حیاتِ تاج الشریعہ علیہ الرحمہ پر ایک نظر---
حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کا مختصر تعارف، خاندانی حالات و ذکر اجداد
مولانا محمد پرویز رضا فیضانی حشمتی
حیاتِ تاج الشریعہ علیہ الرحمہ پر ایک نظر---
حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کا مختصر تعارف، خاندانی حالات و ذکر اجداد
مولانا محمد پرویز رضا فیضانی حشمتی
دنیائے سنیت کی جلیل القدر، باوقار، ہر دل عزیزشخصیت، اہلِ عشق و وفا کے مرکزِ عقیدت،
آبروئے اہلِ سنت، فخرِ سنیت، نازشِ علم و حکمت، جامعِ معقولات و منقولات، سراپا استقامت وعزیمت، ماحیِ کفر و بدعت، ناشرِ دین و ملت، بحرِ علم و معرفت، صاحب کشف و کرامت، پیکرِ رشد و ہدایت، شاہکارِ تقویٰ و طہارت،مخزنِ خلوص و للہیت،ولیِ کامل، پیرِ طریقت رہبرِ شریعت، وارثِ علومِ امام احمد رضا، نبیرۂ حجۃ الاسلام، جانشینِ مفتیِ اعظمِ ہند، شہزادۂ مفسرِ اعظمِ ہند، شیخ الاسلام والمسلمین، قاضی القضاۃ فی الہند، حضرتِ تاج الشریعہ علامہ الحاج مفتی محمد اختر رضا قادری ازہری علیہ الرحمہ کی شخصیت پوری دنیا میں دن کے سورج کی طرح روشن ہے۔
آپ کے خاندانی حالات:
(۱)- آپ کے خاندان کا تعلق افغانستان سے ہے آپ کے بزرگ جن کا نام شہزادہ سعید اللہ خان ہے ان کے والد کندھار (افغانستان) کے والی (گورنر) تھے۔ دلی مغل سلطنت کی طرف سے آپ کو روہیل کھنڈ بریلی بھیجا گیا۔
(۲)- عالی جناب سعادت یار خان: آپ سعید اللہ خان کے بیٹے ہیں، والد کی شاہی ملازمت سے استعفیٰ دینے کے بعد سعادت یار خان کو مغلیہ سلطنت کی طرف سے دلی کا وزیرِ مالیت بنایا گیا آپ نے دلی میں دو یادگار چھوڑیں۔ ایک سعادت گنج کا بازار اوردوسری سعادت خان کی نہر۔ آپ کی مہرِ وزارت بھی اعلیٰ حضرت کے زمانے تک موجود رہی۔
(۳)- حضرت اعظم خان: آپ سعادت یار خان کے بیٹے ہیں، آپ نے بریلی میں رہ کر مغلیہ سلطنت کی کچھ اہم ذمے داری سنبھالی، اس کے بعد یکایک دل کی دنیا میں ایسا بدلاؤ آیا کہ آپ نے ترکِ دنیا کر کے ساری عمر یادِ الٰہی میں گزاری۔
(٤)- حضرت حافظ کاظم علی خان: آپ اعظم خان کے بیٹے ہیں، آپ کو مغلیہ سلطنت کی طرف سے بدایوں کا تحصیل دار بنایا گیا، آپ کی خدمت میں ۲۰۰؍ سواروں کی بٹالین رہا کرتی تھی اور ۸؍ گاؤں کی جاگیر بھی ملی تھی،آپ حافظِ قرآن تھے اور آپ کو مولانا نور الحق فرنگی محلی سے سلسلۂ رزّاقیہ میں اجازت و خلافت بھی حاصل تھی۔
(۵)- حضرت مولانا رضا علی خان: آپ سن ۱۸۰۹ء کو بریلی میں پیدا ہوئے، ۲۲؍ سال کی عمر میں آپ عالمِ دین بنے،آپ کو فقہ سے زیادہ لگاؤ تھا، سن١٢٤٦ ھ میں آپ نے دارالافتا کی بنیاد رکھی۔ سن١٨٥٧ء میں جنگِ آزادی میں آپ نے بھر پور حصہ لیا اور انگریزوں کا خوب بڑھ چڑھ کر مقابلہ کیا۔
(٦)- حضرت مولانا نقی علی خان: آپ مولانا رضا علی خان کے صاحب زادے ہیں، رجب ١٢٤٦ھ مطابق ۱۹۲۹ء میں آپ کی ولادت ہوئی، والدِ محترم سے آپ نے علم حاصل کیا اور والدِ محترم کے دارالافتا کو آگے بڑھایا۔ آپ کو حضرت سید شاہ آلِ رسول مارہروی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے بیعت و خلافت و اجازت حاصل تھی، آپ نے مختلف علوم و فنون میں ۳؍ درجن سے زیادہ کتابیں تصنیف کیں۔
(۷)- اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان: ۱۲۷۲ھ مطابق ۱۸۵۷ء میں آپ کی ولادت ہوئی، اسلامی تاریخ میں بے شمار ایسی ہستیاں گزری جنھوں نے دینِ اسلام کی ایسی خدمت کی جس کے اثرات ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی کسی نہ کسی شکل میں باقی ہے، ماضی قریب میں دیکھا جائے تو آقائے نعمت، امامِ اہلِ سنت، عظیم البرکت، عظیم المرتبت، پروانۂ شمعِ رسالت، مجددِ دین و ملت، حامیِ سنت، ماحیِ بدعت، عالمِ شریعت، پیرِ طریقت، باعثِ خیر و برکت، حضرت علامہ مولانا الحاج الحافظ القاری شاہ امام احمد رضا خان ایسی ہی ہستی ہیں کہ ان کے وصال کے ۱۰۰؍ سال کے بعد بھی ان کی مختلف علوم و فنون جیسے تفسیر، اصولِ تفسیر، حدیث،اصولِ حدیث، فقہ،اصولِ فقہ، منطق، فلسفہ، کلام، ریاضی،ہیئت، توقیت، کمسٹری، فِزکس، نجوم،ہندوسہ، لوگارتھم اور دیگر کئی علوم میں مہارت کی قدر افزائی اور ان کی اصلاحی کاوشوں کی پزیرائی ہے۔نیز ان کا خوفِ خدا، عشقِ رسول، تقویٰ اور مسلمانوں سے خیر خواہی کا انداز لائقِ پیروی ہے آپ کا وصال ۱۹۲۱ء میں ہوا۔
(۸)- حجۃ الاسلام علامہ حامد رضا خان: آپ اپنے والد اعلیٰ حضرت کے سچے جانشین ہوئے ۱۲۹۲ھ میں پیدا ہوئے، جملہ علوم و فنون وقت کے مجدد اعلیٰ حضرت سے حاصل کیے۔ آپ مسلسل ۵۰؍ سالوں تک فقہ و افتا کے ذریعے مسلمانوں کی مذہبی و سیاسی معاملات میں رہنمائی فرماتے رہے۔ آپ نے مختلف علوم میں درجنوں کتابیں یادگار چھوڑی ہیں، آپ کے فتاویٰ کا مجموعہ ”فتاویٰ حامدیہ“ ہےآپ تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کے دادا ہیں۔
(۹)- مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا خان: آپ اعلیٰ حضرت کے چھوٹے صاحب زادے ہیں ۱۳۱۰ھ مطابق ۱۸۹۳ء میں آپ پیدا ہوئے۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ خانوادۂ رضویہ میں اگر اعلیٰ حضرت کے بعد کسی کو بہت زیادہ شہرت ملی ہے تو وہ آپ ہی کی ذات ہے۔٦؍ ماہ کی عمر میں حضرت سید ابو الحسن نوری میاں نے آپ کو بیعت کیا اور تمام سلاسل کی اجازت و خلافت سے سرفراز فرمایا۔۱۸؍ سال کی عمر میں آپ نے پہلا فتویٰ لکھا، تب سے آخری عمر تک مکمل ٧٤؍ سال خدمتِ دین اور خدمتِ فقہ میں لگے رہے۔ آپ کی تصنیف کی تعداد ۳۹؍ ہے، آپ کے فتاویٰ کا نام ”فتاوائے مصطفویہ“ ہے جو ۷؍ جلدوں میں ہے۔ ۱۹۸۱ء میں آپ کا وصال ہوا، آپ تاج الشریعہ کے نانا ہیں۔
(۱۰)- مفسرِ اعظمِ ہند مولانا ابراہیم رضا خان:آپ کی ولادت ١٣٢٥ھ مطابق١٩٠٦ء میں ہوئی، حضرت حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خان آپ کے والد ہیں۔ ۱۹؍ سال کی عمر میں آپ کو دستارِ علم و فضل سے نوازا گیا،آپ کو اعلیٰ حضرت سے بیعت کے ساتھ اجازت و خلافت بھی حاصل تھی۔ ١٣٦٧ھ میں دارالعلوم منظر اسلام کی باگ ڈور آپ کے سپرد کی گئی۔ آپ کے کل ۵؍ صاحب زادے ہوئے۔ (۱) مولانا ریحان رضا خان (۲) مولانا اسماعیل رضا خان عرف تاج الشریعہ مولانا اختر رضا خان (۳) ڈاکٹر قمر رضا خان (۴) مولانا منان رضا خان (۵) مخدوم تنویر رضا خان۔ حضور مولانا ابراہیم رضا خان کا جون ۱۹۶۵ء میں وصال ہوا۔
(۱۱)- حضور تاج الشریعہ حضرت مفتی اختر رضا خان:
ولادت: ٢٦؍ محرم الحرام ١٣٦٢ھ مطابق ۲؍ فروری ١٩٤٣ء بروز منگل۔جائے ولادت: محلہ سوداگران، بریلی۔
بسم اللہ خوانی: چار سال، چار ماہ، چار دن کے ہونے پر حضور مفتیِ اعظمِ ہند نے ہندوستان و جامعہ منظرِ اسلام کے باوقار علما کی موجودگی میں کرائی۔
اسمائے گرامی: محمد نام پر آپ کا عقیقہ ہوا، محمد اسماعیل کے نام سے آپ کو گھر والے یاد کرتے جب کہ محمد اختر رضا نام سے پوری دنیا میں پہچان بنائی۔
تعلیم: ناظرۂ قرآن و اردو والدِ گرامی سے پڑھیں، اس کے بعد جامعہ منظرِ اسلام میں داخلہ لیا اور یہیں سے عالمیت کی تعلیم مکمل فرمائی۔ ۱۹۵۲ء میں ایف.آر. اسلامیہ انٹر کالج سے ہندی انگلش و عصری تعلیم حاصل کی، ١٩٦٣ء میں آپ جامعہ ازہر (مصر) تشریف لے گئے، ١٩٦٦ء میں اعلیٰ نمبروں سے کامیابی حاصل کر اپنی تعلیم مکمل فرمائی۔ آپ اپنے شعبہ ”اصولِ الدین قسمۃ التفسیر والحدیث“ میں اول پوزیشن حاصل کی اور یہ پوزیشن پورے مصر میں اول تھی۔
وطن واپسی: ۱۷؍ نومبر ١٩٦٦ء کو جب آپ بریلی تشریف لائے تو پورے خانوادے نے آپ کا پر زور استقبال کیا ۔
پہلا فتویٰ: ١٩٦٦ء میں تصنیف فرمایا، حضرتِ مفتی افضل حسین مونگیری نے اصلاح فرمائی اور حضور مفتیِ اعظم نے فتویٰ دیکھ کر خوب تحسین فرمائی۔
تدریسی خدمات: آپ نے جامعہ منظرِ اسلام میں بحیثیت استاذ ۱۱؍ سال تک تدریسی خدمات انجام دی اور ۱۹۷۸ء میں صدر المدرسین کے عہدے پر فائز ہوئے۔
شادی خانہ آبادی: ۳؍ نومبر ١٩٦٨ء بروز اتوار آپ کا نکاح مولانا حسنین رضا خان بن مولانا حسن رضا خان کی دختر (بیٹی) سے ہوا۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ۵؍ اولادوں کی دولت سے نوازا جس میں ایک صاحب زادے (حضرت مولانا عسجد رضا خان) اور ٥؍ لڑکیاں ہیں۔
بیعت و ارادت: آپ کو حضور مفتیِ اعظم نے بچپن میں ہی داخلِ سلسلہ کر لیا تھا پھر ۲۰؍ سال بعد محفلِ میلاد شریف میں علما و مشائخ کی موجودگی میں خلافت و اجازت بھی عطا کر دی ساتھ ہی آپ کو سید العلما مولانا شاہ سید آلِ مصطفیٰ مارہروی علیہ الرحمہ سے تمام سلاسل کی اجازت و خلافت حاصل تھی۔
تبلیغی خدمات: ١٩٦٧ء سے ۱۹۸۰ء تک آپ نے جامعہ منظرِ اسلام میں درس دیا اور اس درمیان فتویٰ نویسی کا کام بھی جاری رہا۔ ۱۹۸۱ء میں حضور مفتیِ اعظم کے وصال کے بعد آپ کی مصروفیت اور بڑھ گئی ، اسی بیچ آپ نے مرکزی دارالافتا قائم کیا۔ ۱۹۸۲ء میں آپ نے درسِ قرآن و درسِ حدیث کا آغاز فرمایا جو ساری دنیا میں بہت مقبول ہوا۔ ۱۹۸۳ء میں آپ نے ماہ نامہ "سنی دنیا" جاری فرمایا، اس کے علاوہ "جامعۃ الرضا" قائم کیا اور ہر جمعرات کو پوری دنیا سے آنے والے سوالات کے جوابات دیتے اور جمعہ کے دن بعد نمازِ مغرب یا عشا بریلی کی مسجدوں میں دینی سوال و جواب کے پروگرام کا اہتمام فرماتے ساتھ ہی ہر اتوار کو انٹر نیٹ کے ذریعے آنے والے سوالوں کے جواب دینا سیدی تاج الشریعہ کے معمول میں شامل تھے۔
حج و زیارت: آپ نے کل ٦؍ حج ادا فرمائے۔ (۱) ١٤٠٣ھ مطابق ۱۹۸۳ء (۲) ١٤٠٥ھ مطابق ١٩٨٦ء (۳) ١٤٠٦ھ مطابق ۱۹۸۷ء (٤) ١٤٢٩ھ مطابق ۲۰۰۸ء (۵) ١٤٣٠ھ مطابق ۲۰۰۹ء (٦) ١٤٣١ھ مطابق ۲۰۱۰ء۔ اللہ تعالیٰ نے حج کے علاوہ آپ کو عمرے کی سعادتوں سے بھی کئی بار بہرہ مند فرمایا، جب آپ دوسرے حج کے موقعے پر حرمین تشریف لائے توسعودی حکومت نے آپ کو گرفتار کر لیا اور ان لوگوں نے آپ سے توسل، حیاتِ انبیا علیہم السلام وغیرہ کے عنوان پر مناظرہ کیا جس میں ربِّ قدیر نے آپ کو فتح اور ان بدبختوں کو شکست کا سامنا کرایا۔
تصنیف (کتابیں): آپ کی کتابی شکل میں موجود تصنیفوں کی تعداد ٦١؍ بتائی جاتی ہے جو منظرِ عام پر ہیں، یہ کتابیں اردو، عربی اور انگریزی زبانوں میں موجود اپنے قرائن کی مکمل رہنمائی کر رہی ہیں۔ ان تصنیف میں ”الفردہ فی شرح قصیدۃ البردہ، الحق المبین، شرح حدیث اخلاص، حاشیہ علی صحیح البخاری، تین طلاق کا شرعی حکم، ٹائی کا مسئلہ، اور ٹی وی ویڈیو کا آپریشن“ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔
شعر و شاعری: آپ کی نعتیہ شاعری عشقِ رسول علیہ السلام بڑھانے کا بہترین ذریعہ ہے، آپ کے نعتیہ کلام جس محفل میں پڑھے جاتے ہیں وہ اس محفل کی سند ہوجاتے ہیں۔
کثرتِ مریدین: جس قدر علما، فقہا، فضلا، مفتیان، حفاظ و قرا، طلبہ و طالبات، عوام الناس سے خاص و عام، امیر و غریب آپ کے مریدوں میں شامل ہیں اتنے مرید آج کسی کے نظر نہیں آتے اور یہ بات سب پر روزِ روشن کی طرح ظاہر ہے۔
پیرِ کامل: بزرگانِ دین نے کامل پیر کی ٤؍ شرطیں بیان کی ہیں: (۱) خوش عقیدہ سنی مسلمان ہو۔ (۲) فاسقِ معلن (کھلے عام حرام و ناجائز کام کرنے والا) نہ ہو۔ (۳) عالمِ دین (جو کم سے کم اپنی ضرورت کے مسائل کتابوں سے نکال سکے بغیر کسی مدد کے) ہو۔ (٤) اس کا سلسلہ اس طرح حضور علیہ السلام سے ملتا ہو کہ بیچ میں (مون کتا) شک کی گنجائش نہ ہو۔ حضور تاج الشریعہ ان تمام شرائط کے جامع تھے، پوری دنیا میں ایسا عام تو عام خاص بھی نہ ملے گا جو ان شرائطوں میں آپ کے اندر کسی قسم کی کمی نکال سکے۔یاد رہے کہ آپ کو سلسلۂ قادریہ، چشتیہ، نقش بندیہ، سہروردیہ کی اجازتیں حاصل تھیں۔
کنز العمال کتاب الاذکار میں حدیث مذکور ہے: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
”اولیاء اللہ الذین اذا رؤوا ذکر اللہ“
اللہ کے ولی وہ لوگ ہیں جن کے دیکھنے سے خدا یاد آجائے۔
اللہ والوں کی پہچان یہ ہے کہ ان کی صورت دیکھ کر اور ان کی صحبت میں رہ کر اللہ کی یاد آتی ہے، دل کو سکون و اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ یاد رکھیں کہ پیرِ بے ریا اور ولیِ کامل کی اگر نظرِ التفات ہوگئی تو سمجھو خدا مل گیا۔
یہاں پر ہم سب کو ایک بات کا جاننا بہت ہی ضروری ہے اور وہ یہ کہ اس دور میں اکثر لوگ خود کو پیر اور ولی کہلانے کا شوق رکھنے لگے ہیں جب کہ پیر یا ولی ہونے کے لیے جن شرائط کا ہونا ضروری ہے ان میں نہیں پائی جاتیں۔ہم یہاں پہلے اس بات کا ذکر کریں گے کہ ولی کون ہوتا ہے بعد اس کے اپنی بات کو آگے بڑھائیں گے۔
المعجم الکبیر میں حضور علیہ السلام کا فرمانِ عالی شان ہے:
(اطلبوا الخیر والحوائج من حسان الوجوہ“
اپنی بھلائی اور حاجتیں خوبصورت چہرے والوں سے طلب کرو۔
اب جن آنکھوں نے ان موہنی صورت کو دیکھا ہے ان سے پوچھیں، وہ چاہےدوست ہوں یا دشمن، اگرصدق سے کام لیں تو سب بیک زبان کہیں گے کہ یقیناً حضور تاج الشریعہ ان تمام کمالات و خوبیوں کے حامل تھے۔
سچے ولی کی پہچان:افسوس! آج کل کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کو شریعت و طریقت کا کوئی علم نہیں ہوتا مگر پیر اور ولی بننے کا بہت شوق ہوتا ہے۔ لوگوں کو گمراہ کرنا، شریعت و طریقت کو الگ الگ بتانا ان کا کام ہے، مگر یاد رہے! ایسے لوگ معاذ اللہ نہ پیر ہوتے ہیں نہ ولی۔
اب آئیے دیکھیں کہ ولی کون ہوتا ہے؟: ولایت بے علم کو نہیں ملتی، خواہ علم ظاہر حاصل کیا ہو یا اس (ولایت کے) مرتبے پر پہنچنے سے پیشتر، اللہ تعالیٰ نے اس پر علوم منکشف (ظاہر) کر دئیے ہوں۔ (بہارِ شریعت جلد اول،صفحه٢٦٤، مکتبۃ المدینہ)
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
حاشا، نہ شریعت و طریقت دو راہیں ہیں نہ اولیا کبھی غیر علما ہو سکتے ہیں، حضرت علامہ عبد الرؤف مناوی علیہ الرحمہ شرح جامع الصغیر میں اور عارفِ باللہ سید عبد الغنی نابلسی علیہ الرحمہ حدیقۂ ندیہ میں فرماتے ہیں کہ امامِ مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:”علمِ باطن نہ جانے گا مگر وہ جو علمِ ظاہر جانتا ہے۔“
حضرتِ سیدنا امام شافعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ نے کبھی کسی جاہل کو اپنا ولی نہ بنایا، یعنی بنانا تو چاہا تو پہلے اسے علم دے دیا اس کے بعد ولی کیا، جو علمِ ظاہر نہیں رکھتا علمِ باطن کہ اس کا ثمرہ و نتیجہ ہے کیوں کر پا سکتا ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، ج:۲۱، ص:۵۳۰، ملخصاً)
ظاہری و باطنی شریعت کی حقیقت:
سوال: کچھ لوگ اپنے آپ کو مجزوب (مست) یا فقیر کا نام دے کر خلافِ شرعی کاموں کو اپنے لیے جائز قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ طریقت کا معاملہ ہے، یہ تو فقیری لائن ہے، ہر ایک کو سمجھ نہیں آ سکتی، پھر اگر ان سے نماز پڑھنے کو کہا جائے تو کہتے ہیں یہ ظاہری شریعت ظاہری لوگوں کےلیے ہے، ہم باطنی اجسام کے ساتھ خانۂ کعبہ یا مدینے میں نماز پڑھتے ہیں وغیرہ وغیرہ (معاذ اللہ) ایسے لوگوں کے بارے میں حکمِ شرعی کیا ہے؟
جواب: شریعت چھوڑ کر خلافِ شرعی کاموں کو طریقت یا فقیری لائن قرار دینا یا طریقت کو شریعت سے الگ جاننا یقیناً گمراہی ہے۔ اعلیٰ حضرت شاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ شریعت اور طریقت کے باہمی تعلقات کو یوں بیان فرماتے ہیں کہ: ”شریعت منبع ہے اور طریقت اس میں سے نکلتا ہوا ایک دریا ہے، عموماً کسی منبع یعنی پانی نکلنے کی جگہ سے اگر دریا بہتا ہو تو اسے زمینوں کو سیراب کرنے میں منبع کی حاجت نہیں ہوتی لیکن شریعت وہ منبع ہے کہ اس سے نکلے ہوئے دریا یعنی طریقت کو ہر آن اس کی حاجت ہے کہ اگر شریعت کے منبع سے طریقت کے دریا کا تعلق ٹوٹ جائے تو صرف یہ ہی نہیں کہ آئندہ کے لیے اس میں پانی نہیں آئے گا بلکہ یہ تعلق ٹوٹتے ہی دریائے طریقت فوراً فنا ہوجائے گا۔(فتاویٰ رضویہ، ج:۲۱،ص:۵۲۵، ملخصاً)
صدر الشریعہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
’’طریقت منافی شریعت (یعنی شریعت كے خلاف) نہیں وہ شریعت كا ہی باطنی حصہ ہے، كچھ جاہل متوصف جو یہ كہہ دیا كرتے ہیں كہ ’’طریقت اور ہے، شریعت اور ہے‘‘ محض گمراہی اہے اور اس زعمِ باطل (غلط خیال) كی وجہ سے اپنے آپ كو شریعت سے آزاد سمجھنا صریح كفر و الحاد ہے۔ احكامِ شرعیہ كی پابندی سے كوئی ولی كیسا ہی عظیم ہو سبك دوش نہیں ہو سكتا۔
كچھ جاہل جو یہ بك دیتے ہیں كہ ’’شریعت راستہ ہے، راستے كی حاجت ان كو ہے جو مقصد تك نہ پہنچے ہوں، ہم تو پہنچ گئے۔‘‘
سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی نے انھیں ایسے جاہلوں كو فرمایا:
’’صدقوا لقد وصلوا ولٰكن إلی این ؟ إلی النار۔‘‘
یعنی وہ سچ كہتے ہیں، بیشك پہنچے ، مگر كہاں؟ جہنم كو۔
(الیواقیت والجواہر، الفصل الرابع ، المبحث السادس والعشرون ، باختلاف بعض الالفاظ، ص:٢٠٦)
عشقِ رسول و سنت و شریعت كی پابندی: ”ان اكرمكم عند اللہ اتقكم۔“
بیشك اللہ كے نزدیك تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہو۔ (القرآن)
اس زاویے سے جب ہم حضور تاج الشریعہ كی زندگی كا مطالعہ كرتے ہیں تو آپ نائبِ غوثِ اعظم حضور مفتی اعظم كی صحبت پا كر زہد و تقویٰ کے اعلیٰ مقام پر فائز نظر آتے ہیں، آپ کا کوئی قدم خلافِ شرع و سنت نظر نہیں آتا۔
کیوں کہ جس طرح ہر زمانے میں آپ کا خاندان علم و عرفان ، زہد و ورع، خلوص و محبت، حق گوئی و بے باکی میں ممتاز رہا ہے، آپ بھی اپنے زمانے میں ان چیزوں میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔ میں (راقم الحروف) جب دورانِ طالب علمی جامعہ منظرِ اسلام میں تھا تو رضا مسجد (بریلی) میں نمازِ جمعہ میں تقریر کی ذمہ داری مجھ پر ڈالی گئی اور مجھے اس بات کی بڑی خوشی ہے کہ میں نے کئی تقریریں اپنے مرشدِبرحق سیدی تاج الشریعہ کے سامنی کی ہیں۔ اور جب حضرت نمازِ جمعہ کے لیے مصلیٰ امامت پر فائز ہوتے تو میں آپ کے پیچھے مکبر ہوتا، جب آپ عشقِ خدا میں ڈوب کر قراءت فرماتے ، نمازیوں کے دل آپ کی قراءت سے لرزاں ہو جاتے اور نمازیوں کو عشقِ الٰہی کی چاشنی ملتی ۔ بیماری و ضعیفی کے باوجود آپ رکوع و سجود اور دیگر ارکانِ نماز سنتِ پاک کی رعایت اور پابندی کے ساتھ ادا فرماتے کہ آپ کو نماز کی حالت میں دیکھ کر رشک آتا اور یہی خیال گزرتا کہ حضرت پڑھاتے رہیں اور ہم پڑھتے رہیں۔
وصالِ پر ملال:٦؍ ذیقعدہ ۱۳۳۹ھ مطابق ۲۰؍ جولائی ۲۰۱۸ء قریب وقت مغرب (سن عیسوی کے اعتبار سے ۷۵ اور سن ہجری کے اعتبار سے ۷۷ سال کی عمر میں )اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
اخترِ قادری خلد میں چل دیا
خلد وا ہے ہر اک قادری کے لیے
تجہیز و تکفین و نمازِ جنازہ:آپ کے وصال کی خبر چند لمحوں میں پوری دنیا میں پھیل گئی، گویا کہ ہوا نے اپنے دوش پر اس خبر کو گھر گھر پہنچا دیا ہو۔
ہر زبان پر" انا للہ و انا الیہ راجعون "کے ساتھ آنکھوں سے اشکوں کی برسات بھی ہو رہی تھی، دل بیٹھا جا رہا تھا، اپنے کانوں پر یقین کر پانا مشکل ہو رہا تھا، ضبط کرنا مانو اس سے بھی کہیں مشکل تھا، ہر شخص کئی کئی لوگوں سے اس بات کی تصدیق کر رہا تھا۔ بالآخر جو جس حال میں تھا بریلی کی طرف چل پڑا، ٹرینوں میں اچانک اتنی بھیڑ ہو گئی کہ ریلوے ملازمین حیرت زدہ تھے۔
بریلی آنے والے تمام راستے حضور تاج الشریعہ کے آخری دیدار کے لیے بھر چکے تھے۔ کیا عام کیا خاص، کیا مفتی کیا مولوی، کیا استاذ کیا شاگرد، سب کی ڈگر صرف بریلی ہی تھی۔ مدارس خالی ہو گئے، پوری دنیا سے تعزیتی فون اور بیان آنے لگے، اپنے تو اپنے غیروں نے بھی اظہارِ تعزیت کیا، ایصالِ ثواب کی محفلیں کیں، ہندوستان کی ہر سیاسی پارٹی نے اپنے طور پر خراج پیش کیا۔
۸؍ ذیقعدہ ١٤٣٩ھ مطابق ۳؍ جولائی ۲۰۱۸ء بروز اتوار صبح ۱۱؍ بج تک بریلی شریف حضرت کے جنازے میں آئے ہوئے کروڑوں عاشقوں سے بھر چکا تھا، عرسِ رضوی سے کئی گنا زیادہ بھیڑ تھی، زمین پر انسان تو ان کے سروں پر فلک رو رہا تھا، دو دنوں سے زبردست بارش ہو رہی تھی، اسلامیہ گراؤنڈ میں جگہ جگہ پانی لگا ہوا تھا۔ میں نے (راقم الحروف) خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ لوگ اپنے صاف و شفاف کپڑوں کی پروا کیے بغیر گراؤنڈ کے اندر نمازِ جنازہ کے لیے صف بنائے کھڑے ہیں، اور صفوں کا سلسلہ کئی کلو میٹر تک رہا۔
شہزادۂ حضور تاج اشلریعہ حضرت مولانا عسجد رضا خاں قادری صاحب نے نمازِ جنازہ ادا کرائی اور بعدِ نماز اپنے نئے مہمان خانے (ازہری گیسٹ ہال) میں سپردِ خاک ہوئے۔
آپ کے نمازِ جنازہ کی بھیڑ جہاں عاشقانِ رضا کے لیے رشک و فخر کا سامان بنی، وہیں باغیانِ مسلکِ رضا کے لیے ذلت و رسوائی اور حسد و جلن کا باعث بنی۔ ہندوستان کی تاریخ میں شاید یہ پہلا موقع تھا جب کسی پیر کے جنازے میں اتنی بڑی تعداد میں لوگ اندازِ عاشقانہ کے ساتھ شریک ہوئے ہوں کہ جس کا صحیح انداز لگا پانا بہت ہی مشکل ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس عاشقِ رسول (علیہ السلام) کا جنازہ بڑی دھوم دھام اور شان و شوکت کے ساتھ نکلا.
دیکھنے والے کیا کرتے ہیں اللہ اللہ
یاد آتا ہے خدا دیکھ کے صورت تیری
مولانا محمد پرویز رضا فیضانی حشمتی بھوانی گنج ضلع سدھارتھ نگر
6307986692/9670556798
parvezraza015@gmail.com