آج اللہ رب العزت کی توفیق سے ہم صحیح البخاری کے 37 ویں باب کا آغاز کر رہے
✒️ . مولانا محمد پرویز رضا فیضان حشمتی
آج اللہ رب العزت کی توفیق سے ہم صحیح البخاری کے 37 ویں باب کا آغاز کر رہے
ہیں۔اور اس کا عنوان امام بخاری نے یہ قائم فرمایا ہے کہ یہ باب اس موضوع پر ہے کہ مؤمن کا ڈرنا اس بات سے کہ کہیں اس کے سارے عمل ضائع نہ ہو جائیں اور اس کو اس کا شعور بھی نہ ہو۔اس کو اس بات کا اندازہ بھی نہ ہو،ادراک بھی نہ ہو،احساس بھی نہ ہو کہ میرے تمام اعمال رائیگاں چلے گئے اور نامہ اعمال خالی ہو گیا،وہ تمام نیکیاں،حسنات ،اطاعات ،
خیرات جو زندگی بھر اس نے انجام دیں وہ کسی وجہ سےختم ہو چکی ہوں اور اس کو اس امر کا اندازہ بھی نہ ہو۔
امام بخاری اس باب میں فرماتے ہیں کہ اس امر سے مومن کو ڈرنا چاہیے اور ہمیشہ ڈرتے رہنا چاہیے اگر یہ خوف برقرار رہے تو اس کو وہ ایمان کہتے ہیں،اگر یہ خوف بندے کے دل سے چلا جائے بندہ بےخوف نڈر ہو جائے تو اس کو امام بخاری نفاق سے تعبیر کر رہے ہیں گویا وہ عملآ منافق ہو جائے گا ، یعنی منافقوں کی ایک خصلت اس کے اندر آ جائے گی۔ یہ نفاق اعتقادی نہیں نفاق عملی ہو جائے گا، اس باب کے تحت امام بخاری چند اقوال لائے ہیں اور وہ جو آثار ہیں وہ آثار تابعین کے ہیں، سب سے حضرت ابرہیم التیمی کا زکر لائے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ میں جب بھی اپنے قول کو اپنے عمل کے اوپر پیش کرتا ہوں یعنی جو کچھ میں زبان سے کہتا ہوں لوگوں کو تلقین کرتا ہوں وعظ کرتا ہوں تبلیغ کرتا ہوں،جس امر کی تدریس کرتا ہوں،تربیت کرتا ہوں،نصیحت کرتا ہوں جو کچھ میں لوگوں سے تعلیم و تربیت کے لیے کہتا ہوں، فرماتے ہیں کہ جب میں اپنے اس قول کو اپنے عمل کے سامنے پیش کرتا ہوں تاکہ دیکھوں کہ میرا اپنا عمل میرے قول کے مقابلے میں کہاں کھڑا ہے، کیا میرا اپنا عمل میرے قول میرے کہنے کے عین مطابق ہے،اسی درجے میں ہے یا میرے قول اور عمل میں فرق ہے۔
قول یعنی نصیحت تربیت کلمہ کہیں اونچا ہے اور میرا اپنا عمل conduct اور behavior جو انجام دیتا ہوں اس سے بہت نیچے ہے۔
جب میں اپنے قول کو اپنے عمل کے سامنے پیش کرتا ہوں تو مجھے ہمیشہ اس امر کا ڈر لگتا ہے کہ کہیں میں جھوٹا تو نہیں یعنی اپنے عمل سے اپنے قول کی تکزیب تو نہیں کر رہا یعنی میرا اپنا عمل ہی میرے قول کی نفی تو نہیں کر رہا، مجھے ڈر لگتا ہے کہ میرے قول اور میرے عمل میں وہ مطابقت اور ایک درجے پر ہونے کی موافقت شاید نہیں ہے اپنے عمل کو نیچا اور اپنے قول کو اونچا دیکھتا ہوں اور اس کا ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں میرا عمل میرے قول کی تکزیب نہ کر دے ۔
اور یہ نفاق میرے ایمان کی ضد نہ بن جائے اور بعض نسخوں میں مکذبآ ذ پر زبر کے ساتھ بھی لکھا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے اگر اس کو لیا جائے تو معروف نسخوں میں تو یہی مکذبآ ہے ۔ اگر مکذبآ لیا جائے کہ جب اپنے قول کو عمل کے سامنے پیش کرتا ہوں تو اور لوگ بھی میرے قول اور عمل کا فرق دیکھتے ہوں گے تو کہیں میرے کہے کی تکزیب نہ کر دی جائے ، مجھے جھوٹا نہ قرار دے دیا جائے کہ میں جو کچھ کہتا ہوں غلط ہے خود اس پر عمل نہیں کرتا یہ پہلا معنی ہے۔
اس کا جو اتصال سند کا مسئلہ ہے آپ کو معلوم ہے کہ یہ نکتہ کئی مواقع پر میں واضح کرتا رہتا ہوں اپنے ان دروس اور حلقات میں جب کوئی نیا باب آتا ہے ،جب امام بخاری نئی تعلیقات لاتے ہیں نئی مرویات لاتے ہیں بغیر سند کے تو اس وقت میں اس نکتے کو ہمیشہ ساتھ ہی ساتھ واضح کرتا ہوں تاکہ امام بخاری کا تخریج حدیث، قبول حدیث میں جو مذہب ہے مسلک ہے ۔ اس کے بارے میں پائے جانے والے مغالطے دور ہو جائیں۔
اب یہی جو قول جس سے امام بخاری نے اس باب کا آغاز کیا ہے،اس کے بعد یاد رکھ لیں حدیث نمبر 48 لا رہے ہیں،جیسا کہ آپ کو معلوم ہے پوری سند کے ساتھ امام بخاری جب حدیث کی تخریج کرتے ہیں،حدیث کو جب وارد کرتے ہیں تو اس سے قبل جو کچھ بیان کرتے ہیں معلقات کے طور پر وہ اس کے مقدمہ میں اور ترجمۃ الباب کا جو content ہوتا ہے ہم گفتگو اس حوالے سے کرتے ہیں،اس سے وہ استدلال لیتے ہیں اپنے چیپٹر کے اس ہیڈنگ heading کا اس subject کا اس موضوع کا جس پر وہ باب قائم کر کے جو حقائق اعتقادی اعتبار سے،ایمان کے اعتبار سے ثابت کرنا چاہتے ہیں تو گویا جن اقوال کو اپنی باسند حدیث کی تخریج سے بھی پہلے اپنے موقف کی تائید میں اور موقف کو ثابت کرنے کے لیے جن اقوال ، مرویات اور آثار کو لے آتے ہیں وہ اکثر و بیشتر امام بخاری کی اپنی کتاب صحیح البخاری کی مرویات نہیں ہوتیں یعنی مسند مرویات نہیں ہوتیں، وہ دیگر آئمہ کے طرق سے لی ہوئی ہوتی ہیں۔
جس سے وہ اپنے مذہب کو establish کرتے رہتے ہیں کہ میں اس کا بھی قائل ہوں، امام ابراہیم التیمی یہ اکابر تابعین کے عظیم فقہاء اور عبادت گزار لوگوں میں سے تھے۔اور وعظ و تربیت فرماتے تھے اور علم بھی تھے واعظ تھے مربی تھے تربیت فرماتے تھے ، لوگوں کے حلقات قائم کرتے تھے اور یہ جو فرمایا کہ میں جب بھی اپنے قول کو اپنے عمل کے سامنے پیش کرتا ہوں تو اس خطرے کے پیش نظر کہ کہیں میری تکزیب نہ ہو جائے یا میں خود تکزیب کرنے والا نہ بن جاؤں اپنے عمل سے اپنے قول کی نفی نہ کرنے والا بن جاؤں،اس کے لیے امام قسطلانی نے ارشاد الساری میں حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں علامہ عینی نے عمدۃ القاری میں اور امام ابن ملقن کی التودیق میں اور دیگر آئمہ جو صحیح بخاری کے شارحین ہیں وہ سب چیزیں بیان کرتے ہیں، مطلب ان کا یہ تھا کہ وہ جب اپنے قول کو اپنے عمل کے سامنے پیش کرتے تو انہیں احساس ہوتا کہ جس اونچے درجے کی میں نصیحت کرتا ہوں کہ شاید اس اونچے مرتبے پر میرا عمل خود اونچا نہیں ہے، میرا عمل اس اونچے درجے کی انتہا تک نہیں پہنچا، تکزیب اور نفاق کا خطرہ کیوں محسوس کرتے،ادھر دھیان کیوں جاتا کہ حکم یہ ہے کہ جو شخص امر بالمعروف کرتا ہو نیکیوں کا حکم دےاور نہی عن المنکر کرے اور برائی سے لوگوں کو روکے اگر اس کے اپنے عمل میں کوئی قصور، کوئی نقص ،کوئی کمی رہ جائے تو یہ اس کے منصب کے خلاف ہے۔ یہ نفاق کی طرف لیجائے گا گویا اس کا عمل اس کے قول کی تکزیب کر رہا ہے۔
قرآن مجید کا فرمان ہے کہ اللہ کے ہاں یہ بہت بڑا گناہ ہے کہ جو کچھ کہتے ہو وہ تم خود نہیں کرتے سو اس وجہ سے انہیں اپنے مکذب یعنی اپنے اوپر تکذیب کا یہ احتمال پیدا ہوتا ہے،اب یہ جو قول ہے مکذب ہونے کا یا مکزب ہونے کا دونوں صورتوں میں معنی میں نے سمجھا دیا،اس قول کو امام بخاری نے روایت موصولہ کے طور پر پیش نہیں کیا اس کی صحیح بخاری میں خود سند پیش نہیں کی ۔اس قول کو موصول کیا ہے امام بخاری نے اپنی کتاب التاریخ الکبیر میں، وہاں یہ قول قول موصول ہے ۔مگر اس کے اندر جو راوی ہیں وہ امام بخاری نے جو صحیح بخاری میں اس خاص کتاب کے لیے جو شرط مقرر کی تھی اس شرط پر ایک آدھ راوی پورا نہیں اترتا تھا اس وجہ سے امام بخاری صحیح البخاری میں نہیں لیے مگر انہیں معلوم ہے کہ بھلے صحیح بخاری بھی میری مقرر کردہ شرط پر اگر کوئی راوی یا سند پوری نہ بھی اترے تو still یعنی even then سند اور روایت قبول ہے اس سے استدلال کر سکتے ہیں اسے قبول کر سکتے ہیں اس سے مسئلہ اور حکم اخذ کر سکتے ہیں کیونکہ صحیح بخاری کی شرط انہوں نے ہی مقرر کی تھی اور ان کو پتہ تھا کہ اس سے کم درجے کی پوری اترنے والی سند بھی مقبول ہے اور صحیح ہے اس موصولہ کو اپنی کتاب التاریخ الکبیر میں روایت کر لیا ہے ۔پھر اس کو امام ابو نعیم نے روایت کیا ہے،امام احمد بن حنبل نے اپنی کتاب الزہد میں روایت کیا ہے، ان دونوں نے حضرت سفیان ثوری سے روایت کیا ہے انہوں نے ابو حیان التیمی سے اور انہوں نے ابراہیم التیمی سے مگر امام بخاری نے صحیح بخاری میں یہ ساری سند چھوڑ کر ابراہیم التیمی نے یہ فرمایا وہ لے لی ہے ۔گویا اسی طرح اس کو موصولآ قاسم لالیکائی نے بھی اپنی سند کے ساتھ بیان کیا ہے یہ شرح اصول اعتقاد اہل سنہ میں بھی اسناد جید کے ساتھ لیا ہے اور انہوں نے قاسم بن جعفر سے انہوں نے محمد بن احمد بن حماد سے انہوں نے عباس بن عبداللہ سے انہوں نے محمد بن یوسف سے انہوں نے سفیان سے انہوں نے ابو عیان سے اور انہوں نے ابراہیم التیمی سے، اوپر والے آئمہ کی سند چھوٹی ہے اور وہ قریب کا زمانہ ہے اور بعد میں بھی الگ الگ سندیں ہیں۔
امام بخاری نے اس کو اس طرح لے لیا ہے ۔
اس کے بعد دوسرا قول امام بخاری اس پہ لائے ہیں اس کا تھوڑا معنی بھی میں نے بیان کر دیا تو اس کو بھی ہم ساتھ ہی attend کرتے ہیں، تینوں اقوال کو اکھٹا کرکے پھر میں اس کے مفہوم کو لے لوں تو یہ سمجھنے اور سمجھانے میں آسان ہو جائے گا، اسناد کے مسئلے کو پہلے لے لیتا ہوں اور پھر ان اقوال کے معنی کو اکھٹا لے لیتے ہیں
دوسرا ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا،ابن ابی ملیکہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں 30 کے قریب صحابہ کرام کو اپنی زندگی میں پایا ۔جلیل القدر تابعی ہیں 30 صحابہ کرام سے ملاقات ہے ان سے سماع کیا ہے اور استفادہ کیا ہے اور ان کو دیکھا ہے ہر ایک صحابی کو وہ اپنی جان پر نفاق کا ڈر رکھتے تھے اور خوف زدہ رہتے تھے کہ کہیں میں منافق تو نہیں ہو گیا،کہیں میرے اندر نفاق تو داخل نہیں ہو گیا، کہیں میں نفاق کے دائرے میں تو نہیں چلا گیا،30 کے 30 صحابہ کا ایمان یہ تھا یہ انکی وراء تھی یہ ان کا تقوی تھا، یہ انکی پرہیز گاری تھی ،یہ ایمان کی حقیقت کی معرفت تھی ،اللہ کا خوف تھا اور ایمان کو محفوظ و مامون رکھنے کی فکر تھی کہ ہر صحابی اس امر سے ڈرتا رہتا تھا کہ کہیں میرے ایمان کے دائرے میں نفاق تو نہیں داخل ہو گیا۔
پھر فرمایا کہ ان میں سے کوئی ایک بھی صحابی ایسا نہ تھا جو یہ سمجھتا ہو یا دعویٰ کرتا ہو کہ وہ جبرائیل علیہ السلام یا میکائیل علیہ السلام کے ایمان کے درجے پر ہے ۔
سمجھانا یہ چاہتے ہیں کہ صحابہ کرام سے بڑھ کر ایمان کا رتبہ کس کا ہو گا ، درجہ ایمان اگر ناپنے لگیں تو صحابہ کرام کی جماعت سے بلند تو قیامت تک کسی طبقے اور کسی دور کے ایمان کا درجہ ان سے اونچا تو نہیں ہو سکتا۔یہ بلند ترین ایمان ہے اور بلند ترین ایمان کے مقام پر بسنے والے اور آقا علیہ السلام کی صحبت اور تربیت سے براہ راست فیض یاب ہونے والے صحابہ کرام جن کے ایمان کی گواہی اللہ ربّ العزت قرآن مجید میں دے چکے ہیں اور آخرت میں سب سے جنت کا وعدہ فرما چکے ہیں، خواہ وہ فتح مکہ سے پہلے ایمان لانے تھے درجے میں وہ بلند ہیں اور خواہ بعد میں ایمان لائے مگر اللہ رب العزت نے وعدہ جنت کا اور حسن آخرت کا سب سے کیا ہے تو جن کے ایمان کی قبولیت کی سند اللہ ربّ العزت نے دیدی ہے اس میں تو شک و شبہ بھی نہیں کیا جا سکتا، فرماتے ہیں کہ ان صحابہ کے زہد وراء ،تقوی ، پرہیز گاری ، خشیت الٰہی کا کہ وہ اپنے میں سے کوئی ایک شخص بھی اپنے ایمان کو جبرائیل اور میکائیل کی طرح کامل نہیں دیکھتے تھے ، لرز جانے کا ڈر رکھتے تھے، نفاق سے خوف زدہ رہتے تھے۔
یہ جو امام ابن ابی ملیکہ کا قول ہے جو امام بخاری لیکر آئے ہیں یہ بھی جلیل القدر تابعی ہیں اور انکا بھی اسی طرح جیسے میں نے پہلے عرض کیا ان کا قول بھی امام بخاری مسندآ نہیں لائے اس کی سند بھی دیگر آئمہ کے پاس ہے اور امام بخاری نے انکی سند سے یہ قول قبول فرما لیا ہے اور اپنے ہاں تعلیقآ بیان کیا ہے اور اس قول کو موصولآ بیان کیا ہے امام ابن ابی خیصمہ نے اپنی تاریخ میں اور اسی طرح امام محمد بن نصر المرخصی نے اور اس کی تائید کی ہے امام زراء دمشقی نے اپنی تاریخ میں اور امام بخاری نے ان آئمہ کے طرق سے یہ اثر ابنِ ابی ملیکہ کا اپنی سند کے بغیر صحیح بخاری میں درج کر لیا ہے اور اس سے اپنا مسئلہ ثابت کیا ہے یہ امام ابن ابی ملیکہ جو جلیل القدر تابعی تھے انہوں نے خود فرما دیا کہ 30 صحابہ کرام سے ملے اور ہر ایک کے ایمان کا عالم یہ تھا اور ان میں جو سب سے اجل تھے وہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رض سے بھی ملے ان کی ہمشیرہ حضرت اسماء بنت ابی بکر رض ان سے بھی ملے ،ام المومنین حضرت ام سلمیٰ رض ان کا زمانہ بھی پایا،اور حضرت عبداللہ ابن عباس رض،حضرت عبداللہ بن عمر رض ،حضرت عبداللہ ابن مسعود رض اور حضرت عبداللہ بن عمر بن العاص رض ان چاروں صحابہ کرام سے بھی ملے ، حضرت ابو ہریرہ رض سے ملے اس طرح کئی اور صحابہ کرام ہیں تیس کے قریب ان سے ملے اور یہ وہ لوگ جن کے حوالے سے یہ وہ کہہ رہے ہیں،ویسے وہ ملنے والوں میں حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے بھی ملاقات ہے ،سعد بن ابی وقاص رض سے بھی ملاقات ہے اور وہ جزم کے ساتھ کہتے ہیں کہ ان میں سے ایک شخص بھی ایسا نہیں تھا جو یہ دعویٰ کرتا ہو یا خیال رکھتا ہو کہ میرا ایمان جبرائیل اور میکائیل علیہ السلام کی طرح اتنا کامل اور ارفع ہو گا
ہر شخص ڈرتا تھا کہ کہیں میری زندگی میں نفاق تو نہیں داخل ہو گیا ،یہ ان صحابہ کرام کے وراء اور تقوی کا یہ عالم تھا اور پرہیزگار گاری اور ایمان کو محفوظ رکھنے کی فکر میں اتنا مبالغہ کرتے تھے اور نفاق کی چھوٹی چھوٹی خصلتیں اور چھوٹے چھوٹے معاملات جن کے زریعے نفاق داخل ہو سکتا ہے ان سے بچاؤ میں اتنی احتیاط کرتے ،جبرائیل اور میکائیل علیہ السلام کی مثال اس لئے دی ہے کہ یہ ملائکہ کے اندر بھی ایمان کے سب سے اعلیٰ درجے کے مقام پر فائز تھے ،اشارہ اس امر کی طرف تھا کہ جس طرح کوئی تصور نہیں کر سکتا کہ ان ملائکہ کے ایمان میں بھی کوئی نقص ہے اور ان کے اوپر تو پھر جبرائیل و میکائیل علیہ السلام تھے، اس طرح اپنے ایمان کو اس درجے کا باکمال اور ارفع و اعلیٰ نہ خود کوئی تصور کرتا تھا اور نہ اس کا کوئی دعویٰ رکھتا تھا ۔
ابن ابی ملیکہ کا قول چھ مختلف طرق سے امام جعفر الفریابی نے بیان کیا ہے جس کو امام بخاری نے اپنی کسی طریق اور سند سے نہیں لیا مگر یہی قول چھ مختلف طرق اور اسناد سے ثابت ہے۔
جعفر الفریابی نے قتیبہ سے انہوں نے جعفر بن سلیمان سے انہوں نے معلی بن زیاد سے یہ ایک طریق ہے یہی قول ہے ،اسی طرح ابو قدامہ عبید اللہ بن سعید نے حماد بن زید کا لیکے آگے پھر جاتا ہے اور امام احمد بن حنبل نے بھی کتاب الایمان میں اس طریق سے لیا ہے ۔
اس کے بعد امام بخاری نے اگلا قول لیا ہے امام حسن بصری رض سے یہ بھی جلیل القدر تابعی تھے اور امام بخاری کی ولادت سے بہت پہلے وصال فرما گئے تھے اب ان کو بھی مسندآ نہیں لیا دیگر آئمہ کے طریق سے لیا ہے ثابت کرنے کے لیے کہ امام بخاری حدیث صحیح ان احادیث کو بھی سمجھتے ہیں اور آثار صحیحہ ان آثار کو بھی روایات صحیحہ اور مقبولہ ان احادیث کو بھی جو دوسرے آئمہ نے اپنے طریق سے اپنی کتابوں میں لی ہیں اور امام بخاری نے اسے صحیح البخاری میں نہیں لیا وہ بھی صحیح ہیں۔
امام بخاری ہر باب کے شروع میں almost یہ ثابت کر کے بتا رہے ہیں کہ لوگوں جو کچھ میں نے مسندآ سند کے ساتھ اپنی صحیح بخاری میں لیا ہے صرف وہ مواد اور روایات ہی صحیح نہیں ہیں ان کے علاؤہ ہزار ہا صحیح ہیں جن کو میں لیتا ہوں میں درج کرتا ہوں صحیح بخاری کے مقدمہ میں ہر باب اور ہر کتاب کے شروع میں اور دیگر آئمہ کی ،ان کو مسترد نہ کردینا کہیں میری جامع الصحیح کا معنی یہ نہ سمجھ لینا کہ جو بخاری میں ہے وہ لیں گے اور جو بخاری میں نہیں وہ نہیں لیں گے ،دین کو مسترد کر دیں گے ۔میں خود بخاری کے اندر دیگر آئمہ کے طرق سے ان کی روایات صحیحہ لیتا ہوں ۔ دراصل ان کا ایک مقصد یہ ہے ، پھر امام حسن البصری کا اگلا قول لیا ہے جس میں امام حسن البصری سے منقول ہے فرماتے ہیں کہ کوئی شخص جو نفاق سے بےخوف ہو جائے اور یہ سمجھنے لگے کہ میرے اندر نفاق داخل ہی نہیں ہو سکتا، مجھے کوئی خوف کوئی خطرہ نہیں میں اتنا مضبوط اتنا مستحکم ہو گیا ہوں اور اتنا fool proof ہو گیا ہوں کہ میرے ایمان اتنا قلعہ بند ہو گیا ہے کہ نفاق اس میں داخل ہی نہیں ہو سکتا ، جو نڈر اور بے خوف ہو جائے فرمایا وہ منافق ہے یعنی نفاق کا خوف جس میں ختم ہو جائے اور نڈر ہو جائے اور سمجھے کہ میں نے تو اتنی مدت دین کی خدمت کی ہے ، میں نے اتنا کچھ پڑھا ہے ،اتنے اساتذہ سے پڑھا ہے ،اتنی کتابیں لکھی ہیں،اتنے عمل کیے ہیں ،دین کی اتنی اطاعت کی ہے ،اتنی دعوت وتبلیغ کی ہے اتنے لوگوں کو خیر کی راہ پر لایا ہوں، میری پوری زندگی خیر پر گزری ہے ۔ یہ بات تمام لوگ سمجھیں ، علماء بھی جو ہمہ وقت دین کی خدمت اور فروغ علم دین کی خدمت میں رہتے ہیں ، طلباء بھی جو ہر وقت دین کی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور کتابوں کے اندر رہنے والے،ہر وقت صبح وشام دین کی تبلیغ کرنے والے اور جو لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتے ہیں اور کارکن جنہوں نے زندگیاں دین کی دعوت و تربیت میں تبلیغ میں اور دین کے فروغ کے لیے گزاری ہیں دس بیس چالیس سال زندگی گزار دی ہے سارے دھیان سے سنیں کہ میں نے اتنا عرصہ صرف کر دیا ہے میں نے اتنا کچھ کر دیا ہے، میں اتنوں کی صحبت میں بیٹھا ہوں ،اتنا سیکھا ،اتنا لکھا ، اتنا کچھ کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اب آوروں کے نفاق کی فکر کروں میرے اندر تو نفاق نہیں آ سکتا، میں کبھی بھی منافق نہیں ہو سکتا ، میرا ایمان اتنا مضبوط ہو گیا ہے کہ اب نفاق ادھر نہیں آتا، جو یہ سمجھتا ہے امام حسن بصری سمجھتے ہیں کہ وہی منافق ہے ۔
جو نفاق سے بےخوف ہو جائے وہ منافق ہے اور جسے نفاق کا ہر وقت ڈر رہے وہ مؤمن ہے ۔
اسے ڈر رہے نفاق کا کہ کہیں میں منافق تو نہیں ہو گیا کہیں میرا ایمان متزلزل تو نہیں ہو گیا، کہیں میرا قول میرے فعل کے ساتھ متضاد تو نہیں ہو گیا، کہیں میرا عمل میرے قول کے مرتبے سے گر تو نہیں گیا، کہیں میری نیت کے صدق میں تبدیلی تو نہیں آ گئی، کہیں میرے نفس کا غصہ کسی کے لئے میری نفرت میرے صدق و اخلاص کے اوپر غالب تو نہیں آ گئی۔کہیں میری اندر اغراض نفسانی ، دنیوی اغراض، پریشانیاں ، مشکلات، جو معاملات زندگی میں آتے ہیں انسان کی طبیعت میں تغیر پیدا کرتے ہیں ایسے معاملات وقتآ فوقتاً لائف میں آتے ہیں ، حالات ایک جیسے نہیں رہتے کبھی مالی مشکلات آ جاتی ہیں،آپ کو فروانی تھی اچھے حالات تھے،ایمان کی کشتی بھی بغیر ہچکولے کے بڑی ٹھیک چل رہی تھی۔ایک زمانہ ایسا آ جاتا ہے مالی مشکلات آ جاتی ہیں ، کاروبار بگڑ جاتا ہے،وسائل تھوڑے ہو جاتے ہیں تنگیاں آ جاتی ہیں،دوست احباب مخالف ہو جاتے ہیں ،آپ کے پاس منصب کوئی نہیں رہتا ،راحت کوئی نہیں رہتی اس سے زہنی سکون متاثر ہوتا ہے ،انتشار فکری پیدا ہوتا ہے، فرسٹریشن پیدا ہوتی ہے ،ایمان کو آسانی سے بچاتے چلے جانا جتنا آسان سکون کے زمانے میں ہے اتنا آسان پریشانی کے زمانے میں نہیں ہے ۔
جب آپ راحت میں تھے تو ایمان کے بچانے میں بھی آسانی تھی جب آپ تنگی میں آتے ہیں فرسٹریشن میں آتے ہیں مشکل میں آتے ہیں ، پھر اگر آپ کی صحبتیں بدل جاتی ہیں،دوستیاں بدل جاتی ہیں یا رغبتیں بدل جاتی ہیں،پھر فیملیز آ جاتی ہیں بچے بڑے ہو جاتے ہیں تقاضے پریشرز بڑھ جاتے ہیں ، اکنامک پریشر ،سوشل پریشر ،پولیٹیکل پریشر ، envormental pressure ، ماحولیات کے پریشر ، آپ کی زندگی میں مختلف جو effects کرنے والے factors ہیں وہ change ہو جاتے ہیں، جیسے حالات میں تغیر آتا ہے ویسے ویسے اندر کے حالات میں تغیر آ جاتا ہے اور اندر جب حال بدلتا ہے تو ایمان کی حالت وہ نہیں رہتی ،ایمان ایک کشتی ہے جوں ہی اگر دریا یا سمندر کے پانی میں کوئی طغیانی نہ ہو تو سکون وہ چل رہی ہے اگر طغیانی آ جائے تو کشتی ہچکولے کھاتی ہے جب ہچکولے کھاتی ہے تو دیکھنا ہے کہ کہیں پانی تو اچھل کر کشتی میں نہیں آ گیا ۔
اس وقت وہ جو ہچکولے کھانا ایمان کا وہی حالت نفاق ہے، اس میں نفاق کا خطرہ ہوتا ہے یا نفاق کے آ جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جو آدمی بےفکر ہو جائے پچھلی زندگی کو دیکھ کر یہ سمجھے کہ اگلی زندگی مرتے دم تک میرے ایمان کو تو نفاق کا خطرہ ہی نہیں میں کبھی منافقت کی راہ پر نہیں جا سکتا ، میں ڈانواں ڈول نہیں ہو سکتا، میری سوچ منفی اور غلط نہیں ہو سکتی ، کسی قسم کی فرسٹریشن اور پریشانی میرے ایمان کو نقصان نہیں پہنچا سکتی ۔ جو آدمی ہوں سمجھنے لگے وہ منافقت ہے۔
سیدنا امام حسن بصری فرماتے ہیں کہ یہی منافقت ہے کہ کشتی بڑی smoth sailing کر رہی ہو اس میں کوئی ہچکولے نہ ہوں خیر کے ساتھ چل رہی ہو اور وہ ڈرتا رہے کہ کہیں نفاق نہ آ جائے وہ مؤمن ہے ۔
ہم بلکل الٹ صورت میں چلے گئے ہیں اور تمام دین کے خدمت کرنے والے کارکن تنظیموں میں جماعتوں میں،تحریکوں میں کام کرنے والے دینی کارکن ہوں ،علماء ہوں اساتذہ ہوں ، مبلغین ہوں،آئمہ ہوں خطباء ہوں ،طلباء و طالبات ہوں تو اس کا خطرہ اور زیادہ ہے کہ کسی بھی وقت شیطان اس کی کشتی پر حملہ کر کےاس طلاطم کی نذر کر دے ۔
یہ وہ بیان کرتے ہیں جو بے خوف ہو جاتا ہے اس کو منافق کہتے ہیں یہ سیدنا امام حسن بصری رض کا قول تھا۔
آگے روایت کیا ہے مختلف آئمہ نے امام بخاری نے اس کی جو سند ہے وہ اپنی تو سند نہیں لی وہ امام ابو قدامہ عبیداللہ بن سعید کی سند سے لیا ہے اور وہ چلتے ہوئے امام حسن بصری تک پہنچتی ہے
ایک اور سند عبدالاعلی بن حماد عن حماد بن سلمی عن حبیب بن شہید وہ امام حسن بصری تک جا پہنچتی ہے ،ایک اور حشام بن عمار انہوں نے اسد بن موسیٰ انہوں نے ابی الاشہب اور وہ سند امام حسن بصری س آئی ہے ،الغرض دیگر آئمہ کے پاس مختلف چھ سات طرق ہیں۔امام بخاری نے ان کے طرق پر اعتماد کرتے ہوئے اپنے پاس روایت کرلی ۔
اثر ایک جلیل القدر تابعی کااب جو اس کا basic مفہوم ہے وہ اشارہ اس امر کی طرف ہے کہ جو شخص نفاق کے خطرے سے بے خوف ہو جائے وہ منافق ہے جس کو نفاق کا ڈر لگا رہے اور حفاظت کرنا رہے جس کو جتنا ڈر ہو گا وہ اتنی حفاظت کرے گا اور جو بے خوف ہو جائے گا۔ وہ بے خوف ہونے کی وجہ سے اتنا relax ہو جائے گا، سمجھیں آپ کے پاس سونا ہے بڑے اعلیٰ قسم کے ہیرے جواہرات ہیں اور آپ کو چوری چکاری کا کوئی خوف نہیں،آپ کی سوسائٹی میں ڈاکہ زنی چوری نہیں ہے، بلکل سو فیصد اطمینان ہے آپ اس کو اتنا سیف لاکوں میں نہیں رکھیں گے پڑا رہے گا چوری کا خطرہ کوئی نہیں، ایسی جگہ ہو سکتا ہے بعض ویسٹرن ممالک میں جہاں چوری ،ڈاکہ زنی نہیں ہے مگر جس سوسائٹی میں چور ڈاکو موجود ہیں وہاں کوئی اسی طرح بے خوف ہو کر کھلا رکھ دے وہ تو چور آ کے لیجائے گا۔
ایمان کا باب اس طرح ہے ،ایمان ایک خزانہ ہے اور نفاق یہ چور اور ڈاکو ہیں،چور اور ڈاکو شیاطین ہر وقت بندے کا مومن کا ایمان چوری کرنے کے لیے اس کے ایمان پر ڈاکہ ڈالنے اور اس میں نفاق اور کفر داخل کرنے کے لیے ہر وقت گھومتے رہتے ہیں، وہ دیکھتے ہیں کہ ادھر کوئی شخص بےفکر ہوا نہیں ادھر ڈاکو نے حملہ نہیں کیا جونہی بندہ بےفکر ہوتا ہے وہ relax ہوتا ہے وہ اس کی حفاظت میں تھوڑی سی احتیاط کم کرتا ہے چور گھس جاتا ہے اور وہ چرا کر لیجاتا ہے۔ایمان اور نفاق کے ساتھ یہ matter ہے ، شیطان اور اس کی نسل ہمہ وقت اس شخص کے اردگرد اس کی راہ پر اس کے گھر کے اردگرد اس کے دل کے اردگرد، اس کی نیت کے اردگرد ہر وقت اس کی زندگی میں گھومتے رہتے ہیں،گھور کے دیکھتے رہتے ہیں کہ کب غافل ہوتا ہے،کب بےفکر ہوتا ہے کب نڈر ہوتا ہے۔ بس اس کو چاہیے ایسا بندہ جو بےفکر ہو جو سمجھے میں منافق نہیں ہو سکتا ،اسے یہ چاہیے،اسے امید ہو کہ میرے ایمان میں کوئی کمی نہیں آ سکتی ،اسے ایسا بندہ چاہیے جسے یہ خیال آ جائے کہ میرا ایمان لٹ نہیں سکتا ۔میں نے دین کا اتنا کام کیا ہے۔جونہی یہ خیال آیا سمجھیں دیوار گر گئی چوروں اور ڈاکوؤں کے لیے راستہ کھلا ہو گیا وہ اس کا سارا ایمان لوٹ کر لے گئے۔
تابعین اور صحابہ کرام اس کی فکر کرتے تھے۔
اب یہ جو تمام اقوال ہیں اس کی تائید میں ایک حدیث صحیح مسلم کی دے رہا ہوں،امام مسلم یہ حدیث کتاب التوبہ میں لائے ہیں یہ اس مضمون پہ دلالت کرتی ہے اور ایمان افروز حدیث ہے۔ابی عثمان نہوی اس حدیث کے راوی ہیں، فرماتے ہیں کہ حضرت ہنذلہ آقا علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے ان کا پورا نام ہنذلہ الاسیدی تھا، یہ فرماتے ہیں کہ میری ملاقات ہوئی حضرت ابو بکر صدیق رض ہوئی تو پوچھا کہ ہنذلہ کیسی طبعیت ہے کیا حال ہے تو جواب میں کہا کہ میں تو منافق ہو گیا سبحان اللہ کیا کہہ رہے آپ ،کیوں منافق ہو گئے ہیں انہوں نے کہا اس لیے میں کہتا ہوں کہ ہنذلہ منافق ہو گیا کہ ہم جب حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ہوتے ہیں،آپ ہمارے سامنے دوزخ اور جنت کا زکر کرتے ہیں اس وقت ہمارے ایمان کی حالت یہ ہوتی ہے کہ دوزخ اور جنت کو ہم اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، عیاں دیکھ رہے ہیں بے حجاب دیکھ رہے ہیں یعنی اس طرح ڈوب جاتے ہیں اور حقائق اس طرح منکشف ہو جاتے ہیں
ہمارا من اتنا اجلا اور صاف ہو جاتا ہے گویا جنت اور دوزخ کو دیکھ رہے ہوتے ہیں اور جب آقا علیہ السلام کی مجلس سے نکل آتے ہیں جب اپنی ازواج اور اولاد کے پاس جاتے ہیں کاروبار تجارت میں مشغول ہو جاتے ہیں تو بہت کچھ چیزیں جو آقا علیہ السلام نے ہمیں بتائی ہوتی ہیں اور جو کیفیات ہمارے دل پر وارد ہوئی ہوتی ہیں وہ بھول جاتی ہیں،ان سے محروم ہو جاتے ہیں ،جب یہ ساری بات سنائی تو سیدنا صدیق اکبر رض نے فرمایا کہ واللہ ایسی کیفیات تو ہمارے ساتھ بھی ہوتی ہیں، چلیں اکھٹے آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں چلتے ہیں تو ہم دونوں آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں پہنچے اور آقا علیہ السلام کے حضور پیش ہو گئے تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہنزلہ منافق ہو گیا،آپ نے فرمایا کیوں ایسا کہہ رہے ہو، کیا ہوا تو پھر وہ پوری بات جو پہلے بیان ہوئی ہے وہ انہوں نے گؤش گزار کر دی ۔
یارسول اللہ آپ کی بارگاہ اور صحبت میں ہماری کیفیت یہ ہوتی ہے کہ جنت اور دوزخ کو بھی گویا دیکھ رہے ہوتے ہیں جب چلے جاتے ہیں بیوی بچوں کاروبار تجارت اور دیگر مشاغل میں مصروف ہوتے ہیں تو اکثر چیزیں بھول جاتی ہیں اور حالت وہ نہیں رہتی،اس پر آقا علیہ السلام نے فرمایا اس اللہ کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر تم بعد میں جا کر بیوی بچوں کے ساتھ فیملی کے ساتھ،دوست احباب کے ساتھ،اعزاء اقارب کے ساتھ،کاروبار اور مشاغل کے ساتھ مصروف ہو کر بھی اسی حالت میں رہو جس حالت میں تم میری مجلس اور میری صحبت میں رہتے ہو اور جو رتبہ اور جو کیفیت تمہاری یہاں پر ہوتی ہے اور یہ کیفیت بعد میں بھی اگر برقرار رہے اور جو کیفیت حالت زکر میں ہوتی ہے وہ بعد ازاں بھی قائم رہے تو اللہ کی عزت کی قسم تم بستر پر سونے ہوئے ہو گے تو فرشتے تمہارے بستروں پر آ کر تمہارے ساتھ مصافحہ کریں گے،اگر تمہاری حالت میں اس طرح کا دوام اور قرار آ جائے اور اس میں کوئی تغیر کمی بیشی نہ آئے ، ہمیشہ ایک جیسی حالت برقرار رہے تو ملائکہ تمہارے بستروں پر آ کر تمہارے ساتھ مصافحہ کریں
یہ تمہارا حال ہو جائے اور تم گلیوں میں چل رہے ہو تو چلتے ہوئے بھی ملائکہ آ کر مصافحہ کریں گے تمہیں تو نظر نہیں آئیں گے یہ درجہ ہو جائے گا۔
لیکن ہنزلہ کبھی ایسے ہوتا ہے اور کبھی ایسے ہوتا ہے اور تین بار آقا علیہ السلام نے فرمایا تو اس کیفیت کو کیوں امام مسلم یہاں پر لائے اس کے ساتھ کیوں جوڑا کہ وہ منافق نہیں ہوئے تھے اور نہ صحابہ کرام کے اندر نفاق جا سکتا ہے کیونکہ ان کے ایمان کی حفاظت کرنے والی تو صحبت رسول تھی۔ہر وقت کی زیارت رسول،ہر وقت کی تربیت رسول، آقا علیہ السلام کی ذاتِ اقدس آپ کی تعلیم،آپ کی تربیت،آپ کی صحبت، آپ کی نگرانی،آپ کی نگاہ ہر وقت ان کا حصار بنی رہتی تھی اور انکی نیتوں کو آقا علیہ السلام کی صحبت نے اتنا صادق اور اتنا مخلص اور اتنا کامل اور اتنا مضبوط کر دیا تھا اور ان کے یقین کے اندر اتنا زہد بھر دیا تھا کہ نفاق داخل نہیں ہو سکتا تھا۔
مگر حدیث کیا ہے کہ یہ نہیں نفاق آ گیا ،ان کو خطرہ لگا رہتا تھا کہ کہیں نفاق نہ آ جائے اور یہ جو تغیر آتا انکی حالت میں تو اس تغیر کو وہ نفاق سمجھ بیٹھے تھے یہ منافقت ہو گئی ہے ۔
اس کو آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ جو تمہارا فکر ہے اگر یہ فکر لگی رہے اور نڈر اور بے خوف نہ جاؤ اور اسکی حفاظت کی فکر تمہاری دامنِ گیر رہے تو یہی ایمان ہے۔اور اس کے اندر کبھی ایسے ہوتا ہے اور کبھی ایسے ہوتا ہے،اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے،تغیر و تبدل ہوتا رہتا ہے مگر وہ شخص مومن رہتا ہے جس کو یہ فکر لگی رہے جو ڈرتا رہتا ہے کہ کہیں نفاق تو نہیں آ گیا۔جونہی وہ نڈر ہوا بےخوف ہوا وہ شخص منافق ہو گیا۔
اب اگلی حدیث جو امام مسلم لائے ہیں کہ اے ہنزلہ اگر تمہاری یہ کیفیت جو میری صحبت اور مجلس میں اور اللہ کے زکر کے دوران جو کیفیت تمہارے دل اور تمہارے باطن کی اور جذبات اور کیفیات اور احوال کی ہو جاتی ہے اگر یہ درجہ یہ لیول بلکل ہمیشہ قائم رہے اور اس میں کمی نہ آئے پھر تو تمہارا درجہ یہ ہو جائے کہ فرشتے تم سے مصافحہ کریں جب تم بازاروں اور گلی کوچوں میں جا رہے ہو تو وہاں بھی تمہیں آ کے سلام کہیں۔
کبھی استحضار ہوتا ہے جب اس محفل میں ہوتے ہو،اللہ کی زکر کی مجلس میں ہوتے ہو تو ااستحضار ہوتا ہے گویا جنت اور دوزخ کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہیں، زکر الہی یا صحبت رسول یا زیارت رسول یا زیارت اولیاء یا زیارت صالحین یا صحبت صالحین آپ کے اندر ایمانی کیفیات کو استحضار دے دیتی ہیں وہ جو دور دور پھیلی ہوتی ہیں غالب ہوتی ہیں منتشر ہوتی ہیں ان کیفیتوں کو حاضر کر دیتی ہیں اس کو استحضار نیت بھی کہتے ہیں،صوفیاء ، محدثین ،علماء ، بزرگان دین۔
ایک ہے نیت کا برا ہونا اور نیت کا اچھا ہونا فرق ہے، کسی کی نیت اچھی ہو گئی اور ایک کی نیت بری ہو گئی تو عمل بھی برباد ہو گیا،دوسرے یہ کیفیت ہے کہ نیت نہ اچھی ہے اور نہ بری ، جس کی بری نیت ہے وہ تو بری ہو گئی اور عمل بھی برباد ہو گیا اور جس کی اچھی نیت ہے اور عمل اجھا ہو گیا ۔ایک کیفیت یہ ہے کہ نیت نہ اچھی ہے اور نہ بری ہے سرے سے حاضر ہی نہیں ،اظہار نیت ہی نہیں یعنی نیت مستحضر نہیں ہے،توجہ دھیان بلکل بکھرا ہوا ہے آپ نماز پڑھ رہے ہیں اور آپ کو پتہ ہی نہیں کہ میں کہاں کھڑا ہوں اور کیا پڑھ رہا ہوں یعنی نیت ہی موجود نہیں ،رجوع ہی نہیں ہے نہ اچھی نہ بری ۔
سب سے بڑھ کر ایک ہے نیت کو خالص کرنا اور اس خالص نیت کو حاضر کرنا،آپ کے عمل کی جگہ پر،آپ کی قرآت ،تلاوت ،سجدے ،رکوع اور اطاعت کی جگہ پر حاضر بھی ہو، نیت جب حاضر ہوتی ہے تو آپ کی توجہ،ہمت اور افکار کو یکجا کرتی ہے، consolidate کرتی ہے ، جب یکجا کرتی ہے تو نیت عمل کے ساتھ جڑتی ہے، پھر نیت میں جتنا اخلاص،اللہ کی رضا طلبی ہوتی جائے گی عمل کا اتنا اتنا بلند ہوتا چلا جائے گا۔
جب گھروں میں چلے جاتے ہیں تو دنیا کا استحضار نہیں رہتا،زکر الہی کا استحضار نہیں رہتا،توجہ الی اللہ کا استحضار نہیں رہتا وہ چیزیں پس منظر میں چلی جاتی ہیں،دنیا کے دوسرے امور آ جاتے ہیں۔
دوسرے امور میں بھی اگر ایک چیز حاضر رہے، بیوی بچوں، اولاد ، کے حقوق ادا کرے ان سے پیار کریں ان سے محبت کریں،کاروبار کریں، معاش کریں، تجارت کریں ، لوگوں کے ساتھ معاملات کریں، دنیوی مشاغل اور فرائض ادا کریں سب کچھ کریں اس سے دین نہیں روکتااس کو قرآن مجید نے کہا کہ جو مرد ہیں، مردان حق وہ ہیں کہ تجارت بھی کرتے ہیں، خرید وفروخت بھی کرتے ہیں، مشاغل اور کاروبار دنیا بھی کرتے ہیں مگر یہ مصروفیات اور مشاغل اپنے اللہ کے زکر سے محروم نہیں کرتے،اللہ کا زکر بھولتا نہیں ہے یعنی اللہ کا زکر حاضر رہتا ہے ۔
اب اللہ کا زکر کیسے حاضر رہتا ہے یہ بھی سوال پیدا ہو گا ، وہ تو کر رہا ہے بچوں سے گفتگو اپنی اولاد سے،دوستوں سے بات چیت کر رہا ہے، وہ تو اپنے گاہک کو ڈیل کر رہا ہے ، کاروبار کر رہا ہے ، آفس کے معاملات ادا کر رہا ہے تو اللہ کا زکر اللہ کی یاد حاضر کیسے رہی ،وہ تو اور گفتگو ہے اس کی زبان پر اور اس کے ہاتھ کسی اور کام میں مصروف ہیں،وہ سجدہ نماز ،روزہ تلاوت اور رکوع تو نہیں کر رہا، اللہ کا زکر کیسے ہوا یہ قرآن کہتا ہے اس لیے کہ وہ جو کچھ بھی مشاغل دنیا بھی کرتا ہے اور کاروبار دنیا بھی انجام دیتا ہے اس کے اندر اس کی نیت جو حاضر ہوتی ہے وہ یہ کہ جو کام کروں وہ حلال کروں حرام نہ کروں، جو کام کروں اللہ کی اطاعت کے مطابق کروں،اللہ کی نافرمانی نہ کروں،اس بندے سے بھی کوئی بات کر رہا ہوں تو جو وعدہ کروں وہ پورا کروں،دھوکہ نہ دوں ، جو چیز اس سے کہوں سچ بولوں جھوٹ نہ بولوں،اس کے بھلے کا سوچوں اس کا نقصان نہ کروں، کسی کی غیبت چغلی نہیں کرتے۔کم نہیں تولتے ،دھوکہ نہیں کرتے،جھوٹ نہیں بولتے، کسی کی حق تلفی نہیں کرتے،حرص اور لالچ نہیں کرتے۔
تو وہ لوگ جو بھی دنیوی کاروبار کرتے ہیں اللہ کے امر کو یاد رکھتے ہیں اللہ کے حکم کو یاد رکھتے ہیں ،اللہ کی نافرمانی سے بچتے ہیں،ہر دنیوی کام اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق کرتے ہیں اس مطابقت کو قائم رکھنا دنیوی مشاغل میں یہ اللہ کے زکر کو قائم رکھنا ہے ،ہر کام دنیا کا بھی ہو جب اس کی سمت اللہ کے امر کے ساتھ متعین کر دیں اس کی direction اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے ساتھ متعین کر دیں یا آقا علیہ السلام کی سنت کے ساتھ متعین کر دیں یا آقا علیہ السلام کی سیرتِ اور اسوہ کے ساتھ متعین کر دیں، اور اللہ کی ناراضگی اس میں ہے اور اس میں اللہ کی رضا مندی ہے۔
ان حدود کے مطابق کر لیں تو سارے مشاغل دنیوی اللہ کی اطاعت میں آ جائیں گے اور اللہ کے زکر میں ہو جائیں گے ایسی صورت میں جب وہ۔ بندہ نیت کا دائمی استحضار کر لے کر دنیوی کام میں تعلیم میں، تدریس میں، کاروبار میں ، تجارت میں، رشتہ ازدواج میں،رشتہ اولاد میں، اعزاء اقارب میں،اندر باہر دنیا میں جہاں بھی جا رہا ہے ہر جگہ اس کی نیت خالصیتآ لوجہ اللہ اور اس کی نیت اللہ کی اطاعت کے لیے اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق حرام سے بچنے کے لیے،اعمال صالحہ کو بجا لانے کے لئے لوگوں کی حاجتوں کو پورا کر رہا ہے، لوگوں پر خرچ کر رہا ہے،ان کے حقوق کی ادائیگی کا خیال کر رہا ہے، لوگوں کی جان کو راحت پہنچے اعمال صالحہ ثابت ہوں یہ سارے کام کرتے ہوئے جتنے مشاغل دنیوی انجام دیتا رہتا ہے وہ سارے مشاغل اطاعت الہٰی میں شامل ہو جاتے ہیں وہ عبادت ہو جاتی ہیں ۔وہ اللہ کے زکر کے تابع آ جاتی ہیں تو اس طرح وہ استحضار ہے، آقا علیہ السلام کی حدیث میں سمجھانا یہ مقصود تھا کہ ۔ہنزلہ دو باتیں سمجھ لو ایک یہ کہ تم منافق نہیں ہوئے کیوں اس لیے کہ تمہیں یہ فکر ہے منافق ہونے کا، جس شخص کو ڈر لگا رہے اور وہ بےخوف نہ ہو جائے نڈر نہ ہو جائے۔
اپنے ایمان کی حفاظت بھی کرتا رہے اور ڈرتا بھی رہے وہ مؤمن ہے ۔ ایک تو یہ بات سمجھا دی اور دوسری بات یہ سمجھائی کہ یہ بھی ناممکن نہیں کہ جو کیفیت اور حالت میری مجلس اور صحبت میں ہوتا ہے وہ عام طور پہ جب آدمی اس مجلس سے اٹھتا ہے تو دوسری مصروفیات کے وقت وہ حالت اور کیفیت برقرار نہیں رہتی فرمایا اس کی بھی اجازت ہے مگر یہ ممکن ہے کہ کوئی آدمی ایمان کی حفاظت کرتا کرتا اور نفاق سے ڈرتا ڈرتا اور نفاق سے بچتا بچتا ، نیت کو حاضر کرتا کرتا اور اللہ کے لئے صدق و اخلاص بڑھاتا بڑھاتا چلا جائے،اتنا اونچا چلا جائے کہ یہ بھی ممکن ہے کہ حضور و غیاب میں ہر جگہ حال ایک ہو جائے ۔جو میری صحبت اور مجلس میں کیفیت رہتی ہے وہ باہر بھی کیفیت ایک ہو جائے اور فرمایا کہ جن کو یہ نصیب ہو جائے تو ملائکہ ان کی زیارت کے لئے اترتے ہیں ان سے مصافحے کرتے ہیں وہ سوتے ہیں تو ان کی حفاظت کرتے ہیں ،راستوں پہ ان پر سلام پڑھتے ہیں جیسے لیلۃالقدر میں کہ رات اترتے ہیں اور ہر جاگنے والے اللہ کو طلب کرنے والے مومن کو سلام کرتے ہیں اور مصافحہ کرتے ہیں تو جو اس رات میں آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ ملائکہ اتر کے مومنین کے ساتھ کرتے ہیں۔
جو شخص اپنے ایمان کو لیلۃالقدر کے مقام پر لے آئے اور لیلۃالقدر کی طرح انوار و تجلیات اس کے ایمان کی وجہ سے اس کے دل پہ دائم اترتے ہی رہیں اور سارا سال اللہ کے ملائکہ اترتے رہتے ہیں اور اپنی رحمتوں کے پر بچھاتے ہیں اور اللہ کی بارگاہ سے برکات لاتے رہتے ہیں، یہ جو مقدمہ ہے اس باب کا اس کی یہ تفصیلات تھیں اس کے تحت پھر امام بخاری نے اگلی حدیث بیان کردی ہے اور فرمایا کہ مومن کو گالی دینا فسق ہے اس سے آدمی فاسق ہو جاتا ہے اور اس کا قتال قتل کرنا ناحق یا اس کے قتل کو جائز سمجھنا کفر ہو جاتا ہے۔
یہاں پھر فسوق اور کفر ایک فرق ہے سمجھا دیا۔
ہر انسان کی جو عزت ہے وہ اللہ کا مقرر کردہ حق ہے ۔اس کی عزت کی ہتک کرنا گالی دینا یہ فسوق ہے ،فسوق کیا ہے اللہ کی اطاعت سے خارج ہو جاتا ہے۔فسق اللہ کی اطاعت سے خارج ہو دینے کو کہتے ہیں۔یہ خروج ہے اللہ کی اطاعت سے اور اللہ کی حدوں سے ڈرنا ، اللہ کی بارگاہ میں کوئی معصیت نہ ہو جائے اور ایمان نہ لٹ جائے نفاق نہ آ جائے، قرآنِ مجید نے کہا جو ہروقت اللہ تعالیٰ پناہ سے ڈرتا رہے کہ کہیں نفاق نہ آ جائے، کہیں میرا عمل مسترد نہ ہو جائے، کہیں میں نعمت سے پھر نہ جاؤں اس سے محروم نہ کر دیا نہ جاؤں کہ کہیں اللہ خفا نہ ہو جائے تو جو ڈرتا رہتا ہے،اللہ کی عبادت میں ،اللہ کے حضور قیامت کے دن کھڑے ہوئے کا خیال رہتا ہے
جب میرا حساب تلے گا تو کیا حال ہوگا۔ تو جو ڈرتا رہتا ہے اس کے ڈر کی وجہ سے اس کو دو جنتیں ملیں گی
ایک جنت اس کے نیک اعمال کی وجہ سے اور ایک اس کو نیک اعمال لٹ نہ جائیں یا ایمان نفاق میں نہ بدل جائے اس کا ڈر رکھنے کی وجہ سے ، itself یہ خشیت جنت عطا کرتی ہے
اور پھر یہ بھی فرمایا کہ اللہ کی تدبیر اور مواخذہ ہے ،اللہ گرفت کرتاہے،جو آدمی اللہ کے مواخذے اور گرفت کی فکر نہ کرے اور بےخوف ہو جائے وہ خسارہ پانے والوں میں سے ہے ،انہی کو کہا کہ وہ منافق ہو جاتے ہیں اور یہ جو باب کے اندر بیان کیا کہ ایسی کیفیت کہ لٹ گیا ہو بندہ اور اس کو پتہ ہی نہ ہو شعور ہی نہ ہو کہ میں لٹ گیا ہوں ۔
قرآن مجید نے ایک مقام پر یہ تصور بھی دے دیا،آقا علیہ السلام کی بے ادبی کے حوالے سے یہ تصور سورہ حجرات میں دیا ، مومنین کو حکم دیا کہ تم اپنی آوازیں حضور علیہ السلام کی مجلس میں پست کر دیا کرو ،آہستہ رکھا کرو آوازیں ۔
میرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں اپنی آوازیں ان کی آواز سے اونچی نہ کرو اور ان کو اس طرح بھی اونچی آواز سے بےتکلفانہ نہ بلاؤ اور جیسے آپس میں ایک دوسرے کو بلاتے ہو ، یعنی نہ تمہاری آواز میرے محبوب کی آواز سے اونچی ہو اور نہ ان کو بلانے کا انداز اس طرح کا ہو جیسے عام دوسرے لوگوں کو بلایا کرتے ہو اس میں بھی برابری نہ ہو۔ہمیشہ سراپا ادب رہو۔
یہ جو امام بخاری بیان فرما رہے ہیں جو پورے کا پورا مضمون اس باب کے ٹائٹل میں رکھا ہے ، مومن اس بات سے ڈرتا رہتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہیں اس کے سارے عمل غارت ہو جائیں ختم ہو جائیں اور اسے شعور بھی نہ ہو ، اس کو قرآن مجید نے بیان کیا کہ وہ کون سا عمل ہے وہ سرفہرست وہ بےادبی رسول ہے ،حضور علیہ السلام کی بارگاہ میں بےادبی اور بےادبی زبان کے کلمہ سے نہیں یعنی اگر آواز بھی اونچی کر دی تو وہ بےادبی اعمال کو غارت کر دے گی ۔
اس انداز کے ساتھ آقا علیہ السلام سے مخاطب ہو گئے جس انداز سے آوروں سے مخاطب ہوتے ہیں گویا انداز بھی دوسروں جیسا کر دیا ،آواز بھی دوسروں جیسی کر دی اس آواز میں اس انداز میں بھی آقا علیہ السلام کے ادب، عظمت، اور تکریم کو اور تعظیم و توقیر کو ملحوظ نہ رکھا تو سارے عمل اللہ ربّ العزت غارت کر دیں گے۔برںاد کر دیں گے اور تمہیں شعور بھی نہ ہو گا ۔یہ سزا پر اوپر دوہری سزا ہے ۔ ایک تو اعمال گئے اور اگر شعور مل جائے تو پھر آدمی فکر مند ہوتا ہے توبہ کرتا ہے اور توبہ کر کے گئے ہوئے مال کو لٹانے کی کوشش کرتا ہے ،پھر اپنے آپ کو درست اور اصلاح کرتا ہے اور بدقسمتی یہ کہ اگر شعور ہی نہ ہو کہ میں لٹ گیا ہوں وہ تو اصلاح بھی نہیں کرے گا ۔اصلاح کیا کرنی ہے اسے لٹنے کی خبر نہیں اس کو دکھ نہیں ہو گا ،اصلاح نہیں کرے گا تو وہ پھر گناہ پر گناہ،تکبر پر تکبر ،رعونت پر رعونت ،فسق پر فسق ،کفر پر کفر کرتا چلا جاتا ہے تو یہ بہت بڑی بدنصیبی کا باعث بنتی ہے ۔فسق جو ہے اس کا درجہ گناہ سے اوپر اور کفر سے نیچے۔
نافرمانی کے تین درجے ہیں
پہلا درجہ نافرمانی کا عصیان،اللہ کی نافرمانی، معصیت ،گناہ ،اس کے حکم کی خلاف ورزی ،
اس سے اوپر درجہ ہے فسوق
فسوق اس کی اطاعت سے نکل جانے کو کہتے ہیں۔یہ ایک طرح کی بغاوت ہے زبان سے کہے یا نہ کہے مگر عملی بغاوت ہے وہ آدمی فاسق ہو جاتا ہے، عصیان سے عاصی ہوتا ہے گناہگار ہوتا ہے
سب سے اوپر تیسرا درجہ کفر ہے جس میں آدمی انکار کر دیتا ہے ۔
فسق کا معنی فروج ،اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے نکل جانے کو کہتے ہیں اس لئے فرمایا کہ مسلمان کو گالی دینا فسوق ہے ،گناہ نہیں کہا گناہ سے اونچے درجے کی بغاوت ، اللہ کے اطاعت کے خلاف بغاوت کر دینا ہے اور اگر قتال پر آ جائے ، فسوق کو حلال سمجھ لے تو پھر وہ کافر ہو جاتا ہے پھر استدلال دم کے ساتھ شرعآ کافر ہے اگر خون کرنا حلال نہیں سمجھا ویسے قتل کر دیا تو پھر کافروں جیسے فعل کا مرتکب ہو گیا،کردار کافروں جیسا اپنا لیا تو یہ حدیث پاک لائے ہیں اور اس کو یہود کے ساتھ ملایا ہے۔یہود کے بارے میں قرآن مجید نے کہا کیا تم کتاب یعنی تورات کے کچھ حصوں پر ایمان لاتے ہو اور کچھ حصے سے کفر کرتے ہو ،ایمان اور کفر کا زکر کیا ۔
بعض چیزوں کو مانتے ہو اور بعضوں سے کفر کرتے ہو یعنی انکار کرتے ہو یہ کہہ کر کہ ہااں تم وہ لوگ ہو کہ ایک دوسرے کا قتل کرتے ہو ۔
یہ کہہ کر میری کتاب کے بعض حصوں پر ایمان لاتے ہو اور بعض سے کفر کرتے ہو ۔کفر کرتے ہو کہہ کر پھر اس کی تمثیل دی کہ ایک دوسرے کی جانوں کا ،تو اللہ کی وحی کا انکار کرنا ،اللہ کے پیغمبروں کا انکار کرنا، ایک یہ کہ دوسروں کو قتل کرنا اور قتل کو جائز سمجھنا تو یہ کفر ہو جاتا ہے اور لوگوں کو ظلم کرکے اپنے گھروں سے وطن سے باہر نکال دینا ،
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان کے قتل کرنے کو کفر کا لفظ دیا ۔صحیح بخاری نے ایک اور جگہ کتاب الفتن میں ایک حدیث بیان کی ہے ،آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ میرے بعد تم کافر نہ ہو جانا یعنی دوسروں کا ناحق خون بہانا یہ دہشت گردی کی مزمت ہے ،انتہا پسندانہ طرزِ عمل ،دہشتگردی چھوٹی چھوٹی بات پر لوگ ایک دوسرے کا قتل کر دیں اور تلوار سے فیصلے کرتے ہیں،گردن اڑاتے ہیں ،گولیاں چلاتے ہیں یہ تنگ نظری تفرقہ پرستی میں جاتی ہے۔تفرقہ پرستی انتہا پسندی کا باعث بنتی ہے،انتہا پسندی انسان کو دہشت گرد کرتی ہے اور دہشت گرد انسان کا قتل اور خون بہانے والا بناتی ہے ۔
آقا علیہ السلام نے اس پورے طرزِ عمل کی سوچ کو فرمایا تھا کہ میرے بعد کافر نہ بن جانا۔کہ ایک دوسرے کے گردنیں اڑانے لگو ،
ایک ہے دنیا کے نام پر گردن اڑانا ،لوگ زمینوں کے لئے گردنیں اڑاتے ہیں گولی چلاتے ہیں ،جائیدادوں کے لیے وراثت کے لیے، مال و دولت کے لیے، لوٹ مار کے لئے گردنیں اڑاتے ہیں کچھ لوگ سیاسی اغراض و مقاصد کے لیے تباہی مچانی ہے، پریشانی پیدا کرنی ہے ،ان کے سیاسی مقاصد ہیں قتل وغارت کرواتے ہیں۔
بڑی بڑی طاقتیں دنیا کے مختلف خطوں میں مسلمان امت کے خلاف خون خرابہ کرواتے ہیں،قاتلوں کو پالا جاتا ہے ،ان کو سامان مہیا کرتے ہیں ،ان کو وسائل دیتے ہیں ،ان کو ٹریننگ دیتے ہیں۔
دنیا کے مختلف ممالک کے اندرlocally بھی یہ پریکٹس ہوتی ہے اور عالمگیر سطح پر بھی ہوتی ہے کہ دہشت گرد، میں نے زندگی میں دیکھا ہے کہ دہشت گرد تنظیمیں دنیا میں پیدا ہوئی ہیں ، مسلمانوں کے اندر اور جہاں بھی کسی ملک کی میں بات نہیں کر رہا ہر جگہ وہ پیدا کی گئی ہیں۔خود نہیں پیدا ہوتیں یہ دہشت گردی ایجنڈا کے لئے جنم دی جاتی ہے ۔یہ مکتب فکر نہیں ہوتا یہ ڈنڈا ہوتا ہے ان سے مقصد لیا جاتا ہےobjective ہوتے ہیں ۔انکےنظریات بنائے جاتے ہیں دہشت گردانہ ،انکو امر المعروف اور نہی عن المنکر ، جہاد ، شہادت ، معصیت یہ حرام کاری کے خلاف ایک جہاد ، جنت ، شہادت انکے ذہنوں اور دلوں میں ڈالی جاتی ہیں ،انہیں یہ بولی دی جاتی ہے، سادہ لوح لوگوں کو مشتعل کرتے ہیں،ان کو برین واش کرتے ہیں اور بےشمار سادہ لوح لوگ ایسے نعرے اور ایسے دعوے ،جہاد کے تذکرے ،قرآن کی غلط تعبیر ،حدیث کی غلط تعبیر و تشریح دیکر ان کو گمراہ کرتے ہیں اور تلواریں اٹھا لیتے ہیں۔بندوقیں اٹھا لیتے ہیں ،یہاں تک لاتے ہیں پھر وہ خون بہاتے ہیں،اس کے پیچھے وہ طاقتیں کام کر رہی ہوتی ہیں جو کسی کو نظر نہیں آتیں گولی اور تلوار بندوق چلانے والے کو خبر نہیں ہوتیں کہ مجھ سے گولی کون چلوا رہا ہے اس کے پیچھے کچھ اور ہوں گے جو مذہبی بولی بول رہے ہیں،دین کے نام پر مشتعل کر رہے ہیں،آیتیں اور حدیثیں سنا سنا کر اور وہ جو کررہے ہیں شاید ان کو بھی پتہ بھی نہ ہو ،اس کے پیچھے کوئی اور لیول ہو گا جو ان کو فیڈ کر رہا ہے،سارا جہاد، دین ، قرآن ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے نام پر ،خیر کے نام پر پیچھے تک جائیں تو بڑی طاقت نظر آ جائے گی ، کوئی بڑا ادارہ ، کوئی بڑی سلطنت ، بڑا مقصود اس کے پیچھے گیم ہو گی جہاں خون بہانا ہے۔اسلام کو بدنام کرنا ہے اور قتل وغارت گری کرنی ہے،جب وہ کام لے لیتے ہیں پھر انہی کو قتل کروا دیتے ہیں۔اس کے بعد اگلا ملک منتخب کرتے ہیں، یہاں دین کی وہی دعوت،جہاد اور جہاد چلتے چلتے قتال بن جاتا ہے اور جب وہاں خون بہا کے تباہی مچا لیتے ہیں تو اس کے بعد انکو مروا دیتے ہیں پھر کوئی اور نام سے نئی جگہ تلاش کرتے ہیں۔
یہ جو پراسس ہے آقا علیہ السلام نے فرمایا میری امت کے لوگوں دین کے نام پر بھی گمراہ کریں گے بہکائیں گےچکمہ دیں گے misinterpret کریں گے قرآن اور حدیث کا ،کافر نہ ہو جانا ،ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنا میرا دین نہیں ہے۔گولی چلانا دین نہیں ہے ،کسی کا خون بہانا دین نہیں ہے ، تم سمجھو گے دین کے نام پہکر رہے ہیں مگر حقیقت میں کفر کر رہے ہیں،دین کی جڑیں کاٹ رہے ہیں۔
از. 🖋 مولانا محمد پرویز رضا فیضان حشمتی