﮐﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭﻭﮞ ﭘﺮ ﻧﻮ ﺗﻠﻮﺍﺭﯾﮟ ﻟﭩﮏ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ 
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺟﺐ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﭘﮍﮬﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﻮﭼﺎ ﮐﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﮐﺘﻨﮯ ﻟﻮﮒ ﮨﻮﻧﮕﮯ ﺟﻮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﭘﮩﻠﯽ ﺭﯾﺎﺳﺖ ﮐﯽ ﮐﻤﺰﻭﺭ ﺍﻗﺘﺼﺎﺩﯼ ﺣﺎﻟﺖ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﻮﻧﮕﮯ، ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺁﺩﮬﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﻓﺎﺗﺢ ﮨﯿﮟ ،
 ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﮨﮯ ۔
 ﻟﮩٰﺬﺍ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﻗﻮﻡ ﮐﻮ ﺑﺮﺳﻮﮞ ﺑﮭﻮﮐﮭﺎ ﺭﮨﻨﺎ ﭘﮍ ﮮ، ﭘﺨﺘﮧ ﻣﮑﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺧﯿﻤﻮﮞ ﻣﯿﮞﺰﻧﺪﮔﯽ ﺑﺴﺮ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﮮ، ﺗﻮ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﻠﺤﮧ ﺧﺮﯾﺪﯾﮟ ﮔﮯ، ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﻣﻀﺒﻮﻁ ﺛﺎﺑﺖ ﮐﺮ ﯾﻨﮕﮯ ﺍﻭﺭ ﻓﺎﺗﺢ ﮐﺎ ﺍﻋﺰﺍﺯ ﭘﺎ ﺋﯿﮟ ﮔﮯ۔ ‘‘ ۔
ﮔﻮﻟﮉ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﻧﮯ ﺍِﺱ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﺳﮯ ﺗﻮ ﭘﺮﺩﮦ ﺍُﭨﮭﺎﯾﺎ ، ﻣﮕﺮ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﻧﮕﺎﺭ ﺳﮯ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﮐﯽ ﮐﮧ ﺍِﺳﮯ ’’ ﺁﻑ ﺩﯼ ﺭﯾﮑﺎﺭﮈ ‘‘ ﺭﮐﮭﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺷﺎﺋﻊ ﻧﮧ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ۔ ﻭﺟﮧ ﯾﮧ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻧﺒﯽ ( ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ) ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻟﯿﻨﮯ ﺳﮯ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻗﻮﻡ ﺍﺳﮑﮯ ﺧﻼﻑ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ ، ﻭﮨﺎﮞ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﺆﻗﻒ ﮐﻮ ﺗﻘﻮﯾﺖ ﻣﻠﮯ ﮔﯽ۔ 
ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﻭﺍﺷﻨﮕﭩﻦ ﭘﻮﺳﭧ ﮐﮯ ﻧﻤﺎﺋﻨﺪﮮ ﻧﮯ ﯾﮧ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺣﺬﻑ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔
ﭘﮭﺮ ﻭﻗﺖ ﺩﮬﯿﺮﮮ ﺩﮬﯿﺮﮮ ﮔﺰﺭﺗﺎ ﺭﮨﺎ، ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﮔﻮﻟﮉ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮐﺮ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﻧﮕﺎﺭ ﺑﮭﯽ ﻋﻤﻠﯽ ﺻﺤﺎﻓﺖ ﺳﮯ ﺍﻟﮓ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔ ﺍﺱ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﻧﺎﻣﮧ ﻧﮕﺎﺭ ، ﺍﻣﺮﯾﮑﮧ ﮐﮯ ﺑﯿﺲ ﺑﮍﮮ ﻧﺎﻣﮧ ﻧﮕﺎﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮﮞ ﻟﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﺗﮭﺎ۔ ﺍُﺱ ﺳﻠﺴﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺍُﺳﯽ ﻧﺎﻣﮧ ﻧﮕﺎﺭ ﮐﺎ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﻟﯿﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﺟﺲ ﻧﮯ ﻭﺍﺷﻨﮕﭩﻦ ﭘﻮﺳﭧ ﮐﮯ ﻧﻤﺎﺋﻨﺪﮮ ﮐﯽ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﺳﮯ ﮔﻮﻟﮉ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﮐﺎ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ﺍُﺱ ﺍﻧﭩﺮ ﻭﯾﻮ ﻣﯿﮟ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﮔﻮﻟﮉ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﮐﺎ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺑﮭﯽ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ ﺟﻮ ﺳﯿﺮﺕ ﻧﺒﻮﯼ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺗﮭﺎ۔ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺍُﺳﮯ ﺍَﺏ ﯾﮧ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﺮﻣﻨﺪﮔﯽ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ۔ﮔﻮﻟﮉ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﮐﺎ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﻟﯿﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻧﮯ ﻣﺰﯾﺪ ﮐﮩﺎ،
۔ ’’ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍِﺱ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺟﺐ ﺗﺎﺭﯾﺦِ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﻣﻄﺎﻟﻌﮧ ﮐﯿﺎ ، ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻋﺮﺏ ﺑﺪﻭﺅﮞ ﮐﯽ ﺟﻨﮕﯽ ﺣﮑﻤﺖ ﻋﻤﻠﯿﺎﮞ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻃﺎﺭﻕ ﺑﻦ ﺯﯾﺎﺩ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺟﺒﺮﺍﻟﭩﺮ ( ﺟﺒﻞ ﺍﻟﻄﺎﺭﻕ )ﮐﮯ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﺍﺳﭙﯿﻦ ﻓﺘﺢ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎﺍُﺳﮑﯽ ﻓﻮﺝ ﮐﮯ ﺁﺩﮬﮯ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻣﺠﺎﮨﺪﻭﮞ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﭘﻮﺭﺍ ﻟﺒﺎﺱ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔ ﻭﮦ ﺑﮩﺘَﺮﺑﮩﺘَﺮﮔﮭﻨﭩﮯ ﺍﯾﮏ ﭼﮭﺎﮔﻞ ﭘﺎﻧﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﮐﮭﯽ ﺭﻭﭨﯽ ﮐﮯ ﭼﻨﺪ ﭨﮑﮍﻭﮞ ﭘﺮ ﮔﺰﺍﺭﺍ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﯾﮧ ﻭﮦ ﻣﻮﻗﻊ ﺗﮭﺎ ، ﺟﺐ ﮔﻮﻟﮉ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﮐﺎ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﻧﮕﺎﺭ ﻗﺎﺋﻞ ﮨﻮﮔﯿﺎﮐﮧ ’’ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻓﺘﻮﺣﺎﺕ ﮔﻨﺘﯽ ﮨﮯ، ﺩﺳﺘﺮ ﺧﻮﺍﻥ ﭘﺮ ﭘﮍﮮ ﺍﻧﮉﮮ، ﺟﯿﻢ ﺍﻭﺭ ﻣﮑﮭﻦ ﻧﮩﯿﮟ ‘‘ ۔
ﮔﻮﻟﮉ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﮐﮯ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﻧﮕﺎﺭ ﮐﺎ ﺍﭘﻨﺎ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﺟﺐ ﮐﺘﺎﺑﯽ ﺷﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﺋﻊ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺩﻧﯿﺎ ﺍِﺱ ﺳﺎﺭﯼ ﺩﺍﺳﺘﺎﻥ ﺳﮯ ﺁﮔﺎﮦ ﮨﻮﺋﯽ۔ ﯾﮧ ﺣﯿﺮﺕ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﮯ ﺩﺭﯾﭽﻮﮞ ﺳﮯ ﺟﮭﺎﻧﮏ ﺟﮭﺎﻧﮏ ﮐﺮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﺎﻥِ ﻋﺎﻟﻢ ﮐﻮ ﺟﮭﻨﺠﮭﻮﮌ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ، ﺑﯿﺪﺍﺭﯼ ﮐﺎ ﺩﺭﺱ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔ ﮨﻤﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍُﺩﮬﮍﯼ ﻋﺒﺎﺅﮞ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﭩﮯ ﺟﻮﺗﻮﮞ ﻭﺍﻟﮯ ﮔﻠﮧ ﺑﺎﻥ، ﭼﻮﺩﮦ ﺳﻮﺑﺮﺱ ﻗﺒﻞ ﮐﺴﻄﺮﺡ ﺟﮩﺎﮞ ﺑﺎﻥ ﺑﻦ ﮔﺌﮯ؟ ﺍُﻧﮑﯽ ﻧﻨﮕﯽ ﺗﻠﻮﺍﺭ ﻧﮯ ﮐﺲ ﻃﺮﺡ ﭼﺎﺭ ﺑﺮﺍﻋﻈﻢ ﻓﺘﺢ ﮐﺮ ﻟﯿﮯ؟۔
ﺍﮔﺮ ﭘﺮ ﺷﮑﻮﮦ ﻣﺤﻼﺕ، ﻋﺎﻟﯽ ﺷﺎﻥ ﺑﺎﻏﺎﺕ ، ﺯﺭﻕ ﺑﺮﻕ ﻟﺒﺎﺱ ، ﺭﯾﺸﻢ ﻭ ﮐﻤﺨﻮﺍﺏ ﺳﮯ ﺁﺭﺍﺳﺘﮧ ﻭ ﭘﯿﺮﺍﺳﺘﮧ ﺁﺭﺍﻡ ﮔﺎﺋﯿﮟ، ﺳﻮﻧﮯ ﭼﺎﻧﺪﯼ، ﮨﯿﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﺟﻮﺍﮨﺮﺍﺕ ﺳﮯ ﺑﮭﺮ ﯼ ﺗﺠﻮﺭﯾﺎﮞ ، ﺧﻮﺵ ﺫﺍﺋﻘﮧ ﮐﮭﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺍَﻧﺒﺎﺭ ﺍﻭﺭ ﮐﮭﻨﮑﮭﻨﺎﺗﮯ ﺳﮑﻮﮞ ﮐﯽ ﺟﮭﻨﮑﺎﺭ ﮨﻤﯿﮟ ﺑﭽﺎ ﺳﮑﺘﯽ ﺗﻮ ﺗﺎﺗﺎﺭﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﭨﮉﯼ ﺩﻝ ﺍﻓﻮﺍﺝ ﺑﻐﺪﺍﺩ ﮐﻮ ﺭﻭﻧﺪﺗﯽ ﮨﻮﺋﯽ خلیفہ مستعصم ﺑﺎﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻣﺤﻞ ﺗﮏ ﻧﮧ ﭘﮩﻨﭽﺘﯽ۔ ﺁﮦ ! ﻭﮦ ﺗﺎﺭﯾﺦِ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﮐﺘﻨﺎ ﻋﺒﺮﺕ ﻧﺎﮎ ﻣﻨﻈﺮ ﺗﮭﺎ ﺟﺐ خلیفہ ، ﺁ ﮨﻨﯽ ﺯﻧﺠﯿﺮﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﮍﻭﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﮑﮍﺍ ، ﭼﻨﮕﯿﺰ ﺧﺎﻥ ﮐﮯ ﭘﻮﺗﮯ ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﮭﮍﺍ ﺗﮭﺎ۔ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﻭﻗﺖ ﺁﯾﺎ ﺗﻮ ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﻧﮯ ﺧﻮﺩ ﺳﺎﺩﮦ ﺑﺮﺗﻦ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﺎ ﻧﺎ ﮐﮭﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺳﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﻃﺸﺘﺮﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﯿﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﺟﻮﺍﮨﺮﺍﺕ ﺭﮐﮫ ﺩﺋﯿﮯ۔ ﭘﮭﺮ خلیفہ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ۔ ’’ : ﺟﻮ ﺳﻮﻧﺎ ﭼﺎﻧﺪﯼ ﺗﻢ ﺟﻤﻊ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍُﺳﮯ ﮐﮭﺎﺅ ‘‘! ۔
ﺑﻐﺪﺍﺩ ﮐﺎ ﺗﺎﺝ ﺩﺍﺭ ﺑﮯ ﭼﺎﺭﮔﯽ ﻭ ﺑﮯ ﺑﺴﯽ ﮐﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺑﻨﺎ ﮐﮭﮍﺍ ﺗﮭﺎ، ﺑﻮﻻ ’’ : ﻣﯿﮟ ﺳﻮﻧﺎ ﮐﯿﺴﮯ ﮐﮭﺎﺅﮞ؟ ‘‘ ﮨﻼﮐﻮ ﻧﮯ ﻓﻮﺭﺍً ﮐﮩﺎ ’’ ﭘﮭﺮ ﺗﻢ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺳﻮﻧﺎ ﭼﺎﻧﺪﯼ ﺟﻤﻊ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ؟ ‘‘ ۔ ﻭﮦ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺟﺴﮯ ﺍُﺳﮑﺎ ﺩﯾﻦ ﮨﺘﮭﯿﺎﺭ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﭘﺎﻟﻨﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺗﺮﻏﯿﺐ ﺩﯾﺘﺎ ﺗﮭﺎ، ﮐﭽﮫ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮧ ﺩﮮ ﺳﮑﺎ۔ ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﻧﮯ ﻧﻈﺮﯾﮟ ﮔﮭﻤﺎ ﮐﺮ ﻣﺤﻞ ﮐﯽ ﺟﺎﻟﯿﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﻀﺒﻮﻁ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﯿﺎ ’’ : ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍِﻥ ﺟﺎﻟﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﮕﮭﻼ ﮐﺮ ﺁﮨﻨﯽ ﺗﯿﺮ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮧ ﺑﻨﺎﺋﮯ ؟ ﺗﻢ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺟﻮﺍﮨﺮﺍﺕ ﺟﻤﻊ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﭙﺎﮨﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺭﻗﻢ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮧ ﺩﯼ، ﺗﺎﮐﮧ ﻭﮦ ﺟﺎﻧﺒﺎﺯﯼ ﺍﻭﺭ ﺩﻟﯿﺮﯼ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻓﻮﺍﺝ ﮐﺎ ﻣﻘﺎﺑﻠﮧ ﮐﺮﺗﮯ؟ ‘‘ ۔ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﻧﮯ ﺗﺎﺳﻒ ﺳﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ۔ ’’ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﯾﮩﯽ ﻣﺮﺿﯽ ﺗﮭﯽ ‘‘ ۔
ﮨﻼﮐﻮ ﻧﮯ ﮐﮍﮎ ﺩﺍﺭ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎ ’’ : ﭘﮭﺮ ﺟﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﻮﻧﯿﻮﺍﻻ ﮨﮯ ، ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺧﺪﺍ ﮐﯽ ﻣﺮﺿﯽ ﮨﻮﮔﯽ۔ ‘‘ ۔
ﭘﮭﺮ ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﻧﮯ خلیفہ ﮐﻮ ﻣﺨﺼﻮﺹ ﻟﺒﺎﺩﮮ ﻣﯿﮟ ﻟﭙﯿﭧ ﮐﺮ ﮔﮭﻮﮌﻭﮞ ﮐﯽ ﭨﺎﭘﻮﮞ ﺗﻠﮯ ﺭﻭﻧﺪ ﮈﺍﻻ، ﺑﻐﺪﺍﺩ ﮐﻮ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﺑﻨﺎ ﮈﺍﻻ۔ ﮨﻼﮐﻮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ’’ ﺁﺝ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﻐﺪﺍﺩ ﮐﻮ ﺻﻔﺤﮧ ﮨﺴﺘﯽ ﺳﮯ ﻣﭩﺎ ﮈﺍﻻ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍَﺏ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﺍﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻭﺍﻻ ﺑﻐﺪﺍﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻨﺎ ﺳﮑﺘﯽ۔ ‘‘ ۔
ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺗﻮ ﻓﺘﻮﺣﺎﺕ ﮔﻨﺘﯽ ﮨﮯ ۔ ﻣﺤﻞ، ﻟﺒﺎﺱ، ﮨﯿﺮﮮ، ﺟﻮﺍﮨﺮﺍﺕ ﻟﺬﯾﺰ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﺍﮔﺮ ﮨﻢ ﺫﺭﺍ ﺳﯽ ﺑﮭﯽ ﻋﻘﻞ ﻭ ﺷﻌﻮﺭ ﺳﮯ ﮐﺎﻡ ﻟﯿﺘﮯ ﺗﻮ ﺑﺮﺻﻐﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﻣﻐﻠﯿﮧ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﮐﺎ ﺁﻓﺘﺎﺏ ﮐﺒﮭﯽ ﻏﺮﻭﺏ ﻧﮧ ﮨﻮﺗﺎ۔ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﮐﺮﻭ ﺟﺐ ﯾﻮﺭﭖ ﮐﮯ ﭼﭙﮯ ﭼﭙﮯ ﭘﺮ ﺗﺠﺮﺑﮧ ﮔﺎﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺗﺤﻘﯿﻘﯽ ﻣﺮﺍﮐﺰ ﻗﺎﺋﻢ ﮨﻮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ، ﺗﺐ ﯾﮩﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﺷﮩﻨﺸﺎﮦ ﺩﻭﻟﺖ ﮐﺎ ﺳﮩﺎﺭﺍ ﻟﯿﮑﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ ﯾﺎﺩ ﻣﯿﮟ ﺗﺎﺝ ﻣﺤﻞ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﺮﻭﺍ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺟﺐ ﻣﻐﺮﺏ ﻣﯿﮟ ﻋﻠﻮﻡ ﻭ ﻓﻨﻮﻥ ﮐﮯ ﺑﻢ ﭘﮭﭧ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺗﺐ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﺎﻥ ﺳﯿﻦ ﺟﯿﺴﮯ ﮔﻮﯾﮯ ﻧﺌﮯ ﻧﺌﮯ ﺭﺍﮒ ﺍﯾﺠﺎﺩ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺟﺐ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰﻭﮞ، ﻓﺮﺍﻧﺴﯿﺴﯿﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﭘﺮﻧﮕﺎﻟﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺤﺮﯼ ﺑﯿﮍﮮ ﺑﺮ ﺻﻐﯿﺮ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﻭﮞ ﭘﺮ ﺩﺳﺘﮏ ﺩﮮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ، ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺍَﺭﺑﺎﺏ ﻭ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺷﺮﺍﺏ ﻭ ﮐﺒﺎﺏ ﺍﻭﺭ ﭼﻨﮓ ﻭ ﺭﺑﺎﺏ ﺳﮯ ﻣﺪﮨﻮﺵ ﭘﮍﮮ ﺗﮭﮯ۔ ﺗﻦ ﺁﺳﺎﻧﯽ، ﻋﯿﺶ ﮐﻮﺷﯽ ﺍﻭﺭ ﻋﯿﺶ ﭘﺴﻨﺪﯼ ﻧﮯ ﮨﻤﯿﮟ ﮐﮩﯿﮟ ﮐﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌﺍ۔ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺑﻮﺳﯿﺪﮦ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﻤﮏ ﺯﺩﮦ ﻧﻈﺎﻡ ﺑﮑﮭﺮ ﮔﯿﺎ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﻮ ﺍِﺱ ﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﮐﻮ ﺋﯽ ﻏﺮﺽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺋﯽ ﮐﮧ ﺣﮑﻤﺮﺍﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﺠﻮﺭﯾﺎﮞ ﺑﮭﺮﯼ ﮨﯿﮟ ﯾﺎ ﺧﺎﻟﯽ؟ ﺷﮩﻨﺸﺎﮨﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﺎﺝ ﻣﯿﮟ ﮨﯿﺮﮮ ﺟﮍﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ؟ ﺩﺭﺑﺎﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺷﺎﻣﺪﯾﻮﮞ ، ﻣﺮﺍﺛﯿﻮﮞ ، ﻃﺒﻠﮧ ﻧﻮﺍﺯﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻭﻇﯿﻔﮧ ﺧﻮﺍﺭ ﺷﺎﻋﺮﻭﮞ ﮐﺎ ﺟﮭﺮﻣﭧ ﮨﮯ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ؟ ﯾﺎ ﺩ ﺭﮐﮭﯿﮯ ! ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﻮ ﺻﺮﻑ ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﻏﺮﺽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻋُﺬﺭ ﻗﺒﻮ ﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﯽ۔
ﺍﻓﺴﻮﺱ ﺻﺪ ﺍﻓﺴﻮﺱ ! ﺳﯿﺮﺕ ﻧﺒﻮﯼ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻋﻮﺭﺕ ﻧﮯ ﺗﻮ ﺳﺒﻖ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ۔ﻣﮕﺮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺍِﺱ ﭘﮩﻠﻮ ﺳﮯ ﻧﺎﺁﺷﻨﺎ ﺭﮨﮯ۔ ﺳﺎﺋﻨﺲ ﻭ ﭨﯿﮑﻨﺎﻟﻮﺟﯽ، ﻋﻠﻮﻡ ﻭ ﻓﻨﻮﻥ ﭘﺮ ﺩﺳﺘﺮﺱ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﮐﯽ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﻻﺣﺎﺻﻞ ﺑﺤﺜﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻏﯿﺮ ﺿﺮﺭﻭﯼ ﮐﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﻣﮕﻦ ﺭﮨﮯ۔ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺯﻭﺍﻝ ﮨﻤﺎﺭﺭ ﻣﻘﺪﺭ ﭨﮭﮩﺮﺍ۔ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺑﮍﯼ ﺑﮯ ﺭﺣﻢ ﮨﻮﺗﯽ ہے۔*دنیا کی سب سے بڑی سازش بے نقاب*
تحقیق. تحریر محمد الیاس آرائیں 
۔
یہ منصوبہ اسرائیل میں تیار کیا گیا جس میں امریکا، برطانیہ اور بھارت کے بڑے سازشی دماغ شریک ہوئے۔ (بعض سعودی ذرائع کے مطابق ان میں ایرانی خفیہ حکام اور قادیانیوں کے نمائندے بھی شامل تھے) روس اور چین کو شامل نہیں کیا گیا کیونکہ ان کے بعض مسلمان ملکوں سے قریبی تعلقات ہیں۔ اور یہ سازش تو ہے ہی مسلمانوں کے خلاف۔
منصوبے کے بلو پرنٹ کے مطابق پوری دنیا کا میڈیا چونکہ یہودیوں کے قبضے میں ہے، اس لیے اسے ایک جھوٹ موٹ کے وائرس کا پروپیگنڈا کرنے کی ذمے داری دی گئی۔ امریکا یا اسرائیل پر کوئی شک نہ کرے، اس لیے اس کا آغاز چین سے کیا گیا۔
چین کی مرکزی حکومت کو اس معاملے سے بے خبر رکھتے ہوئے ووہان کی مقامی انتظامیہ کو کروڑوں ڈالر دے کر خریدا گیا جبکہ اسپتالوں کے ڈاکٹروں کو بھی بھاری رشوت دی گئی۔ انھوں نے شور مچایا کہ ان کے شہر میں ایک وائرس پھیل گیا ہے جو ہلاکت خیز ہے۔
چین کی بھولی بھالی مرکزی حکومت اسے حقیقت سمجھی اور لاک ڈاؤن لگادیا۔ اب نہ کوئی شہر میں آسکتا تھا اور نہ جاسکتا تھا۔ ووہان کے ڈاکٹروں نے ہر بیماری کے مریض کو مار کے کہنا شروع کردیا کہ سیکڑوں مرگئے، ہزاروں مرگئے۔ حد یہ کہ معمولی نزلہ زکام کے مریضوں کو بھی زبردستی وینٹی لیٹر لگاکر مارا گیا۔
چین کے دوسرے شہروں میں بھی یہودیوں کے ایجنٹ ڈاکٹروں نے یہی کہہ کر کافی لوگوں کی جان لے لی۔ اسی کے ساتھ یورپ اور امریکہ کے میڈیا نے جھوٹی خبریں دینا شروع کردیں کہ چین سے آنے والوں نے ان کے ملکوں میں وائرس پھیلا دیا ہے۔
اتنی دیر میں چین کی انٹیلی جنس نے حقیقت کا سراغ لگالیا اور ووہان کی انتظامیہ اور اسپتالوں کی کالی بھیڑوں کو گرفتار کرلیا۔ ان سب کو سزائے موت دے دی گئی اور شہر کھول دیا گیا۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس کے بعد سے چین میں نہ کوئی مریض سامنے آرہا ہے اور نہ کوئی شخص مر رہا ہے۔
لیکن مغرب کو جو موقع چاہیے تھا، وہ مل چکا تھا۔ امریکا اور یورپ کے ملکوں نے لاک ڈاؤن کردیا اور روزانہ بڑھا چڑھا کر مریضوں اور اموات کا ڈیٹا دینا شروع کردیا۔ اب لاک ڈاؤن ہے تو بھلا کون اسپتال جاکر دیکھے کہ کوئی بیمار آ بھی رہا ہے یا نہیں؟ کوئی مر بھی رہا ہے یا نہیں؟
ہم سب جانتے ہیں کہ پوری دنیا کے کاروبار پر ہنود و یہود کا قبضہ ہے۔ دنیا کے سارے ارب پتی کون ہیں؟ بل گیٹس جیسے یہودی ہیں یا انیل امبانی جیسے ہندو ہیں۔ فیس بک کا مالک بھی یہودی ہے۔ یہ سب خوب پروپیگنڈا کررہے ہیں۔ قادیانی قدم قدم پر ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔
تمام ائیرلائنز کو اربوں ڈالر دے کر خاموش کروایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ تمھارا نقصان پورا کردیں گے، بس پروازیں بند کردو۔ امریکا اور یورپ کے دفاتر اور کاروباری مراکز بند ہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ وہاں حکومتیں اپنے عوام کو گھر بیٹھے تنخواہیں دے رہی ہیں، کیوں؟ کیونکہ انھیں یہودی اربوں ڈالر دے رہے ہیں۔
متاثر کون ہورہے ہیں؟ جنوبی امریکا اور افریقا کے غریب ملک اور مسلمان۔ عمران خان کو شک ہوگیا ہے اسی لیے وہ بار بار مغربی ملکوں سے کہہ رہے ہیں کہ غریب ملکوں کے قرضے معاف کرو۔ مغربی ممالک اور آئی ایم ایف مخلص ہوتے اور واقعی کوئی وبا آئی ہوتی تو قرضے معاف کیے جاچکے ہوتے۔ لیکن وہ کبھی ایسا نہیں کریں گے کیونکہ یہی تو اصل سازش ہے۔
روس پہلے اس سازش میں شریک نہیں تھا۔ اس کے ملک سے کسی مریض یا موت کا ذکر نہیں آرہا تھا۔ لیکن پھر پیوٹن کو اعتماد میں لیا گیا۔ اس کے لیے چیچنیا کے نوجوان مصیبت بنے ہوئے ہیں۔ اسے جب معلوم ہوا کہ سازش کا نتیجہ کیا نکلے گا تو وہ بھی مان گیا۔ اب آپ خود دیکھیں، روزانہ روس میں ہزاروں لوگوں کے مرنے کی جھوٹی خبریں آنا شروع ہوگئی ہیں۔
پاکستان کا میڈیا بھی اس سازش میں شریک ہے۔ اسی لیے یہودیوں کے ایجنٹ میر شکیل الرحمان کو نیب نے پکڑا ہوا ہے کیونکہ آئی ایس آئی کو اندر کی بات معلوم ہوگئی ہے۔ لیکن یہ کھیل اتنا بڑا ہے کہ مالک کی گرفتاری کے باوجود جیو اور دوسرے چینل مسلسل پروپیگنڈا کررہے ہیں کہ پاکستان میں اتنے لوگ بیمار ہوگئے، اتنے لوگ مر گئے۔
سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے جو ہمیشہ غیر ملکی طاقتوں کی آلہ کار رہی ہے۔ اسی لیے اس نے سب سے پہلے لاک ڈاؤن کیا اور وزیراعلیٰ نے یہودیوں کی زبان میں عوام کو ڈرایا دھمکایا۔ پاکستان کی بے بس حکومت سب کھیل دیکھ رہی ہے اور مجبور ہے۔
اب تک پورے ملک میں بلکہ پوری دنیا میں ایک بھی شخص ایسا نہیں جو قسم کھاکر کہہ سکے کہ اس نے کرونا وائرس کا کوئی مریض دیکھا ہے یا کوئی اس سے مرا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا ہو تو پتا چلے۔ یہ سب جھوٹ ہے۔
آپ جانتے ہیں کہ امریکا اور یورپ کے ڈاکٹر بار بار کہہ رہے ہیں کہ کرونا وائرس کا کوئی علاج نہیں۔ ایسا اس لیے کہہ رہے ہیں کہ وائرس ہے ہی نہیں۔ ہوتا تو اس کا علاج کیا جاتا۔
اسی طرح اب جعلی خبریں آرہی ہیں کہ امریکا اور یورپ میں ویکسین بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ کیا آپ نے سنا کہ چین سے ایسی کوئی خبر آئی ہو؟ چین دنیا کی ہر چیز بناتا ہے، پھر ویکسین کیوں نہیں بنارہا؟ اس لیے کہ وائرس ہو تو اس کی ویکسین بنائی جائے۔ چین کو تو حقیقت معلوم ہوچکی ہے۔
اب اصل میں ہوگا یہ کہ امریکا اعلان کرے گا کہ اس نے ویکسین بنالی ہے۔ اس کا خوب پروپیگنڈا ہوگا۔ کسی یہودی ڈاکٹر کو اس جعلی کارنامے پر نوبیل انعام بھی دیا جائے گا۔ پھر ویکسین کے نام پر ایک دوا پوری دنیا میں پھیلائی جائے گی۔
یورپ اور امریکا میں  یہ دوا مردانہ طاقت میں اضافے کی ہوگی۔ لیکن ایشیا، افریقہ اور جنوبی امریکا کو جو دوا فراہم کی جائے گی، اسے پینے والے کمزور ہوجائیں گے۔ وہ بچے پیدا کرنے سے معذور ہوجائیں گے۔ اگر اولاد ہوگی بھی تو وہ جسمانی طور پر کمزور ہوگی۔ یعنی یہ نسل نہیں تو اگلی نسل ضرور بانجھ ہوگی۔
یورپ اور امریکا کینیڈا میں مقیم مسلمانوں کو بھی وہی دوا دی جائے گی جس سے ان کی تعداد کم ہو۔ کیا یہ کوئی راز ہے کہ امریکا اور یورپ مسلمان پناہ گزینوں سے تنگ آچکے ہیں اور ان سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔
اس سے پہلے بھی ہنود و یہود اور قادیانیوں کے ایما پر امریکا، یورپ اور اقوام متحدہ کئی بار مسلمانوں کی آبادی کم کرنے کے حربے آزما چکے ہیں۔ قادیانیوں کی کمپنی شیزان کی مصنوعات میں دوائیں ملائی گئیں لیکن مسلمانوں نے انھیں خریدنا چھوڑ دیا۔ پھر آیوڈین ملا نمک پھیلا گیا لیکن خوش قسمتی سے اس کا مسلمانوں پر اثر نہیں ہوا۔ پھر پولیو ویکسین میں نسل کشی کے قطرے ملائے گئے لیکن اس کا پول بھی کھل گیا۔
ہر طرف سے مایوس ہوکر عالمی طاقتوں نے اس بڑے کھیل کا آغاز کیا ہے۔ لیکن ہم راسخ العقیدہ مسلمانوں کا ایمان ہے کہ ہنود و یہود و قنود کا کوئی منصوبہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ 
اور ایسی طرح ہمارے پاکستان میں سب بک چکے ہیں 
ابھی کچھ دن پہلے اکرم نام کے بندے کے ساتھ واقعہ پیش آیا اس کو بھی مار دیا گیا اس کے گھر والوں کا کہنا تھا وہ ایک سال سے شوگر کا مریض تھا شوگر زیادہ ہونے کی وجہ سے بے ہوش ہو جاتا تھا مرحوم کے مرنے سے ایک دن پہلے شوگر زیادہ ہوگیا تھا اور سانس لینا مشکل ہوگیا تھا مریض کو انڈس ہسپتال لے کے آئے اور انہوں نے اسکو چیک کر کے جناح ہسپتال منتقل کر دیا گیا 
ہسپتال منتقل ہونے کے بعد ایک دن وارڈ میں ہو گیا اور مرحوم کی تکلیف بھی ختم ہو گئی رات کو 4 بجے ایک ایمبولینس آتی ہے مرحوم کا ایک بیٹا نیچے ہی تھا اس نے ایمبولینس کے ڈرائیور سے پوچا کہ آپ لوگ کرونا ٹیم کے ہو اور یہاں کیسے آئے ہو تو ڈرائیور کا کہنا تھا کہ ہم وارڈ نمبر 23 سے ڈیڈ بوڈی لینے آئے ہیں تو ان سے ڈیڈ بوڈی کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا کہ کرونا کا مریض فوت ہوگیا ہے اسکا نام اکرم ہے اس کی ڈیڈ بوڈی لینے آئے ہیں تو مرحوم کے بیٹے نے کہا میرا والد تو زندہ ہے اور وہ چل پھر بھی رہا اور باتیں بھی کر رہا ہے وہ تو زندہ ہے ڈرائیور کہنے لگا ہمیں جو آرڈر ملا ہے ہم وہ فالو کر رہے ہیں 
اس کے بعد 5:30 پہ مرحوم کا بیٹا کسی کام سے وارڈ سے نیچے آتا ہے اور 15 منٹ کے بعد دوبارہ وارڈ میں جاتا ہے تو سامنے سے ڈاکٹر آتا دکھائی دیا تو ڈاکٹر قریب آیا اور مجھے بتایا آپ کا والد فوت ہو گیا ہے , بیٹا 
 مجھے بہت حیرت ہوئی کہ ڈرائیور اور ایمبولینس کو فوت ہونے سے 2 گھنٹے پہلے کیسے پتا چلا کہ اس مریض کی ڈیتھ ہو جائے گی اور اسکی ڈیڈ بوڈی لینے کے لئے 2 گھنٹے پہلے ہی پہنچ گئے شاید ہو سکتا ہے ملک الموت نے انکو پہلے سے بتا دیا ہو کہ یہ بندہ مر جاے گا تم لوگ 2 گھنٹے پہلے ایمبولینس لے کے پہنچ جاؤ 🤔
مرحوم کے گھر والوں کا کہنا ہے ہمارے بندے کو مارا گیا ہے. بیٹا
اسی طرح اور لوگ جن کے رشتہ داروں کے مریض مر گئے ہیں سب کی داستان ایک جیسی ہے اور لاشوں پہ سیاست ہو رہی ہے اور لاشوں کو بیچا جا رہا ہے زرائع کے مطابق ایک لاکھ سے تیس لاکھ تک ایک ڈیڈ بوڈی بیچی جا رہی ہیں اور یہ بھی ایک عالمی سازش ہے 
 کیونکہ شک و شبہات اور مشقوق حرکتوں سے پتا چلتا ہے کہ کوئی خفیہ سازش ہو رہی ہے 
کرونا وائرس سے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ ڈرایا جا رہا ہے اور اگر یہ حقیقت ہوتی اور یہ پھیلنے والی وبا ہوتی تو جس طرح کی بے احتیاطی ہو رہی ہے اس تو یہ وبا بہت زیادہ پھیل جاتی اور اموات بہت زیادہ سے زیادہ ہوتی. 
ہماری حکومت اور سپریم کورٹ سے استدعا ہے اس پہ تحقیقات کروائی جائیں جو لوگ کرونا وبا کی وجہ سے فوت ہو گئے ہیں انکا پوسٹ مارٹم کروایا جاے
محمد الیاس آرائیں 
اور انکے گھر والوں سے پوچھا جائے انکو پہلے سے کیا بیماری تھی ابھی تک کوئی بھی کرونا کا مریض اپنے گھر پہ نہیں مرا 
جو بھی مر رہے ہیں وہ ہسپتال میں مر رہے ہیں اور ہر مرنے والے کی کہانی اسی طرح ہے جیسے اکرم کی ڈیتھ ہوئی ہے 
کچھ زرائع سے پتا چلا ہے اب تک جو بھی ڈاکٹر کرونا کی وجہ سے فوت ہوئے ہیں وہ اس سسٹم سے باغی ہو گئے تھے تو انکو ٹھکانے لگا دیا گیا تانکہ پردہ فاش نہ ہو جائے میری اس تحقیقات سے ہو سکتا ہے وہ مجھ پہ بھی اٹیک کرے اور اس راز کو فاش کرنے کے جرم میں مجھے الیاس آرائیں کو مارا بھی جا سکتا ہے 
میری زندہ ضمیر اپنے اداروں سے التماس ہے وہ خود بھی تحقیقات کریں اور اس وبا کی اصلیت کو سامنے لایا جائے 
یہ تھی کرونا کی اصلیت 
اور اگر لائیو کرونا وائرس پہ تحقیقات کرنی ہے تو اس کے لئے میں حاضر ہوں کرونا کے مریض کے ساتھ 14 دن رہوں گا کیمرہ کی نظر کے سامنے اور میرے پاس کوئی ڈاکٹر نہ آئے تو دیکھ لینا کچھ نہیں ہوگا نہ ہی کرونا کا مریض مرے گا اور نہ ہی میں مروں گا کرونا کی وجہ سے. ْ
اس ثابت ہو جائے گا کہ کرونا کچھ بھی نہیں ہے 
میری آپ لوگوں سے التماس ہے اس پوسٹ کو شئیر کریں تانکہ سب کو عالمی سازشوں کا پتا چل جائے یہ ایک عالمی سازش ہے جو کہ صرف اور صرف مسلمانوں کے خلاف ہے اور یہودی اسکی ویکسین بنا کہ مسلمانوں کے خلاف استعمال کریں گے اور ہر ایک پہ لازم ہوگا وہ کرونا کا ٹیسٹ کروائیں اور وہ ویکسین کروائیں جو مسلمانوں کے خلاف بنائی جائے گی 
تحریر.

ہفتہ، 18 اپریل، 2020

Mohd Parvez

مولانا روم کی کی زندگی کے پراسرار گوشے

 ایک دن بغداد کی شاہراہوں پر ایک مجذوب چیختا پھر رہا تھا۔ "لوگو! خدا کی نا فرمانیوں سے باز آ جاؤ۔ چنگ و رباب توڑ دو اور شراب کے ذخیرے نالیوں میں بہا دو۔۔۔ورنہ قدرت کا پیمانۂ برداشت چھلکنے والا ہے۔ عذاب کے دن گنے جا چکے ہیں، بس کچھ گھڑیاں باقی ہیں، ابھی توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ سرکشی چھوڑ دو، نہیں تو تمہارے کاندھوں سے گردنوں کے بوجھ کم کر دیے جائیں گے، بڑا خون بہے گا، بڑی رسوائی ہو گی۔"
          ہر گزرتے ہوئےلمحے کے ساتھ مجذوب کی لے تیز ہوتی جا رہی تھی۔ شروع میں لوگ اسے پاگل سمجھ کر ایک دلچسپ تماشے سے لطف اندوز ہوتے رہے مگر وہ دیوانہ تو بڑے پتے کی باتیں کر رہا تھا۔ بڑے خوفناک راز فاش کر رہا تھا۔ آخر عشرت کدوں میں رہنے والوں کو اس وحشی کے نعرے گراں گزرنے لگے۔ مجذوب سے کہا گیا کہ وہ نعرہ زنی بند کر دے۔ اس کی بے ہنگم آوازوں سے شرفاء کے سکون میں خلل پڑتا ہے۔ وہ کس عذاب کی باتیں کرتا ہے؟ عذاب ہمیں چھو بھی نہیں سکتا کہ ہم اہلِ ایمان ہیں۔ کئی بار تنبیہ کی گئی لیکن مجذوب نے اپنا چلن نہیں بدلا۔ وہ پریشاں بالوں اور بوسیدہ کپڑوں کے ساتھ ہر گلی کوچے میں چیختا پھر رہا تھا۔
          "اے بے خبرو! سرخ آندھی آنے والی ہے۔ اس کے تیز جھونکوں میں تمہارے پتھروں کے مکان روئی کے تیز گالوں کی مانند اڑ جائیں گے۔ اب اس قہر سے تمہیں کوئی نہیں بچا سکتا۔ ہلاکت اور بربادی تمہارا مقدر ہو چکی ہے۔"
          عیش و عشرت میں ڈوبے ہوئے لوگ موت کی خبریں سننے کے لئے تیار نہیں تھے۔ آخر معززینِ شہر نے مجذوب کی باتوں کو بد شگونی کی علامت قرار دے کر ایک سنگدلانہ حکم جاری کر دیا۔ اب وہ بے ضرر انسان جدھر جاتا لوگ اس پہ غلاظت پھینکتے تھے۔ مجذوب ان کی اس حرکت پہ قہقہے لگاتا تھا۔
          "میرے جسم پہ گندگی کیا اچھالتے ہو۔ اپنے مسخ چہروں اور غلیظ لباسوں کی طرف دیکھو۔ عنقریب ان پر سیاہی ملی جانے والی ہے، اور کچھ دن خدا کے نظام کا مذاق اڑا لو۔ پھر وقت تمہارا اس طرح مذاق اڑائے گا کہ تم موت کو پکارو گے مگر موت بھی تمہیں قبول نہیں کرے گی۔"
          اس کے بعد لوگ تشدد پر اتر آئے۔ مجذوب جہاں سے گزرتا تھا، جوان اور بچے اس پر پتھر برساتے تھے۔ لاغر اور نحیف جسم اپنے خون میں نہا گیا۔ بدمست انسانوں کے قہقہے بلند ہوئے۔ مجذوب بغداد کی ایک شاہراہ پر کھڑا لڑکھڑا رہا تھا۔ اس خوں رنگ تماشے دیکھنے کے لئے سینکڑوں انسان جمع ہو گئے تھے۔ مجذوب نے ہجوم کی طرف دیکھا اور بڑے اداس لہجے میں بولا۔
          "کیا تم میں سے ایک شخص بھی ایسا نہیں ہے جو ان سنگدلوں کو منع کرے اور میری طرف آنے والے پتھروں کو روک لے؟"
          مجذوب کی فریاد سن کر لوگوں کے قہقہے کچھ اور بلند ہو گئے۔ کسی نے سنگ باری کرنے والوں کو منع نہیں کیا۔ پورے مجمع کا ضمیر مر چکا تھا۔
          "عذاب لکھا جا چکا۔" مجذوب آسمان کی طرف منہ اٹھا کر چیخا "لکھنے والے نے لوحِ محفوظ پر لکھ دیا۔ آگ، خون، موت، ذلت اور بربادی۔" پھر مجذوب نے بہتے ہوئے خون کو اپنے چہرے پہ مل لیا، چند پتھر اور برسے۔ مجذوب زمین پر گر پڑا۔
          "مسخرا آسمان کی خبریں دیتا ہے۔" لوگ دیوانہ وار ہنس رہے تھے۔ "یہ خبر نہیں کہ خود اپنا کیا حال ہونے والا ہے؟" ایک مجبور انسان پہ مشقِ ستم کرنے کے بعد ہجوم منتشر ہو گیا، مجذوب کے جسم سے خون بہہ بہہ کر زمین پر جمتا رہا۔
          آخر بغداد کے با ہوش شہریوں نے ایک دیوانے سے نجات حاصل کر لی، اس دن کے بعد پھر کسی نے مجذوب کو نہیں دیکھا۔ وہ اپنا کام ختم کر کے بہت دور جا چکا تھا۔
          شہر کی فضائیں نغمہ بار تھیں۔ موسیقی کی پُر شور آوازوں نے گناہ کے خوابیدہ جذبوں کو بیدار کر دیا تھا، سیم تن بدنوں کے رقص نے جذبات کی دنیا میں وہ طوفان اٹھائے تھے کہ اہلِ دل اقتدار کی بینائی زائل ہو گئی تھی اور امراء اندھے ہو گئے تھے۔ سرحدی محافظوں کے بازو شل ہو گئے تھے اور تلواریں شاخِ گل کی مانند لہرا رہی تھیں۔
          اور پھر اہلِ بغداد کو قہرِ خداوندی نے آ پکڑا۔ ہلاکو خان رات کے اندھیرے میں شمشیر بکف آگے بڑھ رہا تھا۔۔۔ اور عظیم الشان اسلامی سلطنت کے نگہبان ہاتھوں میں چنگ و رباب لئے ہوئے جھوم رہے تھے پھر ہر طرف فتنہ و فساد کی آگ بھڑک اٹھی۔ سنگِ سرخ سے بنے ہوئے سر بہ فلک محلات میں آگ لگی ہوئی تھی اور علم و حکمت کے ذخیرے سوکھی لکڑیوں کی طرح جل رہے تھے۔ شاندار تہذیب و تمدن کے آثار وحشیوں کے نیزوں کی زد پر تھے۔ ہلاکو خان کے سامنے عالمانہ تقریریں کرنے والے بے شمار تھے مگر وہ تلوار کے سوا کوئی زبان نہیں سمجھتا تھا۔ اس فتنۂ عظیم کو صرف جرات و شجاعت کے ہتھیاروں سے روکا جا سکتا تھا مگر مسلمان بہت پہلے ان ہتھیاروں کو زنگ آلود سمجھ کر اپنے اسلحہ خانوں میں دفن کر چکے تھے۔ اس لئے چنگیز خان کا سفاک پوتا مسلمانوں کے سروں کے مینار بنا رہا تھا اور اہلِ بغداد ایک درندے سے تہذیب و شائستگی کی زبان میں رحم و کرم کی بھیک مانگ رہے تھے۔ پھر یوں ہوا ؎
آگ اس گھر کو ایسی لگی کہ جو تھا جل گیا
          اب ہلاکو خان کا رخ نیشا پور کی طرف تھا۔ یہاں بھی موت کی سرخ آندھی نے تباہی مچا دی۔ علم و حکمت کے کیسے کیسے تناور درخت جڑوں سے اکھڑ گئے، جن لوگوں نے کچھ دن پہلے بغداد کی شاہراہوں پہ ایک مجذوب کو چیختے ہوئے دیکھا تھا، آج انہیں اس پاگل انسان کی باتیں یاد آ رہی تھیں مگر وقت گزر چکا تھا۔ اچانک خبر آئی کہ تاتاریوں نے حضرت شیخ فرید الدین عطارؒ جیسے بزرگ کو بھی شہید کر دیا۔ معرفت کا یہ مینار کیا گرا کہ گھروں میں سہمے ہوئے مسلمان موت کے خوف سے کانپنے لگے۔ اب ان کے درمیان سے وہ شخص بھی اٹھ گیا تھا، جس کی دعائیں آسمان پر سنی جاتی تھیں۔
          دوسری جانگداز خبر آئی کہ حضرت شیخ نجم الدین کبریٰؒ نے بھی جامِ شہادت پی لیا۔ اس طرح کہ آپ نے خانقاہ سے باہر آ کر آخری سانس تک ہلاکو کی فوج سے جنگ کی اور مرتے وقت اپنی قوم کو ایک ہی پیغام دیا کہ مکانوں کو چھوڑ کر میدانِ کار زار میں نکل آؤ۔ حضرت نجم الدین کبریٰؒ کی شہادت نے مسلمانوں کی امید کی آخری کرن بھی بجھا دی تھی۔ معرفت کے اس بلند ترین مینار کے زمین پر گرتے ہی زلزلہ آ گیا تھا اور ظلم و ستم کی رات مزید طویل ہو گئی تھی۔
          خون کا سیلاب راستا بناتا ہوا مسلمانوں کے سر سبز و شاداب علاقوں سے گزر رہا تھا ، اب ہلاکو خان کے لہو آشام لشکر کا رخ روم کے شہر "قونیہ" کی جانب تھا۔ اس لشکر کی سالاری بیچو خان کو سونپی گئی تھی۔ بیچو خان نے اپنی فوجیں شہر کے چاروں طرف پھیلا دیں اور قونیہ کا مکمل محاصرہ کر لیا۔ چند روز تک تو اہلِ شہر کو خوف و دہشت کے سوا کسی تکلیف کا احساس نہیں ہوا مگر جب محاصرے نے طول پکڑا تو قونیہ کے باشندوں کا سامانِ رسد بند ہو گیا، جس سے ہر طرف بد حواسی پھیل گئی۔ اہلِ شہر میں مشورے ہونے لگے۔
          کسی نے کہا۔ "بیچو خان سے مصالحت کی بات کی جائے اور اس کے مطالبات مان کر اس عذاب سے نجات حاصل کی جائے۔"
          فوراً ہی دوسرے شخص نے جواب دیا۔ "ہلاکو خان مسلمانوں کے خون کا پیاسا ہے، وہ علی الاعلان خود کو خدا کا قہر کہتا ہے، اس کے نزدیک امن و عافیت جیسے الفاظ کوئی مفہوم نہیں رکھتے۔"
          "پھر کیا ہو گا؟" ہر زبان پر ایک ہی سوال تھا۔ آخر جب تمام ذہن سوچتے سوچتے مفلوج ہو گئے تو امیروں کی محفل میں ایک پریشان حال شخص داخل ہوا۔ اس مفلس انسان کو دیکھ کر دولت مندوں کی پیشانیوں پر بل پڑ گئے مگر وہ لوگوں کے احساسات سے بے نیاز اندر چلا آیا اور بد مستوں کے درمیان کھڑے ہو کر با رعب لہجے میں کہنے لگا۔
          "لوگو! تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اپنے ایک ہم مذہب کو دیکھ کر بد حواس ہو گئے ہو۔ میں تم سے بھیک مانگنے نہیں آیا کہ مجھے دیکھ کر تمہارے چہروں پر نفرت برسنے لگی ہے۔ اسی تنگ دلی اور بے ضمیری نے تمہیں یہ خوفناک دن دکھائے ہیں۔ تم اپنے عشرت کدوں میں شرابِ سرخ سے دل بہلاتے رہے اور مخلوقِ خدا اپنے خون میں نہاتی رہی۔ اب دولت کے یہ ذخیرے لے کر کہاں جاؤ گے کہ زمین تم پر تنگ ہو چکی ہے اور آسمان بہت دور ہے۔"
          یہ کہہ کر وہ اجنبی کچھ دیر کے لئے خاموش ہو گیا۔ پوری محفل پر سکوتِ مرگ طاری تھا، ہر شخص کے چہرے سے ظاہر ہوتا تھا جیسے وہ نزع کی حالت میں گرفتار ہو۔
          "میں تمہیں صرف یہ بتانے کے لئے آیا ہوں کہ اس قہرِ آسمانی کا بس ایک ہی علاج ہے۔" اجنبی نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا۔
"ہاں! ہاں! ہمیں بتاؤ۔" تمام امراء بیک زبان چیخے۔ "ہم اپنے سیم و زر کے سارے انبار لٹا دیں گے، خدا کے لئے ہمیں اس اذیت ناک صورت حال سے نجات دلاؤ۔ ہم گزرنے والے ہر لمحے کے ساتھ مرتے ہیں اور پھر دوسری ساعت میں جی اٹھتے ہیں۔ ہلاکو خان کی دہشت ہمیں وقت سے پہلے مار ڈالے گی۔" سب کے سب گداگروں کی طرح چیخ رہے تھے۔
"اس درویش کے پاس جاؤ جو تمہارے عشرت کدوں پر تھوک کر اپنی خانقاہ میں گوشہ نشین ہو گیا ہے۔" اجنبی نے نہایت تلخ لہجے میں کہا۔ اس کے ایک ایک لفظ سے اہلِ محفل کے لئے شدید نفرت کا اظہار ہو رہا تھا۔ "وہ تمہارے سیم و زر کے ذخیروں کا محتاج نہیں۔ وہ تو خود شہنشاہ ہے۔ ایسا شہنشاہ جس کے سامنے ہلاکو خان کے سپاہی بھی حقیر کیڑوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ اس کے پاس جاؤ اگر وہ دعا کیلئے ہاتھ اٹھا دے تو ممکن ہے کہ تمہارے سروں پر آگ کے شعلوں کے بجائے ابرِ رحمت برس جائے۔ اللہ اس کی بہت سنتا ہے۔"
          اجنبی کی باتیں سن کر اہلِ محفل بد حواسی کے عالم میں کھڑے ہو گئے۔ وہ اسی وقت درویش کے آستانے پہ حاضر ہونا چاہتے تھے۔
          "سنو۔۔۔" اجنبی نے پکار کر کہا۔ "وہ آسانی سے نہیں مانے گا۔ اس کے دروازے پر بھکاریوں کی طرح جانا۔ وہ تمہاری قیمتی پوشاکوں اور زر نگار قباؤں سے نفرت کرتا ہے۔"
          یہ کہہ کر اجنبی محفل سے نکل گیا۔ تھوڑی دور تک لوگوں نے اسے جاتے دیکھا اور پھر وہ اچانک نظروں سے غائب ہو گیا۔ تمام لوگ اس بات پر حیران تھے کہ وہ کون تھا؟ کیوں آیا تھا اور یکایک کہاں غائب ہو گیا؟ یہ ایک بڑا اہم واقعہ تھا مگر لوگوں کے پاس سوچنے کے لئے وقت نہیں تھا۔ وہ انسان ہی سہی لیکن فرشتۂ رحمت بن کر آیا تھا۔ اس نے آگ اور خون کے درمیان گھرے ہوئے لوگوں کو سلامتی کی راہ دکھائی تھی۔
          اب قونیہ کے معززین اور شرفاء کی جماعت اس درویش کے آستانے کی طرف بڑھ رہی تھی۔ فاصلے ختم ہوئے، اجازت طلب کی گئی۔ درویش فطرتاً مہمان نواز تھا۔اس نے اپنے ہم وطنوں کو اندر بلا لیا۔ لوگ کانپتے قدموں سے درویش کے روبرو پہنچے، ان کی آنکھوں کی پتلیاں لرز رہی تھیں اور چہرے موت کے خوف سے زرد تھے۔بعض نے بڑی ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا مگر اس طرح کہ ان کی آواز لرز رہی تھی۔
          "میرے پاس کیوں آئے ہو؟" درویش نے بیزاری کے لہجے میں کہا۔ "اس کائنات میں میری کیا حیثیت ہے؟ تم اس کی بارگاہ میں کیوں نہیں گئے جو لوحِ محفوظ کا مالک ہے۔ جس کے ایک اشارے پر تقدیریں بنتی اور بگڑتی ہیں۔"
          "شیخ! وہ ہماری نہیں سنتا۔" قونیہ کے امراء نے رقت آمیز لہجے میں کہا۔ "ہم بہت گناہ گار ہیں، ہمارے لئے درِ توبہ بند ہو چکا ہے۔"
          "یہ سب غلط ہے۔" اگرچہ درویش کے ہونٹوں پہ ہر وقت ایک دلنواز تبسم نمایاں رہتا تھا مگر وہ قونیہ کے امراء کی بات سن کر یکایک غضب ناک ہو گیا۔ "کوئی نہیں جانتا کہ درِ توبہ کب بند ہو گا؟ جاؤ اسی کو پکارو! وہی اپنے بندوں کی سنتا ہے۔ اگر وہ نہیں سنے گا تو پھر اس کائنات میں کون سننے والا ہے؟"
          امراء نے محسوس کر لیا کہ درویش اپنا دامن بچا رہا ہے۔ اجنبی نے انہیں پہلے ہی خبردار کر دیا تھا کہ درویش آسانی سے ان کی بات نہیں مانے گا۔ اس لئے وہ مزید گریہ و زاری کرنے لگے۔ "آسمان سے ہماری فریادوں کا جواب نہیں آتا۔ شیخ! ہم تیرے آستانے سے واپس نہیں جائیں گے اگر موت ہمارا مقدر بن چکی ہے تو پھر ہم تیرے قدموں میں مر جانا پسند کریں گے۔"
          "تم نے دیکھا کہ شیخ فرید الدین عطارؒ شہید کر دئیے گئے۔ حضرت نجم الدین کبریٰؒ اپنے خون میں نہا کے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ میں تو ان کے قدموں کی خاک بھی نہیں ہوں۔ پھر تمہارے لئے کیسے دعا کروں۔؟ کیسے کیسے پارسا اس فتنۂ عظیم میں زندگی سے محروم ہو گئے۔ جب ان کی دعائیں قہرِ آسمانی کو نہ روک سکیں تو پھر میں کس شمار میں ہوں؟" درویش بڑے درد ناک لہجے میں اپنی عاجزی کا اظہار کر رہا تھا۔۔۔مگر لوگ اس کی بات سننے کے لئے تیار نہیں تھے۔ انہیں صرف اپنے جان و مال کی فکر تھی۔ وہ درویش کے سامنے بہت دیر تک گریہ و زاری کرتے رہے۔
          آخر درویش مجبور ہو گیا۔ اس سے مخلوقِ خدا کی چیخیں نہیں سنی جاتی تھیں۔ وہ اٹھا اور اپنا مصلّیٰ لے کر خانقاہ سے نکل گیا۔ لوگوں نے بڑی حیرت سے درویش کے طرزِ عمل کو دیکھا۔ وہاں موجود ہر شخص یہی سمجھ رہا تھا کہ درویش ان کے شورِ فغاں سے تنگ آ کر خانقاہ کو چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ پورے مجمع پر کچھ دیر کے لئے سکوتِ مرگ سا طاری رہا۔ پھر تمام لوگ خانقاہ سے باہر نکل آئے اور درویش کو دیکھنے لگے جو ساری دنیا سے بے نیاز تیز تیز قدموں کے ساتھ ایک سمت چلا جا رہا تھا۔
          قونیہ کے تمام شرفاء اور امراء درویش کو خاموشی سے دیکھتے رہے مگر کسی میں اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ اس کے پیچھے جاتے۔ بس درویش کے چند خادم بے قرار ہو کر اپنے مخدوم کے پیچھے بھاگے۔ ان کے لئے اس مردِ قلندر کا یہ انداز نا قابلِ فہم تھا۔ خادم درویش کے قریب پہنچ گئے مگر اس سے یہ پوچھنے کی جرات نہ کر سکے کہ وہ کہاں جا رہا ہے؟ درویش جس طرف سے بھی گزرتا تھا، کچھ لوگ اس کے ہمراہ ہو جاتے تھے۔۔۔مگر اس نے نظر اٹھا کر بھی ان کی طرف نہیں دیکھا۔
          اب وہ شہر کی حدود سے باہر نکل آیا تھا۔ اس کے ہمراہ چلنے والے خوف سے لرزنے لگے۔ سامنے ہلاکو کے سپہ سالا بیچو خان کا لشکر نظر آ رہا تھا۔ درویش یکایک مڑا اور ان لوگوں سے سخت لہجے میں مخاطب ہوا۔
          "تم اپنے گھروں کو واپس جاؤ۔ کیا یہ کوئی تماشا ہو رہا ہے؟ اس قہرِ آسمانی سے خدا کی پناہ مانگو۔" یہ کہہ کر درویش آگے بڑھا۔ اس کا انجانا سفر دوبارہ شروع ہو گیا تھا۔
          ساتھ جانے والے اسی مقام پہ رک گئے جہاں اس نے ٹھہر جانے کا حکم دیا تھا۔ درویش آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ وہ منگول لشکر کے قریب تر ہوتا چلا گیا۔ تمام اہلِ شہر اور خادم جو اس وقت وہاں موجود تھے، خوف و دہشت سے کانپنے لگے۔ درویش کا ناتواں جسم منگول تیر اندازوں کے نشانے پر تھا۔ تاتاریوں کے ترکش سے نکلا ہوا ایک تیر بھی درویش کا کام تمام کر سکتا تھا۔۔۔مگر وہ مردِ خدا آج ہر شے سے بے نیاز تھا۔ اس کے قدم تیزی سے اٹھ رہے تھے پھر وہ قونیہ کے ان باشندوں کی نظروں سے اوجھل گیا جو اسے بیچو خان کے لشکر کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔
          فاصلے مزید کم ہو گئے۔ درویش ایک بلند ٹیلے پر چڑھنے لگا۔ اس ٹیلے کے دوسری طرف تاتاریوں کا لشکر خیمہ زن تھا۔ درویش چوٹی تک پہنچا پھر اس نے اپنے اطراف پر نظر ڈالی۔ دور تک منگول سپاہی بکھرے ہوئے تھے اور نگاہوں کے سامنے سپہ سالار بیچو خان کا خیمہ تھا، جو دوسرے خیموں سے زیادہ وسیع اور نمایاں نظر آ رہا تھا۔ درویش نے ٹیلے پر مصلّیٰ بچھا دیا۔ ایک لمحے کے لئے آسمان کی طرف دیکھا اور نماز کی نیت باندھ لی۔ ابھی چند ساعتیں بھی نہیں گزری تھیں کہ کسی تاتاری کی نظر درویش پر پڑی۔ اس نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے سینکڑوں منگول سپاہی درویش کی طرف متوجہ ہو گئے جہاں ایک مسلمان اپنے اللہ کی عبادت میں مشغول تھا۔ دشمن سپاہی اس کی عبادت کا مفہوم تو نہیں سمجھ سکے مگر انہیں یہ خیال ضرور ہوا کہ وہ کوئی مسلمان جاسوس ہے جو بیچو خان کے لشکر کی مخبری کرنے آیا ہے۔
          اس خیال کے پیدا ہوتے ہی منگول سپاہیوں میں ہلچل مچ گئی۔ اگرچہ درویش تنہا تھا لیکن جنگی اصول کے مطابق اس کی موجودگی نہایت خطرناک تھی۔ سپاہیوں نے اپنے کاندھوں پر لٹکتی ہوئی کمانیں اتار لیں۔ برق رفتاری کے ساتھ تیر چڑھائے۔ پوری قوت کا مظاہرہ کیا مگر کوئی ایک کمان بھی نہ کھینچ سکی۔ تنگ آ کر سپاہیوں نے اپنے گھوڑوں کو استعمال کرنا چاہا تاکہ ٹیلے پر پہنچ کر مسلمان درویش کو تلواروں سے قتل کر ڈالیں لیکن اس وقت منگول سپاہیوں کی بے چارگی قابلِ دید تھی جب ان کے گھوڑے اپنی جگہ سے جنبش تک نہ کر سکے۔ تاتاریوں نے بے زبان جانوروں کو پیٹنا شروع کر دیا۔ فضاء میں گھوڑوں کی چیخیں بلند ہوتی رہیں مگر انہیں ایک قدم بھی آگے نہ بڑھایا جا سکا۔ بڑی عجیب صورتحال تھی۔ سارے لشکر میں ایک ہنگامہ سا برپا ہو گیا۔ سپاہیوں کا شور سن کر بیچو خان بھی اپنے خیمے سے باہر نکل آیا۔ سپاہیوں سے ان ہنگامے کا سبب دریافت کیا تو بے شمار انگلیاں ٹیلے کی طرف اٹھ گئیں جہاں درویش اب بھی اپنے خدا کے آگے ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔
          "یہ کیسی دیوانگی کی باتیں ہیں؟" بیچو خان نے چیخ کر کہا۔ "کوئی بھی ذی ہوش انسان تمہاری احمقانہ گفتگو پر یقین نہیں کر سکتا۔" یہ کہہ کر بیچو خان نے ایک سپاہی سے تیر کمان طلب کیا۔ وہ ایک ماہر تیر انداز تھا۔ ہلاکو کے پورے لشکر میں اس کی یہ صفت مشہور تھی۔ تمام سپاہی حیران و پریشان کھڑے بیچو خان کی طرف دیکھ رہے تھے۔ ان کی سانسیں رکی ہوئی تھیں اور ذہنوں میں ایک ہی خیال گردش کر رہا تھا کہ اگر منگول سپہ سالار مسلمان جاسوس کو ہلاک کرنے میں کامیاب ہو گیا تو پھر قیامت ٹوٹ پڑے گی۔ وہ اس کی وحشیانہ عادتوں سے واقف تھے۔
          آخر بیچو خان نے اپنی کمان کھینچی اور ایک قہر آلود نظر ان سپاہیوں پہ ڈالی جن کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ اپنی کمانیں کھینچنے سے عاجز رہے تھے۔ سپاہیوں کی جان پر بن آئی تھی اور اب انہیں اپنی موت صاف نظر آنے لگی تھی۔ بیچو خان نے پوری طاقت سے کمان کھینچی پھر فضاء میں ایک مخصوص آواز ابھری اور ترکش سے تیر چھوٹ گیا۔ منگول سپاہی پتھرائی ہوئی آنکھوں سے تیر کو دیکھ رہے تھے۔ چند ثانیوں کی بات تھی۔ تاتاریوں کا خیال تھا کہ دوسرے ہی لمحے مسلمان جاسوس کی لاش ٹیلے کی بلندیوں سے زمین کی پستیوں میں چلی جائے گی۔۔۔مگر ایسا نہیں ہوا۔ بیچو خان کا چھوڑا ہوا تیر درویش کے قریب سے نکل گیا۔ منگول سپہ سالار کا چہرہ احساسِ ندامت سے زرد ہو گیا۔ نشانہ چوک جانے پر وہ نا قابلِ بیان اذیت و کرب میں مبتلا تھا۔ شدید غضب کے عالم میں اس نے ترکش پر دوسرا تیر چڑھایا۔ اس بار کمان کو یہاں تک کھینچا کہ اس کے ٹوٹ جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ نشانہ درست ہوتے ہی بیچو خان نے تیر چھوڑ دیا۔۔۔مگر اس مرتبہ بھی وہی ہوا۔ تیر سیدھا نشانے پر تھا مگر درویش کے قریب پہنچتے ہی کٹ کر دوسری طرف نکل گیا۔ اس کے بعد سپہ سالا بیچو خان اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا پھر اس نے مسلمان جاسوس پر تیروں کی بارش کر دی۔۔۔لیکن ایک تیر بھی درویش کے جسم کو نہ چھو سکا۔ انتہائی طیش کے عالم میں بیچو خان نے کمان اٹھا کر سپاہی کے سر پر دے ماری اور تیزی سے اپنے خیمے میں داخل ہو گیا۔ تلوار نکالی اور دوبارہ خیمے سے باہر آیا۔ وہ مسلمان جاسوس کو اپنے ہاتھ سے تہہِ تیغ کرنا چاہتا تھا۔ بیچو خان غضب ناک حالت میں آگے بڑھا مگر بمشکل تمام تھوڑی ہی دور جا سکا۔ اچانک منگول سپہ سالار کو محسوس ہوا جیسے زمین نے اس کے پاؤں پکڑ لئے ہوں۔۔۔وہ بہت دیر تک ہوا میں اپنی شمشیر لہراتا رہا۔ اس کے ہاتھ مسلسل گردش کر رہے تھے مگر ٹانگیں پتھر کی ہو کر رہ گئی تھیں۔ آخر وہ اپنی بے کسی پر رو پڑا۔ اس نے گھبرا کر سپاہیوں کی طرف دیکھا۔ سب کے سب سر جھکائے کھڑے تھے۔
          "اے جادوگر! ہمیں معاف کر دے۔" اچانک بیچو خان کی تیز آواز فضاء میں گونجی۔ "ہم قونیہ کا محاصرہ اٹھا کر واپس جا رہے ہیں اے عظیم ساحر! ہمیں جانے دے کہ ہم غلطی سے تیرے علاقے میں آ گئے ہیں۔ ہماری بھول کو درگزر کر! بے شک! تو اس مملکت کا شہنشاہ ہے۔ ہمیں اجازت دے کہ ہم اپنے گھروں کو واپس لوٹ جائیں۔" منگول سپہ سالار بیچو خان اس طرح فریاد کر رہا تھا جیسے واقعتہً کسی طاقتور شہنشاہ سے رحم کی بھیک مانگ رہا ہو۔
          ابھی بیچو خان کے الفاظ کی گونج باقی تھی کہ یکایک اس کے پیروں میں خون کی گردش بحال ہو گئی۔ منگول سپہ سالار نے اپنی تلوار نیچی کر لی اور سر جھکائے ہوئے خیمے میں واپس آ گیا۔ کچھ دیر پہلے جس شخص کو جاسوس کے نام سے پکارا جا رہا تھا، اب وہی بے اسلحہ و نہتا انسان فاتح ٹھہرا تھا۔۔۔اور بیچو خان جیسا طاقتور دشمن ناکام و نا مراد لوٹ رہا تھا۔ جب منگول سپاہی قونیہ کی حدود سے باہر نکل رہے تھے، اس وقت بیچو خان کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔ وہ اپنے فوجیوں سے کہہ رہا تھا۔
          "گھوڑوں کی رفتار تیز کر دو۔ یہ پورا علاقہ جادو کے زیر اثر ہے۔ اس بوڑھے ساحر نے ہر چیز کو باندھ کر رکھ دیا ہے۔" ان الفاظ کے ادا ہوتے ہی گھوڑوں کی پشت پر تازیانے برسنے لگے۔ فضاء حیوانوں کی چیخوں سے گونجنے لگی۔ راستوں سے گرد و غبار اٹھا اور پھر فتنۂ ہلاکو کا نقیب کسی نا معلوم منزل کی طرف روانہ ہو گیا۔
          شہر قونیہ کے باشندے بہت خوش تھے۔ ایک درویش کی دعاؤں کے سبب ان کے سروں سے عذابِ آسمانی ٹل گیا تھا۔ درویش اپنی خانقاہ کی طرف آیا تو انسانی ہجوم نے اسے گھیر لیا۔ لوگ اپنی عقیدت کا اظہار کرنے کے لئے اس کے ہاتھوں کو بوسہ دینا چاہتے تھے مگر وہ ان تمام رسموں سے بیزار تھا۔ اس نے انتہائی تلخ لہجے میں لوگوں کو مخاطب کیا۔
          "اگر آج نا فرمانوں کی جماعت قہرِ خداوندی سے بچ گئی تو کل خیر نہیں۔ اس سے پہلے کہ درد ناک عذاب تمہیں آ پکڑے، اپنے گناہوں سے توبہ کر لو۔ بے خبروں کے لئے وقت کا ہر لمحہ رہزن ہے۔ اپنے ایمانوں کی حفاظت کرو ورنہ وقت کے بے رحم قزاق تمہارا سب سے قیمتی سرمایہ لوٹ کر لے جائیں گے۔" یہ کہہ کر درویش خانقاہ میں چلا گیا اور اندر سے دروازہ بند کر لیا۔
          مریدوں اور خدمت گاروں نے سنا۔ وہ اپنے رب کے حضور ہچکیوں سے رو رہا تھا۔ "اے عزیز و جلیل! تو نے دنیا کے سامنے میری شرم رکھ لی ورنہ یہ گناہ گار تو رسوا ہو چلا تھا۔ اگر میں اپنی جان بھی نذر کر دوں تو تیرے اس احسان کا شکر ادا نہیں ہو سکتا۔"
          جن کی دعاؤں کے سبب شہر قونیہ فتنۂ ہلاکو سے ۔۔
السلام علیکم

*٢٠ اپریل بروز پیر کو عالمی یوم درود و سلام کا حصّہ بنیں اور اس دن زیادہ سے زیادہ درود و سلام کا ورد کریں۔*


_*نحمده و نصلى على ر سوله الكريم اما بعد فاعوذبالله من الشيطان الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم ان الله وملائكته يصلون على النبي يا ايها الذين امنوا صلوا عليه وسلموا تسليما صدق الله العظيم*_
*🌸 بے شک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں نبی پراے ایمان والو تم بھی ان پر خوب درود و سلام بھیجا کرو 🌸*
✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨

اس آیت کریمہ میں مسلمانوں کو متنبہ فرمایا گیاکہ اے درود پڑھنے والو تم یہ خیال نہ کرنا کہ ہمارے محبوب پر ہماری رحمتیں تمہارے مانگنے پرموقوف ہین۔ ہمارےمحبوب تمہارے درود کےحاجتمندہین۔تمھاری پیدائش تمہارا درود پڑھنا تو کل سےھوا۔ ان پر رحمتوں کی بارش تو جب سے ہو رہی ہے۔ جب کب کا بھی وجود نہ تھا جب وہاں کہاں سے پہلے ان پر رحمتیں ہیں۔ تم سے دعا منگوانا تمہارے بھلے کے لیے ہے۔جب رب ہماری حمد و ثنا کا محتاج نہیں ہے کہ وہ محمود ہے چاہے کوئی حمد کریےیانہ کرے۔۔۔ایسے ہی ہمارے نبی بھی کسی کی نعت خوانی کے محتاج نہیں ھیں۔ وہ محمد ہیں چاہے ان کی کوئی نعت پڑھے یا نہ پڑھے حمد الہی کے لیے حضور کافی ہیں ۔نعت مصطفٰی کے لئے رب کافی ہے 

*وہی رب ہے جس نے تجھ کو ہمہ تن کرم بنایا*
*ہمیں بھیک مانگنے کو تیرا آستاں بتایا* 

🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿🌿

ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام نے ماں حوا کی مہر دس مرتبہ درود پڑھ کر ادا کیا جو ہمیں وراثت میں ملی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی آدم کی نیک اولادیں اپنے باپ کی سنت پر عمل کر رہی ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام پڑھ رہی ہیں اور آدم کی کمینی اولادیں اپنے باپ کی سنت سے انحراف کرتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ دراصل درود و سلام اہل سنت والجماعت کے ہی مقدر میں ہے کیونکہ قرآن کریم نے *یا ایھا الذین اٰمنو صلو علیہ وسلمو تسلیما* کہہ کر واضح فرما دیا
🌴🌴🌴🌴🌴🌴🌴🌴🌴🌴🌴🌴
 
حدیث رسول میں ہے آقا نے ارشاد فرمایا جو مجھ پر درود بھیجتا ہے اس پر فرشتے درود بھیجتے ہیں۔ خدا خود اپنی شان کے مطابق درود بھیجتاھے۔ جس کے باعث  تمام آسمان والے اور زمین والے درود بھیجتے ہیں حتی کہ سمندر درخت پرندے چرندے یہاں تک کہ کوئی چیز ایسی باقی نہیں رہتی جو نبی پر درود نہ بھیجتی ہو۔
 جب نبی پر آسمان والے زمین والے سمندر درخت چرند پرند تک میرے آقا پر درود بھیجتے ہیں تو ہم انسان *اشرف المخلوقات* ہیں۔ ہمیں بدرجہ اولی نبی پر درود و سلام بھیجنا چاہیے۔
حدیث رسول میں ہے آقا ارشاد فرماتے ہیں *من نسی الصلاۃ علی نسی طریق الجنہ* _*جو مجھ پر درود پڑھنا بھول گیا وہ جنت کا راستہ بھول گیا۔*_

قابل داد و تحسین ہیں *محترم جناب الحاج سعید بھائی*  بانی رضا اکیڈمی جنہوں نے نبی کی ولادت مبارکہ شریف 20 اپریل بروز دوشنبہ عیسوی تقویم کے اعتبار سے نکال کر کے لوگوں کی توجہ مبذول کرائی۔جیسےہم بارہ ربیع الاول شریف کو درود و سلام کی کثرت کرتے ہیں۔ایسے ہی ہم 20 اپریل  بروز دوشنبہ ہر جگہ  ہر مکان مین سبھی لوگ مل کر خوب خوب نبی کریمﷺ پر  درود و سلام کی کثرت کریں اوراس مہلک وبا کرونا وائرس سے دفاع کے لیے لیے اس درود و سلام کے طفیل اللہ کی بارگاہ میں دعا کریں کیونکہ دورودپاک پاک دعاؤں کی قبولیت کا ذریعہ ہے۔ درود پاک دافع البلاء ہے انشاللہ 20 اپریل سے درود و سلام کی برکت سے کورونا وائرس خود بھاگتا ہوا نظر آئے گا۔

*شافی و نافی ہو تم کا فی و وافی ہو تم*
*درد کو کردو دوا تم پہ کروڑوں درود*

آپ سے ایک عریضہ یہ بھی ہے کہ آپ حضراتِ جناب سعید بھائی اور ان کے رفقاء کے لیے بھی خصوصیت کے ساتھ دعاؤں سے نوازیں۔ کیوں کی جناب سعید بھائی ہر موقع پر قوم کی فلاح و بہبود کے لئے پیش پیش رہتے ہیں۔ اس لیے انہیں خصوصیت کے ساتھ دعاؤں میں یاد رکھیں۔
یہ ناچیز بھی رب کی بارگاہ میں دعا گو ہے کہ رب کریم اپنے حبیب کے صدقے اور اس درود و سلام کے وسیلے سے  اللہ تعالی ہر مومن کو تمام ارضی و سماوی آفات و بلیات سے محفوظ فرمائے اور سب کے جان و مال اہل و عیال عزت و آبرو کی حفاظت فرمائے اور سب کے علم میں عمر میں رزق میں بے پناہ برکت عطا فرمائے اور جناب سعید بھائی اور ان کے رفقاء کو  نظر بد سے بچائے اور بلندی کی راہوں پر گامزن فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ
: حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کبھی کوئی خواہش نہیں کی 
ایک دن مچھلی کھانے کو دل چاہا تو اپنے غلام یرکا سے اظہار فرمایا۔۔
یرکا آپ کا بڑا وفادار غلام تھا ایک دن آپ نے فرمایا یرکا آج مچھلی کھانے کو دل کرتا ہے۔
لیکن مسئلہ یہ ہے آٹھ میل دور جانا پڑے گا دریا کے پاس مچھلی لینے اور آٹھ میل واپس آنا پڑے گا مچھلی لے کے ۔۔
پھر آپ نے فرمایا رہنے دو کھاتے ہی نہیں ایک چھوٹی سی خواہش کیلئے اپنے آپ کو اتنی مشقت میں ڈالنا اچھا نہیں لگتا کہ اٹھ میل جانا اور اٹھ میل واپس آنا صرف میری مچھلی کے لئے؟ 
چھوڑو یرکا۔۔۔۔۔۔۔ اگر قریب سے ملتی تو اور بات تھی۔
غلام کہتا ہے میں کئی سالوں سے آپ کا خادم تھا لیکن کبھی آپ نے کوئی خواہش کی ہی نہیں تھی پر آج جب خواہش کی ہے
تو میں نے دل میں خیال کیا کہ حضرت عمر فاروق نے پہلی مرتبہ خواہش کی ہے اور میں پوری نہ کروں۔؟
ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔۔
غلام کہتے ہیں جناب عمرؓ ظہر کی نماز پڑھنے گئے تو مجھے معلوم تھا ان کے پاس کچھ مہمان آئے ہوئے ہیں عصر انکی وہیں ہوجائے گی۔
غلام کہتا ہے کہ میں نے حضرت عمرؓ کے پیچھے نماز پڑھی اور دو رکعت سنت نماز پڑھ کرمیں گھوڑے پر بیٹھا عربی نسل کا گھوڑہ تھا دوڑا کر میں دریا پر پہنچ گیا.. 
عربی نسل کے گھوڑے کو آٹھ میل کیا کہتے ؟؟
وہاں پہنچ کر میں نے ایک ٹوکرا مچھلی کا خریدا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی عصر کی نماز ہونے سے پہلے میں واپس بھی آگیا اور گھوڑے کو میں نے ٹھنڈی چھاؤں میں باندھ دیا تاکہ اس کا جو پسینہ آیا ہوا ہے وہ خشک ہو جائے اور کہیں حضرت عمر فاروق دیکھ نا لیں

غلام کہتا ہے کے کہ گھوڑے کا پسینہ تو خشک ہوگیا پر پسینے کی وجہ سے گردوغبار گھوڑے پر جم گیا تھا جو واضح نظر آرہا تھا کہ گھوڑا کہیں سفر پہ گیا تھا پھر میں نے سوچا کہ حضرت عمرؓ فاروق دیکھ نہ لیں ۔۔
پھر میں جلدی سے گھوڑے کو کنویں پر لے گیا اور اسے جلدی سے غسل کرایا اور اسے لا کر چھاؤں میں باندھ دیا۔۔ (جب ہماری خواہشات ہوتی ہیں تو کیا حال ہوتا ہے لیکن یہ خواہش پوری کر کے ڈر رہے ہیں کیونکہ ضمیر زندہ ہے)
فرماتے ہیں جب عصر کی نماز پڑھ کر حضرت عمر فاروق آئے میں نے بھی نماز ان کے پیچھے پڑھی تھی۔

گھر آئے تو میں نے کہا حضور اللہ نے آپ کی خواہش پوری کردی ہے۔ 
مچھلی کا بندوبست ہوگیا ہےاور بس تھوڑی دیر میں مچھلی پکا کے پیش کرتا ہوں۔
کہتا ہے میں نے یہ لفظ کہے تو جناب عمر فاروق اٹھے اور گھوڑے کے پاس چلے گئے گھوڑے کی پشت پہ ہاتھ پھیرا،
اس کی ٹانگوں پہ ہاتھ پھیرا اور پھر اس کے کانوں کے پاس گئے اور گھوڑے کا پھر ایک کان اٹھایا اور کہنے لگے یرکا تو نے سارا گھوڑا تو دھو دیا لیکن کانوں کے پیچھے سے پسینہ صاف کرنا تجھے یاد ہی نہیں رہا۔۔
اور یہاں تو پانی ڈالنا بھول گیا۔۔
حضرت عمرؓ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گئے اور کہنے لگے 
"اوہ یار یرکا ادھر آ تیری وفا میں مجھے کوئی شک نہیں ہے
اور میں کوئی زیادہ نیک آدمی بھی نہیں ہوں، 
کوئی پرہیز گار بھی نہیں ہوں ،
میں تو دعائیں مانگتا ہوں 
اے اللہ میری نیکیاں اور برائیاں برابر کرکے مجھے معاف فرما دے۔۔
میں نے کوئی زیادہ تقوی اختیار نہیں کیا اور بات کو جاری رکھتے ہوئے فرمانے لگے یار اک بات تو بتا اگر یہ گھوڑا قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں فریاد کرے کہ یا اللہ عمر نے مجھے اپنی ایک خواہش پوری کرنے کے لیے 16 میل کا سفر طے کرایا 
اے اللہ میں جانور تھا، 
بےزبان تھا 
16 میل کا سفر ایک خواہش پوری کرنے کیلئے 
تو پھر یرکا تو بتا میرے جیسا وجود کا کمزور آدمی مالک کے حضور گھوڑے کے سوال کا جواب کیسے دے گا؟"
یرکا کہتا ہے میں اپنے باپ کے فوت ہونے پر اتنا نہیں رویا تھا جتنا آج رویا میں تڑپ اٹھا کے حضور یہ والی سوچ (یہاں تولوگ اپنے ملازم کو نیچا دکھا کر اپنا افسر ہونا ظاہر کرتے ہیں)غلام رونے لگا حضرت عمرؓ فاروق کہنے لگے اب اس طرح کر گھوڑے کو تھوڑا چارہ اضافی ڈال دے اور یہ جو مچھلی لے کے آئے ہو اسے مدینے کے غریب گھروں میں تقسیم کر دو اور انہیں یہ مچھلی دے کر کہنا کے تیری بخشش کی بھی دعا کریں اور عمر کی معافی کی بھی دعا کریں۔“
صرف آپ ہی پڑھ کر آگے نہ بڑھ جائیں بلکہ اوروں کو بھی شریک کریں, یہ صدقہ جاریہ ہوگا, اس میں آپ کا بمشکل ایک لمحہ صرف ہو گا لیکن ہو سکتا ہے اس ایک لمحہ کی اٹھائی ہوئی تکلیف سے آپ کی شیئر کردہ تحریر ہزاروں لوگوں کے لیے سبق آموز ثابت ہو .. جزاک اللہ خیرا کثیرا.
: حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کبھی کوئی خواہش نہیں کی 
ایک دن مچھلی کھانے کو دل چاہا تو اپنے غلام یرکا سے اظہار فرمایا۔۔
یرکا آپ کا بڑا وفادار غلام تھا ایک دن آپ نے فرمایا یرکا آج مچھلی کھانے کو دل کرتا ہے۔
لیکن مسئلہ یہ ہے آٹھ میل دور جانا پڑے گا دریا کے پاس مچھلی لینے اور آٹھ میل واپس آنا پڑے گا مچھلی لے کے ۔۔
پھر آپ نے فرمایا رہنے دو کھاتے ہی نہیں ایک چھوٹی سی خواہش کیلئے اپنے آپ کو اتنی مشقت میں ڈالنا اچھا نہیں لگتا کہ اٹھ میل جانا اور اٹھ میل واپس آنا صرف میری مچھلی کے لئے؟ 
چھوڑو یرکا۔۔۔۔۔۔۔ اگر قریب سے ملتی تو اور بات تھی۔
غلام کہتا ہے میں کئی سالوں سے آپ کا خادم تھا لیکن کبھی آپ نے کوئی خواہش کی ہی نہیں تھی پر آج جب خواہش کی ہے
تو میں نے دل میں خیال کیا کہ حضرت عمر فاروق نے پہلی مرتبہ خواہش کی ہے اور میں پوری نہ کروں۔؟
ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔۔
غلام کہتے ہیں جناب عمرؓ ظہر کی نماز پڑھنے گئے تو مجھے معلوم تھا ان کے پاس کچھ مہمان آئے ہوئے ہیں عصر انکی وہیں ہوجائے گی۔
غلام کہتا ہے کہ میں نے حضرت عمرؓ کے پیچھے نماز پڑھی اور دو رکعت سنت نماز پڑھ کرمیں گھوڑے پر بیٹھا عربی نسل کا گھوڑہ تھا دوڑا کر میں دریا پر پہنچ گیا.. 
عربی نسل کے گھوڑے کو آٹھ میل کیا کہتے ؟؟
وہاں پہنچ کر میں نے ایک ٹوکرا مچھلی کا خریدا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی عصر کی نماز ہونے سے پہلے میں واپس بھی آگیا اور گھوڑے کو میں نے ٹھنڈی چھاؤں میں باندھ دیا تاکہ اس کا جو پسینہ آیا ہوا ہے وہ خشک ہو جائے اور کہیں حضرت عمر فاروق دیکھ نا لیں

غلام کہتا ہے کے کہ گھوڑے کا پسینہ تو خشک ہوگیا پر پسینے کی وجہ سے گردوغبار گھوڑے پر جم گیا تھا جو واضح نظر آرہا تھا کہ گھوڑا کہیں سفر پہ گیا تھا پھر میں نے سوچا کہ حضرت عمرؓ فاروق دیکھ نہ لیں ۔۔
پھر میں جلدی سے گھوڑے کو کنویں پر لے گیا اور اسے جلدی سے غسل کرایا اور اسے لا کر چھاؤں میں باندھ دیا۔۔ (جب ہماری خواہشات ہوتی ہیں تو کیا حال ہوتا ہے لیکن یہ خواہش پوری کر کے ڈر رہے ہیں کیونکہ ضمیر زندہ ہے)
فرماتے ہیں جب عصر کی نماز پڑھ کر حضرت عمر فاروق آئے میں نے بھی نماز ان کے پیچھے پڑھی تھی۔

گھر آئے تو میں نے کہا حضور اللہ نے آپ کی خواہش پوری کردی ہے۔ 
مچھلی کا بندوبست ہوگیا ہےاور بس تھوڑی دیر میں مچھلی پکا کے پیش کرتا ہوں۔
کہتا ہے میں نے یہ لفظ کہے تو جناب عمر فاروق اٹھے اور گھوڑے کے پاس چلے گئے گھوڑے کی پشت پہ ہاتھ پھیرا،
اس کی ٹانگوں پہ ہاتھ پھیرا اور پھر اس کے کانوں کے پاس گئے اور گھوڑے کا پھر ایک کان اٹھایا اور کہنے لگے یرکا تو نے سارا گھوڑا تو دھو دیا لیکن کانوں کے پیچھے سے پسینہ صاف کرنا تجھے یاد ہی نہیں رہا۔۔
اور یہاں تو پانی ڈالنا بھول گیا۔۔
حضرت عمرؓ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گئے اور کہنے لگے 
"اوہ یار یرکا ادھر آ تیری وفا میں مجھے کوئی شک نہیں ہے
اور میں کوئی زیادہ نیک آدمی بھی نہیں ہوں، 
کوئی پرہیز گار بھی نہیں ہوں ،
میں تو دعائیں مانگتا ہوں 
اے اللہ میری نیکیاں اور برائیاں برابر کرکے مجھے معاف فرما دے۔۔
میں نے کوئی زیادہ تقوی اختیار نہیں کیا اور بات کو جاری رکھتے ہوئے فرمانے لگے یار اک بات تو بتا اگر یہ گھوڑا قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں فریاد کرے کہ یا اللہ عمر نے مجھے اپنی ایک خواہش پوری کرنے کے لیے 16 میل کا سفر طے کرایا 
اے اللہ میں جانور تھا، 
بےزبان تھا 
16 میل کا سفر ایک خواہش پوری کرنے کیلئے 
تو پھر یرکا تو بتا میرے جیسا وجود کا کمزور آدمی مالک کے حضور گھوڑے کے سوال کا جواب کیسے دے گا؟"
یرکا کہتا ہے میں اپنے باپ کے فوت ہونے پر اتنا نہیں رویا تھا جتنا آج رویا میں تڑپ اٹھا کے حضور یہ والی سوچ (یہاں تولوگ اپنے ملازم کو نیچا دکھا کر اپنا افسر ہونا ظاہر کرتے ہیں)غلام رونے لگا حضرت عمرؓ فاروق کہنے لگے اب اس طرح کر گھوڑے کو تھوڑا چارہ اضافی ڈال دے اور یہ جو مچھلی لے کے آئے ہو اسے مدینے کے غریب گھروں میں تقسیم کر دو اور انہیں یہ مچھلی دے کر کہنا کے تیری بخشش کی بھی دعا کریں اور عمر کی معافی کی بھی دعا کریں۔“
صرف آپ ہی پڑھ کر آگے نہ بڑھ جائیں بلکہ اوروں کو بھی شریک کریں, یہ صدقہ جاریہ ہوگا, اس میں آپ کا بمشکل ایک لمحہ صرف ہو گا لیکن ہو سکتا ہے اس ایک لمحہ کی اٹھائی ہوئی تکلیف سے آپ کی شیئر کردہ تحریر ہزاروں لوگوں کے لیے سبق آموز ثابت ہو .. جزاک اللہ خیرا کثیرا.
: *مدارس اسلامیہ میں جو طلبہ لوک ڈاؤن کی وجہ ست پھنسے ہوئے ہیں انہیں کیسے ان کے گھر سلامتی کے ساتھ پہنچایا جائے؟*
جامعہ اکل کوا مہاراشٹرا کی انتظامیہ نے نے جب سے ملک میں کرونا وائرس کے آثار نظر آنے لگے اور لوک ڈاؤن کی کا اعلان ہوا نندربار ضلع کلکٹر اور مہاراشٹرا الیکشن میں کانگریس سے کامیاب علاقے کے منتخب نمائندے کیسی پاڈوی سے رابطہ بنائے رکھا اور ان سے مسلسل مطالبہ کیا کہ ہمارے ان طلبہ کو سلامتی کے ساتھ جب تک ان کے گھر پہنچانے کی شکل نہیں بنتی ہم انہیں اپنے پاس رکھیں گے آخر کار ضلع کے ان ذمہ داروں نے بہار اسام بنگال جھاڑ کھنڈ کے 5500 طلبہ کے لیے 6 ٹرینوں کا انتظام کیا جن میں سے دو آج 1850 طلباء کو لیکر الحمدللہ روانہ ہو چکی ہے بقیہ دو آئندہ کل اور مزید دو پرسوں ان شاء اللہ روانہ ہوگی.
میں اپنے اس کامیاب تجربہ کے بارے میں دیگر ذمہ داران مدارس کے بار بار مطالبہ پر یہ آپ کی خدمت میں طریقہ کار بیان کر رہا ہوں.
1- کلکٹر صاحب سے مل کر طلبہ کے ان کے وطن واپسی کا مطالبہ کریں اس لیے کہ لوک ڈاؤن میں یہ ساری ذمہ داری کلکٹر کے حوالے کی گئی ہے.
2- کرایہ بھی حکومت کے ذمہ ہے لہذا ان سے صاف کہہ دیں کہ وہ اس کا انتظام کریں.
3- طلبہ سرکاری ہسپتال سے چیک اپ کروا کر میڈیکل سرٹیفکیٹ بنوالیں.
4- طلبہ مرکزی حکومت کے مطابق ہوم کورنٹائن ہونگے یعنی 14 دن اپنے گھر ہی میں رہینگے.
حذیفہ وستانوی

السلام علیکم
۹
*دنیا کی سب سے بڑی سازش بے نقاب*
تحقیق. تحریر محمد الیاس آرائیں 
۔
یہ منصوبہ اسرائیل میں تیار کیا گیا جس میں امریکا، برطانیہ اور بھارت کے بڑے سازشی دماغ شریک ہوئے۔ (بعض سعودی ذرائع کے مطابق ان میں ایرانی خفیہ حکام اور قادیانیوں کے نمائندے بھی شامل تھے) روس اور چین کو شامل نہیں کیا گیا کیونکہ ان کے بعض مسلمان ملکوں سے قریبی تعلقات ہیں۔ اور یہ سازش تو ہے ہی مسلمانوں کے خلاف۔
منصوبے کے بلو پرنٹ کے مطابق پوری دنیا کا میڈیا چونکہ یہودیوں کے قبضے میں ہے، اس لیے اسے ایک جھوٹ موٹ کے وائرس کا پروپیگنڈا کرنے کی ذمے داری دی گئی۔ امریکا یا اسرائیل پر کوئی شک نہ کرے، اس لیے اس کا آغاز چین سے کیا گیا۔
چین کی مرکزی حکومت کو اس معاملے سے بے خبر رکھتے ہوئے ووہان کی مقامی انتظامیہ کو کروڑوں ڈالر دے کر خریدا گیا جبکہ اسپتالوں کے ڈاکٹروں کو بھی بھاری رشوت دی گئی۔ انھوں نے شور مچایا کہ ان کے شہر میں ایک وائرس پھیل گیا ہے جو ہلاکت خیز ہے۔
چین کی بھولی بھالی مرکزی حکومت اسے حقیقت سمجھی اور لاک ڈاؤن لگادیا۔ اب نہ کوئی شہر میں آسکتا تھا اور نہ جاسکتا تھا۔ ووہان کے ڈاکٹروں نے ہر بیماری کے مریض کو مار کے کہنا شروع کردیا کہ سیکڑوں مرگئے، ہزاروں مرگئے۔ حد یہ کہ معمولی نزلہ زکام کے مریضوں کو بھی زبردستی وینٹی لیٹر لگاکر مارا گیا۔
چین کے دوسرے شہروں میں بھی یہودیوں کے ایجنٹ ڈاکٹروں نے یہی کہہ کر کافی لوگوں کی جان لے لی۔ اسی کے ساتھ یورپ اور امریکہ کے میڈیا نے جھوٹی خبریں دینا شروع کردیں کہ چین سے آنے والوں نے ان کے ملکوں میں وائرس پھیلا دیا ہے۔
اتنی دیر میں چین کی انٹیلی جنس نے حقیقت کا سراغ لگالیا اور ووہان کی انتظامیہ اور اسپتالوں کی کالی بھیڑوں کو گرفتار کرلیا۔ ان سب کو سزائے موت دے دی گئی اور شہر کھول دیا گیا۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس کے بعد سے چین میں نہ کوئی مریض سامنے آرہا ہے اور نہ کوئی شخص مر رہا ہے۔
لیکن مغرب کو جو موقع چاہیے تھا، وہ مل چکا تھا۔ امریکا اور یورپ کے ملکوں نے لاک ڈاؤن کردیا اور روزانہ بڑھا چڑھا کر مریضوں اور اموات کا ڈیٹا دینا شروع کردیا۔ اب لاک ڈاؤن ہے تو بھلا کون اسپتال جاکر دیکھے کہ کوئی بیمار آ بھی رہا ہے یا نہیں؟ کوئی مر بھی رہا ہے یا نہیں؟
ہم سب جانتے ہیں کہ پوری دنیا کے کاروبار پر ہنود و یہود کا قبضہ ہے۔ دنیا کے سارے ارب پتی کون ہیں؟ بل گیٹس جیسے یہودی ہیں یا انیل امبانی جیسے ہندو ہیں۔ فیس بک کا مالک بھی یہودی ہے۔ یہ سب خوب پروپیگنڈا کررہے ہیں۔ قادیانی قدم قدم پر ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔
تمام ائیرلائنز کو اربوں ڈالر دے کر خاموش کروایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ تمھارا نقصان پورا کردیں گے، بس پروازیں بند کردو۔ امریکا اور یورپ کے دفاتر اور کاروباری مراکز بند ہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ وہاں حکومتیں اپنے عوام کو گھر بیٹھے تنخواہیں دے رہی ہیں، کیوں؟ کیونکہ انھیں یہودی اربوں ڈالر دے رہے ہیں۔
متاثر کون ہورہے ہیں؟ جنوبی امریکا اور افریقا کے غریب ملک اور مسلمان۔ عمران خان کو شک ہوگیا ہے اسی لیے وہ بار بار مغربی ملکوں سے کہہ رہے ہیں کہ غریب ملکوں کے قرضے معاف کرو۔ مغربی ممالک اور آئی ایم ایف مخلص ہوتے اور واقعی کوئی وبا آئی ہوتی تو قرضے معاف کیے جاچکے ہوتے۔ لیکن وہ کبھی ایسا نہیں کریں گے کیونکہ یہی تو اصل سازش ہے۔
روس پہلے اس سازش میں شریک نہیں تھا۔ اس کے ملک سے کسی مریض یا موت کا ذکر نہیں آرہا تھا۔ لیکن پھر پیوٹن کو اعتماد میں لیا گیا۔ اس کے لیے چیچنیا کے نوجوان مصیبت بنے ہوئے ہیں۔ اسے جب معلوم ہوا کہ سازش کا نتیجہ کیا نکلے گا تو وہ بھی مان گیا۔ اب آپ خود دیکھیں، روزانہ روس میں ہزاروں لوگوں کے مرنے کی جھوٹی خبریں آنا شروع ہوگئی ہیں۔
پاکستان کا میڈیا بھی اس سازش میں شریک ہے۔ اسی لیے یہودیوں کے ایجنٹ میر شکیل الرحمان کو نیب نے پکڑا ہوا ہے کیونکہ آئی ایس آئی کو اندر کی بات معلوم ہوگئی ہے۔ لیکن یہ کھیل اتنا بڑا ہے کہ مالک کی گرفتاری کے باوجود جیو اور دوسرے چینل مسلسل پروپیگنڈا کررہے ہیں کہ پاکستان میں اتنے لوگ بیمار ہوگئے، اتنے لوگ مر گئے۔
سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے جو ہمیشہ غیر ملکی طاقتوں کی آلہ کار رہی ہے۔ اسی لیے اس نے سب سے پہلے لاک ڈاؤن کیا اور وزیراعلیٰ نے یہودیوں کی زبان میں عوام کو ڈرایا دھمکایا۔ پاکستان کی بے بس حکومت سب کھیل دیکھ رہی ہے اور مجبور ہے۔
اب تک پورے ملک میں بلکہ پوری دنیا میں ایک بھی شخص ایسا نہیں جو قسم کھاکر کہہ سکے کہ اس نے کرونا وائرس کا کوئی مریض دیکھا ہے یا کوئی اس سے مرا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا ہو تو پتا چلے۔ یہ سب جھوٹ ہے۔
آپ جانتے ہیں کہ امریکا اور یورپ کے ڈاکٹر بار بار کہہ رہے ہیں کہ کرونا وائرس کا کوئی علاج نہیں۔ ایسا اس لیے کہہ رہے ہیں کہ وائرس ہے ہی نہیں۔ ہوتا تو اس کا علاج کیا جاتا۔
اسی طرح اب جعلی خبریں آرہی ہیں کہ امریکا اور یورپ میں ویکسین بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ کیا آپ نے سنا کہ چین سے ایسی کوئی خبر آئی ہو؟ چین دنیا کی ہر چیز بناتا ہے، پھر ویکسین کیوں نہیں بنارہا؟ اس لیے کہ وائرس ہو تو اس کی ویکسین بنائی جائے۔ چین کو تو حقیقت معلوم ہوچکی ہے۔
اب اصل میں ہوگا یہ کہ امریکا اعلان کرے گا کہ اس نے ویکسین بنالی ہے۔ اس کا خوب پروپیگنڈا ہوگا۔ کسی یہودی ڈاکٹر کو اس جعلی کارنامے پر نوبیل انعام بھی دیا جائے گا۔ پھر ویکسین کے نام پر ایک دوا پوری دنیا میں پھیلائی جائے گی۔
یورپ اور امریکا میں  یہ دوا مردانہ طاقت میں اضافے کی ہوگی۔ لیکن ایشیا، افریقہ اور جنوبی امریکا کو جو دوا فراہم کی جائے گی، اسے پینے والے کمزور ہوجائیں گے۔ وہ بچے پیدا کرنے سے معذور ہوجائیں گے۔ اگر اولاد ہوگی بھی تو وہ جسمانی طور پر کمزور ہوگی۔ یعنی یہ نسل نہیں تو اگلی نسل ضرور بانجھ ہوگی۔
یورپ اور امریکا کینیڈا میں مقیم مسلمانوں کو بھی وہی دوا دی جائے گی جس سے ان کی تعداد کم ہو۔ کیا یہ کوئی راز ہے کہ امریکا اور یورپ مسلمان پناہ گزینوں سے تنگ آچکے ہیں اور ان سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔
اس سے پہلے بھی ہنود و یہود اور قادیانیوں کے ایما پر امریکا، یورپ اور اقوام متحدہ کئی بار مسلمانوں کی آبادی کم کرنے کے حربے آزما چکے ہیں۔ قادیانیوں کی کمپنی شیزان کی مصنوعات میں دوائیں ملائی گئیں لیکن مسلمانوں نے انھیں خریدنا چھوڑ دیا۔ پھر آیوڈین ملا نمک پھیلا گیا لیکن خوش قسمتی سے اس کا مسلمانوں پر اثر نہیں ہوا۔ پھر پولیو ویکسین میں نسل کشی کے قطرے ملائے گئے لیکن اس کا پول بھی کھل گیا۔
ہر طرف سے مایوس ہوکر عالمی طاقتوں نے اس بڑے کھیل کا آغاز کیا ہے۔ لیکن ہم راسخ العقیدہ مسلمانوں کا ایمان ہے کہ ہنود و یہود و قنود کا کوئی منصوبہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ 
اور ایسی طرح ہمارے پاکستان میں سب بک چکے ہیں 
ابھی کچھ دن پہلے اکرم نام کے بندے کے ساتھ واقعہ پیش آیا اس کو بھی مار دیا گیا اس کے گھر والوں کا کہنا تھا وہ ایک سال سے شوگر کا مریض تھا شوگر زیادہ ہونے کی وجہ سے بے ہوش ہو جاتا تھا مرحوم کے مرنے سے ایک دن پہلے شوگر زیادہ ہوگیا تھا اور سانس لینا مشکل ہوگیا تھا مریض کو انڈس ہسپتال لے کے آئے اور انہوں نے اسکو چیک کر کے جناح ہسپتال منتقل کر دیا گیا 
ہسپتال منتقل ہونے کے بعد ایک دن وارڈ میں ہو گیا اور مرحوم کی تکلیف بھی ختم ہو گئی رات کو 4 بجے ایک ایمبولینس آتی ہے مرحوم کا ایک بیٹا نیچے ہی تھا اس نے ایمبولینس کے ڈرائیور سے پوچا کہ آپ لوگ کرونا ٹیم کے ہو اور یہاں کیسے آئے ہو تو ڈرائیور کا کہنا تھا کہ ہم وارڈ نمبر 23 سے ڈیڈ بوڈی لینے آئے ہیں تو ان سے ڈیڈ بوڈی کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا کہ کرونا کا مریض فوت ہوگیا ہے اسکا نام اکرم ہے اس کی ڈیڈ بوڈی لینے آئے ہیں تو مرحوم کے بیٹے نے کہا میرا والد تو زندہ ہے اور وہ چل پھر بھی رہا اور باتیں بھی کر رہا ہے وہ تو زندہ ہے ڈرائیور کہنے لگا ہمیں جو آرڈر ملا ہے ہم وہ فالو کر رہے ہیں 
اس کے بعد 5:30 پہ مرحوم کا بیٹا کسی کام سے وارڈ سے نیچے آتا ہے اور 15 منٹ کے بعد دوبارہ وارڈ میں جاتا ہے تو سامنے سے ڈاکٹر آتا دکھائی دیا تو ڈاکٹر قریب آیا اور مجھے بتایا آپ کا والد فوت ہو گیا ہے , بیٹا 
 مجھے بہت حیرت ہوئی کہ ڈرائیور اور ایمبولینس کو فوت ہونے سے 2 گھنٹے پہلے کیسے پتا چلا کہ اس مریض کی ڈیتھ ہو جائے گی اور اسکی ڈیڈ بوڈی لینے کے لئے 2 گھنٹے پہلے ہی پہنچ گئے شاید ہو سکتا ہے ملک الموت نے انکو پہلے سے بتا دیا ہو کہ یہ بندہ مر جاے گا تم لوگ 2 گھنٹے پہلے ایمبولینس لے کے پہنچ جاؤ 🤔
مرحوم کے گھر والوں کا کہنا ہے ہمارے بندے کو مارا گیا ہے. بیٹا
اسی طرح اور لوگ جن کے رشتہ داروں کے مریض مر گئے ہیں سب کی داستان ایک جیسی ہے اور لاشوں پہ سیاست ہو رہی ہے اور لاشوں کو بیچا جا رہا ہے زرائع کے مطابق ایک لاکھ سے تیس لاکھ تک ایک ڈیڈ بوڈی بیچی جا رہی ہیں اور یہ بھی ایک عالمی سازش ہے 
 کیونکہ شک و شبہات اور مشقوق حرکتوں سے پتا چلتا ہے کہ کوئی خفیہ سازش ہو رہی ہے 
کرونا وائرس سے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ ڈرایا جا رہا ہے اور اگر یہ حقیقت ہوتی اور یہ پھیلنے والی وبا ہوتی تو جس طرح کی بے احتیاطی ہو رہی ہے اس تو یہ وبا بہت زیادہ پھیل جاتی اور اموات بہت زیادہ سے زیادہ ہوتی. 
ہماری حکومت اور سپریم کورٹ سے استدعا ہے اس پہ تحقیقات کروائی جائیں جو لوگ کرونا وبا کی وجہ سے فوت ہو گئے ہیں انکا پوسٹ مارٹم کروایا جاے
محمد الیاس آرائیں 
اور انکے گھر والوں سے پوچھا جائے انکو پہلے سے کیا بیماری تھی ابھی تک کوئی بھی کرونا کا مریض اپنے گھر پہ نہیں مرا 
جو بھی مر رہے ہیں وہ ہسپتال میں مر رہے ہیں اور ہر مرنے والے کی کہانی اسی طرح ہے جیسے اکرم کی ڈیتھ ہوئی ہے 
کچھ زرائع سے پتا چلا ہے اب تک جو بھی ڈاکٹر کرونا کی وجہ سے فوت ہوئے ہیں وہ اس سسٹم سے باغی ہو گئے تھے تو انکو ٹھکانے لگا دیا گیا تانکہ پردہ فاش نہ ہو جائے میری اس تحقیقات سے ہو سکتا ہے وہ مجھ پہ بھی اٹیک کرے اور اس راز کو فاش کرنے کے جرم میں مجھے الیاس آرائیں کو مارا بھی جا سکتا ہے 
میری زندہ ضمیر اپنے اداروں سے التماس ہے وہ خود بھی تحقیقات کریں اور اس وبا کی اصلیت کو سامنے لایا جائے 
یہ تھی کرونا کی اصلیت 
اور اگر لائیو کرونا وائرس پہ تحقیقات کرنی ہے تو اس کے لئے میں حاضر ہوں کرونا کے مریض کے ساتھ 14 دن رہوں گا کیمرہ کی نظر کے سامنے اور میرے پاس کوئی ڈاکٹر نہ آئے تو دیکھ لینا کچھ نہیں ہوگا نہ ہی کرونا کا مریض مرے گا اور نہ ہی میں مروں گا کرونا کی وجہ سے. ْ
اس ثابت ہو جائے گا کہ کرونا کچھ بھی نہیں ہے 
میری آپ لوگوں سے التماس ہے اس پوسٹ کو شئیر کریں تانکہ سب کو عالمی سازشوں کا پتا چل جائے یہ ایک عالمی سازش ہے جو کہ صرف اور صرف مسلمانوں کے خلاف ہے اور یہودی اسکی ویکسین بنا کہ مسلمانوں کے خلاف استعمال کریں گے اور ہر ایک پہ لازم ہوگا وہ کرونا کا ٹیسٹ کروائیں اور وہ ویکسین کروائیں جو مسلمانوں کے خلاف بنائی جائے

منجانب
*مولانا محمد پرویز رضا دارالعلوم اہلسنت فیضان مصطفی اشرف نگر بھوانی گنج 
9670556798/6307986692