کیا بارہ مئی کو کرونا وائرس ختم ہوجائے گا؟!
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما
آج کل ایک دو تحریر اور ایک دو بیان بہت زیادہ گردش کر رہے ہیں، جن میں اس کا بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ بارہ مئی کو ثریا ستارہ طلوع ہوگا؛ تو اس کی وجہ سے کرونا جیسی مہلک بیماری ختم ہوجائے گی یا کم ہوجائے گی، بعض تحریر تو کسی حد تک اعتدال کا دامن تھامے ہوئے ہے مگر بعض تحریر و تقریر حد اعتدال سے خارج ہوتی نظر آئی جس کی وجہ سے ایک مسلم اس بات پر یقین کرتا ہوا نظر آرہا ہے کہ بارہ مئی کو کرونا وائرس ضرور ختم ہوجائے گا یا کم ہوجائے گا بلکہ بعض لوگ اسے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا معجزہ ثابت کرتے ہوئے نظر آرہے ہے؛ اس لیے آج میں اس کے متعلق تفصیلی گفتگو کرنا مناسب سمجھتا ہوں، پہلے میں ثریا ستارہ سے متعلق احادیث ذکر کروں گا، اس کے بعد اس کے معنی و مفہوم کی وضاحت کروں گا، و ما توفیقی إلا باللہ علیه توکلت و إلیه أنیب۔
ثریا ستارہ سے متعلق جو احادیث وارد ہیں ان میں سے بعض مطلق ہیں، یعنی اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ کوئی بھی بیماری ہو،ثریا ستارہ کے طلوع ہونے سے ختم ہوجائے گی یا کم ہوجائے گی اور بعض احادیث مقید ہیں یعنی اس بات کو بیان کرتی ہیں کہ ثریا ستارہ طلوع ہونے سے پھلوں کی بیماری ختم ہوجائے گی، سب سے پہلے ہم مطلق احادیث ذکر کرتے ہیں:
ثریا سے متعلق مطلق احادیث
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: ((إِذَا طَلَعَ النَّجْمُ رُفِعَتِ الْعَاهَةُ عَنْ أَهْلِ كُلِّ بَلَدٍ)) (الآثار للإمام أبی یوسف، باب الغزو و الجیش، ج۱ص۲۰۵، رقم:۹۱۷، ط:دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
ترجمہ: جب نجم یعنی ثریا ستارہ طلوع ہوگا تو ہر ملک سے بیماری ختم ہوجائے گی۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ’مسند احمد‘ کے الفاظ یہ ہیں:
((إِذَا طَلَعَ النَّجْمُ ذَا صَبَاحٍ، رُفِعَتِ الْعَاهَةُ)) (مسند أحمد، ج۱۴ص۱۹۲، رقم: ۸۴۹۵، ط: مؤسسۃ الرسالۃ)
ترجمہ: جب صبح نجم یعنی ثریا ستارہ نکلے تو وبا دور ہوجائے گی۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی کی روایت میں ’التمہید‘ کے الفاظ یہ ہیں:
((مَا طَلَعَ النَّجْمُ صَبَاحًا قَطُّ وَبِقَوْمٍ عَاهَةٌ إِلَّا رُفِعَتْ عَنْهُمْ أَوْ خَفَتْ)) (التمہید لما فی الموطا من المعانی و الأسانید للإمام ابن عبد البر، ج۲ص۱۹۲، ط: وزارة عموم الأوقاف والشؤون الإسلامية - المغرب)
ترجمہ: جب کبھی نجم یعنی ثریا ستارہ طلوع ہو اور کسی قوم میں وبا ہو؛ تو وہ وبا ختم ہوجائے گی۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت:
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((مَا طَلَعَ النَّجْمُ ذَا صَبَاحٍ إِلا رُفْعِتْ كُلُّ آَفَةٍ وَعَاهَةٍ فِي الأَرْضِ أَوْ مِنَ الأَرْضِ)) (تاریخ جرجان، لحمزۃ بن یوسف الجرجانی، ص۲۹۲، ط:عالم الکتب، بیروت)
ترجمہ: جب بھی نجم یعنی ثریا ستارہ طلوع ہوگا تو اس وقت زمین کی ہر آفت کو ختم کردے گا۔
مندرجہ بالا ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بیماری یا وبا خواہ وہ پھل سے متعلق ہو یا اس کا تعلق انسان سے ہو، اگر وبا پائی جاتی ہے؛ تو ثریا ستارہ طلوع ہونے سے ختم یا کم ہوجائے گی، مگر اس کے بر خلاف بعض احادیث مقید ہیں، یعنی وہ اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ ثریا طلوع ہونے سے جو وبا دور ہوتی ہے، وہ وبا ہے جس کا تعلق پھل سے ہے۔
ثریا سے متعلق مقید احادیث
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت:
عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ سُرَاقَةَ قَالَ: كُنَّا فِي سَفَرٍ وَمَعَنَا ابْنُ عُمَرَ فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: ((رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُسَبِّحُ فِي السَّفَرِ قَبْلَ الصَّلَاةِ وَلَا بَعْدَهَا))
قَالَ: وَسَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ عَنْ بَيْعِ الثِّمَارِ، فَقَالَ: ((نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الثِّمَارِ حَتَّى تَذْهَبَ الْعَاهَةُ)) قُلْتُ: أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَمَا تَذْهَبُ الْعَاهَةُ، مَا الْعَاهَةُ؟ قَالَ: ((طُلُوعُ الثُّرَيَّا)) (مسند أحمد، ج۹ص۵۶، رقم: ۵۰۱۲، ط: مؤسسۃ الرسالۃ)
ترجمہ: رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وبا کے جانے سے پہلے پھل بیچنے سے منع فرمایا، راوی کہتے ہیں میں نے عرض کیا: اے ابو عبد الرحمن! وبا کا جانا کیا ہے، وبا کیا ہے؟ ابو عبد الرحمن رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ثریا ستارہ کا طلوع ہونا۔
حضرت عمرہ بنت عبد الرحمن رضی اللہ عنہا کی روایت:
عَنْ أُمِّهِ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((نَهَى عَنْ بَيْعِ الثِّمَارِ حَتَّى تَنْجُوَ مِنَ الْعَاهَةِ)) (موطا امام مالک، باب النھی عن بیع الثمار حتی یبدو صلاحھا، ج۲ص۶۱۸، رقم: ۱۲، ط:دار إحیاء التراث العربی، بیروت)
ترجمہ: رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پھل بیچنے سے منع فرمایا یہاں تک کہ پھل کو وبا سے نجات حاصل ہوجائے۔
حضرت زید ابن ثابت رضی اللہ عنہما کی روایت:
عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّهُ كَانَ ((لَا يَبِيعُ ثِمَارَهُ حَتَّى تَطْلُعَ الثُّرَيَّا)) (ایضا، ص۶۱۹، رقم:۱۳)
ترجمہ: زید بن ثابت رضی اللہ عنہما پھل نہیں بیچتے تھے یہاں تک کہ ثریا ستارہ طلوع ہوجائے۔
اسی روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی ’صحیح‘ میں تعلیقا ذکر کیا ہے: عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ الأَنْصَارِيِّ، مِنْ بَنِي حَارِثَةَ: أَنَّهُ حَدَّثَهُ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ النَّاسُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَتَبَايَعُونَ الثِّمَارَ، فَإِذَا جَدَّ النَّاسُ وَحَضَرَ تَقَاضِيهِمْ، قَالَ المُبْتَاعُ: إِنَّهُ أَصَابَ الثَّمَرَ الدُّمَانُ، أَصَابَهُ مُرَاضٌ، أَصَابَهُ قُشَامٌ، عَاهَاتٌ يَحْتَجُّونَ بِهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا كَثُرَتْ عِنْدَهُ الخُصُومَةُ فِي ذَلِكَ: ((فَإِمَّا لاَ، فَلاَ تَتَبَايَعُوا حَتَّى يَبْدُوَ صَلاَحُ الثَّمَرِ)) كَالْمَشُورَةِ يُشِيرُ بِهَا لِكَثْرَةِ خُصُومَتِهِمْ وَأَخْبَرَنِي خَارِجَةُ بْنُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ: ((لَمْ يَكُنْ يَبِيعُ ثِمَارَ أَرْضِهِ حَتَّى تَطْلُعَ الثُّرَيَّا، فَيَتَبَيَّنَ الأَصْفَرُ مِنَ الأَحْمَرِ)) (صحیح البخاری، باب بیع الثمار قبل أن یبدو صلاحھا، ج۳ص۷۶، رقم:۲۱۹۳، ط: دار طوق النجاۃ)
اور خود حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث امام طبرانی کی ’المعجم الصغیر‘ میں اسی مقید معنی کے ساتھ موجود ہے، ملاحظہ فرمائیں:
الجامع الصغیر میں ہے: ((إِذَا طَلعت الثُريِّا أمِنَ الزَّرْعُ مِنَ العاهَةِ)) طص عن أبي هريرة - رضي الله عنه . (الجامع الصغيرللإمام السیوطی، رقم:۱۵۵۸۷)
ترجمہ: جب ثریا ستارہ طلوع ہوجائے تو کھیتی وبا سے محفوظ ہوجاتی ہے۔
ان مقید روایات اور احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ ثریا طلوع ہونے سے جو وبا دور ہوتی ہے، اس کا تعلق پھلوں کی بیماری سے ہے، بہر حال یہ دو طرح کی احادیث ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ ان احادیث میں مذکور وبا سے پھلوں کی وبا مراد ہے یا انسانی وبا وغیرہ ہر طرح کی بیماری ان کے مفہوم میں شامل ہے، اس کی تعیین کے لیے احادیث اور اقوال علما کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
سب سے پہلے ہم احادیث کی طرف چلتے ہیں، یہ بات طے شدہ ہے کہ ایک حدیث دوسری حدیث کی وضاحت کرتی ہے؛ اس لیے یہاں مطلق احادیث جو مختلف معانی کا احتمال رکھتی ہیں ان کو پھلوں سے مقید احادیث جو اپنے معنی میں متعین ہیں ان پر محمول کر دیا جائے یعنی پھلوں کی وبا سے متعین احادیث اس کی بات کی وضاحت کر رہی ہیں کہ محتمل احادیث کی مراد یہی ہے کہ یہاں وبا سے پھلوں کی وبا مراد ہے جو انسانی وبا کو شامل نہیں۔
احادیث کے بعد اب ہم علماے عظام کی طرف رخ کرتے ہیں، احادیث کی شروحات مطالعہ کرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ اس معاملہ میں اکثر علما بھی اسی بات کے قائل ہیں کہ ثریا سے جو وبا ختم ہوتی ہے، اس سے مراد پھلوں کی وبا ہے، ملاحظہ فرمائیں:
امام ابوجعفر طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’فَعَقَلْنَا بِذَلِكَ أَنَّهُ الثُّرَيَّا، وَعَقَلْنَا بِهِ أَيْضًا أَنَّ الْمَقْصُودَ بِرَفْعِ الْعَاهَةِ عَنْهُ هُوَ ثِمَارُ النَّخْلِ‘‘۔ (شرح مشکل الآثار للإمام الطحاوی، ج۶ص۵۳، ط:مؤسسۃ الرسالۃ)
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’معنى ذلك والله أعلم على ما تقدم أن طلوع الثريا مع الفجر إنما يكون في النصف الآخر من شهر مايه وهو شهر إيار وفي ذلك يبدو صلاح الثمار بالحجاز ويظهر الإزهاء فيها وتنجو من العاهة في الأغلب ففي ذلك الوقت يجوز بيعها فيه دون ما قبله وتختلف العبارات فيما يبدو به ما يمنع من البيع ويميز ما يباع فتارة يميز ويفسدها بالإزهاء وتارة بأن تنجو الثمرة من العاهة وتارة تطلع الثريا غير أن تحديد ذلك بالإزهاء وبأن تنجو من العاهة يتعقبه الجواز على كل حال، وأما طلوع الثريا فليس بحد يتميز به وقت جواز البيع من وقت منعه.
وقد روى القعنبي عن مالك في المبسوط أنه قال ليس العمل على هذا ومعنى ذلك عندي أنه لا يباح بيع الثمرة بنفس طلوع الثريا حتى يبدو صلاحها وإنما معنى ذلك في الحديث أنه كان لا يبيع إلا بعد طلوعها وليس فيه أنه لم يكن بيع ذلك بعد طلوع الثريا إلا الإزهاء والله أعلم‘‘۔ (المنتقی شرح الموطا للامام القرطبی، النھی عن بیع الثمار حتی یبدو صلاحھا، ج۴ص۲۲۲، ط:مطبعۃ السعادۃ، مصر)
امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’وطلوعها صباحا يقع في أول فصل الصيف وذلك عند اشتداد الحر في بلاد الحجاز وابتداء نضج الثمار فالمعتبر في الحقيقة النضج وطلوع النجم علامة له وقد بينه في الحديث بقوله ويتبين الأصفر من الأحمر وروى أحمد من طريق عثمان بن عبد الله بن سراقة سألت بن عمر عن بيع الثمار فقال نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع الثمار حتى تذهب العاهة قلت ومتى ذلك قال حتى تطلع الثريا ووقع في رواية بن أبي الزناد عن أبيه عن خارجة عن أبيه قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة ونحن نتبايع الثمار قبل أن يبدو صلاحها فسمع خصومة فقال ما هذا فذكر الحديث فأفاد مع ذكر السبب وقت صدور النهي المذكور‘‘۔ (فتح الباری للإمام ابن حجر العسقلانی، باب بیع الثمار قبل أن یبدو صلاحہ، ج۴ص۳۹۵، ط:دار المعرفۃ، بیروت)
امام بدر الدین عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وطلوعها صباحا يقع في أول فصل الصيف، وذلك عند اشتداد الحر في بلاد الحجاز وابتداء نضج الثمار، والمعتبر في الحقيقة النضج وطلوع النجم علامة له، وقد بينه في الحديث بقوله: ويتبين الأصفر من الأحمر‘‘۔ (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری للإمام بدر الدین العینی، باب بیع الثمار قبل أن یبدو صلاحھا، ج۱۲ص۴، ط:دار إحیاء التراث العربی، بیروت)
ارشاد الساری میں ہے: ’’قال أبو الزناد: (وأخبرني) بالإفراد (خارجة بن زيد بن ثابت) أحد الفقهاء السبعة والواو للعطف على سابقه (أن) أباه (زيد بن ثابت لم يكن يبيع ثمار أرضه حتى تطلع الثريا) النجم المعروف وهي تطلع مع الفجر أوّل فصل الصيف عند اشتداد الحر في بلاد الحجاز وابتداء نضج الثمار، والمعتبر في الحقيقة النضج وطلوع النجم علامة له، وقد بيّنه بقوله: (فيتبين الأصفر من الأحمر) وفي حديث أبي هريرة عند أبي داود مرفوعًا: إذا طلع النجم صباحًا رفعت العاهة عن كل بلد. وقوله: كالمشورة يشير بها قال الداودي الشارح تأويل بعض نقلة الحديث وعلى تقدير أن يكون من قول زيد بن ثابت فلعل ذلك كان في أوّل الأمر، ثم ورد الجزم بالنهي كما بينه حديث ابن عمر وغيره. وقال ابن المنير: أورد حديث زيد معلمًا وفيه إيماء إلى أن النهي لم يكن عزيمة وإنما كان مشورة، وذلك حي الجواز إلا أنه أعقبه بأن زيدًا راوي الحديث كان لا يبيعها حتى يبدوَ صلاحها.
وأحاديث النهي بعد هذا مبتوتة فكأنه قطع على الكوفيين احتجاجهم بحديث زيد بأن فعله يعارض روايته ولا يرد عليهم ذلك أن فعل أحد الجائزين لا يدل على منع الآخر، وحاصله أن زيدًا امتنع من بيع ثماره قبل بدوّ صلاحها ولم يفسر امتناعه هل كان لأنه حرام أو كان لأنه غير مصلحة في حقه انتهى‘‘۔ (ارشاد الساری لشرح صحیح البخاری للإمام القسطلانی، باب بیع الثمار قبل أن یبدو صلاحھا، ج۴ص۸۸، ط: المطبعۃ الکبری الأمیریۃ، مصر)
امام علی القاری علیہ رحمۃ الباری فرماتے ہیں: (وبه عن عطاء، عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إذا طلع النجم اللام للعهد (رفعت العاهة) أي الآفة عن كل بلد من زرعها وثمارها۔۔۔۔۔۔۔۔قال الخرقي: إنما أراد بهذا الحديث أرض الحجاز لأن في أبان يقع الحصاد بها وتدرك الثمار فيها وقال القبتي: أحسبه أراد عاهة الثمار خاصة. (شرح مسند أبی حنیفۃ للإمام علی القاری، ص۱۴۱، ط:دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
امام زرقانی لکھتے ہیں: ’’وَطُلُوعُهَا صَبَاحًا يَقَعُ فِي أَوَّلِ فَصْلِ الصَّيْفِ، وَذَلِكَ عِنْدَ اشْتِدَادِ الْحَرِّ وَابْتِدَاءِ نُضْجِ الثِّمَارِ، وَهُوَ الْمُعْتَبَرُ فِي الْحَقِيقَةِ، وَطُلُوعُ النَّجْمِ عَلَامَةٌ لَهُ، وَقَدْ بَيَّنَهُ بِقَوْلِهِ فِي رِوَايَةِ الْبُخَارِيِّ مِنْ طَرِيقِ اللَّيْثِ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ خَارِجَةَ عَنْ أَبِيهِ، فَزَادَ عَلَى مَا هُنَا فَيَتَبَيَّنُ الْأَصْفَرُ مِنَ الْأَحْمَرِ‘‘۔ (شرح الزرقانی علی المؤطا، باب النھی عن بیع الثمار حتی یبد و صلاحھا، ج۳ص۳۹۵، ط:مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، القاھرۃ)
امام صغانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وَقَدْ بَيَّنَ ذَلِكَ حَدِيثُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ «كَانَ النَّاسُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يَبْتَاعُونَ الثِّمَارَ فَإِذَا جَذَّ النَّاسُ وَحَضَرَ تَقَاضِيهِمْ قَالَ الْمُبْتَاعُ إنَّهُ أَصَابَ الثَّمَرَ الدَّمَانِ وَهُوَ فَسَادُ الطَّلْعِ وَسَوَادُهُ مُرَاضٌ قُشَامٌ عَاهَاتٌ يَحْتَجُّونَ بِهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – لَمَّا كَثُرَتْ عِنْدَهُ الْخُصُومَةُ فِي ذَلِكَ فَأَمَّا لَا فَلَا تَبْتَاعُوا حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُ الثَّمَرَةِ كَالْمَشُورَةِ يُشِيرُ بِهَا لِكَثْرَةِ خُصُومَاتِهِمْ» انْتَهَى، وَأَفْهَمَ قَوْلُهُ كَالْمَشُورَةِ أَنَّ النَّهْيَ لِلتَّنْزِيهِ لَا لِلتَّحْرِيمِ كَأَنَّهُ فَهِمَهُ مِنْ السِّيَاقِ وَإِلَّا فَأَصْلُهُ التَّحْرِيمُ، وَكَانَ زَيْدٌ لَا يَبِيعُ ثِمَارَ أَرْضِهِ حَتَّى تَطْلُعَ الثُّرَيَّا فَيَتَبَيَّنُ الْأَصْفَرَ مِنْ الْأَحْمَرِ. وَأَخْرَجَ أَبُو دَاوُد مِنْ حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ مَرْفُوعًا «إذَا طَلَعَ النَّجْمُ صَبَاحًا رُفِعَتْ الْعَاهَةُ مِنْ كُلِّ بَلَدٍ» وَالنَّجْمُ الثُّرَيَّا وَالْمُرَادُ طُلُوعُهَا صَبَاحًا وَهُوَ فِي أَوَّلِ فَصْلِ الصَّيْفِ وَذَلِكَ عِنْدَ اشْتِدَادِ الْحُرِّ بِبِلَادِ الْحِجَازِ وَابْتِدَاءِ نُضْجِ الثِّمَارِ وَهُوَ الْمُعْتَبَرُ حَقِيقَةً وَطُلُوعُ الثُّرَيَّا عَلَامَةٌ‘‘۔ (سبل السلام للإمام محمد إسماعیل الصنعانی، بیع الثمر قبل بدو صلاحہ، ج۲ص۶۵، ط: دار الحدیث)
البدر التمام میں ہے: ’’والنجم هو الثريا، والمراد طلوعها صباحًا، وهو في أول فصل الصيف، وذلك عند اشتداد الحر في بلاد الحجاز وابتداء نضج الثمار، وهو المعتبر حقيقة، وطلوع الثريا علامة له‘‘۔ (البدر التمام شرح بلوغ المرام، للحسین بن محمد المغربی، ج۶ص۲۱۳، ط:دار ھجر)
ان مندرجہ بالا شروحات کے علاوہ بھی اکثر شروحات میں اس مفہوم کی حدیث کو ’باب بیع الثمر قبل بدو صلاحہ یا باب النھی عن بیع الثمار حتی یبد و صلاحھا‘ کے تحت رکھا ہے، جس سے صاف واضح ہوجاتا ہے کہ یہ سب لوگ اس بات کے قائل ہیں کی احادیث میں ثریا کے طلوع ہونے سے جو وبا دور ہوتی وہ پھلوں والی وبا ہے۔
بعض علما اس بات کے قائل ہیں کہ ثریا سے جو وبا ختم ہوجاتی ہے وہ انسانی اور پھلوں والی، دونوں وبا کو شامل ہے، امام مناوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’(أَبُو نعيم فِي الطِّبّ) النَّبَوِيّ (عَن عَائِشَة مَا طلع النَّجْم) يَعْنِي الثريا فانه اسْمهَا بالغلبة لعدم خفائها لكثرتها (صباحا قطّ) أَي عِنْد الصُّبْح (وبقوم) فِي رِوَايَة وبالناس (عاهة) فِي أنفسهم من نَحْو مرض ووباء أَو فِي مَالهم من نَحْو ثَمَر وَزرع (الا رفعت عَنْهُم) بِالْكُلِّيَّةِ (أَو خفت) أَي أخذت فِي النَّقْص والانحطاط وَمُدَّة مغيبها نَيف وَخَمْسُونَ لَيْلَة (حم عَن أبي هُرَيْرَة) باسناد حسن‘‘۔ (التیسیر شرح الجامع الصغیر، للإمام المناوی، ج۲ص۳۵۲، ط: مکتبۃ الإمام الشافعی، الریاض)
لیکن آپ ہی کی کتاب ’فیض القدیر‘ میں یہ بھی ہے: ’’قيل: أراد بهذا الخبر أرض الحجاز لأن الحصاد يقع بها في أيار وتدرك الثمار وتأمن من العاهة فالمراد عاهة الثمار خاصة‘‘۔ (فیض القدیر شرح الجامع الصغیر، ج۵ص۴۵۴، ط: المکتبۃ التجاریۃ الکبری، مصر)
امام سمعانی رحمہ اللہ زیر بحث حدیث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’وَذَلِكَ مثل الوباء والطواعين والأسقام وَمَا يشبهها‘‘۔ (تفسیر السمعانی، ج۶ص۳۰۶، ط: دار الوطن، الریاض)
دیگر ایک دو مفسرین کرام نے بھی یہی عام معنی لیا ہے، مگر اکثر محدثین کرام نے خاص معنی مراد لیا اور وہ یہی کہ ثریا کی وجہ سے جو وبا دور ہوگی وہ پھلوں کی وبا ہے۔
ثریا کی وجہ سے وبا تمام ملک یا پھر بعض ملک سے ختم ہوگی
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: ((إِذَا طَلَعَ النَّجْمُ رُفِعَتِ الْعَاهَةُ عَنْ أَهْلِ كُلِّ بَلَدٍ)) (الآثار للإمام أبی یوسف، باب الغزو و الجیش، ج۱ص۲۰۵، رقم:۹۱۷، ط:دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ثریا ستارہ طلوع ہونے سے ہر ملک کی وبا دور ہوجائے گی، مگر بعض محدثین کرام نے یہ صراحت کی ہے کہ اس سے مراد حجاز کی وبا کا دور ہونا ہے۔
امام ابن بطال رحمہ اللہ حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’يعنى: الحجاز، والله أعلم‘‘۔ (شرح صحیح البخاری، باب بیع الثمار قبل أن یبدو صلاحھا، ج۶ص۳۱۶، ط:مکتبۃ الرشد، الریاض)
امام ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وَقَوْلُهُ لِلْبَلَدِ يَجُوزُ أَنَّهُ يُرِيدُ الْبِلَادَ الَّتِي فِيهَا النَّخْلُ وَيَجُوزُ أَنْ يُرِيدَ الْحِجَازَ خَاصَّةً‘‘۔ (الاستذکار، باب النھی عن بیع الثمار حتی یبدو صلاحھا، ج۶ص۳۰۶، ط:دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
امام ابن ملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’يعني: الحجاز‘‘۔ (التوضیح لشرح الجامع الصحیح للإمام ابن الملقن، باب بیع الثمار قبل أن یبدو صلاحھا، ج۱۴ص۴۸۸، ط: دار النوادر، دمشق)
امام عراقی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’كَمَا قَالَ بَعْضُهُمْ فِي الْحِجَازِ خَاصَّةً لِشِدَّةِ حَرِّهِ‘‘۔ (طرح التثریب فی شرح التقریب للإمام زین الدین العراقی، حدیث نھی بیع الثمار حتی یبدو صلاحھا، ج۶ص۱۲۶، ط: الطبعۃ المصریۃ القدیمۃ)
اور ان کے علاوہ بعض دیگر علما نے بھی حجاز ہی کے ساتھ اس وبا کو خاص قرار دیا ہے جیسا کہ اوپر مذکور شدہ بعض عبارتوں سے بخوبی واضح ہے۔
مہینہ اور تاریخ کی تعیین
گزشتہ مباحث میں ذکر کردہ بعض احادیث سے معلوم ہوگیا کہ نجم سے مراد ثریا ستارہ جو صبح کو طلوع ہوہوتا ہے، امام طحاوی رحمہ اللہ مزید وضاحت کر رہے ہیں کہ ثریا ستارہ مئی کے مہینہ کی بارہ تاریخ کو طلوع ہوگا، ملاحظہ فرمائیں:
’’وَطَلَبْنَا فِي أَيِّ شَهْرٍ يَكُونُ فِيهِ ذَلِكَ مِنْ شُهُورِ السَّنَةِ عَلَى حِسَابِ الْمِصْرِيِّينَ؟ فَوَجَدْنَاهُ بَشَنْسَ، وَطَلَبْنَا الْيَوْمَ الَّذِي يَكُونُ فِيهِ ذَلِكَ فِي طُلُوعِ فَجْرِهِ مِنْ أَيَّامِهِ فَوَجَدْنَاهُ الْيَوْمَ التَّاسِعَ عَشَرَ مِنْ أَيَّامِهِ، وَطَلَبْنَا مَا يُقَابِلُ ذَلِكَ مِنَ الشُّهُورِ السُّرْيَانِيَّةِ الَّتِي يَعْتَبِرُ أَهْلُ الْعِرَاقِ بِهَا ذَلِكَ فَوَجَدْنَاهُ أَيَارَ , وَطَلَبْنَا الْيَوْمَ الَّذِي يَكُونُ ذَلِكَ فِي فَجْرِهِ فَإِذَا هُوَ الْيَوْمُ الثَّانِيَ عَشَرَ مِنْ أَيَّامِهِ , وَهَذَانِ الشَّهْرَانِ اللَّذَانِ يَكُونُ فِيهِمَا حَمْلُ النَّخْلِ - أَعْنِي بِحَمْلِهَا إِيَّاهُ ظُهُورَهُ فِيهَا لَا غَيْرَ ذَلِكَ - وَتُؤْمَنُ بِالْوَقْتِ الَّذِي ذَكَرْنَاهُ مِنْهُمَا عَلَيْهَا الْعَاهَةُ الْمَخُوفَةُ عَلَيْهَا كَانَتْ قَبْلَ ذَلِكَ , وَاللهَ عَزَّ وَجَلَّ نَسْأَلُهُ التَّوْفِيقَ‘‘۔ (شرح مشکل الآثار للإمام الطحاوی، ج۶ص۵۷، رقم: ۲۲۸۶، ط: مؤسسۃ الرسالۃ)
ثریا کی وجہ سے بیماری دور ہونا اغلبی یا دوامی
امام ابن عبد البر حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ وغیرہ ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’هَذَا كُلُّهُ عَلَى الْأَغْلَبِ وَمَا وَقَعَ نَادِرًا فَلَيْسَ بِأَصْلٍ يُبْنَى عَلَيْهِ فِي شَيْءٍ‘‘۔ (التمہید لما فی الموطا من المعانی و الأسانید للإمام ابن عبد البر، ج۲ص۱۹۲، ط: وزارة عموم الأوقاف والشؤون الإسلامية، المغرب)
اس تفصیلی بیان سے مندرجہ ذیل باتیں واضح ہوگئیں:
(۱)ایک دوسری حدیث کی وضاحت کرتی ہے؛ اس لیے یہاں ثریا کی وجہ سے دور ہونے والی وبا عام نہیں بلکہ پھلوں والی وبا ہے۔
(۲) اکثر علماے کرام ثریا کے ذریعہ پھلوں کی وبا دور ہونے کے قائل ہیں؛ اس لیے ہمیں ان احادیث کو انسانی وبا یا عام وبا پر محمول نہیں کرنا چاہیے۔
(۳) جن حضرات نے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ اکثر علما حدیث میں مذکور وبا سے انسانی وبا یا عام وبا مراد لیتے ہیں، وہ درست نہیں۔
(۴) ثریا کے طلوع ہونے سے وبا کا دور ہونا اغلبی ہے لازمی نہیں۔
تنبیہ: ثریا ستارہ میں بذات خود کوئی تاثیر نہیں کہ وہ وبا دور کرے بلکہ اللہ تعالی نے اس کو صرف وبا دور ہونے کی علامت بنا یاہے، یعنی ہمار یہ عقیدہ ہونا ضروری ہے کہ اللہ تعالی جب چاہے گا تبھی ثریا کے طلوع ہونے سے وبا دور ہوگی ورنہ نہیں جیسے کہ ہم کسی بیماری کی وجہ سے دوا کھاتے ہیں تو ہمارا یہی عقیدہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالی جب چاہے تو ہی شفا حاصل ہوگی ورنہ نہیں۔
اہم پیغام: بہر کیف ہم ثریا سے متعلق احادیث کو عام مانیں یا خاص، اتنے بیان سے تو یہ معلوم ہوگیا کہ جب علماے کرام کے درمیان زیر بحث موضوع احادیث کے تعیین معنی میں اختلاف ہے؛ تو یہ احادیث قطعی الدلالۃ نہ رہیں جن کی بنا پر یقینی طور پر یہ کہا جاسکے کہ انسانی وبا یا عام وبا مراد ہے اور پھر اس کی بنیاد پر حتمی طور سے یہ فیصلہ کرنے کی کوشش کی جائے کہ بارہ مئی کو ثریا طوع ہوتے ہی کرونا وائرس ختم ہوجائے گایا کم ہوجائے گا، البتہ بعض احادیث کے ظاہری معنی کو لے کر اور علما کے بعض اقوال کے پیش نظر اللہ جل شانہ سے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ ثریا کے طلوع سے یہ انسانی وبا کم یا ختم کردے مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تعیین معنی میں اختلاف کے باوجود ہم یہ کہتے بیٹھیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمادیا؛ تو بارہ مئی کو یہ ہوکر رہے گا اور نجات مل کر رہے گی، نہیں زیر بحث احادیث کے پیش نظر آپ ایسا نہیں کہ سکتے، اگر آپ ایسا کہیں گے ؛ تو آپ اسلام اور مسلمان کی جگ ہنسائی کا سبب بن سکتے ہیں، جیسا کہ اس بات سے جگ ہنسائی ہوئی کہ مسلمان کو کرونا وائرس ہوگا ہیں نہیں، خاص کر اس وقت جب کہ زیر بحث احادیث کے تعیین معنی میں اختلاف کے ساتھ وبا دور ہونا اغلبی ہے یعنی کبھی ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ثریا طلو ع ہو اور وبا دور نہ ہو؛ لہذا مسلمانوں کو چاہیے کہ حد اعتدال قائم و دائم رکھیں اور کسی طرح بھی اسلام و مسلمان کے لیے جگ ہنسائی کا سبب نہ بنیں، مگر أنا عند ظن عبدی کے پیش نظر اللہ تعالی سے شفا یابی کی امید قوی رکھیں، اللہ تعالی ہم سب کو اپنے اپنے اعمال کی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صدقہ ہم سب کو ہر وبا سے محفوظ رکھے، آمین۔
اللہ تعالی کے فضل و کرم سے یہ مضمون پانچ گھنٹے کے اندر مکمل ہوا، و الحمد للہ الذي بنعمته تتم الصالحات و صلی اللہ علی خیر خلقه محمد و آله و أصحابه أجمعی
ﻗﺎﺑﻞ ﻏﻮﺭ ﺗﺤﺮﯾﺮ۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک یہودی لیڈر کی چونکا دینے والی تحریر
ﻋﺮﺏ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺟﻨﮓ ﭼﮭﮍﻧﮯ ﮐﻮ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻣﺮﯾﮑﯽ ﺳﯿﻨﯿﭩﺮ ﺍﯾﮏ ﺍﮨﻢ ﮐﺎﻡ ﮐﮯ ﺳﻠﺴﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﺁﯾﺎ۔ ﻭﮦ ﺍﺳﻠﺤﮧ ﮐﻤﯿﭩﯽ ﮐﺎ ﺳﺮﺑﺮﺍﮦ ﺗﮭﺎ۔ ﺍُﺳﮯ ﻓﻮﺭﺍً ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﯽ ﻭﺯﯾﺮﺍﻋﻈﻢ ’’ ﮔﻮﻟﮉ ﻣﺎﺋﯿﺮ ‘‘ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﻟﮯ ﺟﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ۔ ﮔﻮﻟﮉ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﮔﮭﺮﯾﻠﻮ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﻣﺎﻧﻨﺪ ﺳﯿﻨﯿﭩﺮ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﻘﺒﺎﻝ ﮐﯿﺎﺍﻭﺭ ﺍُﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﭽﻦ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﮔﺌﯽ۔ ﯾﮩﺎﮞ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﺳﯿﻨﯿﭩﺮ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺳﯽ ﮈﺍﺋﯿﻨﮓ ﭨﯿﺒﻞ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮐﺮﺳﯽ ﭘﺮ ﺑﭩﮭﺎ ﮐﺮ، ﭼﻮﻟﮩﮯ ﭘﺮ ﭼﺎﺋﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﻭﮨﯿﮟ ﺁﺑﯿﭩﮭﯽ۔
ﺍُﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﺗﻮﭘﻮﮞ، ﻃﯿﺎﺭﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺰﺍﺋﻠﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﻮﺩﺍ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ ﺍﺑﮭﯽ ﺑﮭﺎﺅ ﺗﺎﺅ ﺟﺎﺭﯼ ﺗﮭﺎﮐﮧ ﺍُﺳﮯ ﭼﺎﺋﮯ ﭘﮑﻨﮯ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺁﺋﯽ۔ ﻭﮦ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﺍُﭨﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﭼﺎﺋﮯ ﺩﻭ ﭘﯿﺎﻟﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍُﻧﮉﯾﻠﯽ ۔ ﺍﯾﮏ ﭘﯿﺎﻟﯽ ﺳﯿﻨﯿﭩﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺭﮐﮫ ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﮔﯿﭧ ﭘﺮ ﮐﮭﮍﮮ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﮔﺎﺭﮈ ﮐﻮ ﺗﮭﻤﺎ ﺩﯼ۔ﭘﮭﺮ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﻣﯿﺰ ﭘﺮ ﺁﺑﯿﭩﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﺳﯿﻨﯿﭩﺮ ﺳﮯ ﻣﺤﻮ ﮐﻼﻡ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ۔ﭼﻨﺪﻟﻤﺤﻮﮞ ﮐﯽ ﮔﻔﺖ ﻭ ﺷﻨﯿﺪ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﺎﺅ ﺗﺎﺅ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺷﺮﺍﺋﻂ ﻃﮯ ﭘﺎﮔﺌﯿﮟ۔ ﺍﺱ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﮔﻮﻟﮉ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﺍُﭨﮭﯽ، ﭘﯿﺎﻟﯿﺎﮞ ﺳﻤﯿﭩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍُﻧﮩﯿﮟ ﺩﮬﻮ ﮐﺮ ﻭﺍﭘﺲ ﺳﯿﻨﯿﭩﺮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﭘﻠﭩﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻟﯽ ’’ : ﻣﺠﮭﮯ ﯾﮧ ﺳﻮﺩﺍ ﻣﻨﻈﻮﺭ ﮨﮯ۔ﺁﭖ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﯼ ﻣﻌﺎﺋﺪ ﮮ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺳﯿﮑﺮﭨﺮﯼ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﯿﮑﺮﭨﺮﯼ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺑﮭﺠﻮﺍﺩﯾﺠﺌﮯ۔ ‘‘ ۔
ﯾﺎﺩ ﺭﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﺍُﺱ ﻭﻗﺖ ﺍﻗﺘﺼﺎﺩﯼ ﺑﺤﺮﺍﻥ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﺗﮭﺎ، ﻣﮕﺮ ﮔﻮﻟﮉ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﻧﮯ ﮐﺘﻨﯽ ’’ ﺳﺎﺩﮔﯽ ‘‘ ﺳﮯ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﻠﺤﮯ ﮐﯽ ﺧﺮﯾﺪﺍﺭﯼ ﮐﺎ ﺍﺗﻨﺎ ﺑﮍﺍ ﺳﻮﺩﺍ ﮐﺮ ﮈﺍﻻ۔
ﺣﯿﺮﺕ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺧﻮﺩ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻠﯽ ﮐﺎﺑﯿﻨﮧ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺑﮭﺎﺭﯼ ﺳﻮﺩﮮ ﮐﻮ ﺭﺩ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ ﺍُﺱ ﮐﺎ ﻣﺆﻗﻒ ﺗﮭﺎ ، ﺍِﺱ ﺧﺮﯾﺪﺍﺭﯼ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻠﯽ ﻗﻮﻡ ﮐﻮ ﺑﺮﺳﻮﮞ ﺗﮏ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻭﻗﺖ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﭘﺮ ﺍﮐﺘﻔﺎ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ۔
ﮔﻮﻟﮉ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﻧﮯ ﮐﺎﺑﯿﻨﮧ ﮐﮯ ﺍﺭﮐﺎﻥ ﮐﺎ ﻣﺆﻗﻒ ﺳُﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ’’ : ﺁﭘﮑﺎ ﺧﺪﺷﮧ ﺩﺭﺳﺖ ﮨﮯ ، ﻟﯿﮑﻦ ﺍﮔﺮ ﮨﻢ ﯾﮧ ﺟﻨﮓ ﺟﯿﺖ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﻧﮯ ﻋﺮﺑﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﺴﭙﺎﺋﯽ ﭘﺮ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺗﻮ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮨﻤﯿﮟ ﻓﺎﺗﺢ قرار ﺩﮮ ﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺟﺐ ﮐﺴﯽ ﻗﻮﻡ ﮐﻮ ﻓﺎﺗﺢ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ، ﺗﻮ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﻨﮓ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻓﺎﺗﺢ ﻗﻮﻡ ﻧﮯ ﮐﺘﻨﮯ ﺍﻧﮉﮮ ﮐﮭﺎﺋﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﺯﺍﻧﮧ ﮐﺘﻨﯽ ﺑﺎﺭ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ، ﺍُﺱ ﮐﮯ ﺩﺳﺘﺮ ﺧﻮﺍﻥ ﭘﺮ ﺷﮩﺪ، ﻣﮑﮭﻦ، ﺟﯿﻢ ﺗﮭﺎ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍُﻧﮑﮯ ﺟﻮﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﺘﻨﮯ ﺳﻮﺭﺍﺥ ﺗﮭﮯ ﯾﺎ ﺍُﻥ ﮐﯽ ﺗﻠﻮﺍﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﻧﯿﺎﻡ ﭘﮭﭩﮯ ﭘﺮﺍﻧﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﻓﺎﺗﺢ ﺻﺮﻑ ﻓﺎﺗﺢ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔ ‘‘ ۔
ﮔﻮﻟﮉ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﮐﯽ ﺩﻟﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﻭﺯﻥ ﺗﮭﺎ، ﻟﮩٰﺬﺍ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻠﯽ ﮐﺎﺑﯿﻨﮧ ﮐﻮ ﺍِﺱ ﺳﻮﺩﮮ ﮐﯽ ﻣﻨﻈﻮﺭﯼ ﺩﯾﻨﺎ ﭘﮍﯼ۔
ﺁﻧﯿﻮﺍﻟﮯ ﻭﻗﺖ ﻧﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﮔﻮﻟﮉ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﮐﺎ ﺍِﻗﺪﺍﻡ ﺩﺭﺳﺖ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺩﻧﯿﺎ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ، ﺍُﺳﯽ ﺍﺳﻠﺤﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﮩﺎﺯﻭﮞ ﺳﮯ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻋﺮﺑﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﻭﮞ ﭘﺮ ﺩﺳﺘﮏ ﺩﮮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﺟﻨﮓ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﻋﺮﺏ ﺍﯾﮏ ﺑﻮﮌﮬﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﮯ ﺷﺮﻣﻨﺎﮎ ﺷﮑﺴﺖ ﮐﮭﺎ ﮔﺌﮯ۔ ( ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﮏ ﻋﺠﯿﺐ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻣﺖ ﻣﺴﻠﻤﮧ ﮐﻮ ﺑﯿﺴﻮﯾﮟ ﺻﺪﯼ ﻣﯿﮟ ﭨﮑﮍﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﮐﺮ ﺩﯾﻨﮯ ﻣﯿﮟ ، ﺩﻭ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﺭﮨﺎ ۔ ﯾﻌﻨﯽ ﻋﺮﺑﻮﮞ ﮐﻮ ﺧﺘﻢ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﮔﻮﻟﮉ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﻋﺠﻢ ﮐﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﺷﮑﺴﺖ ﺩﯾﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺪﺭﺍ ﮔﺎﻧﺪﮬﯽ ﮐﺎ )
ﺟﻨﮓ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﻋﺮ ﺻﮧ ﺑﻌﺪ ﻭﺍﺷﻨﮕﭩﻦ ﭘﻮﺳﭧ ﮐﮯ ﻧﻤﺎﺋﻨﺪﮮ ﻧﮯ ﮔﻮﻟﮉ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﮐﺎ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﯿﺎ ’’ : ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﺍﺳﻠﺤﮧ ﺧﺮﯾﺪﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺁﭘﮑﮯ ﺫﮨﻦ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﺩﻟﯿﻞ ﺁﺋﯽ ﺗﮭﯽ ، ﻭﮦ ﻓﻮﺭﺍً ﺁﭘﮑﮯ ﺫﮨﻦ ﻣﯿﮟ ﺁﺋﯽ ﺗﮭﯽ ، ﯾﺎ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯ ﺣﮑﻤﺖ ﻋﻤﻠﯽ ﺗﯿﺎ ﺭ ﮐﺮ ﺭﮐﮭﯽ ﺗﮭﯽ۔۔؟ ‘‘
۔ﮔﻮﻟﮉ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﻧﮯ ﺟﻮ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﭼﻮﻧﮑﺎ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ، ﻭﮦ ﺑﻮﻟﯽ ’’ : ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺍﺳﺘﺪﻻ ﻝ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﺷﻤﻨﻮﮞ ( ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ( ﮐﮯ ﻧﺒﯽ ) ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ) ﺳﮯ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ، ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﻃﺎﻟﺒﮧ ﺗﮭﯽ ﺗﻮ ﻣﺬﺍﮨﺐ ﮐﺎ ﻣﻮﺍﺯﻧﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﭘﺴﻨﺪﯾﺪﮦ ﻣﻮﺿﻮﻉ ﺗﮭﺎ۔
ﺍُﻧﮩﯽ ﺩﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺳﻮﺍﻧﺢ ﺣﯿﺎ ﺕ ﭘﮍﮬﯽ ۔ ﺍُﺱ ﮐﺘﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﻨﻒ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺟﮕﮧ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎﮐﮧ ﺟﺐ ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﺎ ﻭﺻﺎﻝ ﮨﻮ ﺍﺗﻮ ﺍُﻧﮑﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺍِﺗﻨﯽ ﺭﻗﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﭼﺮﺍﻍ ﺟﻼﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺗﯿﻞ ﺧﺮﯾﺪﺍ ﺟﺎ ﺳﮑﮯ ، ﻟﮩٰﺬﺍ ﺍُﻧﮑﯽ ﺍﮨﻠﯿﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺎﺋﺸﮧ ﺻﺪﯾﻘﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮩﺎ ﻧﮯ ﺍُﻧﮑﯽ ﺯﺭﮦ ﺑﮑﺘﺮ ﺭﮨﻦ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺗﯿﻞ ﺧﺮﯾﺪﺍ، ﻟﯿﮑﻦ ﺍُﺳﻮﻗﺖ ﺑﮭﯽ ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﺣﺠﺮﮮ ﮐﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭﻭﮞ ﭘﺮ ﻧﻮ ﺗﻠﻮﺍﺭﯾﮟ ﻟﭩﮏ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺟﺐ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﭘﮍﮬﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﻮﭼﺎ ﮐﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﮐﺘﻨﮯ ﻟﻮﮒ ﮨﻮﻧﮕﮯ ﺟﻮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﭘﮩﻠﯽ ﺭﯾﺎﺳﺖ ﮐﯽ ﮐﻤﺰﻭﺭ ﺍﻗﺘﺼﺎﺩﯼ ﺣﺎﻟﺖ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﻮﻧﮕﮯ، ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺁﺩﮬﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﻓﺎﺗﺢ ﮨﯿﮟ ،
ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﮨﮯ ۔
ﻟﮩٰﺬﺍ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﻗﻮﻡ ﮐﻮ ﺑﺮﺳﻮﮞ ﺑﮭﻮﮐﮭﺎ ﺭﮨﻨﺎ ﭘﮍ ﮮ، ﭘﺨﺘﮧ ﻣﮑﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺧﯿﻤﻮﮞ ﻣﯿﮞﺰﻧﺪﮔﯽ ﺑﺴﺮ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﮮ، ﺗﻮ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﻠﺤﮧ ﺧﺮﯾﺪﯾﮟ ﮔﮯ، ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﻣﻀﺒﻮﻁ ﺛﺎﺑﺖ ﮐﺮ ﯾﻨﮕﮯ ﺍﻭﺭ ﻓﺎﺗﺢ ﮐﺎ ﺍﻋﺰﺍﺯ ﭘﺎ ﺋﯿﮟ ﮔﮯ۔ ‘‘ ۔
ﮔﻮﻟﮉ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﻧﮯ ﺍِﺱ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﺳﮯ ﺗﻮ ﭘﺮﺩﮦ ﺍُﭨﮭﺎﯾﺎ ، ﻣﮕﺮ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﻧﮕﺎﺭ ﺳﮯ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﮐﯽ ﮐﮧ ﺍِﺳﮯ ’’ ﺁﻑ ﺩﯼ ﺭﯾﮑﺎﺭﮈ ‘‘ ﺭﮐﮭﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺷﺎﺋﻊ ﻧﮧ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ۔ ﻭﺟﮧ ﯾﮧ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻧﺒﯽ ( ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ) ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻟﯿﻨﮯ ﺳﮯ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻗﻮﻡ ﺍﺳﮑﮯ ﺧﻼﻑ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ ، ﻭﮨﺎﮞ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﺆﻗﻒ ﮐﻮ ﺗﻘﻮﯾﺖ ﻣﻠﮯ ﮔﯽ۔
ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﻭﺍﺷﻨﮕﭩﻦ ﭘﻮﺳﭧ ﮐﮯ ﻧﻤﺎﺋﻨﺪﮮ ﻧﮯ ﯾﮧ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺣﺬﻑ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔
ﭘﮭﺮ ﻭﻗﺖ ﺩﮬﯿﺮﮮ ﺩﮬﯿﺮﮮ ﮔﺰﺭﺗﺎ ﺭﮨﺎ، ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﮔﻮﻟﮉ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮐﺮ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﻧﮕﺎﺭ ﺑﮭﯽ ﻋﻤﻠﯽ ﺻﺤﺎﻓﺖ ﺳﮯ ﺍﻟﮓ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔ ﺍﺱ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﻧﺎﻣﮧ ﻧﮕﺎﺭ ، ﺍﻣﺮﯾﮑﮧ ﮐﮯ ﺑﯿﺲ ﺑﮍﮮ ﻧﺎﻣﮧ ﻧﮕﺎﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮﮞ ﻟﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﺗﮭﺎ۔ ﺍُﺱ ﺳﻠﺴﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺍُﺳﯽ ﻧﺎﻣﮧ ﻧﮕﺎﺭ ﮐﺎ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﻟﯿﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﺟﺲ ﻧﮯ ﻭﺍﺷﻨﮕﭩﻦ ﭘﻮﺳﭧ ﮐﮯ ﻧﻤﺎﺋﻨﺪﮮ ﮐﯽ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﺳﮯ ﮔﻮﻟﮉ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﮐﺎ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ﺍُﺱ ﺍﻧﭩﺮ ﻭﯾﻮ ﻣﯿﮟ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﮔﻮﻟﮉ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﮐﺎ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺑﮭﯽ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ ﺟﻮ ﺳﯿﺮﺕ ﻧﺒﻮﯼ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺗﮭﺎ۔ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺍُﺳﮯ ﺍَﺏ ﯾﮧ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﺮﻣﻨﺪﮔﯽ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ۔ﮔﻮﻟﮉ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﮐﺎ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﻟﯿﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻧﮯ ﻣﺰﯾﺪ ﮐﮩﺎ،
۔ ’’ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍِﺱ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺟﺐ ﺗﺎﺭﯾﺦِ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﻣﻄﺎﻟﻌﮧ ﮐﯿﺎ ، ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻋﺮﺏ ﺑﺪﻭﺅﮞ ﮐﯽ ﺟﻨﮕﯽ ﺣﮑﻤﺖ ﻋﻤﻠﯿﺎﮞ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻃﺎﺭﻕ ﺑﻦ ﺯﯾﺎﺩ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺟﺒﺮﺍﻟﭩﺮ ( ﺟﺒﻞ ﺍﻟﻄﺎﺭﻕ )ﮐﮯ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﺍﺳﭙﯿﻦ ﻓﺘﺢ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎﺍُﺳﮑﯽ ﻓﻮﺝ ﮐﮯ ﺁﺩﮬﮯ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻣﺠﺎﮨﺪﻭﮞ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﭘﻮﺭﺍ ﻟﺒﺎﺱ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔ ﻭﮦ ﺑﮩﺘَﺮﺑﮩﺘَﺮﮔﮭﻨﭩﮯ ﺍﯾﮏ ﭼﮭﺎﮔﻞ ﭘﺎﻧﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﮐﮭﯽ ﺭﻭﭨﯽ ﮐﮯ ﭼﻨﺪ ﭨﮑﮍﻭﮞ ﭘﺮ ﮔﺰﺍﺭﺍ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﯾﮧ ﻭﮦ ﻣﻮﻗﻊ ﺗﮭﺎ ، ﺟﺐ ﮔﻮﻟﮉ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﮐﺎ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﻧﮕﺎﺭ ﻗﺎﺋﻞ ﮨﻮﮔﯿﺎﮐﮧ ’’ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻓﺘﻮﺣﺎﺕ ﮔﻨﺘﯽ ﮨﮯ، ﺩﺳﺘﺮ ﺧﻮﺍﻥ ﭘﺮ ﭘﮍﮮ ﺍﻧﮉﮮ، ﺟﯿﻢ ﺍﻭﺭ ﻣﮑﮭﻦ ﻧﮩﯿﮟ ‘‘ ۔
ﮔﻮﻟﮉ ﻣﺎﺋﯿﺮ ﮐﮯ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﻧﮕﺎﺭ ﮐﺎ ﺍﭘﻨﺎ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﺟﺐ ﮐﺘﺎﺑﯽ ﺷﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﺋﻊ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺩﻧﯿﺎ ﺍِﺱ ﺳﺎﺭﯼ ﺩﺍﺳﺘﺎﻥ ﺳﮯ ﺁﮔﺎﮦ ﮨﻮﺋﯽ۔ ﯾﮧ ﺣﯿﺮﺕ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﮯ ﺩﺭﯾﭽﻮﮞ ﺳﮯ ﺟﮭﺎﻧﮏ ﺟﮭﺎﻧﮏ ﮐﺮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﺎﻥِ ﻋﺎﻟﻢ ﮐﻮ ﺟﮭﻨﺠﮭﻮﮌ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ، ﺑﯿﺪﺍﺭﯼ ﮐﺎ ﺩﺭﺱ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔ ﮨﻤﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍُﺩﮬﮍﯼ ﻋﺒﺎﺅﮞ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﭩﮯ ﺟﻮﺗﻮﮞ ﻭﺍﻟﮯ ﮔﻠﮧ ﺑﺎﻥ، ﭼﻮﺩﮦ ﺳﻮﺑﺮﺱ ﻗﺒﻞ ﮐﺴﻄﺮﺡ ﺟﮩﺎﮞ ﺑﺎﻥ ﺑﻦ ﮔﺌﮯ؟ ﺍُﻧﮑﯽ ﻧﻨﮕﯽ ﺗﻠﻮﺍﺭ ﻧﮯ ﮐﺲ ﻃﺮﺡ ﭼﺎﺭ ﺑﺮﺍﻋﻈﻢ ﻓﺘﺢ ﮐﺮ ﻟﯿﮯ؟۔
ﺍﮔﺮ ﭘﺮ ﺷﮑﻮﮦ ﻣﺤﻼﺕ، ﻋﺎﻟﯽ ﺷﺎﻥ ﺑﺎﻏﺎﺕ ، ﺯﺭﻕ ﺑﺮﻕ ﻟﺒﺎﺱ ، ﺭﯾﺸﻢ ﻭ ﮐﻤﺨﻮﺍﺏ ﺳﮯ ﺁﺭﺍﺳﺘﮧ ﻭ ﭘﯿﺮﺍﺳﺘﮧ ﺁﺭﺍﻡ ﮔﺎﺋﯿﮟ، ﺳﻮﻧﮯ ﭼﺎﻧﺪﯼ، ﮨﯿﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﺟﻮﺍﮨﺮﺍﺕ ﺳﮯ ﺑﮭﺮ ﯼ ﺗﺠﻮﺭﯾﺎﮞ ، ﺧﻮﺵ ﺫﺍﺋﻘﮧ ﮐﮭﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺍَﻧﺒﺎﺭ ﺍﻭﺭ ﮐﮭﻨﮑﮭﻨﺎﺗﮯ ﺳﮑﻮﮞ ﮐﯽ ﺟﮭﻨﮑﺎﺭ ﮨﻤﯿﮟ ﺑﭽﺎ ﺳﮑﺘﯽ ﺗﻮ ﺗﺎﺗﺎﺭﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﭨﮉﯼ ﺩﻝ ﺍﻓﻮﺍﺝ ﺑﻐﺪﺍﺩ ﮐﻮ ﺭﻭﻧﺪﺗﯽ ﮨﻮﺋﯽ خلیفہ مستعصم ﺑﺎﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻣﺤﻞ ﺗﮏ ﻧﮧ ﭘﮩﻨﭽﺘﯽ۔ ﺁﮦ ! ﻭﮦ ﺗﺎﺭﯾﺦِ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﮐﺘﻨﺎ ﻋﺒﺮﺕ ﻧﺎﮎ ﻣﻨﻈﺮ ﺗﮭﺎ ﺟﺐ خلیفہ ، ﺁ ﮨﻨﯽ ﺯﻧﺠﯿﺮﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﮍﻭﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﮑﮍﺍ ، ﭼﻨﮕﯿﺰ ﺧﺎﻥ ﮐﮯ ﭘﻮﺗﮯ ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﮭﮍﺍ ﺗﮭﺎ۔ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﻭﻗﺖ ﺁﯾﺎ ﺗﻮ ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﻧﮯ ﺧﻮﺩ ﺳﺎﺩﮦ ﺑﺮﺗﻦ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﺎ ﻧﺎ ﮐﮭﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺳﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﻃﺸﺘﺮﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﯿﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﺟﻮﺍﮨﺮﺍﺕ ﺭﮐﮫ ﺩﺋﯿﮯ۔ ﭘﮭﺮ خلیفہ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ۔ ’’ : ﺟﻮ ﺳﻮﻧﺎ ﭼﺎﻧﺪﯼ ﺗﻢ ﺟﻤﻊ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍُﺳﮯ ﮐﮭﺎﺅ ‘‘! ۔
ﺑﻐﺪﺍﺩ ﮐﺎ ﺗﺎﺝ ﺩﺍﺭ ﺑﮯ ﭼﺎﺭﮔﯽ ﻭ ﺑﮯ ﺑﺴﯽ ﮐﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺑﻨﺎ ﮐﮭﮍﺍ ﺗﮭﺎ، ﺑﻮﻻ ’’ : ﻣﯿﮟ ﺳﻮﻧﺎ ﮐﯿﺴﮯ ﮐﮭﺎﺅﮞ؟ ‘‘ ﮨﻼﮐﻮ ﻧﮯ ﻓﻮﺭﺍً ﮐﮩﺎ ’’ ﭘﮭﺮ ﺗﻢ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺳﻮﻧﺎ ﭼﺎﻧﺪﯼ ﺟﻤﻊ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ؟ ‘‘ ۔ ﻭﮦ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺟﺴﮯ ﺍُﺳﮑﺎ ﺩﯾﻦ ﮨﺘﮭﯿﺎﺭ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﭘﺎﻟﻨﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺗﺮﻏﯿﺐ ﺩﯾﺘﺎ ﺗﮭﺎ، ﮐﭽﮫ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮧ ﺩﮮ ﺳﮑﺎ۔ ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﻧﮯ ﻧﻈﺮﯾﮟ ﮔﮭﻤﺎ ﮐﺮ ﻣﺤﻞ ﮐﯽ ﺟﺎﻟﯿﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﻀﺒﻮﻁ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﯿﺎ ’’ : ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍِﻥ ﺟﺎﻟﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﮕﮭﻼ ﮐﺮ ﺁﮨﻨﯽ ﺗﯿﺮ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮧ ﺑﻨﺎﺋﮯ ؟ ﺗﻢ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺟﻮﺍﮨﺮﺍﺕ ﺟﻤﻊ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﭙﺎﮨﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺭﻗﻢ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮧ ﺩﯼ، ﺗﺎﮐﮧ ﻭﮦ ﺟﺎﻧﺒﺎﺯﯼ ﺍﻭﺭ ﺩﻟﯿﺮﯼ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻓﻮﺍﺝ ﮐﺎ ﻣﻘﺎﺑﻠﮧ ﮐﺮﺗﮯ؟ ‘‘ ۔ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﻧﮯ ﺗﺎﺳﻒ ﺳﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ۔ ’’ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﯾﮩﯽ ﻣﺮﺿﯽ ﺗﮭﯽ ‘‘ ۔
ﮨﻼﮐﻮ ﻧﮯ ﮐﮍﮎ ﺩﺍﺭ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎ ’’ : ﭘﮭﺮ ﺟﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﻮﻧﯿﻮﺍﻻ ﮨﮯ ، ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺧﺪﺍ ﮐﯽ ﻣﺮﺿﯽ ﮨﻮﮔﯽ۔ ‘‘ ۔
ﭘﮭﺮ ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﻧﮯ خلیفہ ﮐﻮ ﻣﺨﺼﻮﺹ ﻟﺒﺎﺩﮮ ﻣﯿﮟ ﻟﭙﯿﭧ ﮐﺮ ﮔﮭﻮﮌﻭﮞ ﮐﯽ ﭨﺎﭘﻮﮞ ﺗﻠﮯ ﺭﻭﻧﺪ ﮈﺍﻻ، ﺑﻐﺪﺍﺩ ﮐﻮ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﺑﻨﺎ ﮈﺍﻻ۔ ﮨﻼﮐﻮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ’’ ﺁﺝ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﻐﺪﺍﺩ ﮐﻮ ﺻﻔﺤﮧ ﮨﺴﺘﯽ ﺳﮯ ﻣﭩﺎ ﮈﺍﻻ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍَﺏ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﺍﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻭﺍﻻ ﺑﻐﺪﺍﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻨﺎ ﺳﮑﺘﯽ۔ ‘‘ ۔
ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺗﻮ ﻓﺘﻮﺣﺎﺕ ﮔﻨﺘﯽ ﮨﮯ ۔ ﻣﺤﻞ، ﻟﺒﺎﺱ، ﮨﯿﺮﮮ، ﺟﻮﺍﮨﺮﺍﺕ ﻟﺬﯾﺰ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﺍﮔﺮ ﮨﻢ ﺫﺭﺍ ﺳﯽ ﺑﮭﯽ ﻋﻘﻞ ﻭ ﺷﻌﻮﺭ ﺳﮯ ﮐﺎﻡ ﻟﯿﺘﮯ ﺗﻮ ﺑﺮﺻﻐﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﻣﻐﻠﯿﮧ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﮐﺎ ﺁﻓﺘﺎﺏ ﮐﺒﮭﯽ ﻏﺮﻭﺏ ﻧﮧ ﮨﻮﺗﺎ۔ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﮐﺮﻭ ﺟﺐ ﯾﻮﺭﭖ ﮐﮯ ﭼﭙﮯ ﭼﭙﮯ ﭘﺮ ﺗﺠﺮﺑﮧ ﮔﺎﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺗﺤﻘﯿﻘﯽ ﻣﺮﺍﮐﺰ ﻗﺎﺋﻢ ﮨﻮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ، ﺗﺐ ﯾﮩﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﺷﮩﻨﺸﺎﮦ ﺩﻭﻟﺖ ﮐﺎ ﺳﮩﺎﺭﺍ ﻟﯿﮑﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ ﯾﺎﺩ ﻣﯿﮟ ﺗﺎﺝ ﻣﺤﻞ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﺮﻭﺍ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺟﺐ ﻣﻐﺮﺏ ﻣﯿﮟ ﻋﻠﻮﻡ ﻭ ﻓﻨﻮﻥ ﮐﮯ ﺑﻢ ﭘﮭﭧ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺗﺐ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﺎﻥ ﺳﯿﻦ ﺟﯿﺴﮯ ﮔﻮﯾﮯ ﻧﺌﮯ ﻧﺌﮯ ﺭﺍﮒ ﺍﯾﺠﺎﺩ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺟﺐ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰﻭﮞ، ﻓﺮﺍﻧﺴﯿﺴﯿﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﭘﺮﻧﮕﺎﻟﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺤﺮﯼ ﺑﯿﮍﮮ ﺑﺮ ﺻﻐﯿﺮ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﻭﮞ ﭘﺮ ﺩﺳﺘﮏ ﺩﮮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ، ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺍَﺭﺑﺎﺏ ﻭ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺷﺮﺍﺏ ﻭ ﮐﺒﺎﺏ ﺍﻭﺭ ﭼﻨﮓ ﻭ ﺭﺑﺎﺏ ﺳﮯ ﻣﺪﮨﻮﺵ ﭘﮍﮮ ﺗﮭﮯ۔ ﺗﻦ ﺁﺳﺎﻧﯽ، ﻋﯿﺶ ﮐﻮﺷﯽ ﺍﻭﺭ ﻋﯿﺶ ﭘﺴﻨﺪﯼ ﻧﮯ ﮨﻤﯿﮟ ﮐﮩﯿﮟ ﮐﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌﺍ۔ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺑﻮﺳﯿﺪﮦ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﻤﮏ ﺯﺩﮦ ﻧﻈﺎﻡ ﺑﮑﮭﺮ ﮔﯿﺎ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﻮ ﺍِﺱ ﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﮐﻮ ﺋﯽ ﻏﺮﺽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺋﯽ ﮐﮧ ﺣﮑﻤﺮﺍﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﺠﻮﺭﯾﺎﮞ ﺑﮭﺮﯼ ﮨﯿﮟ ﯾﺎ ﺧﺎﻟﯽ؟ ﺷﮩﻨﺸﺎﮨﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﺎﺝ ﻣﯿﮟ ﮨﯿﺮﮮ ﺟﮍﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ؟ ﺩﺭﺑﺎﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺷﺎﻣﺪﯾﻮﮞ ، ﻣﺮﺍﺛﯿﻮﮞ ، ﻃﺒﻠﮧ ﻧﻮﺍﺯﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻭﻇﯿﻔﮧ ﺧﻮﺍﺭ ﺷﺎﻋﺮﻭﮞ ﮐﺎ ﺟﮭﺮﻣﭧ ﮨﮯ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ؟ ﯾﺎ ﺩ ﺭﮐﮭﯿﮯ ! ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﻮ ﺻﺮﻑ ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﻏﺮﺽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻋُﺬﺭ ﻗﺒﻮ ﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﯽ۔
ﺍﻓﺴﻮﺱ ﺻﺪ ﺍﻓﺴﻮﺱ ! ﺳﯿﺮﺕ ﻧﺒﻮﯼ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻋﻮﺭﺕ ﻧﮯ ﺗﻮ ﺳﺒﻖ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ۔ﻣﮕﺮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺍِﺱ ﭘﮩﻠﻮ ﺳﮯ ﻧﺎﺁﺷﻨﺎ ﺭﮨﮯ۔ ﺳﺎﺋﻨﺲ ﻭ ﭨﯿﮑﻨﺎﻟﻮﺟﯽ، ﻋﻠﻮﻡ ﻭ ﻓﻨﻮﻥ ﭘﺮ ﺩﺳﺘﺮﺱ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﮐﯽ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﻻﺣﺎﺻﻞ ﺑﺤﺜﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻏﯿﺮ ﺿﺮﺭﻭﯼ ﮐﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﻣﮕﻦ ﺭﮨﮯ۔ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺯﻭﺍﻝ ﮨﻤﺎﺭﺭ ﻣﻘﺪﺭ ﭨﮭﮩﺮﺍ۔ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺑﮍﯼ ﺑﮯ ﺭﺣﻢ ﮨﻮﺗﯽ ہے۔*دنیا کی سب سے بڑی سازش بے نقاب*
تحقیق. تحریر محمد الیاس آرائیں
۔
یہ منصوبہ اسرائیل میں تیار کیا گیا جس میں امریکا، برطانیہ اور بھارت کے بڑے سازشی دماغ شریک ہوئے۔ (بعض سعودی ذرائع کے مطابق ان میں ایرانی خفیہ حکام اور قادیانیوں کے نمائندے بھی شامل تھے) روس اور چین کو شامل نہیں کیا گیا کیونکہ ان کے بعض مسلمان ملکوں سے قریبی تعلقات ہیں۔ اور یہ سازش تو ہے ہی مسلمانوں کے خلاف۔
منصوبے کے بلو پرنٹ کے مطابق پوری دنیا کا میڈیا چونکہ یہودیوں کے قبضے میں ہے، اس لیے اسے ایک جھوٹ موٹ کے وائرس کا پروپیگنڈا کرنے کی ذمے داری دی گئی۔ امریکا یا اسرائیل پر کوئی شک نہ کرے، اس لیے اس کا آغاز چین سے کیا گیا۔
چین کی مرکزی حکومت کو اس معاملے سے بے خبر رکھتے ہوئے ووہان کی مقامی انتظامیہ کو کروڑوں ڈالر دے کر خریدا گیا جبکہ اسپتالوں کے ڈاکٹروں کو بھی بھاری رشوت دی گئی۔ انھوں نے شور مچایا کہ ان کے شہر میں ایک وائرس پھیل گیا ہے جو ہلاکت خیز ہے۔
چین کی بھولی بھالی مرکزی حکومت اسے حقیقت سمجھی اور لاک ڈاؤن لگادیا۔ اب نہ کوئی شہر میں آسکتا تھا اور نہ جاسکتا تھا۔ ووہان کے ڈاکٹروں نے ہر بیماری کے مریض کو مار کے کہنا شروع کردیا کہ سیکڑوں مرگئے، ہزاروں مرگئے۔ حد یہ کہ معمولی نزلہ زکام کے مریضوں کو بھی زبردستی وینٹی لیٹر لگاکر مارا گیا۔
چین کے دوسرے شہروں میں بھی یہودیوں کے ایجنٹ ڈاکٹروں نے یہی کہہ کر کافی لوگوں کی جان لے لی۔ اسی کے ساتھ یورپ اور امریکہ کے میڈیا نے جھوٹی خبریں دینا شروع کردیں کہ چین سے آنے والوں نے ان کے ملکوں میں وائرس پھیلا دیا ہے۔
اتنی دیر میں چین کی انٹیلی جنس نے حقیقت کا سراغ لگالیا اور ووہان کی انتظامیہ اور اسپتالوں کی کالی بھیڑوں کو گرفتار کرلیا۔ ان سب کو سزائے موت دے دی گئی اور شہر کھول دیا گیا۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس کے بعد سے چین میں نہ کوئی مریض سامنے آرہا ہے اور نہ کوئی شخص مر رہا ہے۔
لیکن مغرب کو جو موقع چاہیے تھا، وہ مل چکا تھا۔ امریکا اور یورپ کے ملکوں نے لاک ڈاؤن کردیا اور روزانہ بڑھا چڑھا کر مریضوں اور اموات کا ڈیٹا دینا شروع کردیا۔ اب لاک ڈاؤن ہے تو بھلا کون اسپتال جاکر دیکھے کہ کوئی بیمار آ بھی رہا ہے یا نہیں؟ کوئی مر بھی رہا ہے یا نہیں؟
ہم سب جانتے ہیں کہ پوری دنیا کے کاروبار پر ہنود و یہود کا قبضہ ہے۔ دنیا کے سارے ارب پتی کون ہیں؟ بل گیٹس جیسے یہودی ہیں یا انیل امبانی جیسے ہندو ہیں۔ فیس بک کا مالک بھی یہودی ہے۔ یہ سب خوب پروپیگنڈا کررہے ہیں۔ قادیانی قدم قدم پر ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔
تمام ائیرلائنز کو اربوں ڈالر دے کر خاموش کروایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ تمھارا نقصان پورا کردیں گے، بس پروازیں بند کردو۔ امریکا اور یورپ کے دفاتر اور کاروباری مراکز بند ہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ وہاں حکومتیں اپنے عوام کو گھر بیٹھے تنخواہیں دے رہی ہیں، کیوں؟ کیونکہ انھیں یہودی اربوں ڈالر دے رہے ہیں۔
متاثر کون ہورہے ہیں؟ جنوبی امریکا اور افریقا کے غریب ملک اور مسلمان۔ عمران خان کو شک ہوگیا ہے اسی لیے وہ بار بار مغربی ملکوں سے کہہ رہے ہیں کہ غریب ملکوں کے قرضے معاف کرو۔ مغربی ممالک اور آئی ایم ایف مخلص ہوتے اور واقعی کوئی وبا آئی ہوتی تو قرضے معاف کیے جاچکے ہوتے۔ لیکن وہ کبھی ایسا نہیں کریں گے کیونکہ یہی تو اصل سازش ہے۔
روس پہلے اس سازش میں شریک نہیں تھا۔ اس کے ملک سے کسی مریض یا موت کا ذکر نہیں آرہا تھا۔ لیکن پھر پیوٹن کو اعتماد میں لیا گیا۔ اس کے لیے چیچنیا کے نوجوان مصیبت بنے ہوئے ہیں۔ اسے جب معلوم ہوا کہ سازش کا نتیجہ کیا نکلے گا تو وہ بھی مان گیا۔ اب آپ خود دیکھیں، روزانہ روس میں ہزاروں لوگوں کے مرنے کی جھوٹی خبریں آنا شروع ہوگئی ہیں۔
پاکستان کا میڈیا بھی اس سازش میں شریک ہے۔ اسی لیے یہودیوں کے ایجنٹ میر شکیل الرحمان کو نیب نے پکڑا ہوا ہے کیونکہ آئی ایس آئی کو اندر کی بات معلوم ہوگئی ہے۔ لیکن یہ کھیل اتنا بڑا ہے کہ مالک کی گرفتاری کے باوجود جیو اور دوسرے چینل مسلسل پروپیگنڈا کررہے ہیں کہ پاکستان میں اتنے لوگ بیمار ہوگئے، اتنے لوگ مر گئے۔
سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے جو ہمیشہ غیر ملکی طاقتوں کی آلہ کار رہی ہے۔ اسی لیے اس نے سب سے پہلے لاک ڈاؤن کیا اور وزیراعلیٰ نے یہودیوں کی زبان میں عوام کو ڈرایا دھمکایا۔ پاکستان کی بے بس حکومت سب کھیل دیکھ رہی ہے اور مجبور ہے۔
اب تک پورے ملک میں بلکہ پوری دنیا میں ایک بھی شخص ایسا نہیں جو قسم کھاکر کہہ سکے کہ اس نے کرونا وائرس کا کوئی مریض دیکھا ہے یا کوئی اس سے مرا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا ہو تو پتا چلے۔ یہ سب جھوٹ ہے۔
آپ جانتے ہیں کہ امریکا اور یورپ کے ڈاکٹر بار بار کہہ رہے ہیں کہ کرونا وائرس کا کوئی علاج نہیں۔ ایسا اس لیے کہہ رہے ہیں کہ وائرس ہے ہی نہیں۔ ہوتا تو اس کا علاج کیا جاتا۔
اسی طرح اب جعلی خبریں آرہی ہیں کہ امریکا اور یورپ میں ویکسین بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ کیا آپ نے سنا کہ چین سے ایسی کوئی خبر آئی ہو؟ چین دنیا کی ہر چیز بناتا ہے، پھر ویکسین کیوں نہیں بنارہا؟ اس لیے کہ وائرس ہو تو اس کی ویکسین بنائی جائے۔ چین کو تو حقیقت معلوم ہوچکی ہے۔
اب اصل میں ہوگا یہ کہ امریکا اعلان کرے گا کہ اس نے ویکسین بنالی ہے۔ اس کا خوب پروپیگنڈا ہوگا۔ کسی یہودی ڈاکٹر کو اس جعلی کارنامے پر نوبیل انعام بھی دیا جائے گا۔ پھر ویکسین کے نام پر ایک دوا پوری دنیا میں پھیلائی جائے گی۔
یورپ اور امریکا میں یہ دوا مردانہ طاقت میں اضافے کی ہوگی۔ لیکن ایشیا، افریقہ اور جنوبی امریکا کو جو دوا فراہم کی جائے گی، اسے پینے والے کمزور ہوجائیں گے۔ وہ بچے پیدا کرنے سے معذور ہوجائیں گے۔ اگر اولاد ہوگی بھی تو وہ جسمانی طور پر کمزور ہوگی۔ یعنی یہ نسل نہیں تو اگلی نسل ضرور بانجھ ہوگی۔
یورپ اور امریکا کینیڈا میں مقیم مسلمانوں کو بھی وہی دوا دی جائے گی جس سے ان کی تعداد کم ہو۔ کیا یہ کوئی راز ہے کہ امریکا اور یورپ مسلمان پناہ گزینوں سے تنگ آچکے ہیں اور ان سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔
اس سے پہلے بھی ہنود و یہود اور قادیانیوں کے ایما پر امریکا، یورپ اور اقوام متحدہ کئی بار مسلمانوں کی آبادی کم کرنے کے حربے آزما چکے ہیں۔ قادیانیوں کی کمپنی شیزان کی مصنوعات میں دوائیں ملائی گئیں لیکن مسلمانوں نے انھیں خریدنا چھوڑ دیا۔ پھر آیوڈین ملا نمک پھیلا گیا لیکن خوش قسمتی سے اس کا مسلمانوں پر اثر نہیں ہوا۔ پھر پولیو ویکسین میں نسل کشی کے قطرے ملائے گئے لیکن اس کا پول بھی کھل گیا۔
ہر طرف سے مایوس ہوکر عالمی طاقتوں نے اس بڑے کھیل کا آغاز کیا ہے۔ لیکن ہم راسخ العقیدہ مسلمانوں کا ایمان ہے کہ ہنود و یہود و قنود کا کوئی منصوبہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔
اور ایسی طرح ہمارے پاکستان میں سب بک چکے ہیں
ابھی کچھ دن پہلے اکرم نام کے بندے کے ساتھ واقعہ پیش آیا اس کو بھی مار دیا گیا اس کے گھر والوں کا کہنا تھا وہ ایک سال سے شوگر کا مریض تھا شوگر زیادہ ہونے کی وجہ سے بے ہوش ہو جاتا تھا مرحوم کے مرنے سے ایک دن پہلے شوگر زیادہ ہوگیا تھا اور سانس لینا مشکل ہوگیا تھا مریض کو انڈس ہسپتال لے کے آئے اور انہوں نے اسکو چیک کر کے جناح ہسپتال منتقل کر دیا گیا
ہسپتال منتقل ہونے کے بعد ایک دن وارڈ میں ہو گیا اور مرحوم کی تکلیف بھی ختم ہو گئی رات کو 4 بجے ایک ایمبولینس آتی ہے مرحوم کا ایک بیٹا نیچے ہی تھا اس نے ایمبولینس کے ڈرائیور سے پوچا کہ آپ لوگ کرونا ٹیم کے ہو اور یہاں کیسے آئے ہو تو ڈرائیور کا کہنا تھا کہ ہم وارڈ نمبر 23 سے ڈیڈ بوڈی لینے آئے ہیں تو ان سے ڈیڈ بوڈی کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا کہ کرونا کا مریض فوت ہوگیا ہے اسکا نام اکرم ہے اس کی ڈیڈ بوڈی لینے آئے ہیں تو مرحوم کے بیٹے نے کہا میرا والد تو زندہ ہے اور وہ چل پھر بھی رہا اور باتیں بھی کر رہا ہے وہ تو زندہ ہے ڈرائیور کہنے لگا ہمیں جو آرڈر ملا ہے ہم وہ فالو کر رہے ہیں
اس کے بعد 5:30 پہ مرحوم کا بیٹا کسی کام سے وارڈ سے نیچے آتا ہے اور 15 منٹ کے بعد دوبارہ وارڈ میں جاتا ہے تو سامنے سے ڈاکٹر آتا دکھائی دیا تو ڈاکٹر قریب آیا اور مجھے بتایا آپ کا والد فوت ہو گیا ہے , بیٹا
مجھے بہت حیرت ہوئی کہ ڈرائیور اور ایمبولینس کو فوت ہونے سے 2 گھنٹے پہلے کیسے پتا چلا کہ اس مریض کی ڈیتھ ہو جائے گی اور اسکی ڈیڈ بوڈی لینے کے لئے 2 گھنٹے پہلے ہی پہنچ گئے شاید ہو سکتا ہے ملک الموت نے انکو پہلے سے بتا دیا ہو کہ یہ بندہ مر جاے گا تم لوگ 2 گھنٹے پہلے ایمبولینس لے کے پہنچ جاؤ 🤔
مرحوم کے گھر والوں کا کہنا ہے ہمارے بندے کو مارا گیا ہے. بیٹا
اسی طرح اور لوگ جن کے رشتہ داروں کے مریض مر گئے ہیں سب کی داستان ایک جیسی ہے اور لاشوں پہ سیاست ہو رہی ہے اور لاشوں کو بیچا جا رہا ہے زرائع کے مطابق ایک لاکھ سے تیس لاکھ تک ایک ڈیڈ بوڈی بیچی جا رہی ہیں اور یہ بھی ایک عالمی سازش ہے
کیونکہ شک و شبہات اور مشقوق حرکتوں سے پتا چلتا ہے کہ کوئی خفیہ سازش ہو رہی ہے
کرونا وائرس سے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ ڈرایا جا رہا ہے اور اگر یہ حقیقت ہوتی اور یہ پھیلنے والی وبا ہوتی تو جس طرح کی بے احتیاطی ہو رہی ہے اس تو یہ وبا بہت زیادہ پھیل جاتی اور اموات بہت زیادہ سے زیادہ ہوتی.
ہماری حکومت اور سپریم کورٹ سے استدعا ہے اس پہ تحقیقات کروائی جائیں جو لوگ کرونا وبا کی وجہ سے فوت ہو گئے ہیں انکا پوسٹ مارٹم کروایا جاے
محمد الیاس آرائیں
اور انکے گھر والوں سے پوچھا جائے انکو پہلے سے کیا بیماری تھی ابھی تک کوئی بھی کرونا کا مریض اپنے گھر پہ نہیں مرا
جو بھی مر رہے ہیں وہ ہسپتال میں مر رہے ہیں اور ہر مرنے والے کی کہانی اسی طرح ہے جیسے اکرم کی ڈیتھ ہوئی ہے
کچھ زرائع سے پتا چلا ہے اب تک جو بھی ڈاکٹر کرونا کی وجہ سے فوت ہوئے ہیں وہ اس سسٹم سے باغی ہو گئے تھے تو انکو ٹھکانے لگا دیا گیا تانکہ پردہ فاش نہ ہو جائے میری اس تحقیقات سے ہو سکتا ہے وہ مجھ پہ بھی اٹیک کرے اور اس راز کو فاش کرنے کے جرم میں مجھے الیاس آرائیں کو مارا بھی جا سکتا ہے
میری زندہ ضمیر اپنے اداروں سے التماس ہے وہ خود بھی تحقیقات کریں اور اس وبا کی اصلیت کو سامنے لایا جائے
یہ تھی کرونا کی اصلیت
اور اگر لائیو کرونا وائرس پہ تحقیقات کرنی ہے تو اس کے لئے میں حاضر ہوں کرونا کے مریض کے ساتھ 14 دن رہوں گا کیمرہ کی نظر کے سامنے اور میرے پاس کوئی ڈاکٹر نہ آئے تو دیکھ لینا کچھ نہیں ہوگا نہ ہی کرونا کا مریض مرے گا اور نہ ہی میں مروں گا کرونا کی وجہ سے. ْ
اس ثابت ہو جائے گا کہ کرونا کچھ بھی نہیں ہے
میری آپ لوگوں سے التماس ہے اس پوسٹ کو شئیر کریں تانکہ سب کو عالمی سازشوں کا پتا چل جائے یہ ایک عالمی سازش ہے جو کہ صرف اور صرف مسلمانوں کے خلاف ہے اور یہودی اسکی ویکسین بنا کہ مسلمانوں کے خلاف استعمال کریں گے اور ہر ایک پہ لازم ہوگا وہ کرونا کا ٹیسٹ کروائیں اور وہ ویکسین کروائیں جو مسلمانوں کے خلاف بنائی جائے گی
تحریر.