بدھ، 27 مئی، 2020

یوم رضا کو “یوم تحفظ ناموس رسالت" ﷺ کے طور پر منائیںجشن ولادت یوم رضا

یوم رضا کو “یوم تحفظ ناموس رسالت" ﷺ کے طور پر منائیں
جشن ولادت یوم رضا
امام اہلسنت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل قدس سرہ العزیز کی ذات گرامی بے شمار اوصاف کی جامع تھی مگر جس وصف نے انہیں پوری دنیا میں میں ممتاز فرمایا وہ”عشق رسول” ہے۔ایک مرتبہ کسی نے آپ سے کہا کہ آپ کی کتابوں میں بدمذہبوں کے رد میں جملے بہت سخت ہوتے ہیں جس کی وجہ سے کافی لوگ کتاب شروع کرتے ہی رکھ دیتے ہیں پڑھتے نہیں، اگر تھوڑا نرمی فرمائیں تو لوگ پوری کتاب پڑھ لیں، آپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور فرمایا “میرا دل تو یہ چاہتا ہے کہ احمد رضا کے ہاتھ میں تلوار ہو اور اس سے گستاخوں کے سر قلم کرتا جاۓ، اس طرح دنیا سے گستاخوں کا خاتمہ ہو جائے، مگر اللہ نے یہ قدرت نہ عطا فرمائی اس لئے قلم سے رد کرتا ہوں کہ گستاخ میری کتابوں کو پڑھ کر جل بھن جائیں اور مجھے گالیاں دینے لگیں اور آقاﷺ کی شان میں گستاخی کرنے سے باز آجائیں، اس طرح میرے آقا کی عظمت پر میری عزت قربان ہو جائے”۔

اللہ اللہ! ناموس رسالت کا یہ جذبہ، اگر آج امام احمد رضا موجود ہوتے تو کیا وسیم رضوی جیسے گستاخ آزاد گھوم رہے ہوتے……؟ نہیں ہرگز نہیں! بلکہ ایسے گستاخوں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچایا جاتا۔
گزشتہ سال امام اہل سنت کے جذبہ عشق رسالت کی شمع فروزاں کرنے کی غرض سے تحریک فروغِ اسلام نے “محافظ ناموس رسالت”ﷺ کے یوم ولادت 10 شوال المکرم کو “یوم تحفظ ناموس رسالت”ﷺ کے طور پر منانے کا اعلان کیا تھا، عوامی ذہن سازی اور رائے عامہ کی بیداری کے لئے جگہ جگہ بینر بھی لگائے گئے تھے، علما و ائمہ سے اسی موضوع پر خطاب کی گزارش کی گئی تھی، شعرا سے کلام لکھنے کی گزارش کی گئی تھی، ان تمام ایکٹیوٹیز کا خوب اثر دیکھنے کو ملا، خاص بات یہ رہی کہ بریلی شریف میں ہونے والے دو روزہ یوم رضا میں اکثر خطبا نے *امام احمد رضا اور عشق رسول* کو ہی موضوع سخن بنایا نیز کثیر تعداد میں ملک بھر سے مساجد میں اس موضوع پر خطابات ہونے کی خبریں موصول ہوئیں۔
10 شوال کو ہم نے پرائم منسٹر آف انڈیا کو تحریک فروغِ اسلام کے لیٹر پیڈ پر گستاخوں کو سخت سزا کے تعلق سے ایک لیٹر لکھ کر اس مہم کا باضابطہ آغاز کیا، اور پورے سال مساجد میں سیکڑوں ہفتہ واری جلسہ تحفظ ناموس رسالت کا انعقاد کیا جو لاک ڈاؤن کے بعد پھر شروع ہو جائیں گے ان شا اللہ. ساتھ ہی قانونی چارہ جوئی کے لئے لیگل سیل کا قیام بھی کیا جا چکا ہے۔
اس سال بھی ہم تمام امت مسلمہ سے گزارش کرتے ہیں کہ 10 شوال کو اپنے اپنے علاقے میں “یوم *تحفظ ناموس رسالت*” کے طور پر منانے کا اہتمام کریں۔
منجانب مولانا محمد پرویز رضا فیضان حشمتی 
فیضانی کمپیوٹر بھوانی گنج 
6307986692

قبلہ اول بیت المقدس فتح ہوگیا

 قبلہ اول بیت المقدس فتح ہوگیا
*اور قبلہ اول بیت المقدس فتح ہوگیا....!*

از: *مولانا محمد پرویز رضا فیضانی حشمتی* 
6307986692
parvezraza@gmail.com

بشارتِ نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مطابق جنگ یرموک (15ھ)میں مسلمانوں کو تاریخی فتح ہوئی۔اسلامی لشکر کے ہاتھوں رومیوں نے شکست فاش کھا کر دمشق کی جانب راہِ فرار اختیار کی۔ان کے تعاقب میں اسلامی لشکر بھی دمشق پہنچااور رومیوں کو جہنم رسید کیا۔ایک مہینہ دمشق میں قیام کے بعد لشکرِ اسلام کے سالارِ اعظم امین الامۃ سیدنا ابوعبیدہ بن جراح نے لشکر کے تمام سرداروں کو جمع کرکے دمشق سے بیت المقدس یا قیساریہ کوچ کرنے سے متعلق رائے طلب کی جس پر حضرت معاذ بن جبل نے امیرالمومنین سیدنا عمر بن خطاب سے رائے طلب کرنے کا مشورہ دیا۔ حضرت ابوعبیدہ نے ایک مکتوب امیرالمومنین کی خدمت میں مدینہ منورہ ارسال کیا۔حضرت عمر نے اس موضوع پر اجلہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو جمع کرکے مشورہ کیا، اس پر مولائے کائنات سیدنا علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ نے پہلے بیت المقدس جانے کا مشورہ دیا اور کہا:”رسولِ غیب داں صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو خبر دی ہے کہ پہلے بیت المقدس فتح ہوگا پھر قیساریہ۔“حضرت علی کی روایت کردہ حدیث کی حضرت فاروقِ اعظم نے تصدیق کی اور حضرت ابوعبیدہ کو پہلے بیت المقدس جانے کا حکم دیا۔

حضرت ابوعبیدہ نے جابیہ دمشق سے اسلامی لشکر کو چھ ٹکڑوں میں ترتیب دے کر چھ دنوں میں بیت المقدس کی طرف روانہ کیا اورسیف اللہ المسلول حضرت خالد بن ولید اور باقی لشکر کے ساتھ جابیہ ہی میں ٹھہرے رہے۔ ادھر اسلامی لشکر چھ دنوں میں ایک کے بعد دیگرے شہر بیت المقدس پہنچے اور قلعہ کا محاصرہ کرلیا۔بیت المقدس کا قلعہ نہایت وسیع ، بلند اور مضبوط تھا۔جس کی وجہ سے رومی ایک حد تک بے فکر اور محفوظ تھے۔قلعہ کو محصور کرنے کے تین دن گزرنے کے بعد بھی رومیوں کے کسی سردار یا فرد نے اسلامی لشکر یا مجاہدین سے کسی بھی قسم کی کوئی گفتگو کی نہ اپنی طرف سے کوئی حرکت۔اپنی خفیہ پالیسی کے مطابق بس روزانہ وہ قلعہ کی فصیل پر چڑھتے ، مجاہدین کو گھور گھور کر دیکھتے اور واپس چلے جاتے۔تین دن کے بعد مسلم سردار حضرت یزید بن ابی سفیان اپنے چند ساتھیوں کے ہم راہ ایک مترجم کو لے کر قلعہ کی دیوار کے قریب گئے۔باشندگانِ بیت المقدس سے بات چیت شروع کی، اسلام کی دعوت دی اور کہا: ”اگر تم مسلمان ہوکر ہمارے بھائی بننا نہیں چاہتے تو جزیہ ادا کرکے ہمارے حفظ و امان میں آجاؤں۔ ورنہ جنگ کے لیے تیار ہوجاؤ۔“اس پر رومیوں نے کفریہ جملے بلند کیے اور کہا :”ہم اپنا مذہب کسی بھی صورت میں تبدیل نہیں کرسکتے اور جزیہ دے کر ہم دنیا کے سامنے ذلیل و رسوا ہونا نہیں چاہتے، ہم جنگ کے لیے تیار ہیں۔“ پھر حضرت یزید بن ابی سفیان اسلامی لشکر میں واپس آئے، تمام سرداروں کو صورتِ حال سے آگاہ کیااور ایک قاصد حضرت ابوعبیدہ بن جراح کی خدمت میں روانہ کیا۔حضرت ابوعبیدہ نے حالات جاننے کے بعد قلعہ پر حملے کرنے کا حکم دیا اور باقی ماندہ لشکر کے ساتھ بیت المقدس کی جانب روانہ ہوگئے۔

حضرت ابو عبیدہ کا حکم نامہ ملتے ہی مجاہدین نے حملے کی تیاری شروع کردی۔ دوسرے دن نمازِ فجر کے بعد مجاہدینِ اسلام میدانِ کارزار میں رومیوں سے بر سر پیکار ہوئے۔اہل شہر قلعہ کی فصیل سے حملہ کرتے، منجنیق (پتھر پھینکنے کا آلہ) سے پتھر برساتے،تیروں کی بوچھار مجاہدین کو مجروح کرتی۔اِدھر لشکرِ اسلام کھلے میدان میں رہ کر قلعہ پر معمور رومیوں کے حملوں کا جواب دیتا۔غروبِ آفتاب کے ساتھ جنگ موقوف ہوجاتی پھر طلوعِ آفتاب سے دوبارہ شروع ہوتی۔اسی طرح گیارہ دنوں تک ہوتا رہا۔گیارہویں دن حضرت ابوعبیدہ اور حضرت خالد بن ولید اسلامی لشکر کے ساتھ بیت المقدس آگئے۔ان کی آمد سے مجاہدین میں خوشی اور نیا جوش و وَل وَلہ پیدا ہوگیا۔ اسلامی لشکر نے نعرہائے تکبیر و رسالت بلند کیے۔رومیوں نے نئے لشکر اور مسلمانوں کے سردار کو دیکھا تو ہوش اُڑ گئے۔گھبراکر شہر کے سب سے بڑے ”کنیسہ کے بطریق“؛  جو ان کا سب سے بڑا عالم اور مذہبی پیشوا ماناجاتا تھا؛ کے پاس گئے۔اس کا نام ”قمامہ“تھا۔وہ دین نصرانیت اور توریت و انجیل اورزبور کے ساتھ ساتھ دیگر کتب سابقہ کا بھی عالم تھا۔ اس کی بات اہل شہر کے نزدیک قولِ فیصل کا درجہ رکھتی تھی اور اس کی ذات محترم و معظم تھی۔جب اس نے اہل شہر کو اپنے گرد ایستادہ پایا تو وجہ پوچھی۔لوگوں نے مسلمانوں سے جنگ اور اسلامی لشکر کے بارے میں بتایا۔بطریق قمامہ نے جب اسلامی لشکر اور اس کے سردار کی آمدکے بارے میں سنا تواس کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا،اس کے چہرے سے غم و افسردگی کے آثار جھلکنے لگے۔اس نے اہل شہر سے کہا کہ:”جو علم مجھ کو کتبِ سابقہ اور متقدمین سے وراثت میں ملا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک شام کو نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک سرخ رنگ کا صحابی جو بڑا سخت اور بہادرہوگا فتح کرے گا۔اگر واقعی یہ سردار وہی ہے تو ہم تم ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔شکست ہمارا مقدر ہے۔اور اگر یہ وہ نہیں ہے تو تمہیں خوش خبری ہو کہ تم ہی فاتح رہوگے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ مَیں مسلمانوں کے سردار کو دیکھوں اگر ان میں وہ صفات پائی گئیں جو اگلی کتب میں مذکور ہیں تو ہم ان سے صلح کرکے شہر ان کے حوالے کر دیں گے۔اور اگر وہ صفات نہ پائی گئیں تو ہم ضرور قتل و قتال کریں گے۔“

بطریق قمامہ مذہبی عالموں اور راہبوں کے جلوس کے ساتھ قلعہ کی دیوار کی طرف آیا اور لشکرِ اسلام کے سردار سے ملنے کی خواہش ظاہر کی،جسے حضرت ابوعبیدہ نے قبول کی اور قلعہ کی دیوار کے قریب تشریف لے گئے۔بطریق قمامہ نے حضرت ابوعبیدہ کو دیر تک بغور دیکھا، اگلی کتابوں میں مذکور صفات کا موازنہ کیا۔اس نے اسلامی سردار سے کوئی گفتگو کی نہ سوالات پوچھے۔کچھ دیر بعد اس نے اپنی قوم سے کہا کہ:”یہ وہ شخص نہیں جو ہماراشہر فتح کرے گا اس لیے تم ضرور جنگ کرو۔قسم ہے حق انجیل کی ! تم ہی فاتح رہوگے۔“یہ کہہ کر وہ دوبارہ کنیسہ میں جاکر مراقب ہوگیا۔بطریق قمامہ کی بات سن کر اہل شہر خوش ہوگئے اور نئے جوش و جذبے کے ساتھ مصروفِ جنگ ہوگئے۔

اس کے بعد جنگ کی پھر وہی صورت ہوگئی۔طلوعِ آفتاب سے غروبِ آفتاب تک جنگ ہوتی ،پھرموقوف ہوجاتی۔روزانہ بڑی تعداد میں رومی مارے جاتے۔مجاہدین بھی جامِ شہادت نوش کرتے،مسلسل چار ماہ تک شہر بیت المقدس کے قلعہ کا محاصرہ رہااور جنگ جاری رہی۔لمبی مدت تک قلعہ میں محصور رہ کر رومی تنگ آگئے تھے۔اور وہ چاہتے تھے کہ قلعہ سے باہر نکل کر میدان میں فیصلہ کن جنگ لڑی جائے۔مگر انہیں اس بات کا خوف تھا کہ اگر مسلمان قلعہ کے اندر داخل ہوگئے تو انہیں شکست دینا ناممکن ہوجائے گا۔مجبوراً انہیں دوبارہ بطریق قمامہ کے پاس جانا پڑا۔ اس سے اپنی بے چینی کا اظہار کیااور کہا کہ آپ مسلم سرداروں سے صلح کی کوئی صورت پیدا کریں۔اپنی قوم کی گذارش پر قمامہ دوبارہ قلعہ کی دیوار کے قریب آیا اور مسلمانوں سے بات چیت کی پیش کش کی۔ حضرت ابوعبیدہ؛ حضرت خالد بن ولید اور چند صحابہ کرام کو لے کر قلعہ کی دیوار کے قریب گئے۔قمامہ نے کہا:”اے گروہِ عرب کے سردارو!ہمارا یہ شہر ارضِ مقدس ہے اور اس کے ساتھ برائی کا ارادہ کرنے والے پر اللہ کا غضب نازل ہوتاہے۔اور اللہ تعالیٰ اسے ہلاک کر دیتا ہے۔تم اس شہر کو چھوڑ کر چلے جاو! ورنہ تم پر بھی خدا کا غضب نازل ہو سکتا ہے۔“اس پر حضرت ابوعبیدہ نے فرمایا کہ ”ہمیں معلوم ہے کہ یہ شہر ارضِ مقدس اور بابرکت ہے،اسی شہر سے ہمارے نبی مصطفی جانِ رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم معراج میں آسمان پر تشریف لے گئے۔یہ سرزمین معدنِ انبیاءہے۔یہاں اولوالعزم انبیا و مرسلین کے مزارات ہیں۔اسی ارضِ مقدس پر ہمارا قبلہ اول بھی ہے۔اسی لیے اس سر زمین پر تم سے زیادہ ہماراحق ہے۔اگر تم جنگ بند کرنا چاہتے ہوتو اسلام قبول کرکے ہمارے بھائی بن جاؤ یاجزیہ ادا کر کے ہمارے حفظ و امان میں آجاؤ۔ورنہ جنگ حسبِ سابق جاری رہے گی۔“
حضرت ابوعبیدہ کی بات سن کر قمامہ آگ بگولہ ہو گیا اور کہا:”بے شک اللہ ایک ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں،تمہارا کلمہ حق ہے مگر ہم تمہارے نبی کو اللہ کا نبی نہیں مانتے۔(معاذاللہ)“حضرت ابوعبیدہ نے کہا :” توجھوٹاہے کیوں کہ تم لوگ اللہ کی وحدانیت کے بھی قائل نہیں،حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا کہتے ہو۔جس کا رد اللہ پاک نے اپنے مقدس کلام قرآن کریم میں کیاہے جو ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔اس لیے صدق دل سے اسلام لاؤ یا پھر کسی ایک شرط کو مان لو۔“بطریق قمامہ نے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیااور جزیہ کی شرط کو اپنے لیے باعث ذلت و عار کہا اور کہا:” تم زندگی بھر ہم سے لڑتے رہے تب بھی قلعہ میں داخل نہیں ہو سکتے کیوں کہ جو شخص ہمیں شکست دے کر قلعہ فتح کرے گا اس کے اوصاف و صفات ہماری کتابوں میں مذکور ہیں۔جو تم پر صادق نہیں آتے۔“قمامہ کی بات سن کر حضرت ابوعبیدہ نے ان اوصاف سے متعلق پوچھا تو قمامہ نے بتانے سے انکار کردیا اور کہا کہ ہم تمہیں وہ صفات نہیں بتائیں گے البتہ اسے دیکھ کر فوراً پہچان لیں گے اگر تم اس کا نام جانناچاہتے ہوتو اس کا نام عمر بن خطاب ہوگاجو ”فاروق“ کے لقب سے مشہور ہوگا،اور وہ نہایت سخت مرد ہوگا۔“قمامہ کی زبان سے حضرت عمر فاروقِ اعظم کا اسم مبارک سن کر حضرت ابوعبیدہ اور حضرت خالد بن ولید کے مقدس چہرے کھِل اُٹھے اور مسرور ہوکر راہب سے کہا کہ :”اے رومی پیشوا! آپ جس مقدس ہستی کے بارے میں کہہ رہے ہیں وہ ہمارے سردار اور امیر مدینہ طیبہ میں قیام پذیر ہیں۔اللہ کے دین کے معاملے میں وہ کسی بھی مداہنت کو برداشت نہیں کرتے۔“قمامہ نے کہا :”اگر واقعی وہ تمہارے امیر ہے تو تم قتل و قتال سے رُکے رہو۔انہیں یہاں بلالو۔اگران میں وہ صفات پائی گئیں تو ہم ان کے لیے شہر کے دروازے کھول کر جزیہ کی شرط قبول کر لیں گے۔لیکن ان کے آنے تک جنگ موقوف رکھو۔“حضرت ابوعبیدہ نے منظور کیا۔مجاہدین کے لشکر میں تشریف لاکر سب کو قمامہ سے ہوئی گفتگو سے آگاہ کیااور ایک تفصیلی خط امیرالمومنین فاروقِ اعظم کی خدمت میں حضرت میسرہ بن مسروق کے ذریعے مدینہ منورہ روانہ کیا۔
امیرالمومنین فارقِ حق وباطل سیدناعمربن خطاب نے خط موصول ہونے کے بعد اکابر صحابہ کرام کو جمع کر کے مشورہ کیا۔حضرت علی مرتضیٰ نے جلد از جلد بیت المقدس تشریف لے جانے کا مشورہ دیااور کہا:”میری رائے ہے کہ آپ کا جلد از جلدتشریف لے جانا ہی بہتر ہے۔کیوں کہ رومیوں نے آپ کو دیکھنے کی درخواست کی ہے،اور ان کی یہ درخواست در پردہ ان کی ذلت اور اسلام کی حقانیت اور شوکت کا مظہر ہے۔علاوہ ازیں لشکرِ اسلام طویل مدت سے سخت سردی میں لڑائی کی مشقت برداشت کررہاہے آپ کے جانے سے اگر شہر آسانی سے فتح ہوگیاتو مجاہدین اسلام کو بڑی مشقت سے نجات مل جائے گی۔ اور چوں کہ بیت المقدس تمام عیسائیوں کا قبلہ ہے اور وہ لوگ اسی شہر میں حج کرتے ہیں اس لیے اندیشہ ہے کہ ملک شام کے سارے عیسائی بیت المقدس کی اعانت میں جمع ہوگئے تو اسلامی لشکر کو بہت دشواری کا سامنا ہوگا۔اور اگر آپ تشریف لے گئے تو ان شاءاللہ مسلمانوں کو فتح حاصل ہوگی۔“مولائے کائنات کے عمدہ مشورے کو تمام حاضرین نے پسند کیا اور فاروقِ اعظم بیت المقدس جانے کے لیے تیار ہوگئے۔مسجد نبوی میں نماز ادا کرنے کے بعد بارگاہِ مختارِ کائنات رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں درود و سلام اور استغاثہ پیش کیا۔انتہائی قلیل رختِ سفر، ایک غلام اور چند صحابہ کرام کے ہم راہ سفر کا آغاز کیا۔سفر کی نوعیت یہ تھی کہ نمازِ فجر کے بعد ظہر تک مسافت طے فرماتے۔جس آبادی سے گزرتے رک کر رعایا کے مسائل حل کرتے ،مقدمات کو قرآن و حدیث کی روشنی میں فیصل فرماتے ،مقدمات سے متعلق افراد کو پابندیِ شریعت کی تاکید فرماتے۔بعد نمازِ ظہر وعظ و نصیحت کی مجلس ہوتی۔اہل مجلس کو تقویٰ و پرہیزگاری کا درس دیتے۔اس طرح آپ نے بیت المقدس تک کا سفر طے کیا اور ارضِ مقدس کی سرحد میں قدم رنجہ فرمایا۔امام احمدرضا محدث بریلوی آپ کی شان میں یوں رطب اللسان ہیں:
فارقِ حق و باطل امام الہدیٰ
تیغِ مسلولِ شدت پہ لاکھوں سلام
ترجمانِ نبی ہم زبانِ نبی
جانِ شانِ عدالت پہ لاکھوں سلام

لاکھوں مربع میل وسیع تر اسلامی سلطنت کے فرماں رواں کاانداز سفر کچھ اس طرح تھا کہ ایک اونٹ سواری کے لیے تھاجس پر کبھی امیرالمومنین سواری فرماتے اور خادم مہار تھامے پَیدل چلتا،تو کبھی خادم اونٹ پر سوار ہوتااور امیرالمومنین مہار تھامے پَیدل چلتے۔حضرت ابوعبیدہ چند مجاہدین کے ساتھ آپ کے استقبال کو آئے۔جیسے ہی مجاہدین اسلام نے امیرالمومنین کی سواری دیکھی نعرہائے تکبیر و رسالت بلند کیے۔جس وقت فاروقِ اعظم لشکر کے قریب پہنچے تو صورت حال یہ دیکھی گئی کہ آپ کے ہاتھوں میں اونٹ کی مہار تھی اور خادم سوار تھا۔آپ کے بدن پر جو لباس تھا اس پر چودہ پیوند لگے تھے۔اپنے امیر کی اس سادگی کو دیکھ کر مجاہدین جوش ایمانی سے اشک بار ہوگئے اور رومیوں کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔آپ نے لشکرِ اسلام سے نہایت فصیح و بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا اور اعمالِ صالحہ و تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرنے کی تلقین فرمائی۔پھر حضرت ابوعبیدہ سے ملک شام کی لڑائیوں اور جنگ یرموک کے تفصیلی حالات سماعت فرمائے۔مجلس کے اختتام پر ظہر کا وقت ہوگیا۔
حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد عاشقِ رسول ، موذنِ مسجد نبوی حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ غمِ مفارقت کی تاب نہ لاسکے اور مدینہ منورہ سے ملک شام ہجرت کر گئے تھے۔ اسی غم میں آپ نے اذان کہنا بھی ترک کردیا تھا۔لشکراسلامی کی خبر پا کر وہ بیت المقدس کی جنگ میں شامل ہوگئے تھے۔صحابہ کرام حضرت بلال حبشی کی آواز میں اذان سننا چاہتے تھے،انہوں نے حضرت فاروقِ اعظم سے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ سیدناعمرفاروق نے بھی حضرت بلال کی آواز میں اذان سننے کا اشتیاق ظاہر کیا۔حضرت بلال نے امیرالمومنین کی گذارش کو حکم مان کر تعمیل کی۔کشورِ دل کو فتح کرلینے والی انتہائی پر سوز اور پیاری آواز میں جب اذان شروع کی تو سوزِ عشقِ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے لشکر پر لرزہ طاری ہوگیا،آنکھیں نم ہوگئیں اور کہرام مچ گیا،یادِ حبیب الرحمان صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو تصویرِ محبت بنادیا۔نماز سے فراغت کے بعد امیرالمومنین نے قلعہ کی جانب روانہ ہونے کا ارادہ کیا۔حضرت ابو عبیدہ نے ایک اعلیٰ قسم کا مصری سفید لباس اور عمامہ امیرالمومنین کی خدمت میں پیش کیا اور عرض گذار ہوئے : ”اے امیرالمومنین! ان پیوند لگے کپڑوں کی بجائے ان نئے کپڑوں کو زیب تن فرماکر رومیوں کے سامنے جائیں تاکہ ان پر آپ کا رعب و دَب دبہ طاری ہو۔“ فاروقِ اعظم نے قبول فرمایا۔ابھی چندہی قدم آگے بڑھے تھے کہ یکایک ان کے مقدس چہرے پر گھبراہٹ کے آثار نمودار ہوئے۔فوراً گھوڑے سے اُترے اور اسلامی لشکر میں واپس جاکر وہی پیوند لگے کپڑے زیب تن فرمایا اور کہا:”اس عمدہ لباس سے دل میں غرور و تکبر کے پیدا ہونے کا خوف تھا اس لیے مَیں نے اسے اتار دیا۔“پھر آپ قلعہ کی دیوار کے پاس پہنچے۔بطریق قمامہ اپنے حواریوں،علما ،رؤسا اور اپنی مذہبی کتابوں کے ساتھ آیا۔اس نے بڑی غور سے حضرت فاروقِ اعظم کوسراپا دیکھا،کبھی اپنی مذہبی کتابوں میں مذکور ان صفات کا مطالعہ کرتا اور کبھی فاروقِ اعظم کے رُخِ زیبا کی زیارت کرتا۔دفعتاً بطریق قمامہ نے شور بلند کیا کہ ”قسم خدا کی! یہ (حضرت فاروقِ اعظم) وہی شخص ہے جس کی صفات اور تعریف ہم اپنی کتابوں میں پاتے ہیں اور ان ہی کے ہاتھوں ہمارا شہر (بیت المقدس) فتح ہوگا۔خدا کی قسم! یہ محمد (ﷺ) بن عبداللہ کے صحابی ہیں۔“ اس نے اپنی قوم کو قلعہ سے اترنے اور شہر مسلمانوں کے سپرد کرنے کا حکم دیا۔قمامہ کا حکم سن کر تمام رومیوں نے قلعہ خالی کردیا اور شہر پناہ کا دروازہ کھول کر حضرت عمر فاروق کی خدمت میں حاضر ہوئے اور صلح و امان کی درخواست کی اور جزیہ کی ادائیگی کا اقرار بھی۔

امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب نے رومیوں کے لیے امن اور ذمہ کا عہد لیا اور انہیں شہر کی طرف لوٹا دیا۔پھر آپ اسلامی لشکر میں آئے سب نے سجدہ شکر ادا کیا۔پوری رات عبادت و ریاضت میں گزری۔دوسرے دن امیرالمومنین سیدنا فاروقِ اعظم اسلامی لشکر کے ساتھ بڑی شان و شوکت سے شہر بیت المقدس میں داخل ہوئے۔قبلہ اول سے اللہ کی وحدانیت اور رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا نغمہ بلند ہوا اور قبلہ اول بیت المقدس فتح ہوا۔
(مولانا محمد پرویز رضا فیضانی حشمتی 
6307986692
parvezraza@gmail.com

منگل، 26 مئی، 2020

Mohd Parvez Bhawani Ganj

چور ہو تو ایسا 
                      چور ہو تو ایسا
محمد پرویز
               6307986692
Mohd Parvez Bhawani Ganj 6307986692/9670556798

کسی زمانے میں ایک چور تھا، وہ ایک بادشاہ کے محل میں چوری کرنے کے ارادے سے گیا رات کا وقت تھا اور محل کے ایک کمرے سے بادشاہ اور اس کی بیوی کی گفتگو کی آواز آرہی تھی۔ وہ کھڑے ہو کر سننے لگا، اگرچہ ایسا سننا غلط ہے، ناجائز ہے، چوری ہے لیکن چور تو چوری ہی کرنے آیا تھا تواسے سننے میں کیا چیز مانع ہوتی؟ آخر وہ چور ہی تو تھا۔اس چور نے سنا کہ بادشاہ اپنی بیوی سے کہہ رہا ہے کہ میں اپنی بیٹی کی شادی ایسے آدمی سے کروں گا جو نہایت متقی و پرہیزگار ہو، بہت اللہ والا ہو۔

جب چور یہ بات سن رہا تھا تو اس کے دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ میں کچھ ایسا بن کر دکھاؤں کہ بادشاہ میرے ہی ساتھ شہزادی کی شادی کردے۔دل میں ایک حرص پیدا ہوگئی، اب وہ چوری کرنا تو بھول گیا لیکن دھوکہ دینے پر اتر آیا اور گھر جا کر بہت دیر تک سوچنے لگا کہ کس طرح میں اس بات میں کامیاب ہوسکتا ہوں؟ پھر ایک تدبیر اس کی سمجھ میں آئی کہ بادشاہ کے محل کے قریب ایک مسجد ہے، اس میں جا کر بزرگانہ لباس پہن کر اور ان کی وضع قطع اختیار کر کے وہاں دن رات عبادت میں مشغول ہوکر بیٹھ جاؤں تو شاید یہ بات بادشاہ تک ضرور پہنچے گی کہ کوئی آدمی یہاں ایسا متقی پرہیزگار ہے جو دن رات اللہ کی عبادت میں مصروف ہے، تو ہوسکتا ہے کہ بادشاہ کی نگاہ میرے اوپر پڑ جائے اور میں شہزادی سے شادی کے لئے چن لیا جاؤں۔یہ اس چور کا ایک نہایت حقیر اور ذلیل دنیاوی مقصد تھا، جس کے لئے اس نے یہ ارادہ کیا۔پھر اس نے اپنے پروگرام کے مطابق بزرگانہ لباس و پوشاک، وضع قطع اختیار کر کے اس مسجد میں جا کر نمازوں پر نمازیں، ذکر و تلاوت، مراقبہ سب شروع کرلیا۔ دن گزرتے رہے اور لوگوں میں شہرت ہوتی گئی کہ کوئی اللہ والے بہت بڑے ولی یہاں آگئے ہیں جو دن رات عبادت کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ بات بادشاہ تک پہنچ گئی کہ یہاں کوئی اللہ والے آکر بیٹھے ہیں، جوان، زہدوعبادت میں لاجواب، تقویٰ و طہارت میں بے نظیر، جب بادشاہ کو یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے اپنے ارادے کے مطابق غور وفکر شروع کردیا کہ شہزادی کے متعلق جو سوچا تھا اس کے لئے اسی کا انتخاب کیوں نہ کر لیا جائے۔

بادشاہ نے اس سلسلے میں گفتگو کے لئے اپنے وزیر کو بھیجا، وزیر اس شخص کے پاس مسجد پہنچا اور باادب ہو کر اس سے کہا کہ میں آپ کی خدمت عالیہ میں بادشاہ کی طرف سے ایک پیغام لے کر آیا ہوں، اس نے پوچھا کہ کیا پیغام ہے؟وزیر نے بتایا کہ بادشاہ نے کئی سال پہلے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح ایک ایسے شخص سے کریں گے جو بڑا متقی و پرہیز گار ہو، اللہ والا ہو اور وہ اس کی تلاش میں تھے، ان جو نظر گئی تو نظر انتخاب آپ پر آکر رک گئی ہے، لہذا بادشاہ نے مجھے بھیجا ہے کہ اس سلسلے میں آپ سے گفتگو کروں۔یہ شخص جو در اصل اسی تمنا و آرزو میں یہاں آکر بیٹھا تھا بہت دیر تک وزیر کی گفتگو سنتا رہا، اس کے بعد اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، وزیر نے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ تو کہنے لگا کہ آج جو پیغام لے کر آپ آئے ہیں یہ پیغام مجھے منظور نہیں ہے،وزیر نے کہا کہ کیوں منظور نہیں؟اس شخص نے کہا کہ دیکھئے میں صاف صاف بات آپ کو بتاتا ہوں کہ میں اصل میں ایک چور تھا اور ایک مرتبہ بادشاہ کے محل میں چوری کے ارادے سے گیا تھا۔پھر جو کچھ بھی ہوا اس کو سنایا اور اس کے بعد اس چور نے کہا کہ میں نے تو یہ وضع قطع اسی حرص کی وجہ سے اختیار کی تھی لیکن میں یہاں آکر بیٹھا تو میرے خدا نے مجھے اپنا بنا لیا، اب بس اس کے بعد مجھے اور کسی کی ضرورت نہیں میرے لئے میرا خدا کافی ہے۔بے شک! جب عبادت عبادت ہوجائے، نماز نماز ہوجائے، ذکر ذکر ہوجائے اور ہماری دیگر عبادتیں واقعی عبادتیں ہوجائیں تو بے شک یہ نمازیں اور عبادتیں انسان کو برائیوں سے روکتی ہیں۔۔۔

مولانا محمد پرویز رضا فیضان 
دارالعلوم اہلسنت فیضان مصطفی اشرف نگر بھوانی گنج ضلع سدھارتھ نگر یوپی 
6307986692/9670556798

پیر، 25 مئی، 2020

آج اللہ رب العزت کی توفیق سے ہم صحیح البخاری کے 37 ویں باب کا آغاز کر رہے

آج اللہ رب العزت کی توفیق سے ہم  صحیح البخاری کے 37 ویں باب کا آغاز کر رہے
✒️ . مولانا محمد پرویز رضا فیضان حشمتی 
 
آج اللہ رب العزت کی توفیق سے ہم  صحیح البخاری کے 37 ویں باب کا آغاز کر رہے
 ہیں۔اور اس کا عنوان امام بخاری نے یہ قائم فرمایا ہے کہ یہ باب اس موضوع پر ہے کہ مؤمن کا ڈرنا اس بات سے کہ کہیں اس کے سارے عمل ضائع نہ ہو جائیں اور اس کو اس کا شعور بھی نہ ہو۔اس کو اس بات کا اندازہ بھی نہ ہو،ادراک بھی نہ ہو،احساس بھی نہ ہو کہ میرے تمام اعمال رائیگاں چلے گئے اور نامہ اعمال خالی ہو گیا،وہ تمام نیکیاں،حسنات ،اطاعات ،  
خیرات جو زندگی بھر اس نے انجام دیں وہ کسی وجہ سےختم ہو چکی ہوں اور اس کو اس امر کا اندازہ بھی نہ ہو۔
امام بخاری اس باب میں فرماتے ہیں کہ اس امر سے مومن کو ڈرنا چاہیے اور ہمیشہ ڈرتے رہنا چاہیے اگر یہ خوف برقرار رہے تو اس کو وہ ایمان کہتے ہیں،اگر یہ خوف بندے کے دل سے چلا جائے بندہ بےخوف نڈر ہو جائے تو اس کو امام بخاری نفاق سے تعبیر کر رہے ہیں گویا وہ عملآ منافق ہو جائے گا ، یعنی منافقوں کی ایک خصلت اس کے اندر آ جائے گی۔ یہ نفاق اعتقادی نہیں نفاق عملی ہو جائے گا، اس باب کے تحت امام بخاری چند اقوال لائے ہیں اور وہ جو آثار ہیں وہ آثار تابعین کے ہیں، سب سے حضرت ابرہیم التیمی کا زکر لائے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ میں جب بھی اپنے قول کو اپنے عمل کے اوپر پیش کرتا ہوں یعنی جو کچھ میں زبان سے کہتا ہوں لوگوں کو تلقین کرتا ہوں وعظ کرتا ہوں تبلیغ کرتا ہوں،جس امر کی تدریس کرتا ہوں،تربیت کرتا ہوں،نصیحت کرتا ہوں جو کچھ میں لوگوں سے تعلیم و تربیت کے لیے کہتا ہوں، فرماتے ہیں کہ جب میں اپنے اس قول کو اپنے عمل کے سامنے پیش کرتا ہوں تاکہ دیکھوں کہ میرا اپنا عمل میرے قول کے مقابلے میں کہاں کھڑا ہے، کیا میرا اپنا عمل میرے قول میرے کہنے کے عین مطابق ہے،اسی درجے میں ہے یا میرے قول اور عمل میں فرق ہے۔
قول یعنی نصیحت تربیت کلمہ کہیں اونچا ہے اور میرا اپنا عمل conduct اور behavior جو انجام دیتا ہوں اس سے بہت نیچے ہے۔
جب میں اپنے قول کو اپنے عمل کے سامنے پیش کرتا ہوں تو مجھے ہمیشہ اس امر کا ڈر لگتا ہے کہ کہیں میں جھوٹا تو نہیں یعنی اپنے عمل سے اپنے قول کی تکزیب تو نہیں کر رہا یعنی میرا اپنا عمل ہی میرے قول کی نفی تو نہیں کر رہا، مجھے ڈر لگتا ہے کہ میرے قول اور میرے عمل میں وہ مطابقت اور ایک درجے پر ہونے کی موافقت شاید نہیں ہے اپنے عمل کو نیچا اور اپنے قول کو اونچا دیکھتا ہوں اور اس کا ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں میرا عمل میرے قول کی تکزیب نہ کر دے ۔
اور یہ نفاق میرے ایمان کی ضد نہ بن جائے اور بعض نسخوں میں مکذبآ  ذ پر زبر کے ساتھ بھی لکھا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے اگر اس کو لیا جائے تو معروف نسخوں میں تو یہی مکذبآ ہے  ۔ اگر مکذبآ لیا جائے کہ جب اپنے قول کو عمل کے سامنے پیش کرتا ہوں تو اور لوگ بھی میرے قول اور عمل کا فرق دیکھتے ہوں گے تو کہیں میرے کہے کی تکزیب نہ کر دی جائے ، مجھے جھوٹا نہ قرار دے دیا جائے کہ میں جو کچھ کہتا ہوں غلط ہے خود اس پر عمل نہیں کرتا یہ پہلا معنی ہے۔
اس کا جو اتصال سند کا مسئلہ ہے آپ کو معلوم ہے کہ یہ نکتہ کئی مواقع پر میں واضح کرتا رہتا ہوں اپنے ان دروس اور حلقات میں جب کوئی نیا باب آتا ہے ،جب امام بخاری نئی تعلیقات لاتے ہیں نئی مرویات لاتے ہیں بغیر سند کے تو اس وقت میں اس نکتے کو ہمیشہ ساتھ ہی ساتھ واضح کرتا ہوں تاکہ امام بخاری کا  تخریج حدیث، قبول حدیث میں جو مذہب ہے مسلک ہے ۔ اس کے بارے میں پائے جانے والے مغالطے دور ہو جائیں۔
اب یہی جو قول جس سے امام بخاری نے اس باب کا آغاز کیا ہے،اس کے بعد یاد رکھ لیں حدیث نمبر 48 لا رہے ہیں،جیسا کہ آپ کو معلوم ہے پوری سند کے ساتھ امام بخاری جب حدیث کی تخریج کرتے ہیں،حدیث کو جب وارد کرتے ہیں تو اس سے قبل جو کچھ بیان کرتے ہیں معلقات کے طور پر وہ اس کے مقدمہ میں اور ترجمۃ الباب کا جو content ہوتا ہے ہم گفتگو اس حوالے سے کرتے ہیں،اس سے وہ استدلال لیتے ہیں اپنے چیپٹر کے اس ہیڈنگ heading کا اس subject کا اس موضوع کا  جس پر وہ باب قائم کر کے جو حقائق اعتقادی اعتبار سے،ایمان کے اعتبار سے ثابت کرنا چاہتے ہیں تو گویا جن اقوال کو اپنی باسند حدیث کی تخریج سے بھی پہلے اپنے موقف کی تائید میں اور موقف کو ثابت کرنے کے لیے جن اقوال ، مرویات اور آثار کو لے آتے ہیں وہ اکثر و بیشتر امام بخاری کی اپنی کتاب صحیح البخاری کی مرویات نہیں ہوتیں یعنی مسند مرویات نہیں ہوتیں، وہ دیگر آئمہ کے طرق سے لی ہوئی ہوتی ہیں۔
 جس سے وہ اپنے مذہب کو establish کرتے رہتے ہیں کہ میں اس کا بھی قائل ہوں، امام ابراہیم التیمی یہ اکابر تابعین کے عظیم فقہاء اور عبادت گزار لوگوں میں سے تھے۔اور وعظ و تربیت فرماتے تھے اور علم بھی تھے واعظ تھے مربی تھے تربیت فرماتے تھے ، لوگوں کے حلقات قائم کرتے تھے اور یہ جو فرمایا کہ میں جب بھی اپنے قول کو اپنے عمل کے سامنے پیش کرتا ہوں تو اس خطرے کے پیش نظر کہ کہیں میری تکزیب نہ ہو جائے یا میں خود تکزیب کرنے والا نہ بن جاؤں اپنے عمل سے اپنے قول کی نفی نہ کرنے والا بن جاؤں،اس کے لیے امام قسطلانی نے ارشاد الساری میں حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں علامہ عینی نے عمدۃ القاری میں اور امام ابن ملقن کی التودیق میں اور دیگر آئمہ جو صحیح بخاری کے شارحین ہیں وہ سب چیزیں بیان کرتے ہیں، مطلب ان کا یہ تھا کہ وہ جب اپنے قول کو اپنے عمل کے سامنے پیش کرتے تو انہیں احساس ہوتا کہ جس اونچے درجے کی میں نصیحت کرتا ہوں کہ شاید اس اونچے مرتبے پر میرا عمل خود اونچا نہیں ہے، میرا عمل اس اونچے درجے کی انتہا تک نہیں پہنچا،  تکزیب اور نفاق کا خطرہ کیوں محسوس کرتے،ادھر دھیان کیوں جاتا کہ حکم یہ ہے کہ جو شخص امر بالمعروف کرتا ہو نیکیوں کا حکم دےاور نہی عن المنکر کرے اور برائی سے لوگوں کو روکے اگر اس کے اپنے عمل میں کوئی قصور، کوئی نقص ،کوئی کمی رہ جائے تو یہ اس کے منصب کے خلاف ہے۔ یہ نفاق کی طرف لیجائے گا گویا اس کا عمل اس کے قول کی تکزیب کر رہا ہے۔
قرآن مجید کا فرمان ہے کہ اللہ کے ہاں یہ بہت بڑا گناہ ہے کہ جو کچھ کہتے ہو وہ تم خود نہیں کرتے سو اس وجہ سے انہیں اپنے مکذب یعنی اپنے اوپر تکذیب کا یہ احتمال پیدا ہوتا ہے،اب یہ جو قول ہے مکذب ہونے کا یا مکزب ہونے کا دونوں صورتوں میں معنی میں نے سمجھا دیا،اس قول کو امام بخاری نے روایت موصولہ کے طور پر پیش نہیں کیا اس کی صحیح بخاری میں خود سند پیش نہیں کی ۔اس قول کو موصول کیا ہے امام بخاری نے اپنی کتاب التاریخ الکبیر میں، وہاں یہ قول قول موصول ہے ۔مگر اس کے اندر جو راوی ہیں وہ امام بخاری نے جو صحیح بخاری میں اس خاص کتاب کے لیے جو شرط مقرر کی تھی اس شرط پر ایک آدھ راوی پورا نہیں اترتا تھا اس وجہ سے امام بخاری صحیح البخاری میں نہیں لیے مگر انہیں معلوم ہے کہ بھلے صحیح بخاری بھی میری مقرر کردہ شرط پر اگر کوئی راوی یا سند پوری نہ بھی اترے تو still  یعنی even then سند اور روایت قبول ہے اس سے استدلال کر سکتے ہیں اسے قبول کر سکتے ہیں اس سے مسئلہ اور حکم اخذ کر سکتے ہیں کیونکہ صحیح بخاری کی شرط انہوں نے ہی مقرر کی تھی اور ان کو پتہ تھا کہ اس سے کم درجے کی پوری اترنے والی سند بھی مقبول ہے اور صحیح ہے اس موصولہ کو اپنی کتاب التاریخ الکبیر میں روایت کر لیا ہے ۔پھر اس کو امام ابو نعیم نے روایت کیا ہے،امام احمد بن حنبل نے اپنی کتاب الزہد میں روایت کیا ہے، ان دونوں نے حضرت سفیان ثوری سے روایت کیا ہے انہوں نے ابو حیان التیمی سے اور انہوں نے ابراہیم التیمی سے مگر امام بخاری نے صحیح بخاری میں یہ ساری سند چھوڑ کر ابراہیم التیمی نے یہ فرمایا وہ لے لی ہے ۔گویا اسی طرح اس کو موصولآ قاسم لالیکائی نے بھی اپنی سند کے ساتھ بیان کیا ہے یہ شرح اصول اعتقاد اہل سنہ میں بھی اسناد جید کے ساتھ لیا ہے اور انہوں نے قاسم بن جعفر سے انہوں نے محمد بن احمد بن حماد سے انہوں نے  عباس بن عبداللہ سے انہوں نے محمد بن یوسف سے انہوں نے سفیان سے انہوں نے ابو عیان سے اور انہوں نے ابراہیم التیمی سے، اوپر والے آئمہ کی سند چھوٹی ہے اور وہ قریب کا زمانہ ہے اور بعد میں بھی الگ الگ سندیں ہیں۔
امام بخاری نے اس کو اس طرح لے لیا ہے ۔
اس کے بعد دوسرا قول امام بخاری اس پہ لائے ہیں اس کا تھوڑا معنی بھی میں نے بیان کر دیا تو اس کو بھی ہم ساتھ ہی attend کرتے ہیں، تینوں اقوال کو اکھٹا کرکے پھر میں اس کے مفہوم کو لے لوں تو یہ سمجھنے اور سمجھانے میں آسان ہو جائے گا، اسناد کے مسئلے کو پہلے لے لیتا ہوں اور پھر ان اقوال کے معنی کو اکھٹا لے لیتے ہیں
 دوسرا ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا،ابن ابی ملیکہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں 30 کے قریب صحابہ کرام کو اپنی زندگی میں پایا ۔جلیل القدر تابعی ہیں 30 صحابہ کرام سے ملاقات ہے ان سے سماع کیا ہے اور استفادہ کیا ہے اور ان کو دیکھا ہے ہر ایک صحابی کو وہ اپنی جان پر نفاق کا ڈر رکھتے تھے اور خوف زدہ رہتے تھے کہ کہیں میں منافق تو نہیں ہو گیا،کہیں میرے اندر نفاق تو داخل نہیں ہو گیا، کہیں میں نفاق کے دائرے میں تو نہیں چلا گیا،30 کے 30 صحابہ کا ایمان یہ تھا یہ انکی وراء تھی یہ ان کا تقوی تھا، یہ انکی پرہیز گاری تھی ،یہ ایمان کی حقیقت کی معرفت تھی ،اللہ کا خوف تھا اور ایمان کو محفوظ و مامون رکھنے کی فکر تھی کہ ہر صحابی اس امر سے ڈرتا رہتا تھا کہ کہیں میرے ایمان کے دائرے میں نفاق تو نہیں داخل ہو گیا۔
پھر فرمایا کہ ان میں سے کوئی ایک بھی صحابی ایسا نہ تھا جو یہ سمجھتا ہو یا دعویٰ کرتا ہو کہ وہ جبرائیل علیہ السلام یا میکائیل علیہ السلام کے ایمان کے درجے پر ہے ۔
سمجھانا یہ چاہتے ہیں کہ صحابہ کرام سے بڑھ کر ایمان کا رتبہ کس کا ہو گا ، درجہ ایمان اگر ناپنے لگیں تو صحابہ کرام کی جماعت سے بلند تو قیامت تک کسی طبقے اور کسی دور کے ایمان کا درجہ ان سے اونچا تو نہیں ہو سکتا۔یہ بلند ترین ایمان ہے اور بلند ترین ایمان کے مقام پر بسنے والے اور آقا علیہ السلام کی صحبت اور تربیت سے براہ راست فیض یاب ہونے والے صحابہ کرام جن کے ایمان کی گواہی اللہ ربّ العزت قرآن مجید میں دے چکے ہیں اور آخرت میں سب سے جنت کا وعدہ فرما چکے ہیں، خواہ وہ فتح مکہ سے پہلے ایمان لانے تھے درجے میں وہ بلند ہیں اور خواہ بعد میں ایمان لائے مگر اللہ رب العزت نے وعدہ جنت کا اور حسن آخرت کا سب سے کیا ہے تو جن کے ایمان کی قبولیت کی سند اللہ ربّ العزت نے دیدی ہے اس میں تو شک و شبہ بھی نہیں کیا جا سکتا، فرماتے ہیں کہ ان صحابہ کے زہد وراء ،تقوی ، پرہیز گاری ، خشیت الٰہی کا کہ وہ اپنے میں سے کوئی ایک شخص بھی اپنے ایمان کو جبرائیل اور میکائیل کی طرح کامل نہیں دیکھتے تھے ، لرز جانے کا ڈر رکھتے تھے، نفاق سے خوف زدہ رہتے تھے۔
یہ جو امام ابن ابی ملیکہ کا قول ہے جو امام بخاری لیکر آئے ہیں یہ بھی جلیل القدر تابعی ہیں اور انکا بھی اسی طرح جیسے میں نے پہلے عرض کیا ان کا قول بھی امام بخاری مسندآ نہیں لائے اس کی سند بھی دیگر آئمہ کے پاس ہے اور امام بخاری نے انکی سند سے یہ قول قبول فرما لیا ہے اور اپنے ہاں تعلیقآ بیان کیا ہے اور اس قول کو موصولآ بیان کیا ہے امام ابن ابی خیصمہ نے اپنی تاریخ میں اور اسی طرح امام محمد بن نصر المرخصی نے اور اس کی تائید کی ہے امام زراء دمشقی نے اپنی تاریخ میں اور امام بخاری نے ان آئمہ کے طرق سے یہ اثر ابنِ ابی ملیکہ کا اپنی سند کے بغیر صحیح بخاری میں درج کر لیا ہے اور اس سے اپنا مسئلہ ثابت کیا ہے یہ امام ابن ابی ملیکہ جو جلیل القدر تابعی تھے انہوں نے خود فرما دیا کہ 30 صحابہ کرام سے ملے اور ہر ایک کے ایمان کا عالم یہ تھا اور ان میں جو سب سے اجل تھے وہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رض سے بھی ملے ان کی ہمشیرہ حضرت اسماء بنت ابی بکر رض ان سے بھی ملے ،ام المومنین حضرت ام سلمیٰ رض ان کا زمانہ بھی پایا،اور حضرت عبداللہ ابن عباس رض،حضرت عبداللہ بن عمر رض ،حضرت عبداللہ ابن مسعود رض اور حضرت عبداللہ بن عمر بن العاص رض ان چاروں صحابہ کرام سے بھی ملے ، حضرت ابو ہریرہ رض سے ملے اس طرح کئی اور صحابہ کرام ہیں تیس کے قریب ان سے ملے اور یہ وہ لوگ جن کے حوالے سے یہ وہ کہہ رہے ہیں،ویسے وہ ملنے والوں میں حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے بھی ملاقات ہے ،سعد بن ابی وقاص رض سے بھی ملاقات ہے اور وہ جزم کے ساتھ کہتے ہیں کہ ان میں سے ایک شخص بھی ایسا نہیں تھا جو یہ دعویٰ کرتا ہو یا خیال رکھتا ہو کہ میرا ایمان جبرائیل اور میکائیل علیہ السلام کی طرح اتنا کامل اور ارفع ہو گا
 ہر شخص ڈرتا تھا کہ کہیں میری زندگی میں نفاق تو نہیں داخل ہو گیا ،یہ ان صحابہ کرام کے وراء اور تقوی کا یہ عالم تھا اور پرہیزگار گاری اور ایمان کو محفوظ رکھنے کی فکر  میں  اتنا مبالغہ کرتے تھے اور نفاق کی چھوٹی چھوٹی خصلتیں اور چھوٹے چھوٹے معاملات جن کے زریعے نفاق داخل ہو سکتا ہے ان سے بچاؤ میں اتنی احتیاط کرتے ،جبرائیل اور میکائیل علیہ السلام کی مثال اس لئے دی ہے کہ یہ ملائکہ کے اندر بھی ایمان کے سب سے اعلیٰ درجے کے مقام پر فائز تھے ،اشارہ اس امر کی طرف تھا کہ جس طرح کوئی تصور نہیں کر سکتا کہ ان ملائکہ کے ایمان میں بھی  کوئی نقص ہے اور ان کے اوپر تو پھر جبرائیل و میکائیل علیہ السلام تھے، اس طرح اپنے ایمان کو اس  درجے کا  باکمال اور ارفع و اعلیٰ نہ خود کوئی تصور کرتا تھا اور نہ اس کا  کوئی دعویٰ  رکھتا تھا ۔
ابن ابی ملیکہ کا قول چھ مختلف طرق سے امام جعفر الفریابی نے بیان کیا ہے جس کو امام بخاری نے اپنی کسی طریق اور سند سے نہیں لیا مگر یہی قول چھ مختلف طرق اور اسناد سے ثابت ہے۔
جعفر الفریابی نے قتیبہ سے انہوں نے جعفر بن سلیمان سے انہوں نے معلی بن زیاد سے یہ ایک طریق ہے یہی  قول ہے ،اسی طرح ابو قدامہ عبید اللہ بن سعید نے   حماد بن زید کا لیکے آگے پھر جاتا ہے اور امام احمد بن حنبل نے بھی کتاب الایمان میں اس طریق سے لیا ہے ۔
اس کے بعد امام بخاری نے اگلا قول لیا ہے امام حسن بصری رض سے یہ بھی جلیل القدر تابعی تھے اور امام بخاری کی ولادت سے بہت پہلے وصال فرما گئے تھے اب ان کو بھی مسندآ نہیں لیا دیگر آئمہ کے طریق سے لیا ہے ثابت کرنے کے لیے کہ امام بخاری حدیث صحیح ان  احادیث کو بھی سمجھتے ہیں اور آثار صحیحہ ان آثار کو بھی روایات صحیحہ اور مقبولہ ان احادیث کو بھی جو دوسرے آئمہ نے اپنے طریق سے اپنی کتابوں میں لی ہیں اور امام بخاری نے اسے صحیح البخاری میں نہیں لیا وہ بھی صحیح ہیں۔
امام بخاری ہر باب کے شروع میں almost یہ ثابت کر کے بتا رہے ہیں کہ لوگوں جو کچھ میں نے مسندآ سند کے ساتھ اپنی صحیح بخاری میں لیا ہے صرف وہ مواد اور روایات ہی  صحیح نہیں ہیں ان کے علاؤہ ہزار ہا صحیح ہیں جن کو میں لیتا ہوں میں درج کرتا ہوں صحیح بخاری کے مقدمہ میں ہر باب اور ہر کتاب کے شروع میں اور دیگر آئمہ کی ،ان کو مسترد نہ کردینا کہیں میری جامع الصحیح کا معنی یہ نہ سمجھ لینا کہ جو بخاری میں ہے وہ لیں گے اور جو بخاری میں نہیں وہ نہیں لیں گے ،دین کو مسترد کر دیں گے ۔میں خود بخاری کے اندر دیگر آئمہ کے طرق سے ان کی روایات صحیحہ لیتا ہوں ۔ دراصل ان کا ایک مقصد یہ ہے ، پھر امام حسن البصری کا اگلا قول لیا ہے جس میں امام حسن البصری سے منقول ہے فرماتے ہیں کہ کوئی شخص جو نفاق سے بےخوف ہو جائے اور یہ سمجھنے لگے کہ میرے اندر نفاق داخل ہی نہیں ہو سکتا، مجھے کوئی خوف کوئی خطرہ نہیں میں اتنا مضبوط اتنا مستحکم ہو گیا ہوں اور اتنا  fool proof ہو گیا ہوں کہ میرے ایمان اتنا قلعہ بند ہو گیا ہے کہ نفاق اس میں داخل ہی نہیں ہو سکتا ، جو نڈر اور بے خوف ہو جائے فرمایا وہ منافق ہے یعنی نفاق کا خوف جس میں ختم ہو جائے اور نڈر ہو جائے اور سمجھے کہ میں نے تو اتنی مدت دین کی خدمت کی ہے ، میں نے اتنا کچھ پڑھا ہے ،اتنے اساتذہ سے پڑھا ہے ،اتنی کتابیں لکھی ہیں،اتنے عمل کیے ہیں ،دین کی اتنی اطاعت کی ہے ،اتنی دعوت وتبلیغ کی ہے اتنے لوگوں کو خیر کی راہ پر لایا ہوں، میری پوری زندگی خیر پر گزری ہے ۔ یہ بات تمام لوگ سمجھیں  ، علماء بھی جو ہمہ وقت دین کی خدمت اور فروغ علم دین کی خدمت میں رہتے ہیں ، طلباء بھی جو ہر وقت دین کی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور کتابوں کے اندر رہنے والے،ہر وقت صبح وشام دین کی تبلیغ کرنے والے اور جو لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتے ہیں اور کارکن جنہوں نے زندگیاں دین کی دعوت و تربیت میں تبلیغ میں اور دین کے فروغ کے لیے گزاری ہیں دس  بیس چالیس سال زندگی گزار دی ہے سارے دھیان سے سنیں کہ میں نے اتنا عرصہ صرف کر دیا ہے میں نے اتنا کچھ کر دیا ہے، میں اتنوں کی صحبت میں بیٹھا ہوں ،اتنا سیکھا ،اتنا لکھا ، اتنا کچھ کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اب آوروں کے نفاق کی فکر کروں میرے اندر تو نفاق نہیں آ سکتا، میں کبھی بھی منافق نہیں ہو سکتا ، میرا ایمان اتنا مضبوط ہو گیا ہے کہ اب نفاق ادھر نہیں آتا، جو یہ سمجھتا ہے امام حسن بصری سمجھتے ہیں کہ وہی منافق ہے ۔
جو نفاق سے بےخوف ہو جائے وہ منافق ہے اور جسے نفاق کا ہر وقت ڈر رہے وہ مؤمن ہے ۔
 اسے ڈر رہے نفاق کا کہ کہیں میں منافق تو نہیں ہو گیا کہیں میرا ایمان متزلزل تو نہیں ہو گیا، کہیں میرا قول میرے فعل کے ساتھ متضاد تو نہیں ہو گیا، کہیں میرا عمل میرے قول کے مرتبے سے گر تو نہیں گیا، کہیں میری نیت کے صدق میں تبدیلی تو نہیں آ گئی، کہیں میرے نفس کا غصہ کسی کے لئے میری نفرت میرے صدق و اخلاص کے اوپر غالب تو نہیں آ گئی۔کہیں میری اندر اغراض نفسانی ، دنیوی اغراض، پریشانیاں ، مشکلات، جو معاملات زندگی میں آتے ہیں انسان کی طبیعت میں تغیر پیدا کرتے ہیں ایسے معاملات وقتآ فوقتاً لائف میں آتے ہیں ، حالات ایک جیسے نہیں رہتے کبھی مالی مشکلات آ جاتی ہیں،آپ کو فروانی تھی اچھے حالات تھے،ایمان کی کشتی بھی بغیر ہچکولے کے  بڑی ٹھیک چل رہی تھی۔ایک زمانہ ایسا آ جاتا ہے مالی مشکلات آ جاتی ہیں ، کاروبار بگڑ جاتا ہے،وسائل تھوڑے ہو جاتے ہیں تنگیاں آ جاتی ہیں،دوست احباب مخالف ہو جاتے ہیں ،آپ کے پاس منصب کوئی نہیں رہتا ،راحت کوئی نہیں رہتی اس سے زہنی سکون متاثر ہوتا ہے ،انتشار فکری پیدا ہوتا ہے، فرسٹریشن پیدا ہوتی ہے ،ایمان کو آسانی سے بچاتے چلے جانا جتنا آسان سکون کے زمانے میں ہے اتنا آسان پریشانی کے زمانے میں نہیں ہے ۔
جب آپ راحت میں تھے تو ایمان کے بچانے میں بھی آسانی تھی جب آپ تنگی میں آتے ہیں فرسٹریشن میں آتے ہیں مشکل میں آتے ہیں ، پھر اگر آپ کی صحبتیں بدل جاتی ہیں،دوستیاں بدل جاتی ہیں یا رغبتیں بدل جاتی ہیں،پھر فیملیز آ جاتی ہیں بچے بڑے ہو جاتے ہیں تقاضے پریشرز بڑھ جاتے ہیں ، اکنامک پریشر ،سوشل پریشر ،پولیٹیکل پریشر ، envormental pressure ، ماحولیات کے پریشر ، آپ کی زندگی میں مختلف جو effects کرنے والے factors ہیں وہ change ہو جاتے ہیں، جیسے حالات میں تغیر آتا ہے ویسے ویسے اندر کے حالات میں تغیر آ جاتا ہے اور اندر جب حال بدلتا ہے تو ایمان کی حالت وہ نہیں رہتی ،ایمان ایک کشتی ہے جوں ہی اگر دریا یا سمندر کے پانی میں کوئی طغیانی نہ ہو تو سکون وہ چل رہی ہے اگر طغیانی آ جائے تو کشتی ہچکولے کھاتی ہے جب ہچکولے کھاتی ہے تو دیکھنا ہے کہ کہیں پانی تو اچھل کر کشتی میں نہیں آ گیا ۔
اس وقت وہ جو ہچکولے کھانا ایمان کا وہی حالت نفاق ہے، اس میں نفاق کا خطرہ ہوتا ہے یا نفاق کے آ جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جو آدمی بےفکر ہو جائے پچھلی زندگی کو دیکھ کر یہ سمجھے کہ اگلی زندگی مرتے دم تک میرے ایمان کو تو نفاق کا خطرہ ہی نہیں میں کبھی منافقت کی راہ پر نہیں جا سکتا ، میں ڈانواں ڈول نہیں ہو سکتا، میری سوچ منفی اور غلط نہیں ہو سکتی ، کسی قسم کی فرسٹریشن اور پریشانی میرے ایمان کو نقصان نہیں پہنچا سکتی ۔ جو آدمی ہوں سمجھنے لگے وہ منافقت ہے۔
سیدنا امام حسن بصری فرماتے ہیں کہ یہی منافقت ہے کہ کشتی بڑی smoth sailing کر رہی ہو اس میں کوئی ہچکولے نہ ہوں خیر کے ساتھ چل رہی ہو اور وہ ڈرتا رہے کہ کہیں نفاق نہ آ جائے وہ مؤمن ہے ۔ 
ہم بلکل الٹ صورت میں چلے گئے ہیں اور تمام دین کے خدمت کرنے والے کارکن تنظیموں میں جماعتوں میں،تحریکوں میں کام کرنے والے دینی کارکن ہوں ،علماء ہوں اساتذہ ہوں ، مبلغین ہوں،آئمہ ہوں خطباء ہوں ،طلباء و طالبات ہوں تو اس کا خطرہ اور زیادہ ہے کہ کسی بھی وقت شیطان اس کی کشتی پر حملہ کر کےاس طلاطم کی نذر کر دے ۔
یہ وہ بیان کرتے ہیں جو بے خوف  ہو جاتا ہے اس کو منافق کہتے ہیں یہ سیدنا امام حسن بصری رض کا قول تھا۔
آگے روایت کیا ہے مختلف آئمہ نے امام بخاری نے اس کی جو سند ہے وہ اپنی تو سند نہیں لی وہ امام ابو قدامہ عبیداللہ  بن سعید کی سند سے لیا ہے اور وہ چلتے ہوئے امام حسن بصری تک پہنچتی ہے
ایک اور سند عبدالاعلی بن حماد عن حماد بن سلمی عن حبیب بن شہید وہ امام حسن بصری تک جا پہنچتی ہے ،ایک اور حشام بن عمار انہوں نے اسد بن موسیٰ انہوں نے ابی الاشہب اور وہ سند امام حسن بصری س آئی ہے ،الغرض دیگر آئمہ کے پاس مختلف چھ سات طرق  ہیں۔امام بخاری نے ان کے طرق پر اعتماد کرتے ہوئے اپنے پاس روایت کرلی ۔
اثر ایک جلیل القدر تابعی کااب جو اس کا basic مفہوم ہے وہ اشارہ اس امر کی طرف ہے کہ جو شخص نفاق کے خطرے  سے بے خوف ہو جائے وہ منافق ہے جس کو نفاق کا ڈر لگا رہے اور حفاظت کرنا رہے جس کو جتنا ڈر ہو گا وہ اتنی حفاظت کرے گا اور جو بے خوف ہو جائے گا۔ وہ بے خوف ہونے کی وجہ سے اتنا relax ہو جائے گا، سمجھیں آپ کے پاس سونا ہے بڑے اعلیٰ قسم کے ہیرے جواہرات ہیں اور آپ کو چوری چکاری کا کوئی خوف نہیں،آپ کی سوسائٹی میں ڈاکہ زنی چوری نہیں ہے، بلکل سو فیصد اطمینان ہے آپ اس کو اتنا سیف لاکوں میں نہیں رکھیں گے پڑا رہے گا چوری کا خطرہ کوئی نہیں، ایسی جگہ ہو سکتا ہے بعض ویسٹرن ممالک میں جہاں چوری ،ڈاکہ زنی نہیں ہے مگر جس سوسائٹی میں چور  ڈاکو موجود ہیں وہاں کوئی اسی طرح بے خوف ہو کر  کھلا رکھ دے وہ تو چور آ کے لیجائے گا۔
ایمان کا باب اس طرح ہے ،ایمان ایک خزانہ ہے اور نفاق یہ چور اور ڈاکو ہیں،چور اور ڈاکو شیاطین  ہر وقت بندے کا مومن کا ایمان چوری کرنے کے لیے اس کے ایمان پر ڈاکہ ڈالنے اور اس میں نفاق اور کفر داخل کرنے کے لیے ہر وقت گھومتے رہتے ہیں، وہ دیکھتے ہیں کہ ادھر کوئی شخص بےفکر ہوا نہیں ادھر ڈاکو نے حملہ نہیں کیا جونہی بندہ بےفکر ہوتا ہے وہ relax ہوتا ہے وہ اس کی حفاظت میں تھوڑی سی احتیاط کم کرتا ہے چور گھس جاتا ہے اور وہ چرا کر لیجاتا ہے۔ایمان اور نفاق کے ساتھ یہ matter ہے ، شیطان اور اس کی نسل ہمہ وقت اس شخص کے اردگرد اس کی راہ پر اس کے گھر کے اردگرد اس کے دل کے اردگرد، اس کی نیت کے اردگرد ہر وقت اس کی زندگی میں گھومتے رہتے ہیں،گھور کے دیکھتے رہتے ہیں کہ کب غافل ہوتا ہے،کب بےفکر ہوتا ہے کب نڈر ہوتا ہے۔ بس اس کو چاہیے ایسا  بندہ جو بےفکر ہو جو سمجھے میں منافق نہیں ہو سکتا ،اسے یہ چاہیے،اسے امید ہو کہ میرے ایمان میں کوئی کمی نہیں آ سکتی ،اسے ایسا بندہ چاہیے جسے یہ خیال آ جائے کہ میرا ایمان لٹ نہیں سکتا ۔میں نے دین کا  اتنا کام کیا ہے۔جونہی یہ خیال آیا سمجھیں دیوار گر گئی چوروں اور ڈاکوؤں کے لیے راستہ کھلا ہو گیا وہ اس کا سارا ایمان لوٹ کر لے گئے۔
 تابعین اور صحابہ کرام اس کی فکر کرتے تھے۔
اب یہ جو تمام اقوال ہیں اس کی تائید میں ایک حدیث صحیح مسلم کی دے رہا ہوں،امام مسلم یہ حدیث کتاب التوبہ میں لائے ہیں یہ اس مضمون پہ دلالت کرتی ہے اور ایمان افروز حدیث ہے۔ابی عثمان نہوی اس حدیث کے راوی ہیں، فرماتے ہیں کہ حضرت ہنذلہ   آقا علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے ان کا پورا نام ہنذلہ الاسیدی تھا، یہ فرماتے ہیں کہ میری ملاقات ہوئی حضرت ابو بکر صدیق رض ہوئی تو پوچھا کہ ہنذلہ کیسی طبعیت ہے کیا حال ہے تو جواب میں کہا  کہ میں تو منافق ہو گیا سبحان اللہ کیا کہہ رہے آپ ،کیوں منافق ہو گئے ہیں انہوں نے کہا اس لیے میں کہتا ہوں کہ ہنذلہ منافق ہو گیا کہ ہم جب حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ہوتے ہیں،آپ ہمارے سامنے دوزخ اور جنت کا زکر کرتے ہیں اس وقت ہمارے ایمان کی حالت یہ ہوتی ہے کہ دوزخ اور جنت کو ہم اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، عیاں دیکھ رہے ہیں بے حجاب دیکھ رہے ہیں یعنی اس طرح ڈوب جاتے ہیں اور حقائق اس طرح منکشف ہو جاتے ہیں
ہمارا من اتنا اجلا اور صاف ہو جاتا ہے گویا جنت اور دوزخ کو دیکھ رہے ہوتے ہیں اور جب آقا علیہ السلام کی مجلس سے نکل آتے ہیں جب اپنی ازواج اور اولاد کے پاس جاتے ہیں کاروبار تجارت میں مشغول ہو جاتے ہیں تو بہت کچھ چیزیں جو آقا علیہ السلام نے ہمیں بتائی ہوتی ہیں اور جو کیفیات ہمارے دل پر وارد ہوئی ہوتی ہیں وہ بھول جاتی ہیں،ان سے محروم ہو جاتے ہیں ،جب یہ ساری بات سنائی تو سیدنا صدیق اکبر رض نے فرمایا کہ واللہ ایسی کیفیات تو ہمارے ساتھ بھی ہوتی ہیں، چلیں اکھٹے آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں چلتے ہیں تو ہم دونوں آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں پہنچے اور آقا علیہ السلام کے حضور پیش ہو گئے تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہنزلہ منافق ہو گیا،آپ نے فرمایا کیوں ایسا کہہ رہے ہو، کیا ہوا تو پھر وہ پوری بات جو پہلے بیان ہوئی ہے وہ انہوں نے گؤش گزار کر دی ۔
یارسول اللہ آپ کی بارگاہ اور صحبت میں ہماری کیفیت یہ ہوتی ہے کہ جنت اور دوزخ کو بھی گویا دیکھ رہے ہوتے ہیں جب چلے جاتے ہیں بیوی بچوں کاروبار تجارت اور دیگر مشاغل میں مصروف ہوتے ہیں تو اکثر چیزیں بھول جاتی ہیں اور حالت  وہ نہیں رہتی،اس پر آقا علیہ السلام نے فرمایا اس اللہ کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر تم بعد میں جا کر بیوی بچوں کے ساتھ فیملی کے ساتھ،دوست احباب کے ساتھ،اعزاء اقارب کے ساتھ،کاروبار اور مشاغل کے ساتھ مصروف ہو کر بھی اسی حالت میں رہو جس حالت میں تم میری مجلس اور میری صحبت میں رہتے ہو اور جو رتبہ اور جو کیفیت تمہاری یہاں پر ہوتی ہے اور یہ کیفیت بعد میں بھی اگر برقرار رہے اور جو کیفیت حالت زکر میں ہوتی ہے وہ بعد ازاں بھی قائم رہے تو اللہ کی عزت کی قسم تم بستر پر سونے ہوئے ہو گے تو فرشتے تمہارے بستروں پر آ کر تمہارے ساتھ مصافحہ کریں گے،اگر تمہاری حالت میں اس طرح کا دوام اور قرار آ جائے اور اس میں کوئی تغیر کمی بیشی نہ آئے ، ہمیشہ ایک جیسی حالت برقرار رہے تو ملائکہ تمہارے بستروں پر آ کر تمہارے ساتھ مصافحہ کریں
یہ تمہارا حال ہو جائے اور تم گلیوں میں چل رہے ہو تو چلتے ہوئے بھی ملائکہ آ کر مصافحہ کریں گے تمہیں تو نظر نہیں آئیں گے یہ درجہ ہو جائے گا۔
لیکن ہنزلہ کبھی ایسے ہوتا ہے اور کبھی ایسے ہوتا ہے اور تین بار آقا علیہ السلام نے فرمایا تو اس کیفیت کو کیوں امام مسلم یہاں پر لائے اس کے ساتھ کیوں جوڑا کہ وہ منافق نہیں ہوئے تھے اور نہ صحابہ کرام کے اندر نفاق جا سکتا ہے کیونکہ ان کے ایمان کی حفاظت کرنے والی  تو صحبت رسول تھی۔ہر وقت کی زیارت رسول،ہر وقت کی تربیت رسول، آقا علیہ السلام کی ذاتِ اقدس آپ کی تعلیم،آپ کی تربیت،آپ کی صحبت، آپ کی نگرانی،آپ کی نگاہ ہر وقت ان کا حصار بنی رہتی تھی اور انکی نیتوں کو آقا علیہ السلام کی صحبت  نے اتنا صادق اور اتنا مخلص اور اتنا کامل اور اتنا مضبوط کر دیا تھا اور ان کے یقین کے اندر اتنا زہد بھر دیا تھا کہ نفاق داخل نہیں ہو سکتا تھا۔
مگر حدیث کیا ہے کہ یہ نہیں نفاق آ گیا ،ان کو خطرہ لگا رہتا تھا کہ کہیں نفاق نہ آ جائے اور یہ جو تغیر آتا انکی حالت میں تو اس تغیر کو وہ نفاق سمجھ بیٹھے تھے یہ منافقت ہو گئی ہے ۔
اس کو آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ جو تمہارا فکر ہے اگر یہ فکر لگی رہے اور نڈر اور بے خوف نہ جاؤ اور اسکی حفاظت کی فکر تمہاری  دامنِ گیر رہے تو یہی ایمان ہے۔اور اس کے اندر کبھی ایسے ہوتا ہے اور کبھی ایسے ہوتا ہے،اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے،تغیر و تبدل ہوتا رہتا ہے مگر وہ شخص مومن رہتا ہے جس کو یہ فکر لگی رہے جو ڈرتا رہتا ہے کہ کہیں نفاق تو نہیں آ گیا۔جونہی وہ نڈر ہوا بےخوف ہوا وہ شخص منافق ہو گیا۔
اب اگلی حدیث جو امام مسلم لائے ہیں کہ اے ہنزلہ اگر تمہاری یہ کیفیت جو میری صحبت اور مجلس میں اور اللہ کے زکر کے دوران جو کیفیت تمہارے دل اور تمہارے باطن کی اور جذبات اور کیفیات اور احوال کی ہو جاتی ہے اگر یہ درجہ یہ لیول بلکل ہمیشہ قائم رہے اور اس میں کمی نہ آئے پھر تو تمہارا درجہ یہ ہو جائے کہ فرشتے تم سے مصافحہ کریں جب تم بازاروں اور گلی کوچوں میں جا رہے ہو تو وہاں بھی تمہیں آ کے سلام کہیں۔
 کبھی استحضار ہوتا ہے جب اس محفل میں ہوتے ہو،اللہ کی زکر کی مجلس میں ہوتے ہو تو ااستحضار ہوتا ہے گویا جنت اور دوزخ کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہیں، زکر الہی یا صحبت رسول یا زیارت رسول یا زیارت اولیاء یا زیارت صالحین یا صحبت صالحین آپ کے اندر ایمانی کیفیات کو استحضار دے دیتی ہیں وہ جو دور دور پھیلی ہوتی ہیں غالب ہوتی ہیں منتشر ہوتی ہیں ان کیفیتوں کو حاضر کر دیتی ہیں اس کو استحضار نیت بھی کہتے ہیں،صوفیاء ، محدثین ،علماء ، بزرگان دین۔
ایک ہے نیت کا برا ہونا اور نیت کا اچھا ہونا فرق ہے، کسی کی نیت اچھی ہو گئی اور ایک کی نیت بری ہو گئی تو عمل بھی برباد ہو گیا،دوسرے یہ کیفیت ہے کہ نیت نہ اچھی ہے اور نہ بری ، جس کی بری نیت ہے وہ تو بری ہو گئی اور عمل بھی برباد ہو گیا اور جس کی اچھی نیت ہے اور عمل اجھا ہو گیا ۔ایک کیفیت یہ ہے کہ نیت نہ اچھی ہے اور نہ بری ہے سرے سے حاضر ہی نہیں ،اظہار نیت ہی نہیں یعنی نیت مستحضر نہیں ہے،توجہ دھیان بلکل بکھرا ہوا ہے آپ نماز پڑھ رہے ہیں اور آپ کو پتہ ہی نہیں کہ میں کہاں کھڑا ہوں اور کیا پڑھ رہا ہوں یعنی نیت ہی موجود نہیں ،رجوع ہی نہیں ہے نہ اچھی نہ بری ۔
سب سے بڑھ کر ایک ہے نیت کو خالص کرنا اور اس خالص نیت کو حاضر کرنا،آپ کے عمل کی جگہ پر،آپ کی قرآت ،تلاوت ،سجدے ،رکوع اور اطاعت کی جگہ پر حاضر بھی ہو، نیت جب حاضر ہوتی ہے تو آپ کی توجہ،ہمت اور افکار کو یکجا کرتی ہے، consolidate کرتی ہے ، جب یکجا کرتی ہے تو نیت عمل کے ساتھ جڑتی ہے، پھر نیت میں جتنا اخلاص،اللہ کی رضا طلبی ہوتی جائے گی عمل کا اتنا  اتنا بلند ہوتا چلا جائے گا۔
جب گھروں میں چلے جاتے ہیں تو دنیا کا استحضار نہیں رہتا،زکر الہی کا استحضار نہیں رہتا،توجہ الی اللہ کا استحضار نہیں رہتا وہ چیزیں پس منظر میں چلی جاتی ہیں،دنیا کے دوسرے امور آ جاتے ہیں۔
دوسرے امور میں بھی اگر ایک چیز حاضر رہے، بیوی بچوں، اولاد ،  کے حقوق ادا کرے ان سے پیار کریں ان سے محبت کریں،کاروبار کریں، معاش کریں، تجارت کریں ، لوگوں کے ساتھ معاملات کریں، دنیوی مشاغل اور فرائض ادا کریں سب کچھ کریں اس سے دین نہیں روکتااس کو قرآن مجید نے کہا کہ جو مرد ہیں، مردان حق وہ ہیں کہ تجارت بھی کرتے ہیں، خرید وفروخت بھی کرتے ہیں، مشاغل اور کاروبار دنیا بھی کرتے ہیں مگر یہ مصروفیات اور مشاغل اپنے اللہ کے زکر سے محروم نہیں کرتے،اللہ کا زکر بھولتا نہیں ہے یعنی اللہ کا زکر حاضر رہتا ہے ۔
اب اللہ کا زکر کیسے حاضر رہتا ہے یہ بھی سوال پیدا ہو گا ، وہ تو کر رہا ہے بچوں سے گفتگو اپنی اولاد سے،دوستوں سے بات چیت کر رہا ہے، وہ تو اپنے گاہک کو ڈیل کر رہا ہے ، کاروبار کر رہا ہے ، آفس کے معاملات ادا کر رہا ہے تو اللہ کا زکر اللہ کی یاد حاضر کیسے رہی ،وہ تو اور گفتگو ہے اس کی زبان پر اور اس کے ہاتھ کسی اور کام میں مصروف ہیں،وہ سجدہ نماز ،روزہ تلاوت اور رکوع تو نہیں کر رہا، اللہ کا زکر کیسے ہوا یہ قرآن کہتا ہے اس لیے کہ وہ جو کچھ بھی مشاغل دنیا بھی کرتا ہے اور کاروبار دنیا بھی انجام دیتا ہے اس کے اندر اس کی نیت جو حاضر ہوتی ہے وہ یہ کہ جو کام کروں وہ حلال کروں حرام نہ کروں، جو کام کروں اللہ کی اطاعت کے مطابق کروں،اللہ کی نافرمانی نہ کروں،اس بندے سے بھی کوئی بات کر رہا ہوں تو جو وعدہ کروں وہ پورا کروں،دھوکہ نہ دوں ، جو چیز اس سے کہوں سچ بولوں جھوٹ نہ بولوں،اس کے بھلے کا سوچوں اس کا نقصان نہ کروں، کسی کی غیبت چغلی نہیں کرتے۔کم نہیں تولتے ،دھوکہ نہیں کرتے،جھوٹ نہیں بولتے، کسی کی حق تلفی نہیں کرتے،حرص اور لالچ نہیں کرتے۔
 تو وہ لوگ جو بھی دنیوی کاروبار کرتے ہیں اللہ کے امر کو یاد رکھتے ہیں اللہ کے حکم کو یاد رکھتے ہیں ،اللہ کی نافرمانی سے بچتے ہیں،ہر دنیوی کام اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق کرتے ہیں اس مطابقت کو قائم رکھنا دنیوی مشاغل میں یہ اللہ کے زکر کو قائم رکھنا ہے ،ہر کام دنیا کا بھی ہو جب اس کی سمت اللہ کے امر کے ساتھ متعین کر دیں اس کی direction اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے ساتھ متعین کر دیں یا آقا علیہ السلام کی سنت کے ساتھ متعین کر دیں یا آقا علیہ السلام کی سیرتِ اور اسوہ  کے ساتھ متعین کر دیں، اور اللہ کی ناراضگی اس میں ہے اور اس میں اللہ کی رضا مندی ہے۔
ان حدود کے مطابق کر لیں تو سارے مشاغل دنیوی اللہ کی اطاعت میں آ جائیں گے اور اللہ کے زکر میں ہو جائیں گے ایسی صورت میں جب وہ۔ بندہ نیت کا دائمی استحضار کر لے کر دنیوی کام میں تعلیم میں، تدریس میں، کاروبار میں ، تجارت میں، رشتہ ازدواج میں،رشتہ اولاد میں، اعزاء اقارب میں،اندر باہر دنیا میں جہاں بھی جا رہا ہے ہر جگہ اس کی نیت خالصیتآ لوجہ اللہ اور اس کی نیت اللہ کی اطاعت کے لیے اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق حرام سے بچنے کے لیے،اعمال صالحہ کو بجا لانے کے لئے لوگوں کی حاجتوں کو پورا کر رہا ہے، لوگوں پر خرچ کر رہا ہے،ان کے حقوق کی ادائیگی کا خیال کر رہا ہے، لوگوں کی جان کو راحت پہنچے اعمال صالحہ ثابت ہوں یہ سارے کام کرتے ہوئے جتنے مشاغل دنیوی انجام دیتا رہتا ہے وہ سارے مشاغل اطاعت الہٰی میں شامل ہو جاتے ہیں وہ عبادت ہو جاتی ہیں ۔وہ اللہ کے زکر کے تابع آ جاتی ہیں تو اس طرح وہ استحضار ہے، آقا علیہ السلام کی حدیث میں سمجھانا یہ مقصود تھا کہ ۔ہنزلہ دو باتیں سمجھ لو ایک  یہ کہ تم  منافق نہیں ہوئے کیوں اس لیے کہ تمہیں یہ فکر ہے منافق ہونے  کا، جس شخص کو ڈر لگا رہے اور وہ بےخوف نہ ہو جائے نڈر نہ ہو جائے۔
اپنے ایمان کی حفاظت بھی کرتا رہے اور ڈرتا بھی رہے وہ مؤمن ہے ۔ ایک تو یہ بات سمجھا دی اور دوسری بات یہ سمجھائی کہ یہ بھی ناممکن نہیں کہ جو کیفیت اور حالت میری مجلس اور صحبت میں ہوتا ہے وہ عام طور پہ جب آدمی اس مجلس سے اٹھتا ہے تو دوسری مصروفیات کے وقت وہ حالت اور کیفیت برقرار نہیں رہتی فرمایا اس کی بھی اجازت ہے مگر یہ ممکن ہے کہ کوئی آدمی ایمان کی حفاظت کرتا کرتا اور نفاق سے ڈرتا ڈرتا اور نفاق سے بچتا بچتا ، نیت کو حاضر کرتا کرتا اور اللہ کے لئے صدق و اخلاص بڑھاتا بڑھاتا چلا جائے،اتنا اونچا چلا جائے کہ یہ بھی ممکن ہے کہ حضور و غیاب  میں ہر جگہ حال ایک ہو جائے ۔جو میری صحبت اور مجلس میں کیفیت رہتی ہے وہ باہر بھی کیفیت ایک ہو جائے اور فرمایا کہ جن کو یہ نصیب ہو جائے تو ملائکہ ان کی زیارت کے لئے اترتے ہیں ان سے مصافحے کرتے ہیں وہ سوتے ہیں تو ان کی حفاظت کرتے ہیں ،راستوں پہ ان  پر سلام پڑھتے ہیں جیسے لیلۃالقدر میں کہ رات اترتے ہیں اور ہر جاگنے والے اللہ کو طلب کرنے والے مومن کو سلام کرتے ہیں اور مصافحہ کرتے ہیں تو جو اس رات میں آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ ملائکہ اتر کے مومنین کے ساتھ کرتے ہیں۔
جو شخص اپنے ایمان کو لیلۃالقدر کے مقام پر لے آئے اور لیلۃالقدر کی طرح انوار و تجلیات اس کے ایمان کی وجہ سے اس کے دل پہ دائم اترتے ہی رہیں اور سارا سال اللہ کے ملائکہ اترتے رہتے ہیں اور اپنی رحمتوں کے پر بچھاتے ہیں اور اللہ کی بارگاہ سے برکات لاتے رہتے ہیں، یہ جو مقدمہ ہے اس باب کا اس کی یہ تفصیلات تھیں اس کے تحت پھر امام بخاری نے اگلی حدیث بیان کردی ہے اور فرمایا کہ مومن کو گالی دینا فسق ہے اس سے آدمی فاسق ہو جاتا ہے اور اس کا قتال قتل کرنا ناحق یا اس کے قتل کو جائز سمجھنا کفر ہو جاتا ہے۔
یہاں پھر فسوق اور  کفر ایک فرق ہے سمجھا دیا۔
ہر انسان کی جو عزت ہے وہ  اللہ کا مقرر کردہ حق ہے ۔اس کی عزت کی ہتک کرنا گالی دینا یہ فسوق ہے ،فسوق کیا ہے اللہ کی اطاعت سے خارج ہو جاتا ہے۔فسق اللہ کی اطاعت سے خارج ہو دینے کو کہتے ہیں۔یہ خروج ہے اللہ کی اطاعت سے اور اللہ کی حدوں سے ڈرنا ، اللہ کی بارگاہ میں کوئی معصیت نہ ہو جائے اور ایمان نہ لٹ جائے  نفاق نہ آ جائے، قرآنِ مجید نے کہا جو ہروقت اللہ تعالیٰ پناہ سے ڈرتا رہے کہ کہیں نفاق نہ آ جائے، کہیں میرا عمل مسترد نہ ہو جائے، کہیں میں نعمت سے پھر نہ جاؤں اس سے محروم نہ کر دیا نہ جاؤں کہ کہیں اللہ خفا نہ ہو جائے تو جو ڈرتا رہتا ہے،اللہ کی عبادت میں ،اللہ کے حضور قیامت کے دن کھڑے ہوئے کا خیال رہتا ہے
 جب میرا حساب تلے گا تو کیا حال ہوگا۔ تو جو ڈرتا رہتا ہے اس کے ڈر کی وجہ سے اس کو دو جنتیں ملیں گی 
ایک جنت اس کے نیک اعمال کی وجہ سے اور ایک اس کو نیک اعمال لٹ نہ جائیں یا ایمان نفاق میں نہ بدل جائے اس کا ڈر رکھنے کی وجہ سے ، itself یہ  خشیت جنت عطا کرتی ہے
اور پھر یہ بھی فرمایا کہ اللہ کی تدبیر اور مواخذہ ہے ،اللہ گرفت کرتاہے،جو آدمی اللہ کے مواخذے اور گرفت کی فکر نہ کرے اور بےخوف ہو جائے وہ خسارہ پانے والوں میں سے ہے ،انہی کو کہا کہ وہ منافق ہو جاتے ہیں اور یہ جو باب کے اندر بیان کیا کہ ایسی کیفیت کہ لٹ گیا ہو بندہ اور اس کو پتہ ہی نہ ہو شعور ہی نہ ہو کہ میں لٹ گیا ہوں ۔
قرآن مجید نے ایک مقام پر یہ تصور بھی دے دیا،آقا علیہ السلام کی بے ادبی کے حوالے سے یہ تصور سورہ حجرات میں دیا ، مومنین کو حکم دیا کہ تم اپنی آوازیں حضور علیہ السلام کی مجلس میں پست کر دیا کرو ،آہستہ رکھا کرو آوازیں ۔
میرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں اپنی آوازیں ان کی آواز سے اونچی نہ کرو اور ان کو اس طرح بھی اونچی آواز سے بےتکلفانہ نہ بلاؤ اور جیسے آپس میں ایک دوسرے کو بلاتے ہو ، یعنی نہ تمہاری آواز میرے محبوب کی آواز سے اونچی ہو اور نہ ان کو بلانے کا انداز اس طرح کا ہو جیسے عام دوسرے لوگوں کو بلایا کرتے ہو اس میں بھی برابری نہ ہو۔ہمیشہ سراپا ادب رہو۔
یہ جو امام بخاری بیان فرما رہے ہیں جو پورے کا پورا مضمون اس باب کے ٹائٹل میں رکھا ہے ، مومن اس بات سے ڈرتا رہتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہیں اس کے سارے عمل غارت ہو جائیں ختم ہو جائیں اور اسے شعور بھی نہ ہو ، اس کو قرآن مجید نے بیان کیا کہ وہ کون سا عمل ہے وہ سرفہرست وہ بےادبی رسول ہے ،حضور علیہ السلام کی بارگاہ میں بےادبی اور بےادبی زبان کے کلمہ سے نہیں یعنی اگر آواز بھی اونچی کر دی تو وہ بےادبی اعمال کو غارت کر دے گی ۔
اس انداز کے ساتھ آقا علیہ السلام سے مخاطب ہو گئے جس انداز سے آوروں سے مخاطب ہوتے ہیں گویا انداز بھی دوسروں جیسا کر دیا ،آواز بھی دوسروں جیسی کر دی اس آواز میں اس انداز میں بھی آقا علیہ السلام کے ادب، عظمت، اور تکریم کو اور تعظیم و توقیر کو ملحوظ نہ رکھا تو سارے عمل اللہ ربّ العزت غارت کر دیں گے۔برںاد کر دیں گے اور تمہیں شعور بھی نہ ہو گا ۔یہ سزا پر اوپر دوہری سزا ہے ۔ ایک تو اعمال گئے اور اگر شعور مل جائے تو پھر آدمی فکر مند ہوتا ہے توبہ کرتا ہے اور توبہ کر کے گئے ہوئے مال کو لٹانے کی کوشش کرتا ہے ،پھر اپنے آپ کو درست اور اصلاح کرتا ہے اور بدقسمتی یہ کہ اگر شعور ہی نہ ہو کہ میں لٹ گیا ہوں وہ تو اصلاح بھی نہیں کرے گا ۔اصلاح کیا کرنی ہے اسے لٹنے کی خبر نہیں اس کو دکھ نہیں ہو گا ،اصلاح نہیں کرے گا تو وہ پھر گناہ پر گناہ،تکبر پر تکبر ،رعونت پر رعونت ،فسق پر فسق ،کفر پر کفر کرتا چلا جاتا ہے تو یہ بہت بڑی بدنصیبی کا باعث بنتی ہے ۔فسق جو ہے اس کا درجہ گناہ سے اوپر اور کفر سے نیچے۔
نافرمانی کے تین درجے ہیں
پہلا درجہ نافرمانی کا عصیان،اللہ کی نافرمانی، معصیت ،گناہ ،اس کے حکم کی خلاف ورزی ، 
اس سے اوپر درجہ ہے فسوق 
فسوق اس کی اطاعت سے نکل جانے کو کہتے ہیں۔یہ ایک طرح کی بغاوت ہے زبان سے کہے یا نہ کہے مگر عملی بغاوت ہے وہ آدمی فاسق ہو جاتا ہے، عصیان سے عاصی ہوتا ہے گناہگار ہوتا ہے 
سب سے اوپر تیسرا درجہ کفر ہے جس میں آدمی انکار کر دیتا ہے ۔
فسق کا معنی فروج ،اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے نکل جانے کو کہتے ہیں اس لئے فرمایا کہ مسلمان کو گالی دینا فسوق ہے ،گناہ نہیں کہا گناہ سے اونچے درجے کی بغاوت ، اللہ کے اطاعت کے خلاف بغاوت کر دینا ہے اور اگر قتال پر آ جائے ، فسوق کو حلال سمجھ لے تو پھر وہ کافر ہو جاتا ہے پھر استدلال دم کے ساتھ شرعآ کافر ہے اگر خون کرنا حلال نہیں سمجھا ویسے قتل کر دیا تو پھر کافروں جیسے فعل کا مرتکب ہو گیا،کردار کافروں جیسا اپنا لیا تو یہ حدیث پاک لائے ہیں اور اس کو یہود کے ساتھ ملایا ہے۔یہود کے بارے میں قرآن مجید نے کہا کیا تم کتاب یعنی تورات کے کچھ حصوں پر ایمان لاتے ہو اور کچھ حصے سے کفر کرتے ہو ،ایمان اور کفر کا زکر کیا ۔
 بعض چیزوں کو مانتے ہو اور بعضوں سے کفر کرتے ہو یعنی انکار کرتے ہو یہ کہہ کر  کہ ہااں تم وہ لوگ ہو کہ ایک دوسرے کا قتل کرتے ہو ۔
یہ کہہ کر میری کتاب کے بعض حصوں پر ایمان لاتے ہو اور بعض سے کفر کرتے ہو ۔کفر کرتے ہو کہہ کر پھر اس کی تمثیل دی کہ ایک دوسرے کی جانوں کا ،تو اللہ کی وحی کا انکار کرنا ،اللہ کے پیغمبروں کا انکار کرنا، ایک یہ کہ دوسروں کو قتل کرنا اور قتل کو جائز سمجھنا تو یہ کفر ہو جاتا ہے اور لوگوں کو ظلم کرکے اپنے گھروں سے وطن سے باہر نکال دینا ، 
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان کے قتل کرنے کو کفر کا لفظ دیا ۔صحیح بخاری نے ایک اور جگہ کتاب الفتن میں ایک حدیث بیان کی ہے ،آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ میرے بعد تم کافر نہ ہو جانا یعنی دوسروں کا ناحق خون بہانا یہ دہشت گردی کی مزمت ہے ،انتہا پسندانہ طرزِ عمل ،دہشتگردی چھوٹی چھوٹی بات پر لوگ ایک دوسرے کا قتل کر دیں اور تلوار سے فیصلے کرتے ہیں،گردن اڑاتے ہیں ،گولیاں چلاتے ہیں یہ  تنگ نظری تفرقہ پرستی میں جاتی ہے۔تفرقہ پرستی انتہا پسندی کا باعث بنتی ہے،انتہا پسندی انسان کو دہشت گرد کرتی ہے اور دہشت گرد انسان کا قتل اور خون بہانے والا بناتی ہے ۔
آقا علیہ السلام نے اس پورے طرزِ عمل کی سوچ کو فرمایا تھا کہ میرے بعد کافر نہ بن جانا۔کہ ایک دوسرے کے گردنیں اڑانے لگو ،
ایک ہے دنیا کے نام پر گردن اڑانا ،لوگ زمینوں کے لئے گردنیں اڑاتے ہیں گولی چلاتے ہیں ،جائیدادوں کے لیے وراثت کے لیے، مال و دولت کے لیے، لوٹ مار کے لئے گردنیں اڑاتے ہیں کچھ لوگ سیاسی اغراض و مقاصد کے لیے تباہی مچانی ہے، پریشانی پیدا کرنی ہے ،ان کے سیاسی مقاصد ہیں قتل وغارت کرواتے ہیں۔
بڑی بڑی طاقتیں دنیا کے مختلف خطوں میں مسلمان امت کے خلاف خون خرابہ کرواتے ہیں،قاتلوں کو پالا جاتا ہے ،ان کو سامان مہیا کرتے ہیں ،ان کو وسائل دیتے ہیں ،ان کو ٹریننگ دیتے ہیں۔
دنیا کے مختلف ممالک کے اندرlocally بھی یہ پریکٹس ہوتی ہے اور عالمگیر سطح پر بھی ہوتی ہے کہ دہشت گرد، میں نے زندگی میں دیکھا ہے کہ دہشت گرد تنظیمیں دنیا میں پیدا ہوئی ہیں ، مسلمانوں کے اندر اور جہاں بھی کسی ملک کی میں بات نہیں کر رہا ہر جگہ وہ پیدا کی گئی ہیں۔خود نہیں پیدا ہوتیں یہ دہشت گردی  ایجنڈا کے لئے جنم دی جاتی ہے ۔یہ مکتب فکر نہیں ہوتا یہ ڈنڈا ہوتا ہے ان سے مقصد لیا جاتا ہےobjective ہوتے ہیں ۔انکےنظریات بنائے جاتے ہیں دہشت گردانہ ،انکو امر المعروف اور نہی عن المنکر ، جہاد ، شہادت ، معصیت یہ حرام کاری کے خلاف ایک جہاد ، جنت ، شہادت انکے ذہنوں اور دلوں میں ڈالی جاتی ہیں ،انہیں یہ بولی دی جاتی ہے، سادہ لوح لوگوں کو مشتعل کرتے ہیں،ان کو برین واش کرتے ہیں اور بےشمار سادہ لوح لوگ ایسے نعرے اور ایسے دعوے ،جہاد کے تذکرے ،قرآن کی غلط تعبیر ،حدیث کی غلط تعبیر و تشریح دیکر ان کو گمراہ کرتے ہیں اور تلواریں اٹھا لیتے ہیں۔بندوقیں اٹھا لیتے ہیں ،یہاں تک لاتے ہیں پھر وہ خون بہاتے ہیں،اس کے پیچھے وہ طاقتیں  کام کر رہی ہوتی ہیں جو کسی کو نظر نہیں آتیں گولی اور تلوار بندوق چلانے والے کو خبر نہیں ہوتیں کہ مجھ سے گولی کون چلوا رہا ہے اس کے پیچھے کچھ اور ہوں گے جو مذہبی بولی بول رہے ہیں،دین کے نام پر مشتعل کر رہے ہیں،آیتیں اور حدیثیں سنا سنا کر اور وہ جو کررہے ہیں شاید ان کو بھی پتہ بھی نہ ہو ،اس کے پیچھے کوئی اور لیول ہو گا جو ان کو فیڈ کر رہا ہے،سارا جہاد، دین ، قرآن ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے نام پر ،خیر کے نام پر پیچھے تک جائیں تو بڑی طاقت نظر آ جائے گی ، کوئی بڑا ادارہ ، کوئی بڑی سلطنت ، بڑا مقصود اس کے پیچھے گیم ہو گی جہاں خون بہانا ہے۔اسلام کو بدنام کرنا ہے اور قتل وغارت گری کرنی ہے،جب وہ کام لے لیتے ہیں پھر انہی کو قتل کروا دیتے ہیں۔اس کے بعد اگلا ملک منتخب کرتے ہیں، یہاں دین کی وہی دعوت،جہاد اور جہاد چلتے چلتے قتال بن جاتا ہے اور جب وہاں خون بہا کے تباہی مچا لیتے ہیں تو اس کے بعد انکو مروا دیتے ہیں پھر کوئی اور نام سے نئی جگہ تلاش کرتے ہیں۔
یہ جو پراسس ہے آقا علیہ السلام نے فرمایا میری امت کے لوگوں دین کے نام پر بھی گمراہ کریں گے بہکائیں گےچکمہ دیں گے misinterpret کریں گے قرآن اور حدیث کا ،کافر نہ ہو جانا ،ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنا میرا دین نہیں ہے۔گولی  چلانا دین نہیں ہے ،کسی کا خون بہانا دین نہیں ہے ، تم سمجھو گے دین کے نام پہکر رہے ہیں مگر حقیقت میں کفر کر رہے ہیں،دین کی جڑیں کاٹ رہے ہیں۔

از.  🖋   مولانا محمد پرویز رضا فیضان حشمتی 

اتوار، 24 مئی، 2020

*عید الفطر فضائل و مسائل

از ✒️۔عبدالجبار علیمی نیپالی خادم التدریس جامعہ اسلامیہ میاں پاٹن پوکھرا نیپال مقیم حال بھیرہواں روپندیہی نیپال
*عید الفطر فضائل و مسائل* ۔
تحریر: *عبدالجبار علیمی نیپالی* 
عید الفطر ایک اہم مذہبی تہوار ہے جسے پوری دنیا میں بسنے والے مسلمان رمضان المبارک کا مہینہ ختم ہونے پر مناتے ہیں۔ عید کے دن مسلمانوں کو روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ مسلمان رمضان کے 29 یا 30 روزے رکھنے کے بعد یکم شوال کو عید مناتے ہیں۔ کسی بھی قمری ہجری مہینے کا آغاز مقامی مذہبی رہنماؤں کے چاند نظر آجانے کے فیصلے سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں عید مختلف دنوں میں منائی جاتی ہے۔ اس کے برعکس کچھ ممالک ایسے ہیں جو سعودی عرب کی پیروی کرتے ہیں۔ عید الفطر کے دن نماز عید (دو رکعت چھ تکبیروں) کے ساتھ پڑھی جاتی ہے، جسے جامع مسجد یا کسی کھلے میدان یعنی عیدگاہ میں ادا کیا جاتا ہے۔ اس میں چھ زائد تکبیریں ہوتی ہیں (جن میں سے تین پہلی رکعت کے شروع میں ہوتے ہی اور بقیہ تین دوسری رکعت کے رکوع میں جانے سے پہلے ادا کی جاتی ہیں)۔ مسلمان کا عقیدہ ہے کہ اسلام میں انھیں حکم دیا گیا ہے کہ "رمضان کے آخری دن تک روزے رکھو۔ اور عید کی نماز سے پہلے صدقہ فطر ادا کرو"۔
عمومی طور پر عید کی رسموں میں مسلمانوں کا آپس میں "عید مبارک" کہنا اور گرم جوشی سے ایک دوسرے سے نہ صرف ملنا بلکہ مرد حضرات کا آپس میں بغل گیر ہونا، رشتہ داروں اور دوستوں کی آؤ بھگت کرنا شامل ہیں۔ علاوہ ازیں بڑے بوڑھے بچے اور جوان نت نئے کپڑے زیب تن کرتے ہیں اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں، ایک دوسرے کی دعوت کرتے ہیں، مختلف قسم کے کھانے پکائے جاتے ہیں اور جگہ جگہ میلے ٹھیلے منعقد ہوتے ہیں؛ جن میں اکثر مقامی زبان اور علاقائی ثقافت کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے۔
 *خصوصی* طور پر مسلمان صبح سویرے سورج نکلنے سے پہلے بیدار ہوتے ہیں اور نماز فجر ادا کرتے ہیں پھر دن چڑھے نماز عید سے پہلے کچھ میٹھا یا پھر کھجوریں کھاتے ہیں جو سنت رسول ہے۔ اور اس دن روزہ کے نہ ہونے کی علامت ہے۔ مسلمانوں کی ایسے مواقع پر اچھے یا نئے لباس زیب تن کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے جبکہ نئے اور عمدہ لباس پہن کر مسلمان اجتماعی طور پر عید کی نماز ادا کرنے کے لیے مساجد؛ عید گاہوں اور کھلے میدانوں میں جاتے ہیں۔ نماز عید الفطر میں آتے اور جاتے ہوئے آہستہ آواز سے تکبیریں (اللہ اکبر ،اللہ اکبر، لا الہ اِلہ اللہ، واللہ اکبر، اللہ اکبر، واللہ الحمد) کہنا اور راستہ تبدیل کرنا سنت ہے۔ عید کے روز غسل کرنا، خوشبو استعمال کرنا اور اچھا لباس پہننا سنت ہے۔ عید الفطر کے روز روزہ رکھنا حرام ہے۔
 *عید کی نماز کا وقت* سورج کے ایک نیزہ کے برابر بلند ہونے سے ضحوہ کبریٰ تک ہے۔ ضحوہ کبریٰ کا صبح صادق سے غروب آفتاب تک کے کل وقت کا نصف پورا ہونے پر آغاز ہوتا ہے۔ ہر نماز کے ادا کرنے سے پہلے اذان کا دیا جانا اور اقامت کہنا ضروری ہے مگر عید کی نماز کو اذان اور اقامت سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے جبکہ اس نماز کی صرف دو رکعات ہوتی ہیں؛ پہلی رکعت میں ثناء کے بعد اور دوسری رکعت میں قرآت سورت کے بعد ہاتھ اٹھا کر تین تین زائد تکبیریں مسنون ہیں۔ عیدالفطر کی نماز کے موقع پر خطبہ عید کے علاوہ بنی نوع انسانیت کی بھلائی اور عالم اسلام کے لیے خصوصی دعائیں کی جاتی ہیں جس میں اللہ تعالٰی سے کوتاہیوں اور گناہوں کی معافی مانگی جاتی ہے۔ اللہ تعالٰی سے اس کی مدد اور رحمت مانگی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں خطبہ عید میں عید الفطر سے متعلق مذہبی ذمہ داریوں کی تلقین کی جاتی ہے جیسے فطرانہ کی ادائیگی وغیرہ۔ اس کے بعد دعا کے اختتام پر اکثر لوگ اپنے دائیں بائیں بیٹھے ہوئے مسلمان بھائیوں کو عید مبارک کہتا ہوا بغل گیر ہو جاتا ہے۔ نماز کی ادائیگی کے بعد لوگ اپنے رشتہ داروں ؛ دوستوں اور جان پہچان کے تمام لوگوں کی طرف ملاقات کی غرض سے جاتے ہیں جبکہ کچھ لوگ زیارت القبور کی خاطر قبرستان کی طرف جاتے ہیں۔
 *شوال* یعنی عید کا چاند نظر آتے ہی رمضان المبارک کا مہینہ اپنے اختتام کو پہنچتا ہے جبکہ ہر ایک مسلمان کی زبان سے بے اختیار اللہ کی عظمت اور شان کے الفاظ جاری ہو جاتے ہیں ؛ یعنی آہستہ آواز سے تکبیریں کہی جاتی ہے: یعنی اللہ اکبر اللہ اکبر، لا الہ الہ اللہ، واللہ اکبر، اللہ اکبر، واللہ الحمد ؛ تکبیر کہنے کا یہ سلسلہ نماز عید ادا کرنے تک چلتا ہے۔ عید کی نماز ادا کرنے سے پہلے ہر صاحب استطاعت مسلمان مرد و عورت پر صدقہ فطر یا فطرانہ ادا کرنا واجب ہے جو ماہ رمضان سے متعلق ہے۔ مندرجہ ذیل چند باتیں بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے

 *صدقہ فطر* 

صدقہ فطر واجب ہے۔ صدقہ فطر نمازِ عید سے پہلے ادا کرنا چاہیے ورنہ عام صدقہ شمار ہو گا۔

صدقہ فطر ہر صاحب نصاب مسلمان مرد، عورت، آزاد، عاقل، بالغ پر واجب ہے۔

صدقہ فطر دو 2 کلوگرام گندم، ساڑھے تین (500۔3) کلو گرام جو، کھجور یا کشمش میں سے جو چیز زیر استعمال ہو، وہی دینی چاہیے یا ان کی جو قیمت بنتی ہے

 *صدقہ فطر ادا کرنے کا وقت* آخری روزہ افطار کرنے کے بعد شروع ہوتا ہے‘ لیکن نماز عید سے پہلے تک ادا کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ اس کی مقدار مندرجہ بالا اجناس کی نسبت سے ہے البتہ ان کے علاوہ اس کے برابر قیمت نقدی کی شکل میں بھی ادا کی جا سکتی ہے جس کا تعین مقامی طور کیا جاتا ہے اور زیادہ تر مدارس میں ادا کر دیا جاتا ہے یا پھر مقامی ضرورت مندوں ؛ غربا اور مساکین۔ بیوگان میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔
اسلامی روایات میں عید الفطر ماہ رمضان المبارک کے اختتام کی ایک علامت ہے جبکہ مسلم برادری میں روزہ بنیادی اقدار کا حامل ہے۔ علما کے نزدیک بنیادی طور پر روزہ کا امتیاز یہ ہے کہ اسے انسان کی نفسی محکومی پر روحانیت کی مہر ثبت کرنا تصور کیا جاتا ہے۔ اقوام عالم میں مسلم امہ عید کا تہوار بڑے شاندار انداز میں مناتے ہیں۔

از ✒️۔عبدالجبار علیمی نیپالی خادم التدریس جامعہ اسلامیہ میاں پاٹن پوکھرا نیپال مقیم حال بھیرہواں روپندیہی نیپال

ہفتہ، 23 مئی، 2020

عید الفطر کے فضائلEid ul Fitr ki Fazilat Eid ul Fitr ki Fazilat

عید الفطر کے فضائل:

عید سعید کی بہت بڑی فضیلت آئی ہے، چنانچہ ایک طویل حدیث میں حضرت سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے روایت کیا ہے کہ جب عیدالفطر کی مبارک رات تشریف لاتی ہے تو اسے ” لیلة الجائزة“ یعنی انعام کی رات کے نام سے پکارا جاتا ہے، جب عید کی صبح ہوتی ہے تو اللہ اپنے معصوم فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتا ہے، چنانچہ وہ فرشتے زمین پر تشریف لاکر گلیوں اور راہوں کے سروں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس طرح ندا دیتے ہیں“اے امت محمد! (صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم) اس رب کریم کی بارگاہ کی طرف چلو جو بہت ہی زیادہ عطا کرنے والا اور بڑے سے بڑے گناہ معاف فرمانے والا ہے۔ پھر اس کے بعد اللہ رب العزت اپنے بندوں سے یوں مخاطب ہوتا ہے:اے میرے بندو! مانگو کیا مانگتے ہو؟ میری عزت و جلال کی قسم! آج کے روز اس (نماز عید) کے اجتماع میں اپنی آخرت کے بارے میں جو کچھ سوال کرو گے وہ پورا کروں گا اور جو کچھ دنیا کے بارے میں مانگو گے اس میں تمہاری بھلائی کی طرف نظر فرما¶ں گا (یعنی اس معاملہ میں وہ کروں گا جس میں تمہاری بہتری ہو) میری عزت کی قسم! جب تک تم میرا لحاظ رکھو گے میں بھی تمہاری خطا¶ں پر پردہ پوشی فرماتا رہوں گا، میری عزت و جلال کی قسم! میں تمہیں حد سے بڑھنے والوں (یعنی مجرموں) کے ساتھ رسوا نہ کروں گا، بس اپنے گھروں کی طرف مغفرت یافتہ لوٹ جا¶ گے، تم نے مجھے راضی کردیا اور میں بھی تم سے راضی ہوگیا۔“ (الترغیب والترہیب)عید الفطر کے دن جب مسلمان عید گاہ میں جمع ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے فخر کرتے ہوئے فرماتا ہے:

”یہ ہیں میرے وہ بندے جو عبادت میں لگے ہوئے ہیں اور بتاو¿ کہ جو مزدور اپنا کام پورا کر لے اس کا کیا صلہ ملنا چاہیے؟ جواب میں فرشتے فرماتے ہیں کہ جو مزدور اپنا کام پورا کر لے اس کا صلہ یہ ہے کہ اسے اس کی پوری پوری مزدوری دے دی جائے۔ اس میں کوئی کمی نہ کی جائے۔ اللہ تعالیٰ پھر فرشتوں سے فرماتے ہیں کہ یہ میرے بندے ہیں، میں نے رمضان کے مہینے میں ان کے ذمے ایک کام لگایا تھا کہ روزہ رکھیں اور میری خاطر کھانا پینا چھوڑ دیں اور اپنی خواہشات کو ترک کر دیں، آج انہوں نے اپنا فریضہ مکمل کر دیا۔ اب یہ اس میدان کے اندر جمع ہیں اور مجھ سے دعا مانگ رہے ہیں۔ میں اپنی عزت و جلال کی قسم کھاتا ہوں، اپنے علو مکان کی قسم کھاتا ہوں کہ آج میںسب کی دعاو?ں کو قبول کروں گا اور میں ان گناہوں کی مغفرت کروں گا اور ان کی برائیوں کو نیکیوں میں بدل دوں گا۔“چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ:

”جب روزہ دار عید گاہ سے واپس جاتے ہیں تو اس حالت میں جاتے ہیں کہ ان کی مغفرت ہو چکی ہوتی ہے۔“

عید کیسے منائیں :

عید الفطر کا دن ہماری زندگی کا سب سے اہم دن ہے اور یہ سال میں ایک بار آتا ہے،اس لئے ہماری کوشش ہو کہ اس مبارک دن کو احکام خداوندی کی پاسداری کرتے ہوئے لہو و لعب سے پاک ہوکر دن گزارے، اہل و عیال کے ضروریات کی چیزوں پر فراخ دلی سے خرچ کریں، نہا دھو کر جو کپڑا سب سے اچھا ہو اسے زیب تن کریں، خوشبو لگائیں، اچھا سے اچھا پہنیں، کھائیں، عزیز و اقارب اور دوست و احباب سے وسیع قلب اور خوش دلی سے ملیں، عید کے دن کو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت متبرک والا دن قرار دیا ہے،۔مکاشفة القلوب میں علامہ غزالی رحمة اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں حضرت سیدنا وہب بن منبہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جب بھی عید آتی ہے تو شیطان چلا چلا کر روتا ہے، اس کی بدحواسی دیکھ کر تمام شیاطین اس کے گرد جمع ہو کر پوچھتے ہیں، اے آقا! آپ کیوں غضبناک اور اداس ہو رہے ہیں، وہ کہتا ہے ہائے افسوس اللہ تعالی نے آج کے دن امت محمدیہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو بخش دیا ہے، لہٰذا تم انہیں لذتوں اور خواہشات نفسانی میں مشغول کردو۔آپ ذرا غور کریں کہ شیطان کس قدر مسلمانوں کو لذت نفسانی میں مشغول کرنے کیلئے پریشان رہتا ہے، مگر آپ اور ہم اس بات کو بھول کر نہ جانے عید کے دن خوشی کا اظہار کرتے کرتے کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں، اور بہت سے ناجائز کام کرنے لگ جاتے ہیں، جس کی شریعت کبھی اجازت نہیں دیتی۔ اس لئے ہمیں چاہیے کہ عید کے دن عبادات و حسنات کی کثرت کریں اور اللہ کا زیادہ سے زیادہ شکر ادا کریں، رقص و سرور کی محفلوں سے دور رہیں، اس کی طرف نظر بھی نہ کریں، ناچ گانوں اور فلمی ڈراموں کا اہتمام ہرگز ہرگز نہ کریں۔عید کے دن لوگ خلیفہ ثانی امیر المومنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے کاشانہءخلافت پر حاضر ہوئے تو کیا دیکھا کہ آپ دروازہ بند کرکے زار و قطار رو رہے ہیں، لوگوں نے تعجب سے عرض کیا، یا امیر المومین! آج تو عید کا دن ہے، آج تو شادمانی و مسرت اور خوشی منانے کا دن ہے، یہ خوشی کی جگہ رونا کیسا؟

آپ نے آنسو پونچھتے ہوئے فرمایا©:” ھذا یوم العید وھذا یوم الوعید “اے لوگو! یہ عید کا دن بھی ہے اور وعید کا دن بھی ہے، آج جس کے نماز روزہ مقبول ہوگئے، بلاشبہ اس کیلئے آج عید کا دن ہے لیکن آج جس کی نماز روزہ کو مردود کرکے اس کے منہ پر مار دیا گیا ہو، اس کے لئے تو آج وعید ہی کا دن ہے اور میں تو اس خوب سے رو رہا ہوں کہ آہ! انا لا ادری ام من المقبولین ام من المطرودین یعنی مجھے یہ معلوم نہیں کہ میں مقبول ہوا ہوں یا رد کر دیا گیا ہوں۔

ذرا غور کیجئے اور اپنے دل پرہاتھ رکھ کر سوچئے! یہ وہی فاروق اعظم ہیں جن کو مالک جنت تاجدار مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات

ظاہری ہی میں جنت کی بشارت دی تھی، پھر بھی خشیت الٰہی کا یہ حال کہ صرف یہ سوچ کر تھرا رہے ہیں کہ نہ معلوم میری رمضان المبارک کی عبادتیں قبول ہوئیں یا نہیں۔

حضور سیدی سرکار غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں،“لوگ کہہ رہے ہیں کل عید ہے، کل عید ہے اور سب خوش ہیں لیکن میں تو جس دن اس دنیا سے اپنا ایمان محفوظ لے کر گیا میرے لئے تو وہی دن عید کا دن ہوگا۔
مولانا محمد پرویز رضا فیضانی حشمتی 

عیدالفطر مسلمانوں کا ایک اہم مذہبی تہوار ہےجسے

عیدالفطر مسلمانوں کا ایک اہم مذہبی تہوار ہےجسے عیدالفطر مسلمانوں کا ایک اہم مذہبی تہوار ہےجسے دنیا میں بسنے والے مسلمان رمضان المبارک کا مہینہ ختم ہونے کے بعد شکرانے کے طور پر مناتے ہیں یوم عید ماہ صیام کی تکمیل پر اللہ تعالیٰ سے انعامات پانے کا بھی دن ہے ،تو اس سے زیادہ خوشی ومسرت کا کیا موقع ہو سکتا ہے ؟ یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ میں اس دن کو ایک خاص مقام اور اہمیت حاصل ہے۔
علما ئے کرام نے لکھا ہے کہ عید کا لفظ عود سے مشتق ہے جس کے معنی لوٹنے کے ہیں ،یعنی عید ہر سال لوٹتی ہے ، اس کے لوٹ کے آنے کی خواہش کی جاتی ہے۔
اور فطر کے معنی روزہ توڑ نے یا ختم کرنے کے ہیں _چوں کہ عید الفطر کے دن روزوں کا سلسلہ ختم ہوتا ہے اور اس روز اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو رمضان کی عبادتوں کا ثواب عطا فرماتا ہے ،تو اسی مناسبت سے اس دن کو عید الفطر کہا جاتا ہے۔

عید کس کی؟
بلا شبہ وہ افراد نہایت خوش قسمت ہیں، جنھوں نےرمضان المبارک کے مہینے میں اپنے آپ کو پورے طور پر عبادت الہی میں مصروف رکھا،اور بارگاہ رب العزت میں مغفرت کے لئے دامن کو پھیلائے رکھا ،یہ عید ایسے ہی خوش بخت افراد کے لئے ہے اور اب انھیں مزدوری ملنے کا وقت ہے _
حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عید ان کی نہیں جنھوں نے اپنے آپ کو عمدہ لباس سےآراستہ کیا بلکہ عیدتو ان کی ہے جو اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچ گئے اور اس کے عذاب و عتاب سے ڈر گئے ، عیدان کی نہیں جو بہت زیادہ خوشیاں منائیں بلکہ عید ان کی ہے جنھوں نے اپنے تمام گناہوں سے توبہ کی اور اس پر قائم رہے ، عید ان کی نہیں جنھوں نےبڑی بڑی دیگیں چڑھائیں اور دستر خوان آراستہ کیے بلکہ عیدتو ان کی ہے جنھوں نے نیک بننے کی کوشش کی اور سعادت حاصل کی ،عید ان کی نہیں جو دنیاوی زیب و زینت اور آرائش و زیبائش کے ساتھ نکلے ، بلکہ عید تو ان کی ہے جنھوں نے تقوی وپرہیزگاری اور خوف خدا اختیار کیا_
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عید کی مبارک باد دینے کے لئے آنے والے لوگوں سے فرمایا عید تو ان کی ہے جو عذاب آخرت اور مرنے کے بعد کی سزا سے نجات پا چکے ہیں
اسی طرح ایک دفعہ حضرت عمر رضى اللہ عنہ کے دور خلافت میں لوگ آپ کے پاس عید کے روز آئے ،تو دیکھا کہ وہ گھر کا دروازہ بند کیے زارو قطار رو رہے ہیں ، لوگوں نے عرض کیا: امیر المومنین! آج تو عید کا دن ہے اور آپ رو رہے ہیں حضرت عمر رضى اللہ عنہ نے جواب دیا: لوگو! یہ عید کا بھی دن ہے اور وعید کا بھی ،آج جس کی نماز ،روزے اور دیگر تمام عبادتیں بارگاہ الہی میں مقبول ہو گئیں توبلاشہ آج اس کے لئے عید کا دن ہے ،اور جس کی عبادتیں مقبول نہیں ہوئیں ہیں ،تو اس کے لئے وعید کا دن ہے ،میں اس خوف سے رو رہا ہوں کہ مجھے نہیں معلوم کہ میری عبادتیں بارگاہ رب العزت میں مقبول ہو ئیں یا انھیں رد کر دیا گیا-
عید کے اس پر مسرت موقع پر ہمارے اور آپ کے لئے بے حد ضروری ہے کہ ہم اور آپ اپنے اردگرد کے پڑوسیوں اور رشتہ داروں پر نظر دوڑائیں کہ کہیں ان میں سے کوئی ایسا تو نہیں جو اپنی غربت اور تنگ دستی کے سبب عید کی خوشیوں میں شامل ہونے سے محروم ہے _ اگر ایسا ہے تو یقین جا نیے، ہم خواہ کتنے ہی اچھے کپڑے پہن لیں ،طویل دستر خوان سجا لیں ،عیدیاں بانٹتے پھریں ،ہماری عید پھر بھی پھیکی ہی رہے گی ،بلکہ ایسی عید عید کہلانے کے قابل نہیں ،جس میں دیگر افراد شامل ہی نہ ہوں ،
حضرت علی رضى اللہ عنہ کو زمانۂ خلافت میں لوگ عید کی مبارک باد دینے گئے ،توکیا دیکھتے ہیں کہ امیر المؤمنین خشک روٹی تناول فرما رہے ہیں تو ان لوگوں میں سے کسی
نے عرض کیا: امیر المؤمنین! آج تو عید کا دن ہے ؟ یہ سن کرآپ نے ایک سرد آہ بھری اور فرمایا جب دنیا میں ایسے بہت سے لوگ موجود ہوں جنھیں یہ ٹکڑے بھی میسر نہیں ،تو ہمیں عید منانے کا حق کیوں کر حاصل ہے؟
*روایت ہے کہ آقائے دوجہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نماز عید کے لئے نکلے تو دیکھا کہ سب بچے کھیل رہے ہیں مگر ان میں ایک بچہ ایک طرف بیٹھا رو رہا ہےاور اس کے کپڑے بھی پھٹے پرانے ہیں تو نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لے گئے اور پیار سے اس کے سر پر دست شفقت پھیرا پھر حضور نے پوچھا: بیٹا کیوں رو رہے ہو اور بچوں کے ساتھ کھیل نہیں رہے ہو؟ غالباً بچہ آپ کونہیں جانتا ہو گا کہ اس سے ہمارے پیار ے آقا صلی اللہ علیہ وسلم ہم کلام ہیں، یا پریشانی کی وجہ سے نہ پہچان سکا ہوگا اس لئے اس نے کہا: صاحب مجھے میرے حال پر چھوڑ دیجئے ،در اصل میرا باپ فلاں غزوے میں ہمارے پیار ے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کرتے ہوئے شہید ہو گیا ،میری ماں نے دوسرا نکاح کر لیا،وہ میرا مال کھا گئے ،اور میرے سوتیلے باپ نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے ،اب میرے پاس نہ کھانا ہے نہ پینا، ن

ہ کپڑا نہ گھر ۔جب میں ان بچوں کو کھیلتے اور نئے کپڑے پہنے دیکھا تو میرا غم تازہ ہوگیا اسی لیے رو پڑا۔ہمارے پیارےنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ میں تیرا باپ، عائشہ تیری ماں، فاطمہ تیری بہن، علی تیرے چچا اور حسن و حسین تیرے بھائی ہوں عرض کیا: یا رسول اللہ! اس پر میں کیسے راضی نہیں ہو سکتا, پھر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنے گھر لے آئے نہلایا دھلایا،خوب صورت کپڑا پہنایا اور کھانا کھلایا ،وہ لڑکا شاداں و فرحاں باہر نکلا تو لڑکوں نے پوچھا ابھی تو تو رورہا تھا اور اب بڑا خوش و خرم نظر آرہا ہے آخربات کیا ہے ؟ وہ کہنے لگا: میں بھوکا تھا اللہ تعالیٰ نے میرے کھانے کا انتظام کر دیا ،میں ننگا تھا اللہ نے میرے کپڑے کا انتظام کر دیا ،اور اب میرے باپ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم، ماں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا، بہن سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا، چچا حضرت علی رضى اللہ عنہ اور بھائی حضرت حسن و حسین رضى اللہ عنہ بن چکے ہیں ۔یہ سن کر لڑکے کہنے لگے کاش! آج ہمارے باپ بھی نہ ہوتے ۔اور یہ لڑکا ہمیشہ ہمارے پیار ے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیر کفالت رہنے لگا۔*

یوم عید میں تفریح مگر حدود کے اندر
یوم عید ایک مذہبی تہوار ہے ،اس لئے اس روز ہونے والی تمام سرگرميوں کو اسی تناظر میں ترتیب دینا چاہیے ،ہمارے اور آپ کے ذہن میں یہ بات بھی رہے کہ اسلام نے خوشی کے اظہار سے منع نہیں کیا اور نہ ہی اسلام کے نزدیک تقوی وپرہیزگاری کا مطلب خشک مزاجی اور روکھا پن ہے البتہ اتنا ضرور ہے کہ مذہب اسلام نےتہواروں اور تفریحات کو کچھ حدود کا پابند بنایا ہے ،تاکہ بے لگام خواہشات اور نفس پرستی کی راہ مسدود کی جا سکے_

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں عید کا دن تھا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے کے سامنے حبش کے کچھ لوگ نیزوں اور ڈھالوں کے کرتب دکھا رہے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم دروازے سے دیکھ کر خوشی کا اظہار فرما رہے تھے اور میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چادر مبارک کے پیچھے چھپ کر یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی ،آپ مجھے بہت دیر تک چادر کی آڑ میں چھپائے ان غلاموں کے کھیل دکھاتے رہے- جب میرا جی بھر گیا تو آپ نے فرمایا: “بس”! میں نے عرض کیا: جی ہاں ! تو حضور نے فرمایا جاؤ_

اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ عید کے دن ہمارے گھر کچھ بچیاں جنگ بعاث سے متعلق کچھ اشعار گنگنا رہی تھیں ،اسی دوران حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور کہنے لگے اللہ کے رسول کے گھر میں یہ ہے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا انھیں رہنے دو ،ہرقوم کے لئے ایک تہوار کا دن ہوتا ہے آج ہمارے لیے عید کا دن ہے_
لہذا ہمارے اور آپ کے لیے ضروری ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو اپنے ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے تمام تفریحات کا لطف اسلام کے دائرے میں رہ کر اُٹھائیں ،عید کی خوشیاں منائیں اور اپنے آپ کو تمام فحش چیزوں سے بچائیں _
صدقۂ فطر
صدقۂ فطر ہر مسلمان آزاد مالک نصاب پر جس کا نصاب حاجت اصلیہ سے فارغ ہو واجب ہے -اس میں عاقل بالغ اور مال نامی ہونے کی شرط نہیں
ابن عباس رضى اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آقائے کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۂ فطر مقرر فرمائی کہ لغو اور بے ہودہ کلام سے روزے کی طہارت ہو جائے اور مساکین کے خوردونوش کا انتظام ہو جائے
اسی طرح صدقۂ فطر کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بندہ کا روزہ زمین وآسمان کی درمیان معلق رہتا ہے ،جب تک صدقۂ فطر ادا نہ کردے_
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر صدقۂ فطر کا فلسفہ یہی ہے کہ عید الفطر کی خوشی میں غریب مسلمان بھائی بھی پورے طور پر شریک ہو سکیں اور ان کے چہروں پر بھی خوشیوں کی وہی رونق رہے جو دوسرے لوگوں کے چہروں پر نمایاں رہتی ہے_

صدقۂ فطر ادا کرنے کا افضل وقت عید کے دن نماز عید سے پہلے کا ہے_لہذا ہمیں اور آپ کو چاہئے کہ عید کے دن عید کی نماز سے پہلے صدقۂ فطر غریبوں کو دے دیں تاکہ وہ بھی اپنی عید کی تیاری کرکے ہماری خوشی میں شامل ہوں۔
عبد الله بن عمررضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عید کے لئے نکلنے سے پہلے لوگوں کوصدقۂ فطر ادا کرنے کا حکم دیا
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عید الفطر کے روز ایک صاع گلہ نکالتے تھے
صدقۂ فطر کی مقدار
صدقۂ فطر کی مقدار یہ ہے گیہوں یااس کا آٹا یا ستو نصف صاع، کھجور یا منقّے یا جَو یا اس کا آٹا یا ستو ایک صاع _
گیہوں اور جَو کے دینے سے ان کا آٹا دینا افضل ہے اور اس سے افضل یہ ہے کہ قیمت دیدے خواہ گیہوں کی قیمت دے یا جَو کی یا کھجور کی مگر گرانی میں خود ان کا دینا قیمت دینے سے افضل ہے۔

صدقۂ فطر واجب ہے عمر بھر اس کا وقت ہے یعنی ادا نہ کیا ہو تو اب ادا ک

ر دے ،ادانہ کرنے سے ساقط نہیں ہو گا اور نہ ہی اب ادا کرنا قضا ہے بلکہ ادا ہی ہے اگر چہ مسنون قبل نماز عید ادا کرنا ہے
صدقۂ فطر کے مصارف
صدقۂ فطر کے مصارف وہی ہیں جو زکاۃ کے ہیں یعنی جن کو زکاۃ دے سکتے ہیں ان کو فطرہ بھی دے سکتے ہیں اور جنھیں زکاۃ نہیں دے سکتے انھیں فطرہ بھی نہیں دے سکتے سوائے عامل کے کہ اس کے لئے زکاۃ ہے فطرہ نہیں _

عید کی نماز کس پر واجب ہے
عید کی نمازانھیں لوگوں پر واجب ہے جن پر جمعہ واجب ہے ،اوراس کی ادا کے لئے وہی شرطیں ہیں جو جمعہ کے لئے ہیں ،صرف اتنا فرق ہے کہ جمعہ میں خطبہ شرط ہے اور عید میں سنت ، اگر جمعہ میں خطبہ نہ پڑھا تو جمعہ نہ ہوا اور اس میں نہ پڑھا تو نماز ہوگئی مگر بُرا کیا ، اور جمعہ کا خطبہ قبل نماز ہے ،اور عید کا بعد نماز ،اگر پہلے پڑھ لیا تو بُرا کیا ،مگر نماز ہوگئ، لوٹائی نہیں جائے گی اور خطبہ کا بھی اعادہ نہیں اور عید میں نہ اذان ہے نہ اقامت صرف دو بار اتنا کہنے کی اجازت ہے الصلوۃ جامعۃ
بلا وجہ عید کی نماز چھوڑنا گمراہی و بدعت ہے _
عید کےدن وہ امور جو مستحب ہیں حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے روز کچھ کھا کر نماز کے لئے تشریف لے جاتے _
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے روز تشریف نہ لے جاتے جب تک کہ چند کھجوریں تناول نہ فرمالیتے اور وہ طاق ہوتیں _
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید کو ایک راستہ سے تشریف لے جاتے اور دوسرے راستہ سے واپس آ تے _
(1) حجامت بنوانا (2) ناخن ترشوانا (3) غسل کرنا (4) مسواک کرنا (5) اچھے کپڑا پہننا ، نیا ہو تو نیا ورنہ دھلا (6) ا نگوٹھی پہننا (7) خوشبو لگانا (8) صبح کی نماز مسجدِ محلہ میں پڑھنا (9) عید گاہ جلد جانا (10) نماز سے پہلے صدقۂ فطر ادا کرنا (11) عید گاہ کو پیدل جانا (12) دوسرے راستہ سے واپس آ نا(13) نماز کو جانے سے پہلے چند کھجور یں کھا لینا _ تین ،پانچ،سات یاکم وبیش مگر طاق ہو ں ، کھجور یں نہ ہو ں تو کوئی میٹھی چیز کھا لے (14) خوشی ظاہر کر نا (15) کثرت سے صدقہ کرنا (16) عید گاہ کو اطمینان ووقار اور نیچی نگاہ کیے جانا (17)آپس میں مبارک باد دینا،عید کے دن یہ ساری چیزیں مستحب ہیں۔
عید کی نماز کا وقت
عید کی نماز کا وقت بقدرایک نیزہ آفتاب بلند ہونے سے ضحوۂ کبری یعنی نصف النہار شرعی تک ہے اور عید الفطر میں تاخیر کرنا مستحب ہے
نمازعید کا طریقہ
نماز عید کا طریقہ یہ ہے کہ دورکعت واجب عید الفطر کی نیت کر کے کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لے پھر ثنا پڑھ لے پھر کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور اللہ اکبر کہتا ہوا ہاتھ چھوڑ دے پھر ہاتھ اٹھائے اور اللہ اکبر کہتا ہوا ہاتھ چھوڑ دے پھر ہاتھ اٹھائے اور اللہ اکبر کہتا ہوا ہاتھ باندھ لے یعنی پہلی تکبیر میں ہاتھ باندھ لے ،اس کے بعد دوتکبیروں میں ہاتھ لٹکائے پھر چوتھی تکبیر میں ہاتھ باندھ لے_ پھر امام تعوذ اور تسمیہ آہستہ پڑھ کر جہر کے ساتھ الحمد اور کوئی سورت پڑھے پھر رکوع وسجود کرے ، دوسری رکعت میں پہلے الحمد اور سورت پڑھے پھر تین بار ہاتھ کان تک لے جا کر اللہ اکبر کہے اور ہاتھ نہ باندھے اور چوتھی بار بغیر ہاتھ اٹھائے اللہ اکبر کہتا ہوا رکوع میں چلا جائے اس کے بعد سجدہ اور قعدہ کر کے اپنی نماز پوری کرے ‌
نوٹ: اس سال جو لوگ لاک ڈاؤن کی وجہ سے نماز عید کی جماعت میں حاضر ہو نے سے محروم ہو رہے ہیں تو یہ محرومی جسمانی حاضری سے ہے مگر نیت حاضری کی وجہ سے ہم عنداللہ وہاں حاضر ہیں اس لیے حاضری جماعت کا ثواب بھی پورا پورا ملے گا (ان شاءاللہ)۔
حدیث پاک ہے کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک غزوہ سے واپس ہوتےوقت جب مدینہ منورہ کے قریب آگئے توصحابہ سے خطاب کر کے فرمایا : مدینہ منورہ میں کچھ ایسے لوگ بھی مقیم ہیں کہ تم لوگ جہاں جہاں بھی گئے وہ لوگ ہر جگہ ( نیت عبادت وثواب عبادت میں) تمہارے ساتھ تھے_ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ وہ لوگ تو مدینہ میں ہیں ( ہمارے ساتھ شریک عبادت کیسے ہو گئے ) تو سرکار علیہ السلام نے ارشاد فرمایا : وھم بالمدینۃ حبسھم العذر ، ہاں وہ لوگ مدینہ میں ہیں ،انھیں تمھارے ساتھ آنے سے عذر نے روک رکھا ہے
اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ اگر دل میں عبادت کی نیت ہو مگر عذر کی وجہ سے نہ کر سکے تو
 عبادت کا ثواب پائے گا۔
نماز عید کے بعد دو رکعت یا چار رکعت نماز نفل گھر میں پڑھنا مستحب ہے
لہذا جو لوگ اس سال لاک ڈاؤن کی وجہ سے نماز عید کی جماعت میں حاضر ہو نے سے محروم ہو رہے ہیں تو ان کو چاہیے کہ دو رکعت یا چار رکعت نفل نماز اپنے گھروں میں اہل خانہ کے ساتھ ضرور پڑھیں ،گھر میں کوئی امام ہو تو مختصر جماعت کرسکتے ہیں ،ورنہ تنہا تنہا پڑھیں کہ شریعت کو یہ نماز تنہا تنہا محبوب ہے ،اور سلام پھیرنے کے بعد 34 بار اللہ اکبر اللہ اکبر ضرور پڑھیں اس وجہ سے کہ حدیث نبوی میں اس کی بڑی فضیلت آئی ہے۔

ضروری ہدایت فقیر فیض النبی مصباحی کا ناقص مشورہ امت مسلمہ کی رہنما ئی کے لئے یہ ہے کہ اس سال ہم اور آ پ عید کے لئے نئے کپڑے نہ خریدیں بلکہ اس رقم کو اپنے پاس محفوظ رکھیں ،اور آپ کے اپنے پاس رکھے ہوئے کپڑوں میں سے جو سب سے عمدہ ہے اسی کو آپ پہن کر عید منائیں ،اور اپنے اردگرد کے پڑوسیوں، رشتہ داروں ،غریبوں اور مسکینوں کا خاص خیال رکھیں
اور نماز عید کے لئے اتنے ہی لوگ عید گاہ میں تشریف لے جائیں جتنے لوگوں کی اجازت ہے ،اور عید کی مبارک بادی اپنے رشتہ داروں اور دوست واحباب کو موبائل سے ہی دیں ،اور نہ آپ کسی کے گھر جائیں اور نہ دوسرے کو اپنے گھر بلائیں ، بلکہ اپنے بچوں ہی کے ساتھ عید کی خوشیاں باٹیں
اخیر میں دعا ہے کہ مولی تعالیٰ امت مسلمہ کو سنت نبوی کے مطابق عید منانے کی توفیق عطا فرمائے ،اپنے حبیب کے صدقے میں امت مسلمہ کو تمام آفات وبلیّات بالخصوص کرونا جیسی مہلک بیماری سے حفاظت فرمائے اور اپنے حفظ وامان میں رکھے_ آمین یارب العالمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم



تحفظ ناموس رسالت

✒️..  _ محمد پرویز رضا فیضانی حشمتی 
باب الصلاۃ من الایمان 
اللہ ربّ العزت کا شکر ہے جس کی توفیق سے علم التر بیت کے ان حلقات میں دروس صحیح البخاری کے زیل میں آج باب نمبر 31 کا مطالعہ کر رہے ہیں، اس کا عنوان جو امام بخاری نے قائم فرمایا ہے کہ باب اس امر کا نماز بھی ایمان میں سے ہے ،پھر وہ اللہ ربّ العزت کے اس قول کو یعنی سورہ بقرہ کی آیت نمبر 143 کا حصہ لاتے ہیں کہ اللہ ربّ العزت کی یہ شان نہیں ہے کہ وہ تمہارا ایمان ضائع ہونے دے ،یعنی وہ نمازیں جو تحویل قبلہ سے قبل بیت المقدس کی طرف منہ کرکے پڑھی گئیں اور وہ لوگ فوت ہو گئے جنہوں نے وہ نمازیں بیت المقدس کی طرف منہ کر کے پڑھیں جب وہ قبلہ تھا اور اب قبلہ بدل کر کعبۃ اللہ ہو گیا تو جنہوں نے نمازیں اس سمت قبلہ کی طرف پڑھیں تھیں وہ کسی کی ضائع نہیں ہوں گی ۔
ان کا اجر بھی اسی طرح قائم و دائم اور کامل و وافر ہو گا ۔
ترجمۃ الباب میں اتنا مضمون لانے کے بعد امام بخاری حضرت براء بن عازب رض سے مروی حدیث لاتے ہیں جس میں وہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب قدوم میمنت نزول ہوا ، مدینہ منورہ تشریف لائے تو اپنے اجداد یعنی ننھیال کے ہاں اخوال کے ہاں ٹھہرے اور وہ انصار میں سے تھے ،اب اس کا آپ کے دادا جان کے نسب سے بھی اس کا تعلق ہے اور والدہ ماجدہ کے نسب کے ساتھ بھی اس کا تعلق ہے ۔حضور علیہ السلام نے ہجرت مدینہ کے بعد سولہ یا سترہ ماہ مسلسل نماز بیت المقدس، یروشلم جو القدس ہے   کی طرف منہ کرکے نماز پڑھیں اور پڑھائی مگر آپ پسند کرتے تھے آپ کو محبت تھی اس امر کی چاہت تھی کہ آپ کا قبلہ بیت المقدس کی بجائے کعبۃ اللہ ہو جائے جو بیت ابراہیمی ہے ۔حضور علیہ السلام نے تحویل قبلہ کے بعد جو پہلی نماز پڑھی گویا مکہ کی طرف وہ نماز عصر تھی ۔
اس حدیث پاک کے الفاظ سے یہ بات واضع نہیں یہ دیگر بہت سی احادیث کے مضمون اور مرویات کو ملا کر یہ بات اخذ کی ہے ۔
اس حدیث میں اتنا آیا ہے کہ جب پہلی نماز آپ نے ادا فرمائی وہ صلوٰۃ العصر تھی اور آپ کے ساتھ لوگوں نے نماز ادا کی ۔ اب اس حدیث میں مضمون یوں ہے کہ ایک صحابی جس نے حضور علیہ السلام کی اقتداء میں نماز پڑھی تھی ، تفصیلات میں آتا ہے کہ ان کا نام عباد بن بشر تھا ،وہ نماز سے فارغ ہو کر گئے اور گزر ہوا ایک علاقے سے تو وہاں ایک مسجد تھی اس مسجد کے قریب سے گزرے وہ آقا علیہ السلام کی اقتداء میں نماز عصر پڑھ چکے تھے ۔وہ کون سی مسجد تھی جہاں انہوں نے نماز پڑھی تھی اس کی تفصیل اس حدیث میں نہیں دیگر احادیث کی کتب سے ملے گی وہ مسجد نبوی بھی ہو سکتی ہے اور مسجد بنی سلمہ بھی ہے ،یہ آگے جب تفصیل میں بات ہو گی تو پھر بات کھلے گی ۔ 
جس مسجد کے قریب سے گزرے وہ مسجد بنی حارثہ تھی وہاں لوگ نماز عصر پڑھ رہے تھے ۔اب یہاں ایک سوال محفوظ رکھ لیں ذہنوں میں آئے گا کہ کتنی مسجدیں مدینہ منورہ میں تھیں آقا علیہ السلام کے زمانہ اطہر میں۔اور لوگ الگ الگ اپنی مساجد میں نماز باجماعت پڑھتے تھے ، قدیم کتب تاریخ اور کتب سیر میں اخبار مکہ اور اخبار مدینہ جسی کتب میں کھنگالنے سے معلوم ہوتا ہے، میں نے جتنا کھنگالا ہے کتب کو عام طور پر محدثین جیسے امام عینی نے عمدۃ القاری میں لکھا ہے کہ آقا علیہ السلام کے مقدس دور میں  مسجد نبوی کے علاوہ نو مسجدیں تھیں ۔مگر جب میں نے ان کتب کو کھنگالا تو 40 مساجد تک پہنچا ہوں ، یہ جز آگے بیان کروں گا۔
 ان میں سے ایک مسجد بنی حارثہ کے قریب سے گزرے تو لوگ نماز عصر پڑھ رہے تھے،سب سے پہلے  مسجد نبوی میںحضرت بلال رض آزان دیتے تھے ۔اور وہاں نماز ہوتی اور اس آزان کو follow کرتے پھر تمام مساجد میں جیسے جیسے اطلاع ملتی تو وہ آذانیں دیکر اپنی اپنی نمازیں ادا کرتے ،تو انہوں نے نماز عصر شروع کی آقا علیہ السلام پڑھ چکے تھے ، انہوں نے دیکھا کہ وہ رکوع میں تھے اور بدستور پچھلے سولہ سترہ ماہ کا جو معمول تھا اس کے مطابق وہ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھ رہے تھے کہ انہوں نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ آقا علیہ السلام کی اقتداء میں قبلہ مکہ کی طرف منہ کرکے  ابھی  نماز پڑھ کر آیا ہوں۔
حدیث کے یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ تحویل قبلہ نماز ظہر میں ہو چکا تھا اور اس کے بعد پہلی نماز عصر آقا علیہ السلام نے مسجد نبوی میں ادا کی ۔
قبلہ بدلنے کا واقعہ نماز ظہر کے وقت مسجد بنی سلمہ میں ہوا تھا ،ایک صحابی کا انتقال ہو گیا تھا تو آقا علیہ السلام اس کے جنازے کے لیے تشریف لے گئے، پھر بعض کتب میں آتا ہے کہ ایک صحابی کی والدہ نے اسی محلے اسی قریہ میں آقا علیہ السلام کی دعوت کی تھی۔تو آپ اس وقت وہاں موجود تھے نماز ظہر کا وقت ہوا اسی علاقے بنی سلمہ کی مسجد میں تشریف لے گئے وہاں نماز ظہر ادا فرما رہے تھے کہ اس دوران تحویل قبلہ کا واقعہ ہوا ۔
اس لئے جب حضرت براء بن عازب بیان کر رہے ہیں تو وہ یہ کہتے ہیں کہ میں آقا علیہ السلام کی اقتداء میں کعبہ مکہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھ کر آیا ہوں،اگر اس نماز عصر میں تحویل قبلہ ہوئی ہوتی تو وہ یہ جملہ نہ بولتے کہ میں آقا علیہ السلام کی اقتداء میں مکہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھ کر آیا ہوں ۔وہ یہ جملہ بولتے کہ میں موجود تھا کہ مکہ طرف تحویل قبلہ ہو گیا ہے ۔
اور یہ تحویل قبلہ کا جن کو بتا رہے ہیں وہ بنی حارثہ کے لوگ ہیں اور وہ رکوع میں کھڑے ہیں۔جب انہوں نے ان کی گواہی سنی حلفآ شہادت دی وہ رکوع کی حالت میں ہی پھر گئے اور بیت المقدس کی بجائے اپنا رخ کعبۃ اللہ کی طرف کر لیا۔
اس حدیث میں امام بخاری بیان کرتے ہیں کہ یہود جب خوش ہوتے تھے کہ جب آپ مدینہ منورہ آئے اور بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے دیکھا کہ اس پیغمبر نے اور مسلمانوں نے ہمارا قبلہ adopt کر لیا ہے مگر جب تحویل قبلہ کا حکم آ گیا اور آپ نے چہرہ انور مکہ کی طرف کر لیا تو وہ اس کے منکر ہو گئے۔ 
پہلے بھی طعنہ زنی کرتے تھے بعد میں بھی طعنہ زنی کرنے لگے اور اس پر امام بخاری نے ظہیر کی روایت سے بیان کیا ہے کہ حضرت براء بن عازب رض کی حدیث میں کہ وہ اس قبلہ پر جن لوگوں کی وفات ہو گئی تھی بیت المقدس کے قبلہ پر تحویل قبلہ سے قبل ، ہم نہیں جانتے تھے کہ ان کے بارے میں کیا کہیں ، یہود، کفار و مشرکین  طعنہ دیتے تھے   خاص طور پر یہود اہل کتاب طعنہ دیتے تھے اور ہم سے پوچھتے تھے کہ بتاؤ کہ جب تم بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تھے تو وہ قبلہ ہدایت پر تھا یا ضلاضت گمراہی پر تھا ،تم ضلاضت پر تھے یا گمراہی پر تھے ۔
اگر تم اس وقت ہدایت  پر  تھے تو تم نے ہدایت چھوڑ دی ہے اور اگر تم اس وقت معاذاللہ گمراہی پر تھے تو اب ہدایت پر آئے ہو ،اس طرح وہ متعین کر کے  leading question کرتے تھے ، اگر اب ہدایت پر آئے ہو تو تمہارے ساتھی صحابہ ادھر منہ کرکے نماز پڑھتے فوت ہو گئے تو  کیا بنے گا ان کی نمازوں کا  ۔اس طرح وہ سوالات کرتے تھے ، صحابہ کرام کہتے ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ہم کیا جواب دیں ،آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں عرض کیا تو اس کے جواب میں آیت آ گئی کہ اللہ تعالیٰ کسی کا ایمان ضائع کرنے والا نہیں ہے یہ تو اس حدیث کا مضمون ہے۔
اب امام بخاری نے یہ حدیث صحیح بخاری میں کئی مقامات پر بیان کی ہے یہ تو کتاب الایمان میں تھی حدیث نمبر 40 جس کو ابھی ہم نے پڑھا ہے ۔
اس کے بعد امام بخاری کتاب الصلاۃ من بھی حدیث لائے ہیں ،باب التوجہ نحول القبلہ ،
پھر تیسری بار یہ حدیث تفسیر میں لائے ہیں سورہ بقرہ کے تحت اس آیت کی تفسیر میں لائے ہیں اور کئی جگہوں پر امام بخاری یہ حدیث لائے ہیں اسی طرح امام مسلم بھی اس حدیث کو لاتے ہیں ،اب میں صحیح بخاری کا  صرف ایک  اور مقام پڑھوں گا جو کتاب الصلاۃ میں ہے ،باب التوجہ نحول القبلہ یعنی قبلہ کی طرف متوجہ ہو جانا جہاں بھی تھے ۔قبلہ کی طرف منہ کر لو اور یہ ترجمۃ الباب میں حضرت براء بن عازب رض سے ہی روایت لائے ہیں 
پہلا حصہ وہی ہے کہ 16 ماہ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز ادا کی ۔اگلے جملے میں ایک لفظ کا فرق ہے کہ آپ کو محبت تھی اس آمر سے چاہتے تھے کہ آپ کو کعبہ کی طرف متوجہ کر دیا جائے ، آقا علیہ السلام کی طرف اس جملے میں کتنا ادب ہے ، یہ نہیں فرمایا کہ آپ اس بات کو پسند کرتے تھے کہ رخ ادھر ہو جائے یا میں کعبہ مکہ کی طرف متوجہ ہو جاؤں۔
صیغہ مجہول میں کہا کہ آپ کو اس امر سے محبت تھی کہ انہیں پھیر دیا جائے ، یہ ادب الہویت ہے کیونکہ کعبہ اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے اور اللہ کی عبادت کی سمت ہے وہ مجھے اس طرف قبلہ تحویل کر دے وہ میرا رخ ادھر پھیر دے یعنی کعبہ کا زکر کیا ہے عبادت الہیہ کی اور اس کے بیان کے صیغے کا فعل اپنی جانب نہیں بلکہ صیغہ مجہول میں اللہ تعالیٰ کے ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ مجھے اس طرف پھیر دیا جائے تو اللہ تعالیٰ نے آیت نازل کی ،یہ آیت کا ٹکڑا اس روایت میں موجود نہیں تھا ۔
اللہ تعالیٰ نے آیت نازل کی میرے حبیب ہم نے آپ کا چہرہ بار بار آسمان کی طرف پلٹنا دیکھ لیا ہے یعنی آپ کے دل کی خواہش ہم جانتے ہیں ،سو اس آیت کے اترنے سے آقا علیہ السلام نے اپنا چہرہ اقدس کعبہ کی طرف پھیر لیا۔
 لوگوں میں صفہاء تھے انہوں نے کہا کہ کس چیز نے تمہارا رخ پھیر دیا تو پھر آگے وہ پورا واقعہ ہے جو پچھلی حدیث میں بیان ہوا ہے عباد بن بشر کا نماز پڑھنے کے بعد نکلنا اور بنی حارثہ کے لوگوں کو جو حالت رکوع میں نماز پڑھ رہے تھے ان کو گواہی دے کر کہنا کہ میں نے آقا علیہ السلام کے ساتھ نماز پڑھی ہے اور آقا علیہ السلام نے سمت کعبہ چہرہ انور کر لیا ہے تو وہ لوگ بھی اسی سمت پھر گئے اور کعبہ کی طرف متوجہ ہو گئے ، پھر وہ حدیث لائے ہیں امام بخاری۔
یہی جو آیات کریمہ کا حوالہ دے رہے ہیں امام بخاری اور جس مضمون کو بیان فرما رہے ہیں اس مضمون کا زکر قرآن مجید کی سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 143 اور 144 میں بھی ہے بلکہ اس سے آگے پورے رکوع میں چلتا ہے ،ان آیتوں کا زکر انہوں نے اس حدیث میں کیا ہے لیکن پورا رکوع اللہ ربّ العزت نے بیان فرمایا ہے۔اس میں اللہ ربّ العزت ارشاد فرماتے ہیں اس حدیث میں اب توضیح کر رہا ہوں قرآن مجید اور حدیث کے مضمون کو جوڑ کر ۔ تھوڑا سا میں حدیث کی روشنی میں بیان کر دوں  کہ تحویل قبلہ کا پس منظر بیان کر دوں ، صحیح مسلم میں بھی احادیث ہیں اس میں 525 اور onward یہ پورا باب ہے باب تحویل من القدس الی الکعبہ ، القدس سے کعبہ کی طرف قبلہ کا پھر جانا تو وہ پھر پوری احادیث آگے لائے ہیں ،دیگر احادیث کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں جس میں مسند احمد بن حنبل، امام طبرانی کی معجم الکبیر ، مسند بزار ، مصنف ابن ابی شیبہ، سنن ابی داؤد، بہقہی بھی ہے ، میری ایک پوری کتاب ہے السنت نبویہ کی حجیت پر یہ عربی میں کوئی بارہ سو یا چودہ سو صفحات کی ہے ۔ابھی چھپی نہیں ہے ترجمے کے ساتھ چار جلدیں بن جائیں گیں۔اس کے اندر ایک تفصیلی باب اس پر قائم ہے ۔ان تمام کتب میں یہ بات تفصیل سے آتی ہے کہ تین اقوال ہیں کہ قبلہ تبدیل کیسے ہوا 
اس کی پہلے تعین کیسے ہوئی تھی۔یہ بات زہن نشین کرنے کے قابل ہے کہ یہ قرآن مجید میں پہلا نسخ ہے جو آیات منسوخ ہونا یا آیات کے احکام کا منسوخ ہونا ،پہلا حک جو منسوخ ہوا وہ تحویل قبلہ کے زریعے قبلہ بیت المقدس کی تبدیلی تھی ،تو نسخ کا پہلا حکم جو آقا علیہ السلام پر نازل ہوا وہ تحویل قبلہ تھا ،یہ کس طرح نسخ ہوا ،
اس پر اقوال ہیں ،اگر جمع کریں اقوال کو تو حضرت عبداللہ ابن عباس رض سے مروی ہے جب مکہ میں تھے تو آپ نماز کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز ادا فرماتے تھے ۔جب ہجرت مدینہ ہوئی تو آقا علیہ السلام نے اللہ کے امر سے بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز ادا کرنا شروع کی ،اس سے یہ بات اخذ ہوتی ہے کہ شاید اس سے قبل جب آقا علیہ السلام مکہ مکرمہ میں تھے تو آپ کعبۃ اللہ ہی کی طرف منہ کرکے نماز ادا فرماتے تھے یہ ایک روایت ہے لیکن امام احمد بن حنبل نے انہوں نے ایک اور طریق سے حضرت عبداللہ ابن عباس رض سے ہی روایت کیا ہے تو اس سے یہ شبہ دور ہو جاتا ہے جو میں نے پہلے عرض کیا کہ اس سے یہ بات اخذ ہوتی ہے اس سے شبہ دور ہو جاتا ہے ۔
دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عباس رض فرماتے ہیں کہ جب مکہ میں تھے تب بھی آپ بیت المقدس کی طرف ہی چہرہ اقدس کر کے نماز ادا کرتے تھے ۔تو قبلہ اس وقت بھی القدس تھا لیکن اس طرح کھڑے ہوتے کہ کعبہ سامنے آ جاتا ،رخ نماز میں بیت المقدس کی طرف کرتے مگر آپ نے ایک سمت نماز کے لیے کھڑے ہونے کی مقرر کر رکھی تھی اور اس سمت ہی کھڑے ہوتے کہ نماز پڑھتے وقت کعبہ آپ کے سامنے ہو یعنی کعبۃ اللہ کی طرف پشت نہیں کرتے تھے تو بیت المقدس کی طرف توجہ ہوتی اور کعبۃ اللہ کی طرف چہرہ اقدس رہتا ۔اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے۔
بعض روایات میں ابن جرید کے طریق سے وہ فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے آقا علیہ السلام مکہ مکرمہ کے زمانہ میں کعبۃ اللہ ہی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تھے یہ تیسرا قول ہے ۔پھر اللہ ربّ العزت نے اپنے امر سے آپ کا رخ بیت المقدس کی طرف پھیر دیا اور جب امر الٰہی سے بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنے لگے تو 3 سال تک ہجرت سے پہلے چہرہ انور ادھر کر کے نماز پڑھتے رہے ۔اوراس سے پہلے کعبہ ہی ہوتا تھا ۔
اب اقوال کی تطبیق یوں ہوتی ہے کہ جب بیت المقدس مقرر ہو گیا تو آپ نے اس طرف چہرہ اقدس کرنا شروع کر دیا مگر کعبۃ اللہ کی طرف پشت نہیں فرمائی سو دوسرے قول کے مطابق وہ صورت اختیار کر لی کہ ایک direction متعین فرما لی اسی جگہ ہی کھڑے ہوتے کہ اس طرح کہ کعبہ سامنے رہتا اور سمت قبلہ بیت المقدس ہی ہوتی۔پھر 3 سال یہ معمول رکھنے کے بعد آپ نے ہجرت فرمائی کیونکہ بیت المقدس قبلہ مقرر ہو چکا تھا لہذا ہجرت مدینہ کے بعد وہی جاری رہا یعنی ہجرت مدینہ کے بعد نیا امر نہیں آیا یہ امر مکہّ میں تین سال قبل جاری ہو چکا تھا اور سولہ یا سترہ ماہ مدینہ منورہ میں بھی اسی معمول میں گزرے پھر تحویل قبلہ ہوئی ۔
یہ تینوں اقوال اس لئے بیان کر دئے تاکہ آپ کو پس منظر معلوم ہو جائے مگر ان میں کوئی تضاد نہیں ہے ،آقا علیہ السلام نے خود اپنے عمل مبارک سے اس کی تطبیق فرما دی تھی ۔اب اس میں ایک اور چیز بڑی توجہ طلب ہے اور وہ یہ میں نے عرض کیا کہ یہ نسخ کا پہلا حکم ہے جو قرآن مجید میں آیا ۔
اب دلچسپ بات بڑی توجہ طلب ہے اہل علم ، طلباء، اساتذہ، محقیقین اور علماء اس کو غور سے سنیں کہ یہ جو نسخ ہے اس کا یہ ہے قرآن مجید میں صراحتاً تحویل قبلہ کا زکر آیا ہے مگر تعجیل قبلہ کا نہیں آیا یعنی یہ پہلی آیت سورہ بقرہ کی جو اتری ہے وہ قبلہ جس پر آپ پہلے تھے اس لئے آپ پر مقرر کیا تھا یعنی وہ بیت المقدس وہ قبلہ ہم نے مقرر کیا تھا جس پر آپ پہلے تھے صرف اس وجہ سے آگے سبب بیان فرماتے ہیں لیکن وہ اللہ نے مقرر کیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی کسی وحی میں نازل نہیں فرمایا۔
 یہ آیت مبارکہ تصریح فرماتی ہے کہ آقا علیہ السلام نے ازخود اجتہادآ بیت المقدس کو اپنا قبلہ مقرر نہیں فرمایا تھا بلکہ امر الٰہی سے مقرر ہوا تھا۔بیت المقدس کا قبلہ مقرر ہونا بھی اللہ تعالیٰ کے حکم سے تھا مگر وہ حکم قرآن مجید میں کہیں نہیں یہ بات توجہ طلب ہے ۔
اگلا نکتہ کہ پورے قرآن مجید میں تحویل قبلہ کی آیت آئی ہے مگر پہلے قبلہ کا مقرر ہونا خواہ کعبہ مکہ تھا یا بیت المقدس تھا تو تعین کی کوئی آیت قرآن مجید میں نہیں آئی ۔جبکہ قرآن کہتا ہے کہ جس قبلہ پر آپ پہلے تھے کعبہ کی طرف متوجہ ہونے سے قبل وہ بھی ہم نے مقرر کیا تھا اور اس کی حمت یہ تھی تو یہ تصریحآ یہ ثابت ہو گیا کہ وہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنا اجتہاد یا زاتی پسند نہیں تھی بلکہ وہ بھی حکم الٰہی تھا جس کی وجہ سے آپ بیت المقدس کی طرف چہرہ اقدس کر کے نماز پڑھتے تھے خواہ وہ مکہ مکرمہ میں تین سال پڑھتے تھے یا مدینہ منورہ میں سولہ سترہ مہینے پڑھتے رہے مگر قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے ڈیکلیئر کر دیا کہ وہ ہم نے مقرر کیا تھا مگر وہ اللہ کا مقرر کرنا قرآن مجید کی کسی آیت کریمہ میں نہ اشارہتآ ہے اور نہ صراحتاً ہے ۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر اللہ نے کیسے مقرر کیا تھا یہاں یہ چیز سمجھنے والی ہے اور یہ عقیدہ آقا علیہ السلام کی حدیث اور آقا علیہ السلام کی سنت other than قرآن اس کے حجت مطلقہ حجت واجبہ ہونے پر دلالت کرتی ہے کہ یہ جو قبلہ مقرر کیا تھا تو قبلہ کا مقرر کرنا حدیث کی رو سے ہوا اور قبلہ کا بدلنا قرآن کی رو سے ہوا ۔
اللہ تعالیٰ نے آقا علیہ السلام کے قلب اطہر پر القاء فرمایا ، آپ کو الہام کیا ہو گا وہ جو جبرائیل امین کے زریعے قرآن مجید کی وحی کی صورت میں اترا کرتی تھی وہ وحی کے علاؤہ بھی حضور علیہ السلام کو علم عطا کرتے خبر دیتے ،ہدایت فرماتے ،رہنمائی فرماتے ،اشارات کرتے اور وہ سارا کچھ حق اور صادق ہوتے ، وہ جو آقا علیہ السلام فرماتے جو قرآن میں نہیں ہے وہ حدیث میں ہے یا جو قرآن میں نہیں آیا وہ آقا علیہ السلام کی سیرتِ طیبہ کی صورت میں سامنے آیا اس کو حدیث نبوی، سنت نبوی  کہتے ہیں ، تو گویا حدیث اور سنت نبوی کا درجہ بھی شرعی احکام کے حجت ہونے میں اتھارٹی ہونے میں اسی طرح برابر ہیں جس طرح قرآن مجید کے احکام یعنی اصل حجیت میں  authoritativeness  میں     authenticity  میں واجب ہونے میں ،حدیث سے ثابت ہونے والا حکم اسی طرح معتمد اور معتبر ہے جس طرح قرآن سے ثابت ہونے والا حکم ،تو اصل وجوب میں حجیت میں حدیث اور قرآن میں کوئی فرق نہیں مرتبے کا فرق ہے ۔
قرآن مجید کا مرتبہ پہلے اور حدیث و سنت کا مرتبہ اس کے بعد دوسرا ہے ، مگر قرآن بھی چونکہ اللہ کی وحی ہے وہ وحی ہے جلی جو جبرائیل امین لے کر آتے ہیں اس میں معنی بھی وحی ہے لفظ بھی وحی ہے اور حدیث کا ہر لفظ وہ بھی وحی ہے مگر اس میں لفظ آقا علیہ السلام کے اپنے ہیں اور معنی اللہ کی طرف سے اترا ہوا ہے۔ یہ مفہوم ہے کہ کوئی لفظ بھی یہ رسول اپنی زبان سے اپنی مرضی سے ادا نہیں کرتے جو ایک ایک لفظ بھی ان کے منہ سے نکلتا ہے وہ اللہ کی وحی ہوتی ہے ، لہزا سمجھ لیں قبلے کا بدلنا قرآن سے ثابت ہے اور سب سے پہلے قبلے کا مقرر ہونا حدیث اور سنت سے ثابت ہے وہ قرآن مجید کی آیت میں نہیں ہے اور اس کی حجیت کیسے ہوئی اس کو اللہ رب العزت own فرما رہے ہیں، کہہ رہے ہیں وہ کعبہ جب مقرر ہوا بیت المقدس جس کا زکر قرآن کی کسی آیت میں نہیں ہے جس کا زکر وحی جلی کی شکل میں موجود نہیں ہے کہ تم تلاوت کرو اور قرآن میں کہیں بھی اشارہ ملے وہ حکم بھی ہم نے دیا تھا جس کا مطلب ہے کہ آقا علیہ السلام کی حدیث کی صورت میں ثابت ہونے والے شرعی احکام وہ بھی سارے اللہ کے احکام ہیں وحی ہیں اور حجت ہیں ۔ یہ لفظ جس قبلہ پر آپ پہلے تھے وہ بھی ہم نے مقرر کیا تھا جیسے اب ہم اس کو اب بدل رہے ہیں تو گویا وہ مقرر کرنا حدیث سے ہوا وہ بھی اتنا ہی واجب اور ثابت ہے جتنا قرآن کی رو سے اب قبلے کو بدلنے کا حکم ہے ۔عبداللہ ابنِ عباس رض سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جبرائیل امین سے کہا کیونکہ وہ اب طعنہ دینے لگ گئے تھے اب ،جن کو جوڑنا تھا وہ اب جڑ گئے اب situation چینج ہو گئی کہ اب یہود ان کو طعنہ دینے لگ گئے کہ تمہارا پیغمبر دین تو نیا لایا ہے کتاب بھی نئی لے آیا ہے تعلیمات بھی نئی ہیں اور نہ ہمارے مذہب کو مانتے ہیں اور نہ ہمارے طریق کو مانتے ہیں ، ہر چیز پہ اختلاف ہے لیکن قبلہ ہمارا ہے اپنا قبلہ کیوں نہیں بنا سکتے ہمارے قبلے کی پیروی کرتے ہو۔یہ باتیں آقا علیہ السلام سنتے ،وہ جو اصل حکمت تھی وہ بھی پوری ہو چکی تھی کہ لوگ جڑ گئے تھے ، مستحکم ہو گئے تھے ،صاحبان استقامت بن گئے تھے ،اب situation چینج ہو گئی وہ طعنہ زنی ہونے لگی اور آقا علیہ السلام کی طبعی رغبت بھی تھی کہ کعبہ ابراہیم کو اپنایا جائے تو جبرائیل امین سے ایک روز فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ میرا کعبہ بیت المقدس کی بجائے کعبۃ اللہ مقرر ہو جائے تو جبرائیل امین نے ایک بڑا دلچسپ جملہ بولا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تو خود غلام ہوں جو ملتا ہے آپ کو پہنچا جاتا ہوں ،اشارہ اس امر کی طرف تھا کہ آپ محبوب ہیں
خود اللہ کی بارگاہ میں عرض کریں آپ مانگیں وہ آپ کی بات نہیں موڑے گا تو خود تبدیل کروا لیں ،جبرائیل آمین یہ کہہ کر چلے گئے ، پھر جب نماز کا وقت ہوتا تو آقا علیہ السلام چہرہ انور اوپر اٹھاتے تھے اور ادب الہویت کا عالم دیکھیں کہ زبان پہ نہیں لائے ایک دن بھی نہیں لائے ،جبرائیل آمین سے  رازدارانہ بات کی۔میرا دل یہ چاہتا ہے اور ان کا  جواب  کہ حضور میں غلام  ہوں ،اللہ سے عرض کر لیں ،اللہ سے عرض نہیں کہ کہ باری تعالیٰ قبلہ بدل دے کیونکہ اس نے امر دیا تھا کہ میرے حبیب چہرہ بیت المقدس کی طرف کر لیں امر دیا تھا اب اس کا امر ہے سو اس سے ہٹتے ہوئے التجا بھی نہیں فرمانا چاہتے لیکن دل میں خواہش تھی جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو چہرہ بیت المقدس کی طرف ہوتا اور بار بار چہرہ انور اوپر اٹھاتے ،اس پر قرآن مجید کی یہ آیت آئی ہے کہ میرے حبیب مکرم ہم نے آپ کا چہرہ بار بار آسمان کی طرف پلٹنا دیکھ لیا ہے یہ احادیث میں آتا ہے۔
بنی سلمہ کا واقعہ تھا کہ مسجد بنی سلمہ میں نماز ظہر ادا فرما رہے تھے کہ پھر حسب معمول چہرہ اٹھاتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا جبرائیل یہ آیت لیکر چلا جا ،وہ آیت لے کے اترے اور جس میں یہ حکم آ گیا کہ آپ کا چہرہ ہم نے بار بار  پلٹنا دیکھ لیا ہے ہم آپ کی خواہش سے آگاہ ہیں لہزا اپنا چہرہ بیت المقدس کی بجائے کعبۃ اللہ کی طرف پھیر لیجیے ، تین جملے آئے ہیں ، پہلے فرمایا ہم نے آپ کا چہرہ بار بار آسمان کی طرف پلٹنا دیکھ لیا ہے
دوسرا فرمایا جس قبلہ پر آپ راضی ہیں میرے محبوب ہم اسی کو قبلہ بنا دیں گے ، جس قبلہ پر آپ راضی ہیں۔
 یہ دو باتیں کہہ کر تیسرا جملہ بولا کہ اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیجیے۔ تین جملے آقا علیہ السلام سے مخاطب ہیں خالصیتآ اپنے حبیب سے اور چوتھا جملہ امت کے لئے تھا کہ اے تمام امت مسلمہ کے لوگوں تم بھی جہاں جہاں بھی کہیں ہو اپنے چہرے مسجد حرام کی طرف کر لو ۔
چار segments  میں اللہ ربّ العزت نے بات مکمل کی تو یہ دن جس دن تحویل قبلہ ہوئی 16 یا 17 ماہ ہو چکے تھے اور دو قول آتے جس دن تحویل قبلہ ہوئی وہ تاریخ 15 شعبان تھی اور منگل کا دن تھا یہ ایک قول ہے ۔
دوسرا قول یہ کہ وہ 15 رجب تھی نصف رجب ہے سن دو ہجری مگر وہ پیر کا دن تھا ، صحیح ابن حبان کی روایت کے مطابق 17 ماہ اور 4 دن probably  اتنا عرصہ ہو گیا تھا پورا ، اور یہ count کرتے ہیں ہجرت مدینہ کے دن سے  ، مدینہ منورہ میں آپ کی آمد 12 ربیع الاول کو ہوئی ہے اور وہ پیر کا دن تھا ۔
حافظ ابن حجر عسقلانی کے ہاں وہ کہتے ہیں کہ صحیح قول رجب کا ہے ، کئی آئمہ نے شعبان کے قول کو ترجیح دی ہے مگر مسجد بنی سلمہ میں نماز ادا ہو رہی تھی تو اس نماز میں آقا علیہ السلام کو اللہ رب العزت کی طرف سے چہرہ اقدس سوئے کعبہ پھیرنے کا  امر آ گیا ۔تو نماز ظہر آپ نے مسجد بنی سلمہ میں پڑھی جس میں تحویل قبلہ ہوئی اور اس کے بعد نماز عصر کاملآ کعبۃ اللہ کی طرف آپ نے مسجد نبوی میں ادا کی اور اس کے بعد رہ گئی صحابہ کرام کو خبر ملنا ، پہلی خبر اسی عصر کی نماز میں جس میں عباد بن بشر ایک صحابی آقا علیہ السلام کے پیچھے نماز عصر پڑھ کر گئے انہوں نے مسجد بنی حارثہ والوں کو اطلاع دی وہ حالت نماز میں پھر گئے کہ آقا علیہ السلام نے قبلہ بدل دیا ہے اور پھر اہل قباء وہ عصر، مغرب اور عشاء بیت المقدس کی طرف منہ کرکے پڑھتے رہے وہاں ایک صحابی نماز فجر کے وقت پہنچے ، یہ سب تفصیلات مختلف کتب حدیث میں ہیں ۔وہاں فجر کی نماز پڑھ رہے تھے اسی طرح رکوع کی حالت میں تھے وہاں اس نے کہا کہ آقا علیہ السلام نے قبلہ تبدیل کر دیا ہے اور بیت المقدس کی بجائے آقا علیہ السلام نے کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی ہے ،اگلے دن صبح فجر کی نماز میں بدل گئے یعنی جوں جوں خبر پہنچی تو وہاں توں توں اسی حالت میں نماز کے اندر ہی قبلہ کا رخ بدلتے رہے ،ایک صحابیہ بیان کرتی ہیں ،حضرت نویلہ بنت  اسلم کے الفاظ بھی کتب حدیث میں آتے ہیں اور بعض نسخوں میں فویلہ بنت اسلم کے الفاظ لکھے ہیں ۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ ہم بنی حارثہ میں اپنی جگہ پر تھے نماز پڑھ رہے تھے کہ جب عباد بن بشر قیضی آئے اور انہوں نے آ کر بتایا کہ آقا علیہ السلام نے چہرہ اقدس بیت المقدس سے کعبے کی طرف پھیر لیا ہے تو مرد اس طرح گھومے کہ وہ پیچھے ہٹ کر عورتوں کی صفوں کی طرف چلے گئے اور عورتیں مردوں کی صفوں کی طرف چلی گئیں ، دو رکعتیں پڑھ چکے تھے اور آخری دو رکعتیں کعبہ کی طرف منہ کرکے پڑھیں ، یہی آقا علیہ السلام نے کیا ۔
امام ابنِ حجر عسقلانی نے فتح الباری شرح صحیح بخاری میں پوری تصویر بیان کی ہے ۔کہ بیت المقدس اس طرف تھا اور کعبہ شریف دوسری طرف تھا بلکل opposite سائڈ تھیں ۔ وہ اگر وہی سے چہرہ بیت المقدس سے ہٹا کر کعبہ کی طرف کر لیں تو مقتدی بھی وہیں کھڑے کھڑے اپنے چہرے موڑ لیں تو امام سب کے پیچھے ہو جاتا ہے اور امام کی طرف پشت کر کے مرد حضرات کھڑے ہو جاتے ہیں اور مردوں سے آگے سب سے پہلی صف میں خواتین کھڑی ہو جاتی ہیں تو نماز ہی نہیں ہو سکتی تو یہ اس طرح نہیں کہ انہوں نے circulate کر لیا ہو ، یہ جو امام جو ادھر ہیں وہ اپنا مصلہ چھوڑ کر دوسری سمت مسجد کی ساری صفیں کراس کر کے ادھر چلے گئے تو سب صفوں کے آگے جا کر کھڑے ہوئے دو رکعتیں ہو چکی ہیں نماز توڑی نہیں ہے حالت نماز میں ہٹ کر ادھر جا رہے ہیں آقا علیہ السلام اور جو لوگ ہیں وہ اپنی جگہ پر کھڑے ہو کر رخ نہیں بدل رہے ۔جب آقا علیہ السلام ادھر چلے گئے تو پھر ادھر عورتیں آ گئیں کیونکہ ادھر آخر میں تھیں تو عورتیں ساری move کر کے پیچھے آئیں ہیں ، مرد اپنی صفوں سے ہٹکر آگے گئے ہیں ، نئی صف بندی ہوئی ہے عورتیں پیچھے صف میں آئیں ہیں ،امام نے صف بندی کی اور نماز جاری رہی  کیوں کہ آقا علیہ السلام کروا رہے ہیں ۔
ہم امتحان لینا چاہتے تھے پہلا کعبہ اس لیے مقرر کیا تھا کہ جب تحویل قبلہ ہو اس پر گفتگو اگلی نشست میں کروں گا اشارہ دے رہا ہوں۔
 جب تحویل قبلہ ہو تو لوگوں کے ایمان کا امتحان لیں کہ کس طرح آپ کی اتباع کرتے ہیں یا کس طرح اپنے قبلے کی طرف پلٹ جاتے ہیں یہ سارے عمل ہوتے رہے اور نماز آقا علیہ السلام کے پیچھے پڑھنے والوں کی بھی قائم رہی یہ تو آقا علیہ السلام کی زات گرامی تھی کہ جس آپ گھوم رہے ہیں تو لوگ بھی اسی طرح گھوم رہے ہیں نہ سجدہ سہو ہوا نہ نماز ٹوٹی ۔
مگر جہاں آقا علیہ السلام کا پیغام پہنچا ہے صحابہ کرام کی محبتوں اور عشق ، ان کی متابعات کا عالم  دیکھیں
جہاں خبر پہنچی ہے تو یہی ردعمل وہاں ہؤا ہے ، مسجد بنی حارثہ، مسجد بنی سلمہ ، مسجد قباء میں بھی کہ وہاں امام ہیں آقا علیہ السلام خود نہیں ہیں تو امام بھی ہٹ کے ادھر گیا اور عورتیں ہٹ کے پیچھے آئیں ، مرد ہٹ کر ادھر گئے اور دو رکعتیں ادھر پڑھیں تھیں اور دو اس رخ پہ پڑھیں ۔
نہ کسی کی نماز ٹوٹی اور نہ اعادے کی ضرورت پڑی کیونکہ ان کے کانوں نے سن لیا کہ آقا علیہ السلام نے اپنا چہرہ انور بدل لیا ہے ، بس حضور علیہ السلام کے چہرہ انور کی سمت بدلنا وہ ساری نماز میں گھومتے رہے کسی کی نماز نہیں ٹوٹی ۔
یہ مقام تھا ان کے فہم دین ، معرفت دین حقیقت اور متابعت کو سمجھنے کا اور عمل کرنے کا ،آقا علیہ السلام کے ساتھ عشق محبت ،وارفتگی متابعت اور متابقت کی کیفیت کا ۔ یہاں پر آج کا مضمون ختم 
محمد پرویز رضا فیضانی حشمتی