از . قلم . مولانا محمد پرویز رضا فیضانی حشمتی مقام لولین ڈیھ پوسٹ بڑھنی چافہ ضلع سدھارتھ نگر یوپی
رابطہ نمبر 6307986692
رمضان کریم کی فضیلت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین اور سرکش جن قید کردیے جاتے ہیں، اور دوزخ کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں، پس اس کا کوئی دروازہ کھلانہیں رہتا، اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، پس اس کاکوئی دروازہ بند نہیں رہتا، اور ایک منادی کرنے والا (فرشتہ) اعلان کرتا ہے کہ : اے خیر کے تلاش کرنے والے! آگے آ، اور اے شر کے تلاش کرنے والے! رُک جا۔ اور اللہ کی طرف سے بہت سے لوگوں کو دوزخ سے آزاد کردیاجاتا ہے، اور یہ رمضان کی ہر رات میں ہوتا ہے۔‘‘
(احمد، ترمذی، ابنِ ماجہ، مشکوٰۃ)
حدیث:۔۔۔۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کے آخری دن خطبہ میں فرمایا :’’ اے لوگو! تم پر ایک بڑی عظمت والا، بڑا بابرکت مہینہ آرہا ہے، اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینے سے بہتر ہے، اللہ تعالیٰ نے تم پر اس کاروزہ فرض کیا ہے، اور اس کے قیام (تراویح) کو نفل (یعنی سنتِ مؤکدہ) بنایا ہے، جو شخص اس میں کسی بھلائی کے (نفلی ) کام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرے، وہ ایسا ہے کہ کسی نے غیر رمضان میں فرض ادا کیا، اور جس نے اس میں فرض اداکیا، وہ ایسا ہے کہ کسی نے غیر رمضان میں ستر فرض اداکیے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے ،اور صبر کا ثواب جنت ہے، اور یہ ہمدردی و غم خواری کامہینہ ہے، اس میں مؤمن کا رزق بڑھادیا جاتا ہے۔ اور جس نے اس میں کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرایا تو وہ اس کے لیے اس کے گناہوں کی بخشش اور دوزخ سے اس کی گلوخلاصی کا ذریعہ ہے، اور اس کو بھی روزہ دار کے برابر ثواب ملےگا، مگر روزہ دار کے ثواب میں ذرا بھی کمی نہ ہوگی۔ ‘‘ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم میں سے ہر شخص کو تو وہ چیز میسر نہیں جس سے روزہ افطار کرائے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی عطا فرمائیں گے جس نے پانی ملے دُودھ کے گھونٹ سے، یا ایک کھجور سے، یا پانی کے گھونٹ سے روزہ افطار کرادیا،اور جس نے روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھلایا پلایا اس کو اللہ تعالیٰ میرے حوض (کوثر) سے پلائیں گے جس کے بعد وہ کبھی پیاسا نہ ہوگا،یہاں تک کہ جنت میں داخل ہوجائے(اور جنت میں بھوک پیاس کا سوال ہی نہیں) یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس کا پہلا حصہ رحمت، درمیان حصہ بخشش اور آخری حصہ دوزخ سے آزادی (کا ) ہے۔ اور جس نے اس مہینے میں اپنے غلام (اور نوکر) کا کام ہلکا کیا ، اللہ تعالیٰ اس کی بخشش فرمائیں گے، اور اسے دوزخ سے آزاد کردیں گے۔‘‘
(بیہقی شعب الایمان، مشکوٰۃ)
حدیث: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’رمضان کی خاطر جنت کو آراستہ کیا جاتا ہے، سا ل کے سرے سے اگلے سال تک، پس جب رمضان کی پہلی تاریخ ہوتی ہے تو عرش کے نیچے سے ایک ہوا چلتی ہے(جو )جنت کے پتوں سے( نکل کر ) جنت کی حوروں پر ( سے )گزرتی ہے تو وہ کہتی ہیں: اے ہمارے رب!اپنے بندوں میں سے ہمارے ایسے شوہر بنا جن سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور ہم سے ان کی آنکھیں۔
(رواہ البیہقی فی شعب الایمان، ورواہ الطبرانی فی الکبیر والاوسط کما فی المجمع ج:۳ ص :142)
حدیث:۔۔۔۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتےہوئے خود سنا ہے کہ : ’’یہ رمضان آچکا ہے، اس میں جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں، دوزخ کے دروازے بند ہوجاتے ہیں، اور شیاطین کو طوق پہنادیے جاتے ہیں ، ہلاکت ہے اس شخص کے لیے جو رمضان کا مہینہ پائے اور پھر اس کی بخشش نہ ہو۔‘‘جب اس مہینے میں بخشش نہ ہوئی تو کب ہوگی؟
(رواہ الطبرانی فی الاوسط، وفیہ الفضل بن عیسیٰ الرقاشی مجمع الزوائد ج:۳ ص:۱۴۳)
روزے کی فضیلت
حدیث:۔۔۔۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’جس نے ایمان کے جذبے سے اور طلبِ ثواب کی نیت سے رمضان کا روزہ رکھا ، اس کے گزشتہ گناہوں کی بخشش ہوگئی۔‘‘
(بخاری و مسلم، مشکوٰۃ)
حدیث:۔۔۔۔۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’(نیک) عمل جو آدمی کرتا ہے تو (اس کے لیے عام قانون یہ ہے کہ ) نیکی دس سے لے کر سات سو گنا تک بڑھائی جاتی ہے،اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: مگر روزہ اس (قانون) سے مستثنیٰ ہے ( کہ اس کا ثواب ان اندازوں سے عطا نہیں کیا جاتا )کیوں کہ وہ میرے لیے ہے اور میں خود ہی اس کا (بے حد و حساب ) بدلہ دوں گا، (اور روزے کے میرے لیے ہونے کا سبب یہ ہے کہ) وہ اپنی خواہش اور کھانے (پینے) کو محض میری (رضا) کی خاطر چھوڑتا ہے، روزہ دار کے لیے دو فرحتیں ہیں،ایک فرحت افطار کے وقت ہوتی ہے، اور دوسری فرحت اپنے رب سے ملاقات کے وقت ہوگی، اور روزہ دار کے منہ کی بو (جو خالی معدہ کی وجہ سے آتی ہے)اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک (و عنبر) سے زیادہ خوشبودار ہے ۔۔۔۔ الخ۔‘‘
(بخاری و مسلم، مشکوٰۃ)
حدیث:۔۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’روزہ اور قرآن بندے کی شفاعت کرتے ہیں (یعنی قیامت کے دن کریں گے)، روزہ کہتا ہے: اے رب! میں نے اس کو دن بھر کھانے پینے سے اور دیگر خواہشات سے روکے رکھا، لہٰذا اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرمائیے۔ اور قرآن کہتا ہے کہ : میں نے اس کو رات کی نیند سے محروم رکھا ( کہ رات کی نماز میں قرآن کی تلاوت کرتا تھا) لہٰذا اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرمائیے، چناں چہ دونوں کی شفاعت قبول کی جاتی ہے۔‘‘
(بیہقی، مشکوٰۃ)
سحری کھانا
حدیث:۔۔۔۔۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’سحری کھایا کرو، کیوں کہ سحری کھانے میں برکت ہے۔ ‘‘
(بخاری و مسلم، مشکوٰۃ)
حدیث:۔۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہمارے اور اہلِ کتاب کے روزے کے درمیان سحری کھانے کا فرق ہے (کہ اہلِ کتاب کو سوجانے کے بعد کھانا پینا ممنوع تھا، اور ہمیں صبحِ صادق کے طلوع ہونے سے پہلے تک اس کی اجازت ہے۔)‘‘
(مسلم ، مشکوٰۃ)
غروب کے بعد اِفطار میں جلدی کرنا
حدیث: رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لوگ ہمیشہ خیر پر رہیں گے جب تک کہ (غروب کے بعد ) اِفطار میں جلدی کرتے رہیں گے۔‘‘
(بخاری و مسلم، مشکوٰۃ)
حدیث:۔۔۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دین غالب رہے گا،جب تک کہ لوگ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے، کیوں کہ یہود و نصاریٰ تاخیر کرتے ہیں۔‘‘
(ابو داؤد، ابنِ ماجہ، مشکوٰۃ)
حدیث:۔۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نقل فرمایا ہے کہ : ’’مجھے وہ بندے سب سے زیادہ محبوب ہیں جو افطار میں جلدی کرتے ہیں۔‘‘
(ترمذی، مشکوٰۃ)
روزہ کس چیز سے افطار کیا جائے؟
حدیث:۔۔۔۔۔ سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم میں کوئی شخص روزہ افطار کرے تو کھجور سے افطار کرے، کیوں کہ وہ برکت ہے، اگر کھجور نہ ملے تو پانی سے افطار کرلے، کیوں کہ وہ پاک کرنے والا ہے۔(احمد، ترمذی، ابوداؤد، ابنِ ماجہ، دارمی ، مشکوٰۃ)
افطار کی دُعا
حدیث:۔۔۔۔ ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب روزہ افطار کرتے تو فرماتے:
ذَھَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَثَبَتَ الْاَجْرُ اِنْ شَاءَ اللہ
پیاس جاتی رہی، انتڑیاں تر ہوگئیں، اور اَجر ان شاء اللہ ثابت ہوگیا۔
حدیث:۔۔۔۔۔ حضرت معاذ بن زہرہ فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روزہ افطار کرتے تو یہ دُعا پڑھتے:
اَللّٰھُمَّ لَکَ صُمْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ وَ عَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ
اے اللہ! میں نے تیرے لیے روزہ رکھا، اور تجھ پر ایمان لایا اور تجھ پر بھروسہ کیا اور
تیرے ہی دیئے ہوئے رزق سے افطار کیا۔
روزے دار کی دعا رد نہیں ہوتی
حدیث:۔۔۔۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’تین شخصوں کی دُعا رَد نہیں ہوتی، روزہ دار کی ، یہاں تک کہ افطار کرے، حاکم عادل کی، اور مظلوم کی۔ اللہ تعالیٰ اس کو بادلوں سے اُوپر اُٹھالیتے ہیں اور اس کے لیے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں، اور رب تعالیٰ فرماتے ہیں: میری عز ت کی قسم! میں ضرور تیری مدد کروں گا، خواہ کچھ مدت کے بعد کروں۔‘‘
(احمد ، ترمذی ، ابنِ حبان، مشکوٰۃ، ترغیب)
رمضان المبارک کے دوسرے عشرے کی دعا جو دوسرے عشرے کے اختتام تک روزہ داروں اور نمازیوں کے زبان زدِ عام ہے : ترجمہ:’’ میں اللہ سے تمام گناہوں کی بخشش مانگتا ہوں جو میرا رب ہے اور اس کی طرف رجوع کرتا ہوں‘‘۔
تین آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی، ایک روزہ دار کی افطار کے وقت ‘ دوسرے عادل بادشاہ کی دعا اور تیسرے مظلوم کی دعا:حدیث نبویؐ
اسی لئے ! ہر مسلمان اپنے اپنے حصے کی نیکی اور رمضان میں زیادہ سے زیادہ عبادات کرنے اور نیکیاں سمیٹنے میں ، اور روزہ رکھنے میں مگن ہے کیونکہ حضرت محمد ﷺکا ارشادِ پاک ہے کہ:
تین آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی۔ ایک روزہ دار کی افطار کے وقت ‘ دوسرے عادل بادشاہ کی دعا اور تیسرے مظلوم کی دعا۔جس کو حق تعالیٰ شانہْ بادلوں سے اوپر اٹھا لیتے ہیں اور آسمان کے دروازے اس کے لئے کھول دیئے جاتے ہیں اور ارشاد ہوتا ہے کہ میں تیری ضرور مدد کروں گا ۔
ایک اور جگہ حضرت سہیل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت محمد مصطفی ﷺنے ارشاد فرمایا کہ:
’’ جنت کے دروازوں میں ایک خاص دروازہ ہے جس کو ’’ باب الریان ‘‘ کہا جاتا ہے، اس دروازے سے قیامت کے دن صرف روزہ داروں کا داخلہ ہو گا، ان کے سوا کوئی اس دروازے سے داخل نہیں ہو سکے گا ، اس دن پکارا جائے گا کہ کدھر ہیں وہ بندے جو اللہ کے لئے روزہ رکھا کرتے تھے، اور بھوک پیاس کی تکلیف اٹھایا کرتے تھے وہ اس پکار پر چل پڑیں گے، ان کے سوا کسی اور کا اس دروازے سے داخلہ نہیں ہو سکے گا ‘ جب روزہ دار اس دروازے سے جنت میں پہنچ جائیں گے تو یہ دروازہ بند کر دیا جائے گا ‘ پھر کسی کا اس سے داخلہ نہیں ہو سکے گا۔‘‘
اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت رسولِ اکرم ؐنے ارشاد فرمایا کہ:
’’ جس شخص نے ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے رمضان کا قیام کیا یعنی رات کو تراویح پڑھیں اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔‘‘بخاری و مسلم
رمضان المبارک کے فیوض و برکات کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ اور مسلمان مرد و عورت، بچے بوڑھے ، جوان سب ہی عبادات میں مصروف ہیں۔
نماز میں آئمہ و خطباء نے روزے کی فضیلت و اہمیت کی فرضیت روشنی ڈالی۔ اپنے خطبات میں رمضان شریف کے مبارک مہینہ میں غرباء و فقراء اور مساکین کی امداد کرنے پر کافی زور دیا گیااور بتایا گیا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے ایسے بندوں کو جو غرباء و فقراء کا رمضان شریف میں خیال کرتے ہیں انہیں روزہ افطار کراتے ہیں ان کے کھانے پینے کا خیال رکھتے ہیں ۔ جن لوگوں کو انواع اقسام کی نعمتیں میسر نہیں ہیں انہیں اپنے عیش و عشرت کے سامان میں شریک کر لیں اور ان کی غربت و افلاس کو اپنی بھوک و پیاس میں شامل کر لیں تو خدا تعالیٰ ایسے بندوں کو اجرِ عظیم سے نوازتا ہے۔اس مہینہ کو صبر کا مہینہ کہا جاتا ہے اور صبر کا ثواب جنت بتایا گیا ہے۔ یہ ہمدردی و غمخواری کا مہینہ ہے اس میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ روزہ عملی شکر کی بہترین مثال ہے۔ دن بھر بھوک و پیاس سے اللہ کی نعمتوں کا انسان خلوصِ دل سے اعتراف کرتا ہے اور اس کے دل میں شکرِ الٰہی بجا لانے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ روزوں کے باعث باہمی اتفاق و اتحاد کا جذبہ بھی ہر طرف نظر آتا ہے۔دوسرے عشرے میں جتنا زیادہ ہوسکے استغفار کرنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کا خیال رکھاجائے اتنا ہی اللہ تعالیٰ بندوں سے خوش ہوگا۔ حدیثِ مبارکہ ہے کہ ایک نفل کا ثواب فرض کے برابر اور ایک فرض کی ادائیگی کا ثواب ستّر فرضوں کے برابر ہے اس لیئے اس مہینے میں جتنا ہو سکے غریبوں و مسکینوں اور یتیموں کی مدد کریں۔
رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ اپنی تمام تر تابانیوں کے ساتھ ہمارے سرو پر سایہ فگن ہے، بلا شبہ ماہِ رمضان کی فضیلتیں اور اس کی عظمتیں بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ رمضان شریف میں معمولی کارِ خیر میں ڈھیروں ثواب ملتے ہیں اس لئے امتِ مسلمہ کے اندر بھی نیکیوں کا جذبہ بے حد بڑھ جاتا ہے۔
جس مال کی زکوٰۃ نہیں نکالی جاتی ہے اس میں بے برکتی ہی ہوتی ہے اور دوسرے ذرائع سے مال کہیں نہ کہیں تلف اور برباد ہو جاتا ہے۔ اکثر و بیشتر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ بہت سارے لوگ زکوٰۃکی رقم غیر مستحقین یا غیر مستحق اداروں میں دے دیتے ہیں اس طور پر ان کی زکوٰۃادا نہیں ہوتی۔ زکوٰۃو فطرہ کی رقم صرف انہیں کو دیں جن سے آپ بخوبی واقف ہوں۔ پڑوسیوں اور رشتہ داروں میں اگر کوئی مستحق زکوٰۃ ہے تو دوسروں پر اس کو ترجیح دیں، بعض لوگ حاجت مند ہوتے ہیں مگر زکوٰۃ و فطرہ لینے میں جھجھک محسوس کرتے ہیں انہیں عیدی کہہ کر بھی زکوٰۃکی رقم دی جاسکتی ہے۔ اسی طرح نیکی کا سلسلہ جاری و ساری رہنا چاہیئے۔
مغفرت کا عشرہ
اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں کے لیے نعمتوں اور انعامات کا شمار ممکن نہیں لیکن اللہ کی ان نعمتوں میں رمضان المبارک کو ایک منفرد حیثیت حاصل ہے۔ حضوراکرمﷺکو اس مہینے کا انتظار رہتا تھا اور اس کا شوق سے استقبال کرتے تھے۔ رمضان المبارک کا پہلا عشرہ یعنی عشرہ رحمت اختتام پذیر ہوچکا اور دوسرا عشرہ یعنی عشرہ مغفرت کا آغاز ہوچکا ہے۔
رمضان المبارک اللہ تعالیٰ کی رحمت و بخشش اور مغفرت کا مہینہ ہے، وہ لوگ خوش قسمت ہیں جنہوں نے اس مبارک و مقدس مہینے میں روزہ ا ورعبادت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کو راضی کیا، یہ وہ مبارک مہینہ ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب ستر گنا بڑھا دیتا ہے۔
روزہ ایسی عبادت ہے کہ نبی کریم ﷺکے ارشاد کے مطابق زندگی کے ان تمام مراحل میں کار آمد ثابت ہوتا ہے۔ رمضان کا پہلا عشرہ رحمت کا ہے جو زندگی کے خصوصاً پہلے مرحلے میں اشد ضروری ہے۔دوسرا عشرہ مغفرت کا ہے جو زندگی کے دوسرے مرحلے کے لئے کار آمد ہے کہ اس کی وجہ سے قبر میں راحت ملے گی اور تیسرا عشرہ جہنم سے آزادی کا ہے جو زندگی کے تیسرے مرحلے میں کار آمد ہے۔
ماہ رمضان مغفرت کا وہ عظیم الشان مہینہ ہے کہ جو شخص اس کو پانے کے بعد بھی مغفرت سے محروم رہ گیا وہ انتہائی بدقسمت اور حرماں نصیب ہے۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺنے ارشاد فرمایا کہ ’’ تین آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی، ایک روزہ دار کی افطار کے وقت، دوسرے عادل بادشاہ کی اور تیسرے مظلوم کی۔
حدیث پاک ﷺمیں ارشاد ہے کہ
‘‘اے لوگو ! اتنی ہی عبادت کرو جو قابلِ برداشت ہو کیونکہ اللہ ثواب دینے سے نہیں تھکتا یہاں تک کے تم خود عبادت کرنے سے اْکتا جاؤ گے۔’’
بہت سی قومیں ایسی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے توبہ و استغفار کرنے کی وجہ سے ان پر سے عذاب ٹلا دیا۔
سورہ یونس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کا ذکر فرمایا ! عذاب ان کے قریب آچکا تھا اور انہوں نے اپنی آنکھوں سے عذاب دیکھ لیا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے توفیق ہوئی اور ساری قوم اپنے گھروں سے باہر نکل آئی اور اللہ تعالیٰ سے رو کر اور گڑگڑا کر توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے ان پر سے عذاب کو ہٹا دیا۔
حضرت محمد ﷺ کا ارشاد ہے
’’رمضان کو اس لیے رمضان کہا جاتا ہے چونکہ یہ گناہوں کو جلا دیتا ہے‘‘
توبہ واستغفار اس مہینہ کے اہم ترین مقاصد میں سے ہے۔ جس شخص کی توبہ قبول ہوگئی، اور رب نے اسے بخش دیا، وہ رمضان کے فضائل وبرکات سے محظوظ ہوگیا۔ رسول اللہﷺ لمحہ توبہ واستغفار کرتے تھے۔
حضرت عبادہ بن صامتؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رمضان آیا تو سرور کائناتؐ نے فرمایا۔
’’تمھارے پاس رمضان آگیا ہے یہ برکت کا مہینہ ہے اللہ تعالیٰ تم کو اِس میں ڈھانپ لیتا ہے اِس میں رحمت نازل ہو تی ہے اور گناہ جھڑ جاتے ہیں اور اِس میں دعا قبول ہوتی ہے اللہ تعالی اِس مہینہ میں تمھاری ر غبت کو دیکھتا ہے سو تم اللہ کو اس مہینہ میں نیک کام کرکے دکھاؤ کیونکہ وہ شخص بد بخت ہے جو اس مہینہ میں اللہ کی رحمت سے محروم رہا‘‘۔
صادق الامین خاتم النبیین ﷺفرماتے ہیں۔
’’جس نے رمضان کے روزے ایمان اور احتساب کی نیت سے رکھے تو اس کے گذشتہ گناہ بخش دیے گئے‘‘۔( بخاری، حدیث ۱۹۰۱، مسلم، حدیث ۱۷۵۔)
اس ماہ مبارک کی آمد کا یہی وہ مبارک دن تھا جب تقریباً ’’پندرہ سو سال قبل مسجد نبویؐ کے منبر سے حضرت محمد ﷺ نے اپنی امت کو یہ خوش خبری سنائی تھی۔
’’لوگو ! خدا کا مہینہ برکت و رحمت اور مغفرت کے ساتھ تمہاری طرف آ رہا ہے وہ مہینہ جو خدا کے نزدیک بہترین مہینہ ہے جس کے ایام بہترین ایام جس کی راتیں بہترین راتیں ہیں اور جس کی گھڑیاں بہترین گھڑیاں ہیں ، (اس مہینہ میں ) تمہاری سانسیں ذکر خدا میں پڑھی جانے والی تسبیح کا ثواب رکھتی ہیں تمہاری نیندیں عبادت ، اعمال مقبول اور دعائیں مستجاب ہیں اپنے پروردگار کے سامنے سچی نیتوں اور پاکیزہ دلوں کے ساتھ روزہ رکھنے اور قرآن کریم کی تلاوت کرنے کی توفیق کی دعا کرنی چاہئے وہ شخص بڑا بدقسمت ہے جو اس عظیم مہینے میں خداکی ان برکات سے بہرہ مند نہ ہو سکے‘‘۔
روزہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں روز ہ دار کے لیے شفاعت و سفارش کرے گا۔
حضرت عبداللہ بن عمروؓروایت کرتے ہیں کہ حضور سید عالمﷺ نے ارشاد فرمایا۔
’’روزے اور قرآن دونوں بندے کے لیے شفاعت (سفارش) کریں گے۔ روزے عرض کریں گے: ’’ اے پروردگار! میں نے اس بندے کو کھانے پینے اور نفس کی خواہش پورا کرنے سے روکے رکھا تھا، آج میری سفارش اس کے حق میں قبول فرما اور قرآن کہے گا کہ، ’’ میں نے اس بندے کو رات کو سونے اور آرام کرنے سے روکے رکھا تھا، آج اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما، چناں چہ روزہ اور قرآن دونوں کی سفارش بندے کے حق میں قبول فرمائی جائے گی۔‘‘
بے شک اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بخشنے کے لیے دین میں بہت سی آسانیاں فرمائی ہیں۔ ایسی ہی ایک نعمت ماہ رمضان کی صورت میں مسلمانوں کو عطا ہوئی جس میں خالق کائنات نے واضح کر دیا جو لوگ ماہ رمضان کے روزے احکام شریعت کے مطابق رکھیں اور تمام برائیوں سے بچے رہیں ان کے واسطے دنیا اورآخرت کی بھلائی اور بڑا اَجر ہے اور جنہیں اللہ کی ذات انعام واَجرسے نواز دے وہی پرہیزگار اور متقی لوگ ہیں۔
اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم لوگ ماہ رمضان میں اللہ تعالیٰ کی خاص رحمتوں اور برکتوں سے کس قدر فائدہ اٹھاتے ہیں۔
رمضان کا آخری عشرہ
حدیث:۔۔۔۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لنگی مضبوط باندھ لیتے (یعنی کمر ہمت چست باندھ لیتے) خود بھی شب بیدار رہتے اور اپنے گھر کے لوگوں کو بھی بیدار رکھتے۔
(بخاری و مسلم، مشکوٰۃ)
لیلۃالقدر
حدیث:۔۔۔۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رمضان المبارک آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک یہ مہینہ تم پر آیا ہے، اور اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینے سے بہتر ہے، جو شخص اس رات سے محروم رہا ، وہ ہر خیر سے محروم رہا، اور اس کی خیر سے کوئی شخص محروم نہیں رہے گا، سوائے بد قسمت اور حرمان نصیب کے۔‘‘
(ابنِ ماجہ، واسنادہ حسن، ترغیب)
حدیث:۔۔۔۔۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو!‘‘
(صحیح بخاری، مشکوٰۃ)
حدیث:۔۔۔۔۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب لیلۃ القدر آتی ہے تو جبریل علیہ السلام فرشتوں کی ایک جماعت کے ساتھ نازل ہوتے ہیں، اور ہربندہ جو کھڑا یا بیٹھا اللہ تعالیٰ کا ذکر کر رہا ہو (اس میں تلاوت، تسبیح و تہلیل اور نوافل سب شامل ہیں، الغرض کسی طریقے سے ذکر و عبادت میں مشغول ہو) اس کے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں۔‘‘
(بیہقی، شعب الایمان، مشکوٰۃ)
لیلۃالقدرکی دعا
حدیث: ۔۔۔۔۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! یہ فرمائیے کہ اگر مجھے یہ معلوم ہوجائے کہ یہ لیلۃ القدر ہے تو کیا پڑھوں؟ فرمایا: یہ دُعا پڑھا کرو:
اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ
اے اللہ! آپ بہت ہی معاف کرنے والے ہیں، معافی کو پسند فرماتے ہیں، پس مجھ کو بھی معاف کردیجیے۔
(احمد، ترمذی، ابنِ ماجہ، مشکوٰۃ)
تمام راتوں میں افضل رات لیلة القدر .... لیل کہتے ہیں ”را“ کو اور قدر کے معنی عربی لغت کے اندر قدر و منزل کے ہیں یعنی انتہائی تعظیم والی رات ترجمہ ”یقیناً اسے ہم نے شب قدر میں نازل فرمایا“سورة القدر میں اس رات کی فضیلت اور اس رات میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی رحمتوں اور برکتوں کا ذکر فرمایا اور یہاں تک بتا دیا کہ یہ رات طلوع صبح تک سلامتی والی رات ہے۔مفسرین کی یہ رائے ہے کہ یہ رات رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں یعنی 29, 27, 25, 23, 21 میں سے کسی ایک میں ہے غالب گمان 27 ویں شب کا ہے اور بعض مفسرین کے نزدیک یہ ایک رمضان المبارک میں اگر 27 ویں شب ہے تو اگلے رمضان المبارک میں یہ کسی اور طاق رات میں بھی آسکتی ہے۔ اس رات کی فضیلت کو دیکھا جائے تو ہزار مہینوں سے افضل اس ایک رات کو کہا گیاہے یعنی اس ایک رات میں جو شخص عبادت کرتا ہے تو اس کی عبادت ایک ہزار سال کے برابر ہے اور ایک ہزار سال تقریباً اگر صرف رات کا حساب لگایا جائے تو کم بیش (83 سال چار ماہ) کی عبادت بنتی ہے ۔ مفسرین فرماتے ہیں اﷲ کے حکم سے روح القدس (جبرئیل امین) بیشمار فرشتوں کے ساتھ نیچے اترتے ہیں تاکہ عظیم و الشان خیرو برکت سے زمین والوں کو مستفید کیا جائے۔بہر حال اس مبارک شب میں باطنی حیات اور روحانی خیرو برکت کا خاص نزول ہوتاہے۔ آیت مبارکہ میں لفظ ”من کل امر“ سے مراد ہر کام کے انجام دینے کے لئے اس رات کو جو فرشتے نازل ہوتے ہیں یعنی اﷲ تعالیٰ ان فرشتوں کے ذریعے اپنے بندوں کواس رات چین و امن اور دلجمعی عطا فرماتے ہیں۔ یہ سکون اور اطمینان صرف وہ زاہد و عابد ہی محسوس کر سکتے ہیں جو اس رات کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں
بغیر عذر کے رمضان کا روزہ نہ رکھنا
حدیث: ۔۔۔۔۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نےبغیر عذر اور بیماری کے رمضان کا ایک روزہ بھی چھوڑدیا تو خواہ ساری عمر روزے رکھتا رہے، وہ اس کی تلافی نہیں کرسکتا (یعنی دوسرے وقت میں روزہ رکھنے سے اگر چہ فرض ادا ہوجائے گا، مگر رمضان المبارک کی برکت و فضیلت کا حاصل کرنا ممکن نہیں)۔
(احمد ، ترمذی، ابو داؤد، ابنِ ماجہ، دارمی، بخاری فی ترجمۃ الباب، مشکوٰۃ)
تراویح
حدیث: ۔۔۔۔۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے ایمان کے جذبے سے اور ثواب کی نیت سے رمضان کا روزہ رکھا، اس کے پہلے گناہ بخش دیے گئے، اور جس نے رمضان (کی راتوں) میں قیام کیا، ایمان کے جذبے اور ثواب کی نیت سے، اس کے گزشتہ گناہ بخش دیے گئے، اورجس نے لیلۃ القدر میں قیام کیا، ایمان کے جذبے اور ثواب کی نیت سے، اس کے پہلے گناہ بخش دیے گئے۔‘‘
(بخاری و مسلم، مشکوٰۃ)
اور ایک روایت میں ہے کہ : ’’اس کے اگلے پچھلے گناہ بخش دیے گئے۔‘‘
(نسائی ، ترغیب)
اعتکاف
حدیث: ۔۔۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے رمضان میں (آخری) دس دن کا اِعتکاف کیا، اس کودو حج اور دو عمرے کا ثواب ہوگا۔‘‘
(بیہقی، ترغیب)
حدیث:۔۔۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کی خاطر ایک دن کا بھی اعتکاف کیا، اللہ تعالیٰ اس کے اور دوزخ کے درمیان ایسی تین خندقیں بنادیں گے کہ ہر خندق کا فاصلہ مشرق و مغرب سے زیادہ ہوگا۔ ‘‘
(طبرانی اوسط، بیہقی، حاکم ، ترغیب)
روزہ دار کے لیے پرہیز
حدیث: ۔۔۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :’’جس شخص نے (روزے کی حالت میں ) بیہودہ باتیں (مثلًا: غیبت، بہتان،تہمت، گالی گلوچ، لعن طعن، غلط بیانی وغیرہ) اور گناہ کا کام نہیں چھوڑا، تو اللہ تعالیٰ کو کچھ حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑدے۔‘‘
(بخاری، مشکوٰۃ)
حدیث:۔۔۔۔۔ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ’’روزہ ڈھال ہے، جب تک کہ اس کو پھاڑے نہیں۔‘‘
(نسائی، ابنِ خزیمہ، بیہقی، ترغیب)
اور ایک روایت میں ہے کہ : عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! یہ ڈھال کس چیز سے پھٹ جاتی ہے؟ فرمایا: ’’جھوٹ اور غیبت سے !‘‘
(طبرانی الاوسط عن ابی ہریرہؓ: ترغیب)
روزے میں کوتاہیاں
حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہٗ نے ’’اصلاح انقلاب‘‘ میں تفصیل سے ان کو تاہیوں کا بھی ذکر فرمایا ہے جو روزے کے بارے میں کی جاتی ہیں، اس کتاب کا مطالعہ کر کے ان تمام کوتاہیوں کی اصلاح کرنی چاہیے، یہاں بھی اس کے ایک دو اقتباس نقل کیے جاتے ہیں، راقم الحروف کے سامنے مولانا عبد الباری ندوی کی ’’جامع المجددین‘‘ہے ، ذیل کے اقتباسات اسی سے منتخب کیے گئے ہیں:
’’بہت سے لوگ بلا کسی قوی عذر کے روزہ نہیں رکھتے، ان میں سے بعض تو محض کم ہمتی کی وجہ سے نہیں رکھتے، ایسے ہی ایک شخص کو، جس نے عمر بھر روزہ نہ رکھا تھا اور سمجھتا تھا کہ پورا نہ کرسکے گا، کہا گیا کہ تم بطور امتحان ہی رکھ کر دیکھ لو، چناں چہ رکھا اور پورا ہوگیا، پھر اس کی ہمت بندھ گئی اور رکھنے لگا۔ ‘‘
بعض بلا عذر تو روزہ ترک نہیں کرتے، مگر اس کی تمیزنہیں کرتے کہ یہ عذر شرعا ًمعتبر ہے یا نہیں؟ ادنیٰ بہانے سے افطار کردیتے ہیں، مثلاً:ایک ہی منزل کا سفر ہو، روزہ افطار کردیا، کچھ محنت مزدوری کاکام ہوا، روزہ چھوڑدیا۔
بعضے لوگوں کا افطار تو عذرِ شرعی سے ہوتاہے، مگر ان سے یہ کوتاہی ہوتی ہے کہ بعض اوقات اس عذر کے رفع ہونے کے وقت کسی قدر دن باقی ہوتا ہے، اور شرعاً بقیہ دن میں امساک یعنی کھانے پینے سے بند رہنا واجب ہوتا ہے،مگر وہ اس کی پروا نہیں کرتے، مثلاً: سفرِ شرعی سے ظہر کے وقت واپس آگیا، یا عورت حیض سے ظہر کے وقت پاک ہوگئی، تو ان کو شام تک کھانا پینا نہ چاہیے ۔
اکثر لوگ روزہ میں بھی معاصی سے نہیں بچتے، اگرغیبت کی عادت تھی، تو وہ بدستور رہتی ہے، اگر بدنگاہی کے خوگر تھے، وہ نہیں چھوڑتے، اگر حقوق العباد کی کوتاہیوں میں مبتلا تھے، ان کی صفائی نہیں کرتے، بلکہ بعض کے معاصی تو غالباً بڑھ جاتے ہیں، کہیں دوستوں میں جا بیٹھے کہ روزہ بہلے گا، اور باتیں شروع کیں، جن میں زیادہ حصہ غیبت کا ہوگا، یا چوسر، گنجفہ ، تاش، ہارمونیم، گراموفون لے بیٹھے اور دن پورا کردیا۔ اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ بالکل روزہ ہی نہ ہوگا، لہٰذا رکھنے ہی سے کیا فائدہ؟ روزہ تو ہوجائے گا، لیکن ادنیٰ درجے کا۔جیسے اندھا، لنگڑا، کانا، گنجا، اپاہج آدمی، آدمی تو ہوتاہے، مگر ناقص۔
از . قلم . مولانا محمد پرویز رضا فیضانی حشمتی مقام لولین ڈیھ پوسٹ بڑھنی چافہ ضلع سدھارتھ نگر یوپی
رابطہ نمبر 6307986692