ہفتہ، 23 مئی، 2020

عیدالفطر مسلمانوں کا ایک اہم مذہبی تہوار ہےجسے

عیدالفطر مسلمانوں کا ایک اہم مذہبی تہوار ہےجسے عیدالفطر مسلمانوں کا ایک اہم مذہبی تہوار ہےجسے دنیا میں بسنے والے مسلمان رمضان المبارک کا مہینہ ختم ہونے کے بعد شکرانے کے طور پر مناتے ہیں یوم عید ماہ صیام کی تکمیل پر اللہ تعالیٰ سے انعامات پانے کا بھی دن ہے ،تو اس سے زیادہ خوشی ومسرت کا کیا موقع ہو سکتا ہے ؟ یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ میں اس دن کو ایک خاص مقام اور اہمیت حاصل ہے۔
علما ئے کرام نے لکھا ہے کہ عید کا لفظ عود سے مشتق ہے جس کے معنی لوٹنے کے ہیں ،یعنی عید ہر سال لوٹتی ہے ، اس کے لوٹ کے آنے کی خواہش کی جاتی ہے۔
اور فطر کے معنی روزہ توڑ نے یا ختم کرنے کے ہیں _چوں کہ عید الفطر کے دن روزوں کا سلسلہ ختم ہوتا ہے اور اس روز اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو رمضان کی عبادتوں کا ثواب عطا فرماتا ہے ،تو اسی مناسبت سے اس دن کو عید الفطر کہا جاتا ہے۔

عید کس کی؟
بلا شبہ وہ افراد نہایت خوش قسمت ہیں، جنھوں نےرمضان المبارک کے مہینے میں اپنے آپ کو پورے طور پر عبادت الہی میں مصروف رکھا،اور بارگاہ رب العزت میں مغفرت کے لئے دامن کو پھیلائے رکھا ،یہ عید ایسے ہی خوش بخت افراد کے لئے ہے اور اب انھیں مزدوری ملنے کا وقت ہے _
حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عید ان کی نہیں جنھوں نے اپنے آپ کو عمدہ لباس سےآراستہ کیا بلکہ عیدتو ان کی ہے جو اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچ گئے اور اس کے عذاب و عتاب سے ڈر گئے ، عیدان کی نہیں جو بہت زیادہ خوشیاں منائیں بلکہ عید ان کی ہے جنھوں نے اپنے تمام گناہوں سے توبہ کی اور اس پر قائم رہے ، عید ان کی نہیں جنھوں نےبڑی بڑی دیگیں چڑھائیں اور دستر خوان آراستہ کیے بلکہ عیدتو ان کی ہے جنھوں نے نیک بننے کی کوشش کی اور سعادت حاصل کی ،عید ان کی نہیں جو دنیاوی زیب و زینت اور آرائش و زیبائش کے ساتھ نکلے ، بلکہ عید تو ان کی ہے جنھوں نے تقوی وپرہیزگاری اور خوف خدا اختیار کیا_
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عید کی مبارک باد دینے کے لئے آنے والے لوگوں سے فرمایا عید تو ان کی ہے جو عذاب آخرت اور مرنے کے بعد کی سزا سے نجات پا چکے ہیں
اسی طرح ایک دفعہ حضرت عمر رضى اللہ عنہ کے دور خلافت میں لوگ آپ کے پاس عید کے روز آئے ،تو دیکھا کہ وہ گھر کا دروازہ بند کیے زارو قطار رو رہے ہیں ، لوگوں نے عرض کیا: امیر المومنین! آج تو عید کا دن ہے اور آپ رو رہے ہیں حضرت عمر رضى اللہ عنہ نے جواب دیا: لوگو! یہ عید کا بھی دن ہے اور وعید کا بھی ،آج جس کی نماز ،روزے اور دیگر تمام عبادتیں بارگاہ الہی میں مقبول ہو گئیں توبلاشہ آج اس کے لئے عید کا دن ہے ،اور جس کی عبادتیں مقبول نہیں ہوئیں ہیں ،تو اس کے لئے وعید کا دن ہے ،میں اس خوف سے رو رہا ہوں کہ مجھے نہیں معلوم کہ میری عبادتیں بارگاہ رب العزت میں مقبول ہو ئیں یا انھیں رد کر دیا گیا-
عید کے اس پر مسرت موقع پر ہمارے اور آپ کے لئے بے حد ضروری ہے کہ ہم اور آپ اپنے اردگرد کے پڑوسیوں اور رشتہ داروں پر نظر دوڑائیں کہ کہیں ان میں سے کوئی ایسا تو نہیں جو اپنی غربت اور تنگ دستی کے سبب عید کی خوشیوں میں شامل ہونے سے محروم ہے _ اگر ایسا ہے تو یقین جا نیے، ہم خواہ کتنے ہی اچھے کپڑے پہن لیں ،طویل دستر خوان سجا لیں ،عیدیاں بانٹتے پھریں ،ہماری عید پھر بھی پھیکی ہی رہے گی ،بلکہ ایسی عید عید کہلانے کے قابل نہیں ،جس میں دیگر افراد شامل ہی نہ ہوں ،
حضرت علی رضى اللہ عنہ کو زمانۂ خلافت میں لوگ عید کی مبارک باد دینے گئے ،توکیا دیکھتے ہیں کہ امیر المؤمنین خشک روٹی تناول فرما رہے ہیں تو ان لوگوں میں سے کسی
نے عرض کیا: امیر المؤمنین! آج تو عید کا دن ہے ؟ یہ سن کرآپ نے ایک سرد آہ بھری اور فرمایا جب دنیا میں ایسے بہت سے لوگ موجود ہوں جنھیں یہ ٹکڑے بھی میسر نہیں ،تو ہمیں عید منانے کا حق کیوں کر حاصل ہے؟
*روایت ہے کہ آقائے دوجہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نماز عید کے لئے نکلے تو دیکھا کہ سب بچے کھیل رہے ہیں مگر ان میں ایک بچہ ایک طرف بیٹھا رو رہا ہےاور اس کے کپڑے بھی پھٹے پرانے ہیں تو نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لے گئے اور پیار سے اس کے سر پر دست شفقت پھیرا پھر حضور نے پوچھا: بیٹا کیوں رو رہے ہو اور بچوں کے ساتھ کھیل نہیں رہے ہو؟ غالباً بچہ آپ کونہیں جانتا ہو گا کہ اس سے ہمارے پیار ے آقا صلی اللہ علیہ وسلم ہم کلام ہیں، یا پریشانی کی وجہ سے نہ پہچان سکا ہوگا اس لئے اس نے کہا: صاحب مجھے میرے حال پر چھوڑ دیجئے ،در اصل میرا باپ فلاں غزوے میں ہمارے پیار ے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کرتے ہوئے شہید ہو گیا ،میری ماں نے دوسرا نکاح کر لیا،وہ میرا مال کھا گئے ،اور میرے سوتیلے باپ نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے ،اب میرے پاس نہ کھانا ہے نہ پینا، ن

ہ کپڑا نہ گھر ۔جب میں ان بچوں کو کھیلتے اور نئے کپڑے پہنے دیکھا تو میرا غم تازہ ہوگیا اسی لیے رو پڑا۔ہمارے پیارےنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ میں تیرا باپ، عائشہ تیری ماں، فاطمہ تیری بہن، علی تیرے چچا اور حسن و حسین تیرے بھائی ہوں عرض کیا: یا رسول اللہ! اس پر میں کیسے راضی نہیں ہو سکتا, پھر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنے گھر لے آئے نہلایا دھلایا،خوب صورت کپڑا پہنایا اور کھانا کھلایا ،وہ لڑکا شاداں و فرحاں باہر نکلا تو لڑکوں نے پوچھا ابھی تو تو رورہا تھا اور اب بڑا خوش و خرم نظر آرہا ہے آخربات کیا ہے ؟ وہ کہنے لگا: میں بھوکا تھا اللہ تعالیٰ نے میرے کھانے کا انتظام کر دیا ،میں ننگا تھا اللہ نے میرے کپڑے کا انتظام کر دیا ،اور اب میرے باپ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم، ماں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا، بہن سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا، چچا حضرت علی رضى اللہ عنہ اور بھائی حضرت حسن و حسین رضى اللہ عنہ بن چکے ہیں ۔یہ سن کر لڑکے کہنے لگے کاش! آج ہمارے باپ بھی نہ ہوتے ۔اور یہ لڑکا ہمیشہ ہمارے پیار ے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیر کفالت رہنے لگا۔*

یوم عید میں تفریح مگر حدود کے اندر
یوم عید ایک مذہبی تہوار ہے ،اس لئے اس روز ہونے والی تمام سرگرميوں کو اسی تناظر میں ترتیب دینا چاہیے ،ہمارے اور آپ کے ذہن میں یہ بات بھی رہے کہ اسلام نے خوشی کے اظہار سے منع نہیں کیا اور نہ ہی اسلام کے نزدیک تقوی وپرہیزگاری کا مطلب خشک مزاجی اور روکھا پن ہے البتہ اتنا ضرور ہے کہ مذہب اسلام نےتہواروں اور تفریحات کو کچھ حدود کا پابند بنایا ہے ،تاکہ بے لگام خواہشات اور نفس پرستی کی راہ مسدود کی جا سکے_

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں عید کا دن تھا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے کے سامنے حبش کے کچھ لوگ نیزوں اور ڈھالوں کے کرتب دکھا رہے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم دروازے سے دیکھ کر خوشی کا اظہار فرما رہے تھے اور میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چادر مبارک کے پیچھے چھپ کر یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی ،آپ مجھے بہت دیر تک چادر کی آڑ میں چھپائے ان غلاموں کے کھیل دکھاتے رہے- جب میرا جی بھر گیا تو آپ نے فرمایا: “بس”! میں نے عرض کیا: جی ہاں ! تو حضور نے فرمایا جاؤ_

اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ عید کے دن ہمارے گھر کچھ بچیاں جنگ بعاث سے متعلق کچھ اشعار گنگنا رہی تھیں ،اسی دوران حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور کہنے لگے اللہ کے رسول کے گھر میں یہ ہے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا انھیں رہنے دو ،ہرقوم کے لئے ایک تہوار کا دن ہوتا ہے آج ہمارے لیے عید کا دن ہے_
لہذا ہمارے اور آپ کے لیے ضروری ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو اپنے ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے تمام تفریحات کا لطف اسلام کے دائرے میں رہ کر اُٹھائیں ،عید کی خوشیاں منائیں اور اپنے آپ کو تمام فحش چیزوں سے بچائیں _
صدقۂ فطر
صدقۂ فطر ہر مسلمان آزاد مالک نصاب پر جس کا نصاب حاجت اصلیہ سے فارغ ہو واجب ہے -اس میں عاقل بالغ اور مال نامی ہونے کی شرط نہیں
ابن عباس رضى اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آقائے کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۂ فطر مقرر فرمائی کہ لغو اور بے ہودہ کلام سے روزے کی طہارت ہو جائے اور مساکین کے خوردونوش کا انتظام ہو جائے
اسی طرح صدقۂ فطر کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بندہ کا روزہ زمین وآسمان کی درمیان معلق رہتا ہے ،جب تک صدقۂ فطر ادا نہ کردے_
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر صدقۂ فطر کا فلسفہ یہی ہے کہ عید الفطر کی خوشی میں غریب مسلمان بھائی بھی پورے طور پر شریک ہو سکیں اور ان کے چہروں پر بھی خوشیوں کی وہی رونق رہے جو دوسرے لوگوں کے چہروں پر نمایاں رہتی ہے_

صدقۂ فطر ادا کرنے کا افضل وقت عید کے دن نماز عید سے پہلے کا ہے_لہذا ہمیں اور آپ کو چاہئے کہ عید کے دن عید کی نماز سے پہلے صدقۂ فطر غریبوں کو دے دیں تاکہ وہ بھی اپنی عید کی تیاری کرکے ہماری خوشی میں شامل ہوں۔
عبد الله بن عمررضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عید کے لئے نکلنے سے پہلے لوگوں کوصدقۂ فطر ادا کرنے کا حکم دیا
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عید الفطر کے روز ایک صاع گلہ نکالتے تھے
صدقۂ فطر کی مقدار
صدقۂ فطر کی مقدار یہ ہے گیہوں یااس کا آٹا یا ستو نصف صاع، کھجور یا منقّے یا جَو یا اس کا آٹا یا ستو ایک صاع _
گیہوں اور جَو کے دینے سے ان کا آٹا دینا افضل ہے اور اس سے افضل یہ ہے کہ قیمت دیدے خواہ گیہوں کی قیمت دے یا جَو کی یا کھجور کی مگر گرانی میں خود ان کا دینا قیمت دینے سے افضل ہے۔

صدقۂ فطر واجب ہے عمر بھر اس کا وقت ہے یعنی ادا نہ کیا ہو تو اب ادا ک

ر دے ،ادانہ کرنے سے ساقط نہیں ہو گا اور نہ ہی اب ادا کرنا قضا ہے بلکہ ادا ہی ہے اگر چہ مسنون قبل نماز عید ادا کرنا ہے
صدقۂ فطر کے مصارف
صدقۂ فطر کے مصارف وہی ہیں جو زکاۃ کے ہیں یعنی جن کو زکاۃ دے سکتے ہیں ان کو فطرہ بھی دے سکتے ہیں اور جنھیں زکاۃ نہیں دے سکتے انھیں فطرہ بھی نہیں دے سکتے سوائے عامل کے کہ اس کے لئے زکاۃ ہے فطرہ نہیں _

عید کی نماز کس پر واجب ہے
عید کی نمازانھیں لوگوں پر واجب ہے جن پر جمعہ واجب ہے ،اوراس کی ادا کے لئے وہی شرطیں ہیں جو جمعہ کے لئے ہیں ،صرف اتنا فرق ہے کہ جمعہ میں خطبہ شرط ہے اور عید میں سنت ، اگر جمعہ میں خطبہ نہ پڑھا تو جمعہ نہ ہوا اور اس میں نہ پڑھا تو نماز ہوگئی مگر بُرا کیا ، اور جمعہ کا خطبہ قبل نماز ہے ،اور عید کا بعد نماز ،اگر پہلے پڑھ لیا تو بُرا کیا ،مگر نماز ہوگئ، لوٹائی نہیں جائے گی اور خطبہ کا بھی اعادہ نہیں اور عید میں نہ اذان ہے نہ اقامت صرف دو بار اتنا کہنے کی اجازت ہے الصلوۃ جامعۃ
بلا وجہ عید کی نماز چھوڑنا گمراہی و بدعت ہے _
عید کےدن وہ امور جو مستحب ہیں حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے روز کچھ کھا کر نماز کے لئے تشریف لے جاتے _
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے روز تشریف نہ لے جاتے جب تک کہ چند کھجوریں تناول نہ فرمالیتے اور وہ طاق ہوتیں _
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید کو ایک راستہ سے تشریف لے جاتے اور دوسرے راستہ سے واپس آ تے _
(1) حجامت بنوانا (2) ناخن ترشوانا (3) غسل کرنا (4) مسواک کرنا (5) اچھے کپڑا پہننا ، نیا ہو تو نیا ورنہ دھلا (6) ا نگوٹھی پہننا (7) خوشبو لگانا (8) صبح کی نماز مسجدِ محلہ میں پڑھنا (9) عید گاہ جلد جانا (10) نماز سے پہلے صدقۂ فطر ادا کرنا (11) عید گاہ کو پیدل جانا (12) دوسرے راستہ سے واپس آ نا(13) نماز کو جانے سے پہلے چند کھجور یں کھا لینا _ تین ،پانچ،سات یاکم وبیش مگر طاق ہو ں ، کھجور یں نہ ہو ں تو کوئی میٹھی چیز کھا لے (14) خوشی ظاہر کر نا (15) کثرت سے صدقہ کرنا (16) عید گاہ کو اطمینان ووقار اور نیچی نگاہ کیے جانا (17)آپس میں مبارک باد دینا،عید کے دن یہ ساری چیزیں مستحب ہیں۔
عید کی نماز کا وقت
عید کی نماز کا وقت بقدرایک نیزہ آفتاب بلند ہونے سے ضحوۂ کبری یعنی نصف النہار شرعی تک ہے اور عید الفطر میں تاخیر کرنا مستحب ہے
نمازعید کا طریقہ
نماز عید کا طریقہ یہ ہے کہ دورکعت واجب عید الفطر کی نیت کر کے کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لے پھر ثنا پڑھ لے پھر کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور اللہ اکبر کہتا ہوا ہاتھ چھوڑ دے پھر ہاتھ اٹھائے اور اللہ اکبر کہتا ہوا ہاتھ چھوڑ دے پھر ہاتھ اٹھائے اور اللہ اکبر کہتا ہوا ہاتھ باندھ لے یعنی پہلی تکبیر میں ہاتھ باندھ لے ،اس کے بعد دوتکبیروں میں ہاتھ لٹکائے پھر چوتھی تکبیر میں ہاتھ باندھ لے_ پھر امام تعوذ اور تسمیہ آہستہ پڑھ کر جہر کے ساتھ الحمد اور کوئی سورت پڑھے پھر رکوع وسجود کرے ، دوسری رکعت میں پہلے الحمد اور سورت پڑھے پھر تین بار ہاتھ کان تک لے جا کر اللہ اکبر کہے اور ہاتھ نہ باندھے اور چوتھی بار بغیر ہاتھ اٹھائے اللہ اکبر کہتا ہوا رکوع میں چلا جائے اس کے بعد سجدہ اور قعدہ کر کے اپنی نماز پوری کرے ‌
نوٹ: اس سال جو لوگ لاک ڈاؤن کی وجہ سے نماز عید کی جماعت میں حاضر ہو نے سے محروم ہو رہے ہیں تو یہ محرومی جسمانی حاضری سے ہے مگر نیت حاضری کی وجہ سے ہم عنداللہ وہاں حاضر ہیں اس لیے حاضری جماعت کا ثواب بھی پورا پورا ملے گا (ان شاءاللہ)۔
حدیث پاک ہے کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک غزوہ سے واپس ہوتےوقت جب مدینہ منورہ کے قریب آگئے توصحابہ سے خطاب کر کے فرمایا : مدینہ منورہ میں کچھ ایسے لوگ بھی مقیم ہیں کہ تم لوگ جہاں جہاں بھی گئے وہ لوگ ہر جگہ ( نیت عبادت وثواب عبادت میں) تمہارے ساتھ تھے_ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ وہ لوگ تو مدینہ میں ہیں ( ہمارے ساتھ شریک عبادت کیسے ہو گئے ) تو سرکار علیہ السلام نے ارشاد فرمایا : وھم بالمدینۃ حبسھم العذر ، ہاں وہ لوگ مدینہ میں ہیں ،انھیں تمھارے ساتھ آنے سے عذر نے روک رکھا ہے
اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ اگر دل میں عبادت کی نیت ہو مگر عذر کی وجہ سے نہ کر سکے تو
 عبادت کا ثواب پائے گا۔
نماز عید کے بعد دو رکعت یا چار رکعت نماز نفل گھر میں پڑھنا مستحب ہے
لہذا جو لوگ اس سال لاک ڈاؤن کی وجہ سے نماز عید کی جماعت میں حاضر ہو نے سے محروم ہو رہے ہیں تو ان کو چاہیے کہ دو رکعت یا چار رکعت نفل نماز اپنے گھروں میں اہل خانہ کے ساتھ ضرور پڑھیں ،گھر میں کوئی امام ہو تو مختصر جماعت کرسکتے ہیں ،ورنہ تنہا تنہا پڑھیں کہ شریعت کو یہ نماز تنہا تنہا محبوب ہے ،اور سلام پھیرنے کے بعد 34 بار اللہ اکبر اللہ اکبر ضرور پڑھیں اس وجہ سے کہ حدیث نبوی میں اس کی بڑی فضیلت آئی ہے۔

ضروری ہدایت فقیر فیض النبی مصباحی کا ناقص مشورہ امت مسلمہ کی رہنما ئی کے لئے یہ ہے کہ اس سال ہم اور آ پ عید کے لئے نئے کپڑے نہ خریدیں بلکہ اس رقم کو اپنے پاس محفوظ رکھیں ،اور آپ کے اپنے پاس رکھے ہوئے کپڑوں میں سے جو سب سے عمدہ ہے اسی کو آپ پہن کر عید منائیں ،اور اپنے اردگرد کے پڑوسیوں، رشتہ داروں ،غریبوں اور مسکینوں کا خاص خیال رکھیں
اور نماز عید کے لئے اتنے ہی لوگ عید گاہ میں تشریف لے جائیں جتنے لوگوں کی اجازت ہے ،اور عید کی مبارک بادی اپنے رشتہ داروں اور دوست واحباب کو موبائل سے ہی دیں ،اور نہ آپ کسی کے گھر جائیں اور نہ دوسرے کو اپنے گھر بلائیں ، بلکہ اپنے بچوں ہی کے ساتھ عید کی خوشیاں باٹیں
اخیر میں دعا ہے کہ مولی تعالیٰ امت مسلمہ کو سنت نبوی کے مطابق عید منانے کی توفیق عطا فرمائے ،اپنے حبیب کے صدقے میں امت مسلمہ کو تمام آفات وبلیّات بالخصوص کرونا جیسی مہلک بیماری سے حفاظت فرمائے اور اپنے حفظ وامان میں رکھے_ آمین یارب العالمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم