پیر، 29 جون، 2020

حیاتِ تاج الشریعہ علیہ الرحمہ پر ایک نظر--- حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کا مختصر تعارف، خاندانی حالات و ذکر اجدادمولانا محمد پرویز رضا فیضانی حشمتی

حیاتِ تاج الشریعہ علیہ الرحمہ پر ایک نظر---
 حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کا مختصر تعارف، خاندانی حالات و ذکر اجداد

مولانا محمد پرویز رضا فیضانی حشمتی
حیاتِ تاج الشریعہ علیہ الرحمہ پر ایک نظر---
 حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کا مختصر تعارف، خاندانی حالات و ذکر اجداد

مولانا محمد پرویز رضا فیضانی حشمتی
دنیائے سنیت کی جلیل القدر، باوقار، ہر دل عزیزشخصیت، اہلِ عشق و وفا کے مرکزِ عقیدت، 
آبروئے اہلِ سنت، فخرِ سنیت، نازشِ علم و حکمت، جامعِ معقولات و منقولات، سراپا استقامت وعزیمت، ماحیِ کفر و بدعت، ناشرِ دین و ملت، بحرِ علم و معرفت، صاحب کشف و کرامت، پیکرِ رشد و ہدایت، شاہکارِ تقویٰ و طہارت،مخزنِ خلوص و للہیت،ولیِ کامل، پیرِ طریقت رہبرِ شریعت، وارثِ علومِ امام احمد رضا، نبیرۂ حجۃ الاسلام، جانشینِ مفتیِ اعظمِ ہند، شہزادۂ مفسرِ اعظمِ ہند، شیخ الاسلام والمسلمین، قاضی القضاۃ فی الہند، حضرتِ تاج الشریعہ علامہ الحاج مفتی محمد اختر رضا قادری ازہری علیہ الرحمہ کی شخصیت پوری دنیا میں دن کے سورج کی طرح روشن ہے۔

آپ کے خاندانی حالات:
(۱)- آپ کے خاندان کا تعلق افغانستان سے ہے آپ کے بزرگ جن کا نام شہزادہ سعید اللہ خان ہے ان کے والد کندھار (افغانستان) کے والی (گورنر) تھے۔ دلی مغل سلطنت کی طرف سے آپ کو روہیل کھنڈ بریلی بھیجا گیا۔
(۲)- عالی جناب سعادت یار خان: آپ سعید اللہ خان کے بیٹے ہیں، والد کی شاہی ملازمت سے استعفیٰ دینے کے بعد سعادت یار خان کو مغلیہ سلطنت کی طرف سے دلی کا وزیرِ مالیت بنایا گیا آپ نے دلی میں دو یادگار چھوڑیں۔ ایک سعادت گنج کا بازار اوردوسری سعادت خان کی نہر۔ آپ کی مہرِ وزارت بھی اعلیٰ حضرت کے زمانے تک موجود رہی۔
(۳)- حضرت اعظم خان: آپ سعادت یار خان کے بیٹے ہیں، آپ نے بریلی میں رہ کر مغلیہ سلطنت کی کچھ اہم ذمے داری سنبھالی، اس کے بعد یکایک دل کی دنیا میں ایسا بدلاؤ آیا کہ آپ نے ترکِ دنیا کر کے ساری عمر یادِ الٰہی میں گزاری۔
(٤)- حضرت حافظ کاظم علی خان: آپ اعظم خان کے بیٹے ہیں، آپ کو مغلیہ سلطنت کی طرف سے بدایوں کا تحصیل دار بنایا گیا، آپ کی خدمت میں ۲۰۰؍ سواروں کی بٹالین رہا کرتی تھی اور ۸؍ گاؤں کی جاگیر بھی ملی تھی،آپ حافظِ قرآن تھے اور آپ کو مولانا نور الحق فرنگی محلی سے سلسلۂ رزّاقیہ میں اجازت و خلافت بھی حاصل تھی۔
(۵)- حضرت مولانا رضا علی خان: آپ سن ۱۸۰۹ء کو بریلی میں پیدا ہوئے، ۲۲؍ سال کی عمر میں آپ عالمِ دین بنے،آپ کو فقہ سے زیادہ لگاؤ تھا، سن١٢٤٦ ھ میں آپ نے دارالافتا کی بنیاد رکھی۔ سن١٨٥٧ء میں جنگِ آزادی میں آپ نے بھر پور حصہ لیا اور انگریزوں کا خوب بڑھ چڑھ کر مقابلہ کیا۔
(٦)- حضرت مولانا نقی علی خان: آپ مولانا رضا علی خان کے صاحب زادے ہیں، رجب ١٢٤٦ھ مطابق ۱۹۲۹ء میں آپ کی ولادت ہوئی، والدِ محترم سے آپ نے علم حاصل کیا اور والدِ محترم کے دارالافتا کو آگے بڑھایا۔ آپ کو حضرت سید شاہ آلِ رسول مارہروی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے بیعت و خلافت و اجازت حاصل تھی، آپ نے مختلف علوم و فنون میں ۳؍ درجن سے زیادہ کتابیں تصنیف کیں۔
(۷)- اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان: ۱۲۷۲ھ مطابق ۱۸۵۷ء میں آپ کی ولادت ہوئی، اسلامی تاریخ میں بے شمار ایسی ہستیاں گزری جنھوں نے دینِ اسلام کی ایسی خدمت کی جس کے اثرات ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی کسی نہ کسی شکل میں باقی ہے، ماضی قریب میں دیکھا جائے تو آقائے نعمت، امامِ اہلِ سنت، عظیم البرکت، عظیم المرتبت، پروانۂ شمعِ رسالت، مجددِ دین و ملت، حامیِ سنت، ماحیِ بدعت، عالمِ شریعت، پیرِ طریقت، باعثِ خیر و برکت، حضرت علامہ مولانا الحاج الحافظ القاری شاہ امام احمد رضا خان ایسی ہی ہستی ہیں کہ ان کے وصال کے ۱۰۰؍ سال کے بعد بھی ان کی مختلف علوم و فنون جیسے تفسیر، اصولِ تفسیر، حدیث،اصولِ حدیث، فقہ،اصولِ فقہ، منطق، فلسفہ، کلام، ریاضی،ہیئت، توقیت، کمسٹری، فِزکس، نجوم،ہندوسہ، لوگارتھم اور دیگر کئی علوم میں مہارت کی قدر افزائی اور ان کی اصلاحی کاوشوں کی پزیرائی ہے۔نیز ان کا خوفِ خدا، عشقِ رسول، تقویٰ اور مسلمانوں سے خیر خواہی کا انداز لائقِ پیروی ہے آپ کا وصال ۱۹۲۱ء میں ہوا۔
(۸)- حجۃ الاسلام علامہ حامد رضا خان: آپ اپنے والد اعلیٰ حضرت کے سچے جانشین ہوئے ۱۲۹۲ھ میں پیدا ہوئے، جملہ علوم و فنون وقت کے مجدد اعلیٰ حضرت سے حاصل کیے۔ آپ مسلسل ۵۰؍ سالوں تک فقہ و افتا کے ذریعے مسلمانوں کی مذہبی و سیاسی معاملات میں رہنمائی فرماتے رہے۔ آپ نے مختلف علوم میں درجنوں کتابیں یادگار چھوڑی ہیں، آپ کے فتاویٰ کا مجموعہ ”فتاویٰ حامدیہ“ ہےآپ تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کے دادا ہیں۔
(۹)- مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا خان: آپ اعلیٰ حضرت کے چھوٹے صاحب زادے ہیں ۱۳۱۰ھ مطابق ۱۸۹۳ء میں آپ پیدا ہوئے۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ خانوادۂ رضویہ میں اگر اعلیٰ حضرت کے بعد کسی کو بہت زیادہ شہرت ملی ہے تو وہ آپ ہی کی ذات ہے۔٦؍ ماہ کی عمر میں حضرت سید ابو الحسن نوری میاں نے آپ کو بیعت کیا اور تمام سلاسل کی اجازت و خلافت سے سرفراز فرمایا۔۱۸؍ سال کی عمر میں آپ نے پہلا فتویٰ لکھا، تب سے آخری عمر تک مکمل ٧٤؍ سال خدمتِ دین اور خدمتِ فقہ میں لگے رہے۔ آپ کی تصنیف کی تعداد ۳۹؍ ہے، آپ کے فتاویٰ کا نام ”فتاوائے مصطفویہ“ ہے جو ۷؍ جلدوں میں ہے۔ ۱۹۸۱ء میں آپ کا وصال ہوا، آپ تاج الشریعہ کے نانا ہیں۔
(۱۰)- مفسرِ اعظمِ ہند مولانا ابراہیم رضا خان:آپ کی ولادت ١٣٢٥ھ مطابق١٩٠٦ء میں ہوئی، حضرت حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خان آپ کے والد ہیں۔ ۱۹؍ سال کی عمر میں آپ کو دستارِ علم و فضل سے نوازا گیا،آپ کو اعلیٰ حضرت سے بیعت کے ساتھ اجازت و خلافت بھی حاصل تھی۔ ١٣٦٧ھ میں دارالعلوم منظر اسلام کی باگ ڈور آپ کے سپرد کی گئی۔ آپ کے کل ۵؍ صاحب زادے ہوئے۔ (۱) مولانا ریحان رضا خان (۲) مولانا اسماعیل رضا خان عرف تاج الشریعہ مولانا اختر رضا خان (۳) ڈاکٹر قمر رضا خان (۴) مولانا منان رضا خان (۵) مخدوم تنویر رضا خان۔ حضور مولانا ابراہیم رضا خان کا جون ۱۹۶۵ء میں وصال ہوا۔
(۱۱)- حضور تاج الشریعہ حضرت مفتی اختر رضا خان: 
ولادت: ٢٦؍ محرم الحرام ١٣٦٢ھ مطابق ۲؍ فروری ١٩٤٣ء بروز منگل۔جائے ولادت: محلہ سوداگران، بریلی۔
بسم اللہ خوانی: چار سال، چار ماہ، چار دن کے ہونے پر حضور مفتیِ اعظمِ ہند   نے ہندوستان و جامعہ منظرِ اسلام کے باوقار علما کی موجودگی میں کرائی۔
اسمائے گرامی: محمد نام پر آپ کا عقیقہ ہوا، محمد اسماعیل کے نام سے آپ کو گھر والے یاد کرتے جب کہ محمد اختر رضا نام سے پوری دنیا میں پہچان بنائی۔
تعلیم: ناظرۂ قرآن و اردو والدِ گرامی سے پڑھیں، اس کے بعد جامعہ منظرِ اسلام میں داخلہ لیا اور یہیں سے عالمیت کی تعلیم مکمل فرمائی۔ ۱۹۵۲ء میں ایف.آر. اسلامیہ انٹر کالج سے ہندی انگلش و عصری تعلیم حاصل کی، ١٩٦٣ء میں آپ جامعہ ازہر (مصر) تشریف لے گئے، ١٩٦٦ء میں اعلیٰ نمبروں سے کامیابی حاصل کر اپنی تعلیم مکمل فرمائی۔ آپ اپنے شعبہ ”اصولِ الدین قسمۃ التفسیر والحدیث“ میں اول پوزیشن حاصل کی اور یہ پوزیشن پورے مصر میں اول تھی۔
وطن واپسی: ۱۷؍ نومبر ١٩٦٦ء کو جب آپ بریلی تشریف لائے تو پورے خانوادے نے آپ کا پر زور استقبال کیا ۔
پہلا فتویٰ: ١٩٦٦ء میں تصنیف فرمایا، حضرتِ مفتی افضل حسین مونگیری نے اصلاح فرمائی اور حضور مفتیِ اعظم نے فتویٰ دیکھ کر خوب تحسین فرمائی۔
تدریسی خدمات: آپ نے جامعہ منظرِ اسلام میں بحیثیت استاذ ۱۱؍ سال تک تدریسی خدمات انجام دی اور ۱۹۷۸ء میں صدر المدرسین کے عہدے پر فائز ہوئے۔
شادی خانہ آبادی: ۳؍ نومبر ١٩٦٨ء بروز اتوار آپ کا نکاح مولانا حسنین رضا خان بن مولانا حسن رضا خان کی دختر (بیٹی) سے ہوا۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ۵؍ اولادوں کی دولت سے نوازا جس میں ایک صاحب زادے (حضرت مولانا عسجد رضا خان) اور ٥؍ لڑکیاں ہیں۔
بیعت و ارادت: آپ کو حضور مفتیِ اعظم نے بچپن میں ہی داخلِ سلسلہ کر لیا تھا پھر ۲۰؍ سال بعد محفلِ میلاد شریف میں علما و مشائخ کی موجودگی میں خلافت و اجازت بھی عطا کر دی ساتھ ہی آپ کو سید العلما مولانا شاہ سید آلِ مصطفیٰ مارہروی علیہ الرحمہ سے تمام سلاسل کی اجازت و خلافت حاصل تھی۔
تبلیغی خدمات: ١٩٦٧ء سے ۱۹۸۰ء تک آپ نے جامعہ منظرِ اسلام میں درس دیا اور اس درمیان فتویٰ نویسی کا کام بھی جاری رہا۔ ۱۹۸۱ء میں حضور مفتیِ اعظم کے وصال کے بعد آپ کی مصروفیت اور بڑھ گئی ، اسی بیچ آپ نے مرکزی دارالافتا قائم کیا۔ ۱۹۸۲ء میں آپ نے درسِ قرآن و درسِ حدیث کا آغاز فرمایا جو ساری دنیا میں بہت مقبول ہوا۔ ۱۹۸۳ء میں آپ نے ماہ نامہ "سنی دنیا" جاری فرمایا، اس کے علاوہ "جامعۃ الرضا" قائم کیا اور ہر جمعرات کو پوری دنیا سے آنے والے سوالات کے جوابات دیتے اور جمعہ کے دن بعد نمازِ مغرب یا عشا بریلی کی مسجدوں میں دینی سوال و جواب کے پروگرام کا اہتمام فرماتے ساتھ ہی ہر اتوار  کو انٹر نیٹ کے ذریعے آنے والے سوالوں کے جواب دینا سیدی تاج  الشریعہ کے معمول میں شامل تھے۔
حج و زیارت: آپ نے کل ٦؍ حج ادا فرمائے۔ (۱) ١٤٠٣ھ مطابق ۱۹۸۳ء (۲) ١٤٠٥ھ مطابق ١٩٨٦ء (۳) ١٤٠٦ھ مطابق ۱۹۸۷ء (٤) ١٤٢٩ھ مطابق ۲۰۰۸ء (۵) ١٤٣٠ھ مطابق ۲۰۰۹ء (٦) ١٤٣١ھ مطابق ۲۰۱۰ء۔ اللہ تعالیٰ نے حج کے علاوہ آپ کو عمرے کی سعادتوں سے بھی کئی بار بہرہ مند فرمایا، جب آپ دوسرے حج کے موقعے پر حرمین تشریف لائے توسعودی حکومت نے آپ کو گرفتار کر لیا اور ان لوگوں نے آپ سے توسل، حیاتِ انبیا علیہم السلام وغیرہ کے عنوان پر مناظرہ کیا جس میں ربِّ قدیر نے آپ کو فتح اور ان بدبختوں کو شکست کا سامنا کرایا۔
تصنیف (کتابیں): آپ کی کتابی شکل میں موجود تصنیفوں کی تعداد ٦١؍ بتائی جاتی ہے جو منظرِ عام پر ہیں، یہ کتابیں اردو، عربی اور انگریزی زبانوں میں موجود اپنے قرائن کی مکمل رہنمائی کر رہی ہیں۔ ان تصنیف میں ”الفردہ فی شرح قصیدۃ البردہ، الحق المبین، شرح حدیث اخلاص، حاشیہ علی صحیح البخاری، تین طلاق کا شرعی حکم، ٹائی کا مسئلہ، اور ٹی وی ویڈیو کا آپریشن“ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔
شعر و شاعری: آپ کی نعتیہ شاعری عشقِ رسول علیہ السلام بڑھانے کا بہترین ذریعہ ہے، آپ کے نعتیہ کلام جس محفل میں پڑھے جاتے ہیں وہ اس محفل کی سند ہوجاتے ہیں۔
کثرتِ مریدین: جس قدر علما، فقہا، فضلا، مفتیان، حفاظ و قرا، طلبہ و طالبات، عوام الناس سے خاص و عام، امیر و غریب آپ کے مریدوں میں شامل ہیں اتنے مرید آج کسی کے نظر نہیں آتے اور یہ بات سب پر روزِ روشن کی طرح ظاہر ہے۔
پیرِ کامل: بزرگانِ دین نے کامل پیر کی ٤؍ شرطیں بیان کی ہیں: (۱) خوش عقیدہ سنی مسلمان ہو۔ (۲) فاسقِ معلن (کھلے عام حرام و ناجائز کام کرنے والا) نہ ہو۔ (۳) عالمِ دین (جو کم سے کم اپنی ضرورت کے مسائل کتابوں سے نکال سکے بغیر کسی مدد کے) ہو۔ (٤) اس کا سلسلہ اس طرح حضور علیہ السلام سے ملتا ہو کہ بیچ میں (مون کتا) شک کی گنجائش نہ ہو۔ حضور تاج الشریعہ ان تمام شرائط کے جامع تھے، پوری دنیا میں ایسا عام تو عام خاص بھی نہ ملے گا جو ان شرائطوں میں آپ کے اندر کسی قسم کی کمی نکال سکے۔یاد رہے کہ آپ کو سلسلۂ قادریہ، چشتیہ، نقش بندیہ، سہروردیہ کی اجازتیں حاصل تھیں۔
کنز العمال کتاب الاذکار میں حدیث مذکور ہے: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: 
”اولیاء اللہ الذین اذا رؤوا ذکر اللہ“
 اللہ کے ولی وہ لوگ ہیں جن کے دیکھنے سے خدا یاد آجائے۔
اللہ والوں کی پہچان یہ ہے کہ ان کی صورت دیکھ کر اور ان کی صحبت میں رہ کر اللہ کی یاد آتی ہے، دل کو سکون و اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ یاد رکھیں کہ پیرِ بے ریا اور ولیِ کامل کی اگر نظرِ التفات ہوگئی تو سمجھو خدا مل گیا۔
یہاں پر ہم سب کو ایک بات کا جاننا بہت ہی ضروری ہے اور وہ یہ کہ اس دور میں اکثر لوگ خود کو پیر اور ولی کہلانے کا شوق رکھنے لگے ہیں جب کہ پیر یا ولی ہونے کے لیے جن شرائط کا ہونا ضروری ہے ان میں نہیں پائی جاتیں۔ہم یہاں پہلے اس بات کا ذکر کریں گے کہ ولی کون ہوتا ہے بعد اس کے اپنی بات کو آگے بڑھائیں گے۔
المعجم الکبیر میں حضور علیہ السلام کا فرمانِ عالی شان ہے: 
(اطلبوا الخیر والحوائج من حسان الوجوہ“ 
اپنی بھلائی اور حاجتیں خوبصورت چہرے والوں سے طلب کرو۔
اب جن آنکھوں نے ان موہنی صورت کو دیکھا ہے ان سے پوچھیں، وہ چاہےدوست ہوں یا دشمن، اگرصدق سے کام لیں تو سب بیک زبان کہیں گے کہ یقیناً حضور تاج الشریعہ ان تمام کمالات و خوبیوں کے حامل تھے۔
سچے ولی کی پہچان:افسوس! آج کل کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کو شریعت و طریقت کا کوئی علم نہیں ہوتا مگر پیر اور ولی بننے کا بہت شوق ہوتا ہے۔ لوگوں کو گمراہ کرنا، شریعت و طریقت کو الگ الگ بتانا ان کا کام ہے، مگر یاد رہے! ایسے لوگ معاذ اللہ نہ پیر ہوتے ہیں نہ ولی۔
اب آئیے دیکھیں کہ ولی کون ہوتا ہے؟: ولایت بے علم کو نہیں ملتی، خواہ علم ظاہر حاصل کیا ہو یا اس (ولایت کے) مرتبے پر پہنچنے سے پیشتر، اللہ تعالیٰ نے اس پر علوم منکشف (ظاہر) کر دئیے ہوں۔ (بہارِ شریعت جلد اول،صفحه٢٦٤، مکتبۃ المدینہ)
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
حاشا، نہ شریعت و طریقت دو راہیں ہیں نہ اولیا کبھی غیر علما ہو سکتے ہیں، حضرت علامہ عبد الرؤف مناوی علیہ الرحمہ شرح جامع الصغیر میں اور عارفِ باللہ سید عبد الغنی نابلسی علیہ الرحمہ حدیقۂ ندیہ میں فرماتے ہیں کہ امامِ مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا:”علمِ باطن نہ جانے گا مگر وہ جو علمِ ظاہر جانتا ہے۔“
حضرتِ سیدنا امام شافعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ نے کبھی کسی جاہل کو اپنا ولی نہ بنایا، یعنی بنانا تو چاہا تو پہلے اسے علم دے دیا اس کے بعد ولی کیا، جو علمِ ظاہر نہیں رکھتا علمِ باطن کہ اس کا ثمرہ و نتیجہ ہے کیوں کر پا سکتا ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، ج:۲۱، ص:۵۳۰، ملخصاً)
ظاہری و باطنی شریعت کی حقیقت:
سوال: کچھ لوگ اپنے آپ کو مجزوب (مست) یا فقیر کا نام دے کر خلافِ شرعی کاموں کو اپنے لیے جائز قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ طریقت کا معاملہ ہے، یہ تو فقیری لائن ہے، ہر ایک کو سمجھ نہیں آ سکتی، پھر اگر ان سے نماز پڑھنے کو کہا جائے تو کہتے ہیں یہ ظاہری شریعت ظاہری لوگوں کےلیے ہے، ہم باطنی اجسام کے ساتھ خانۂ کعبہ یا مدینے میں نماز پڑھتے ہیں وغیرہ وغیرہ (معاذ اللہ) ایسے لوگوں کے بارے میں حکمِ شرعی کیا ہے؟
جواب: شریعت چھوڑ کر خلافِ شرعی کاموں کو طریقت یا فقیری لائن قرار دینا یا طریقت کو شریعت سے الگ جاننا یقیناً گمراہی ہے۔ اعلیٰ حضرت شاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ شریعت اور طریقت کے باہمی تعلقات کو یوں بیان فرماتے ہیں کہ: ”شریعت منبع ہے اور طریقت اس میں سے نکلتا ہوا ایک دریا ہے، عموماً کسی منبع یعنی پانی نکلنے کی جگہ سے اگر دریا بہتا ہو تو اسے زمینوں کو سیراب کرنے میں منبع کی حاجت نہیں ہوتی لیکن شریعت وہ منبع ہے کہ اس سے نکلے ہوئے دریا یعنی طریقت کو ہر آن اس کی حاجت ہے کہ اگر شریعت کے منبع سے طریقت کے دریا کا تعلق ٹوٹ جائے تو صرف یہ ہی نہیں کہ آئندہ کے لیے اس میں پانی نہیں آئے گا بلکہ یہ تعلق ٹوٹتے ہی دریائے طریقت فوراً فنا ہوجائے گا۔(فتاویٰ رضویہ، ج:۲۱،ص:۵۲۵، ملخصاً)
صدر الشریعہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: 
’’طریقت منافی شریعت (یعنی شریعت كے خلاف) نہیں وہ شریعت كا ہی باطنی حصہ ہے، كچھ جاہل متوصف جو یہ كہہ دیا كرتے ہیں كہ ’’طریقت اور ہے، شریعت اور ہے‘‘ محض گمراہی اہے اور اس زعمِ باطل (غلط خیال) كی وجہ سے اپنے آپ كو شریعت سے آزاد سمجھنا صریح كفر و الحاد  ہے۔ احكامِ شرعیہ كی پابندی سے كوئی ولی كیسا ہی عظیم ہو سبك دوش نہیں ہو سكتا۔
كچھ جاہل جو یہ بك دیتے ہیں كہ ’’شریعت راستہ ہے، راستے كی حاجت ان كو ہے جو مقصد تك نہ پہنچے ہوں، ہم تو پہنچ گئے۔‘‘
سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی   نے انھیں ایسے جاہلوں كو فرمایا:
’’صدقوا لقد وصلوا ولٰكن إلی این ؟ إلی النار۔‘‘
یعنی وہ سچ كہتے ہیں، بیشك پہنچے ، مگر كہاں؟ جہنم كو۔
(الیواقیت والجواہر، الفصل الرابع ، المبحث السادس والعشرون ، باختلاف بعض الالفاظ، ص:٢٠٦)

عشقِ رسول و سنت و شریعت كی پابندی: ”ان اكرمكم عند اللہ اتقكم۔“
بیشك اللہ كے نزدیك تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہو۔ (القرآن)
اس زاویے سے جب ہم حضور تاج الشریعہ كی زندگی كا مطالعہ كرتے ہیں تو آپ نائبِ غوثِ اعظم حضور مفتی اعظم كی صحبت پا كر زہد و تقویٰ کے اعلیٰ مقام پر فائز نظر آتے ہیں، آپ کا کوئی قدم خلافِ شرع و سنت نظر نہیں آتا۔
کیوں کہ جس طرح ہر زمانے میں آپ کا خاندان علم و عرفان ، زہد و ورع، خلوص و محبت، حق گوئی و بے باکی میں ممتاز رہا ہے، آپ بھی اپنے زمانے میں ان چیزوں میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔ میں (راقم الحروف) جب دورانِ طالب علمی جامعہ منظرِ اسلام میں تھا تو رضا مسجد (بریلی) میں نمازِ جمعہ میں تقریر کی ذمہ داری مجھ پر ڈالی گئی اور مجھے اس بات کی بڑی خوشی ہے کہ میں نے کئی تقریریں اپنے مرشدِبرحق سیدی تاج الشریعہ کے سامنی کی ہیں۔  اور جب حضرت نمازِ جمعہ کے لیے مصلیٰ امامت پر فائز ہوتے تو میں آپ کے پیچھے مکبر ہوتا، جب آپ عشقِ خدا میں ڈوب کر قراءت فرماتے ، نمازیوں کے دل آپ کی قراءت سے لرزاں ہو جاتے اور نمازیوں کو عشقِ الٰہی کی چاشنی ملتی ۔ بیماری و ضعیفی کے باوجود  آپ رکوع و سجود اور دیگر ارکانِ نماز سنتِ پاک کی رعایت اور پابندی کے ساتھ ادا فرماتے کہ آپ کو نماز کی حالت میں دیکھ کر رشک آتا اور یہی خیال گزرتا کہ حضرت پڑھاتے رہیں اور ہم پڑھتے رہیں۔

وصالِ پر ملال:٦؍ ذیقعدہ ۱۳۳۹ھ مطابق ۲۰؍ جولائی ۲۰۱۸ء قریب وقت مغرب (سن عیسوی کے اعتبار سے ۷۵ اور سن ہجری کے اعتبار سے ۷۷ سال کی عمر میں )اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔  انا للہ  و انا الیہ راجعون۔

 اخترِ قادری خلد میں چل دیا
خلد وا ہے ہر اک قادری کے لیے

تجہیز و تکفین و نمازِ جنازہ:آپ کے وصال کی خبر چند لمحوں میں پوری دنیا میں پھیل گئی، گویا کہ ہوا نے اپنے دوش پر اس خبر کو گھر گھر پہنچا دیا ہو۔
ہر زبان پر" انا للہ و انا الیہ راجعون "کے ساتھ آنکھوں سے اشکوں کی برسات بھی ہو رہی تھی، دل بیٹھا جا رہا تھا، اپنے کانوں پر یقین کر پانا مشکل ہو رہا تھا، ضبط کرنا مانو اس سے بھی کہیں مشکل تھا، ہر شخص کئی کئی لوگوں سے اس بات کی تصدیق کر رہا تھا۔ بالآخر جو جس حال میں تھا بریلی کی طرف چل پڑا، ٹرینوں میں اچانک اتنی بھیڑ ہو گئی کہ ریلوے ملازمین حیرت زدہ تھے۔
بریلی آنے والے تمام راستے حضور تاج الشریعہ کے آخری دیدار کے لیے بھر چکے تھے۔ کیا عام کیا خاص، کیا مفتی کیا مولوی، کیا استاذ کیا شاگرد، سب کی ڈگر صرف بریلی ہی تھی۔ مدارس خالی ہو گئے، پوری دنیا سے تعزیتی فون اور بیان آنے لگے، اپنے تو اپنے غیروں نے بھی اظہارِ تعزیت کیا، ایصالِ ثواب کی محفلیں کیں، ہندوستان کی ہر سیاسی پارٹی نے اپنے طور  پر خراج پیش کیا۔
۸؍ ذیقعدہ ١٤٣٩ھ مطابق ۳؍ جولائی ۲۰۱۸ء بروز اتوار صبح ۱۱؍ بج تک بریلی شریف حضرت کے جنازے میں آئے ہوئے کروڑوں عاشقوں سے بھر چکا تھا، عرسِ رضوی سے کئی گنا زیادہ بھیڑ تھی، زمین پر انسان تو ان کے سروں پر فلک رو رہا تھا، دو دنوں سے زبردست بارش ہو رہی تھی، اسلامیہ گراؤنڈ میں جگہ جگہ پانی لگا ہوا تھا۔ میں نے (راقم الحروف) خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ لوگ اپنے صاف و شفاف کپڑوں کی پروا کیے بغیر گراؤنڈ کے اندر نمازِ جنازہ کے لیے صف بنائے کھڑے ہیں، اور صفوں کا سلسلہ کئی کلو میٹر تک رہا۔
شہزادۂ حضور تاج اشلریعہ حضرت مولانا عسجد رضا خاں قادری صاحب نے نمازِ جنازہ ادا کرائی اور بعدِ نماز اپنے نئے مہمان خانے (ازہری گیسٹ ہال) میں سپردِ خاک ہوئے۔
آپ کے نمازِ جنازہ کی بھیڑ جہاں عاشقانِ رضا کے لیے رشک و فخر کا سامان بنی، وہیں باغیانِ مسلکِ رضا کے لیے ذلت و رسوائی اور حسد و جلن کا باعث بنی۔ ہندوستان کی تاریخ میں شاید یہ پہلا موقع تھا جب کسی پیر کے جنازے میں اتنی بڑی تعداد میں لوگ اندازِ عاشقانہ کے ساتھ  شریک ہوئے ہوں کہ جس کا صحیح انداز لگا پانا بہت ہی مشکل ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس عاشقِ رسول (علیہ السلام)  کا جنازہ بڑی دھوم دھام اور شان و شوکت کے ساتھ نکلا.

دیکھنے والے کیا کرتے ہیں اللہ اللہ
یاد آتا ہے خدا دیکھ کے صورت تیری

مولانا محمد پرویز رضا فیضانی حشمتی بھوانی گنج ضلع سدھارتھ نگر
6307986692/9670556798
parvezraza015@gmail.com

ہفتہ، 27 جون، 2020

تاج الشریعہ مفتی اختر رضا خان مولانا محمد پرویز رضا فیضانی حشمتی ‏6307986692/9670556798

تاج الشریعہ مفتی اختر رضا خان

مولانا محمد پرویز رضا فیضانی حشمتی 

تاج الشریعہ مفتی اختر رضا خان
مولانا محمد پرویز رضا فیضانی حشمتی 

اس مضمون یا قطعے کو اختر رضا خان میں ضم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
تاریخ اسلام میں ایسے بے شمار نام محفوظ ہیں جن کے کارہائے نمایاں رتی دنیا تک یاد رکھے جائیں گے لیکن جب ذکر سیدنا ا علیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی کا آجائے تو تاریخ ڈھونڈتی ہےکہ ان جیسا دوسراکوئی ایک ہی اسے اپنے دامن میں مل جائے ۔ کوئی کسی فن کا اما م ہے تو کوئی کسی علم کا ماہر لیکن سیدنا اعلیٰ حضرت امام اہل سنت مجدد دین ملت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ ہر علم ، ہر فن کے آفتاب و ماہتاب ہیں… ع

جس سمت دیکھیے وہ علاقہ رضاؔکا ہے

سیدنا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی ایک بالغ نظر مفتی بھی ہیں ایک ممتاز فقیہ بھی ، تفسیر و حدیث کے امام بھی ہیں ،صرف ونحو کے بادشاہ بھی ، وہ محقق بھی ہیں مؤرخو بھی ، مفکربھی ہیں مدبر بھی، ادیب بھی ہیں شاعر بھی ، مناظر بھی ہیں مصنف بھی ، سیاست داں بھی ہیں ماہر اقتصادیات بھی، طبیب بھی ہیں اورسائنسداں بھی ہیں،معلم بھی ہیں معلم ساز بھی،عاشق مصطفیٰ بھی ہیں اور عشاق کے قافلہ سالار بھی، مجتہد بھی ہیں مجدد بھی،حق کے علمبردار بھی ہیں اور حق کی پہچان بھی۔کس کس خوبی کا ذکر کیا جائے ، کن کن خدمات کو یاد کیاجائے۔خالق مطلق نے امام احمد رضابریلوی کو قدیم و جدید تمام علوم و فنون کاامام بنایا۔ صرف آپ کے نعتیہ دیوان ’’حدائق بخشش ‘‘ ہی میں 215؍علوم سے متعلق اشعارموجود ہیں ۔(فن شاعری اور حسان الہند/ ص : 287)جہاں مالک قدیر نے آپ کو نامور آباؤ اجداد اور معزز و مقدس قبیلہ میں پیدا فرمایا وہیں آپ کی اولاد اورخاندان میں بھی بے شمار بے مثال ولاجواب افراد پیدا فرمائے ۔ استاد زمن ، حجۃ الاسلام ، مفتیٔ اعظم ،مفسر اعظم ،حکیم الاسلام، ریحان ملت ، صدر العلماء ، امین شریعت (رضی اللہ عنھم)جس کسی کو دیکھ لیجئے ہر ایک اپنی مثال آپ ہے ۔ انہی میں ایک نام سر سبز وشاداب باغِ رضا کے گل شگفتہ ، روشن روشن فلک رضا کے نیر تاباں قاضی القضاۃ فی الہند ، جانشین مفتیٔ اعظم ،حضور تاج الشریعہ حضرۃ العلام مفتی محمد اختر رضا خاں قادری ازہری علیہ الرحمہ کا بھی ہے۔حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ مفسر اعظم ہند حضرت علامہ مفتی محمدابراہیم رضا خاں قادری جیلانی کے لخت جگر ، سرکار مفتیٔ اعظم ہند علامہ مفتی مصطفیٰ رضاخاں قادری نوری کے سچے جانشین ،حجۃ الاسلام حضرت علامہ مفتی محمد حامد رضا خاں قادری رضوی کے مظہر اور سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خاں قادری برکاتی بریلوی کی برکات و فیوضات کا منبع اور ان کے علوم و روایات کے وراث و امین ہیں۔ (رضی اللہ عنھم)ان عظیم نسبتوں کا فیضان آپ کی شخصیت میں اوصاف حمیدہ اور اخلاق کریمانہ کی صورت میں جھلک رہا ہے۔استاذ الفقہاءحضرت علامہ مفتی عبد الرحیم صاحب بستوی علیہ الرحمہ، حضورتاج الشریعہ علیہ الرحمہ پر ان عظیم ہستیوں کے فیضان کی بارشوں کاتذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں: ’’ سب ہی حضرات گرامی کے کمالات علمی و عملی سے آپ کو گراں قدر حصہ ملا ہے ۔ فہم و ذکا ،قوت حافظہ و تقویٰ سیدی اعلیٰ حضرت سے ، جودت طبع و مہارت تامہ (عربی ادب ) میں حضور حجۃ الاسلام سے ،فقہ میں تبحر و اصابت سرکار مفتیٔ اعظم ہند سے ، قوت خطابت و بیان والد ذی وقار مفسر اعظم ہند سے یعنی وہ تمام خوبیاں آپ کووارثتہً حاصل ہیںجن کی رہبر شریعت و طریقت کو ضرورت ہوتی ہے۔ ‘‘(پیش گفتار ،شرح حدیث نیت/صفحہ:4 )

ولادت باسعادت: ترميم
حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کی ولادت باسعادت 24؍ذیقعدہ 1362ھ /23؍ نومبر 1943ء بروز منگل ہندوستان کے شہر بریلی شریف کے محلہ سوداگران میں ہوئی۔

اسم گرامی : ترميم
آپ کااسم گرامی ’’محمداسماعیل رضا‘‘ جبکہ عرفیت ’’اختر رضا ‘‘ہے ۔ آپ’’ اخترؔ‘‘تخلص استعمال فرماتے ہیں۔آپ کے القابات میں تاج الشریعہ ، جانشین مفتیٔ اعظم،شیخ الاسلام و المسلمین زیادہ مشہور ہیں۔

شجرۂ نسب : ترميم
اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت تک آپ کا شجرۂ نصب یوں ہے۔ تاج الشریعہ حضرۃ العلام مفتی محمد اختررضاخاں قادری ازہری بن مفسر اعظم ہند حضرت علامہ مفتی محمد ابرہیم رضا خاں قادری جیلانی بن حجۃ الاسلام حضرت علامہ مفتی محمدحامد رضا خاں قادری رضوی بن اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں قادری برکاتی بریلوی (رضی اللہ عنھم) آپ کے4؍ بھائی اور3؍بہنیں ہیں۔2؍بھائی آپ سے بڑے ہیں۔ریحان ملت مولانا ریحان رضا خاں قادری اورتنویر رضا خاں قادری(آپ پچپن ہی سے جذب کی کیفیت میں غرق رہتے تھے بالآخر مفقود الخبرہوگئے)اور2؍ آپ سے چھوٹے ہیں۔ڈاکٹر قمر رضا خاں قادری اور مولانا منان رضا خاں قادری ۔

تعلیم و تربیت: ترميم
جانشین مفتیٔ اعظم حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کی عمر شریف جب 4؍سال ،4؍ ماہ اور4؍ دن ہوئی توآپ کے والد ماجد مفسر اعظم ہندحضرت ابراہیم رضا خاں جیلانی علیہ الرحمہ نے تقریب بسم اللہ خوانی منعقد کی۔اس تقریب سعید میں یاد گار اعلیٰ حضرت’’ دار العلوم منظر الاسلام‘‘ کے تمام طلبہ کو دعوت دی گئی۔ رسم بسم اللہ نانا جان تاجدار اہلسنّت سرکار مفتیٔ اعظم ہندمحمد مصطفیٰ رضاخاں نور ی علیہ الرحمہ نے ادا کرائی۔ حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ نے ’’ناظرہ قرآن کریم ‘‘اپنی والدہ ماجدہ شہزادیٔ مفتیٔ اعظم سے گھر پرہی ختم کیا۔والدماجد سے ابتدائی اردو کتب پڑھیں۔ اس کے بعد والد بزرگوار نے ’’دار العلوم منظرالاسلام‘‘ میں داخل کرا دیا۔ درس نظامی کی تکمیل آپ نے’’ منظر الاسلام‘‘ سے کی ۔ مروجہ دنیاوی تعلیم ’’اسلامیہ انٹر کالج‘‘بریلی شریف سے حاصل کی۔ اس کے بعد1963ء میں حضورتاج الشریعہ علیہ الرحمہ ’’جامعۃ الازہر‘‘ قاہرہ ،مصرتشریف لے گئے ۔ وہاں آپ نے ’’کلیہ اصول الدین‘‘ میں داخلہ لیااورمسلسل تین سال تک ’’ جامعہ ازہر‘ ‘ مصر، کے فن تفسیر و حدیث کے ماہر اساتذہ سے اکتساب علم کیا۔ تاج الشریعہ 1966ء / 1386ھ میں جامعۃ الازہر سے فارغ ہوئے۔ اپنی جماعت میں اول پوزیشن حاصل کرنے پر آپ ’’جامعہ ازہر ایوارڈ‘‘سے نوازے گئے۔ایوارڈ اور سند فراغت مصرکے اس وقت کے صدر کرنل جمال عبدالناصر نے دی۔ (بحوالہ : مفتیٔ اعظم ہند اور ان کے خلفاء /صفحہ :150/جلد :1(مع ترمیم)وسوانح تاج الشریعہ /ص:20)

اساتذہ کرام : ترميم
آپ کے اساتذہ کرام میں حضور مفتی اعظم الشاہ مصطفیٰ رضاخاں نوری بریلوی ، بحر العلوم حضرت مفتی سید محمد افضل حسین رضوی مونگیری، مفسر اعظم ہند حضرت مفتی محمد ابراہیم رضا جیلانی رضوی بریلوی،فضیلت الشیخ علامہ محمد سماحی ،شیخ الحدیث و التفسیر جامعہ ازہر ،قاہرہ، حضرت علامہ مولانا محمود عبدالغفار ،استاذالحدیث جامعہ ازہر قاہرہ ، ریحان ملت ، قائد اعظم مولانا محمد ریحان رضا رحمانی رضوی بریلوی، استاذ الاساتذہ مولانا مفتی محمد احمد عرف جہانگیر خاں رضوی اعظمی ،صدرالعلماء علامہ تحسین رضا خان بریلوی ،حافظ انعام اللہ خاں تسنیم حامدی رحمہم اللہ کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔ [مفتیٔ اعظم ہند اور ان کے خلفاء /صفحہ :150/جلد :1(مع ترمیم)]

ازدواجی زندگی: ترميم
جانشین مفتی اعظم کا عقد مسنون ’’ حکیم الاسلام مولانا حسنین رضا بریلوی علیہ الرحمہ ‘‘ کی دختر نیک اخترکے ساتھ 3؍نومبر1968ء/ شعبان المعظم1388ھ بروز اتوار کو محلہ ’’ کا نکر ٹولہ، شہر کہنہ بریلی ‘‘ میں ہوا۔

اولادامجاد: ترميم
آپ کے ایک صاحبزادہ مخدوم گرامی مولانامفتی محمد منور ضا محامد المعروف عسجدرضا خان قادری بریلوی اور پانچ (5) صاحبزادیاں ہیں۔

درس وتدریس : ترميم
حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ نے تدریس کی ابتدا ’’دار العلوم منظر اسلام ،بریلی ‘‘ سے 1967ء میں کی۔1978ء میں آپ دار العلوم کے صدر المدرس اور ’’ رضوی دارالافتاء ‘‘ کے صدر مفتی کے عہدے پر فائز ہوئے ۔ درس و تدریس کا سلسلہ مسلسل بارہ سال جاری رہا لیکن حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کی کثیر مصروفیات کے سبب یہ سلسلہ مستقل جاری نہیں رہ سکا۔لیکن یہ سلسلہ مکمل ختم بھی نہ ہوا ،آ پ بعد میں بھی ’’مرکزی دارالافتاء، بریلی شریف ‘‘میں ’’تخصص فی الفقہ ‘‘ کے علمائے کرام کو ’’رسم المفتی،اجلی الاعلام‘‘ اور ’’بخاری شریف ‘‘ کا درس دیتے رہے۔

بیعت وخلافت : ترميم
حضورتا ج الشریعہ علیہ الرحمہ کو بیعت و خلافت کا شرف سرکار مفتیٔ اعظم سے حاصل ہے۔ سرکار مفتیٔ اعظم ہند علیہ الرحمہ نے بچپن ہی میں آپ کوبیعت کا شرف عطا فرمادیا تھااور صرف 19؍ سال کی عمر میں15؍جنوری1962ء/8؍شعبان المعظم1381 ھ کوایک خصوصی محفل میں تمام سلاسل کی خلافت و اجازت سے نوازا۔ علاوہ ازیں آپ کوخلیفۂ اعلیٰ حضرت برہان ملت حضرت مفتی برہان الحق جبل پوری، سید العلماء حضرت سید شاہ آل مصطفیٰ برکاتی مارہروی، احسن العلماء حضرت سید حیدر حسن میاں برکاتی ،والد ماجد مفسر اعظم علامہ مفتی ابراہیم رضا خاں قادری علیہم الرحمہ سے بھی جمیع سلاسل کی اجازت و خلافت حاصل ہے ۔(تجلیّات تاج الشریعہ / صفحہ: 149 )

بارگاہ مرشد میں مقام: ترميم
حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کو اپنے مرشد برحق ،شہزادہ ٔ اعلیٰ حضرت تاجدار اہلسنّت امام المشائخ مفتیٔ اعظم ہند ابو البرکات آل رحمن حضرت علامہ مفتی محمد مصطفیٰ رضاخاں نوری علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں بھی بلند مقام حاصل تھا۔ سرکار مفتی اعظم علیہ الرحمہ کو آپ سے بچپن ہی سے بے انتہا توقعات وابستہ تھیں جس کا اندازہ ان کے ارشادات عالیہ سے لگایا جاسکتاہے جو مختلف مواقع پر آپ نے ارشاد فرمائے :’’ اس لڑکے(حضور تاج الشریعہ ) سے بہت اُمید ہے۔‘‘ سرکار مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ نے دارالافتاء کی عظیم ذمہ داری آپ کو سونپتے ہوئے فرمایا: ’’اختر میاں اب گھر میں بیٹھنے کا وقت نہیں، یہ لوگ جن کی بھیڑ لگی ہوئی ہے کبھی سکون سے بیٹھنے نہیں دیتے ، اب تم اس کام کو انجام دو، میں تمہارے سپرد کرتا ہوں۔‘‘لوگوں سے مخاطب ہو کر مفتی اعظم علیہ الرحمہ نے فرمایا:’’آپ لوگ اب اختر میاں سلمہٗ سے رجوع کریں انہیں کو میرا قائم مقام اور جانشین جانیں۔ ‘‘حضور مفتی اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنی حیات مبارکہ کے آخری دور میں حضورتاج الشریعہ علیہ الرحمہ کوتحریراًاپنا قائم مقام و جانشین مقرر فرمایا تھا۔

فتویٰ نویسی : ترميم
1816ء میں روہیلہ حکومت کے خاتمہ ، ’’بریلی شریف ‘‘پرانگریز وں کے قبضہ اور حضرت مفتی محمد عیوض صاحب کے ’’روہیلکھنڈ (بریلی) ‘‘ سے ’’ ٹونک ‘‘ تشریف لے جانے کے بعد بریلی کی مسند افتاء خالی تھی۔ایسے نازک اور پر آشوب دور میں امام العلماء علامہ مفتی رضا علی خاں نقشبندی علیہ الر حمہ نے بریلی کی مسند افتاء کورونق بخشی ۔ یہیں سے خانوادۂ رضویہ میں فتاویٰ نویسی کی عظیم الشان روایت کی ابتدا ہوئی۔ (بحوالہ:مولانا نقی علی خاں علیہ الرحمہ حیات اور علمی وادبی کارنامے/ صفحہ 78 )لیکن مجموعۂ فتاویٰ بریلی شریف میںآپ کی فتویٰ نویسی کی ابتدا 1831ء لکھی ہے ۔ (غالباً درمیانی عرصہ انگریز قا بضوں کی ریشہ دوانیوں کے سبب مسند افتاء خالی ہی رہی) الحمد للہ! 1831ء سے آج 2018ء تک یہ تابناک سلسلہ جاری و ساری ہے ۔ یعنی خاندان رضویہ میں فتاویٰ نویسی کی ایمان افروز روایت 187؍ سال سے مسلسل چلی آرہی ہے۔امام العلماء،حضرت علامہ مفتی محمد رضا علی خاں قادری بریلوی، امام المتکلمین ، حضرت علامہ مولانامحمد نقی علی خاں قادری برکاتی،اعلیٰ حضرت ،مجدد دین وملت ،حضرت علامہ مولانا مفتی محمد احمد رضا خاں قادری برکاتی ، شہزادۂ اعلیٰ حضرت ،حجۃ الاسلام ،جمال الانام حضرت علامہ مولانا مفتی حامد رضا خاں قادری رضوی، شہزادۂ اعلیٰ حضرت تاجدار اہل سنت ، مفتیٔ اعظم ہند ،علامہ مولانا مفتی محمد مصطفیٰ رضا خاں قادری نوری، نبیرۂ اعلیٰ حضرت ،مفسر اعظم ہند حضرت علامہ مفتی ابراہیم رضا خاں قادری رضوی اور ان کے بعد قاضی القضاۃ فی الہند ،تاج الشریعہ ،حضرت علامہ مولانا مفتی اختر رضا خاں قادری ازہری علیہم الرحمہ1967ء سے تادم وصال (20؍جولائی2018ء)تک تقریباً51؍سال تک یہ عظیم خدمت بحسن و خوبی سر انجام دیتے رہے ۔ (بحولہ: فتاویٰ بریلی شریف /صفحہ:22 (مع ترمیم))اللہ کریم خانوادۂ رضویہ کی اس عظیم روایت کو جانشین تاج الشریعہ حضرت علامہ مفتی محمدعسجد رضا خان المعروف اچھے میاں دام ظلہٗ علینا کے ذریعہ تادیر قائم رکھے۔آمینحضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ خود اپنے فتوی نویسی کی ابتدا سے متعلق فرماتے ہیں:’’میں بچپن سے ہی حضرت (مفتیٔ اعظم) سے داخل سلسلہ ہو گیا ہوں، جامعہ ازہر سے واپسی کے بعد میں نے اپنی دلچسپی کی بنا پر فتویٰ کا کام شروع کیا۔ شروع شروع میں مفتی سید افضل حسین صاحب علیہ الرحمہ اور دوسرے مفتیانِ کرام کی نگرانی میں یہ کام کرتا رہا۔ اور کبھی کبھی حضرت(مفتیٔ اعظم علیہ الرحمہ) کی خدمت میں حاضر ہو کر فتویٰ دکھایا کرتا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد اس کام میں میری دلچسپی زیادہ بڑھ گئی اور پھر میں مستقل حضرت کی خدمت میں حاضر ہونے لگا۔ حضرت کی توجہ سے مختصر مدت میں اس کام میں مجھے وہ فیض حاصل ہوا کہ جو کسی کے پاس مدتوں بیٹھنے سے بھی نہ ہوتا ۔‘‘(مفتیٔ اعظم ہند اور ان کے خلفاء صفحہ : 150/جلد :1)حضورتاج الشریعہ علیہ الرحمہ کے فتاویٰ سارے عالم میں سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ وہ دقیق و پیچیدہ مسائل جو علما اور مفتیان کرام کے درمیان مختلف فیہ ہوں ان میں حضرت کے قول کو ہی فیصل تسلیم کیا جاتا تھا اور جس فتویٰ پر آپ کی مہر تصدیق ثبت ہو خواص کے نزدیک بھی۔ وہ انتہائی معتبر ہوتاتھا۔حضورتاج الشریعہ علیہ الرحمہ کے فتاویٰ سے متعلق جگرگوشۂ صدرالشریعہ ، محدث کبیر حضرت علامہ مفتی ضیاء المصطفیٰٰ اعظمی دامت برکاتہم العالیہ رقم طراز ہیں: ’’تاج الشریعہ کے قلم سے نکلے ہوئے فتاویٰ کے مطالعہ سے ایسا لگتا ہے ہم اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کی تحریر پڑھ رہے آپ کی تحریرمیںدلائل اور حوالہ جات کی بھر مار سے یہی ظاہر ہوتاہے ۔‘‘(حیات تاج الشریعہ/صفحہ66)

حج وزیارت: ترميم
حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ نے پہلی مرتبہ حج وزیارت کی سعادت 1403ھ/ 1983ء میںحاصل کی۔دوسری مرتبہ 1405ھ/ 1985ء اور تیسری مرتبہ 1406ھ/1986ء میں اس سعادت عظمیٰ سے مشرف ہوئے۔جبکہ چوتھی مرتبہ 1429ھ/2008ء میں،پانچویں مرتبہ 1430ھ/2009ء میں،چھٹی مرتبہ 1431ھ/2010ء میںآپ نے حج بیت اللہ ادا فرمایا۔ نیز متعدد مرتبہ آپ کو سرکار عالی وقارﷺ کی بارگاہ بے کس پناہ سے عمرہ کی سعادت بھی عطا ہوئی ۔ اعلائے کلمۃ الحق: احقاق حق و ابطال باطل ،خانوادۂ رضویہ کی ان صفات میں سے ہے جس کا اعتراف نہ صرف اپنوں بلکہ بیگانوں کو بھی کرنا پڑا۔یہاں حق کے مقابل نہ اپنے پرائے کا فرق رکھا جاتا ہے نہ امیر و غریب کی تفریق کی جاتی ہے۔ سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کا دور تو تھا ہی فتنوں کا دور ہر طرف کفرو الحاد کی آندھیاں چل رہی تھیں لیکن علم بردار حق سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے کبھی باطل کے سامنے سر نہ جھکایا چاہے ذبحِ گائے کا فتنہ ہویاہندو مسلم اتحاد کا ، تحریک ترک موالات ہو یا تحریک خلافت یہ مرد مومن آوازۂ حق بلند کرتا ہی رہا۔ سرکارمفتیٔ اعظم علیہ الرحمہ کی حق گوئی وبے باکی بھی تاریخ کا درخشندہ باب ہے۔ شدھی تحریک کا زمانہ ہو یانسبندی کاپر خطر دور ہوآپ نے علم حق کبھی سرنگوں نہ ہونے دیا۔ اللہ رب العزت نے جانشین مفتی اعظم علیہ الرحمہ کواپنے اسلاف کا پرتو بنایا۔آپ کی حق گوئی اور بے باکی بھی قابل تقلید ہے۔ وقتی مصلحتیں،طعن و تشنیع ، مصائب وآلام یہاں تک کہ قید و بند کی صعوبتیں بھی آپ کو راہ حق سے نہ ہٹا سکیں۔آپ نے کبھی اہل ثروت کی خوشی یا حکومتی منشا کے مطابق فتویٰ نہیں تحریر فرمایا، ہمیشہ صداقت و حقانیت کا دامن تھامے رکھا۔اس راہ میں کبھی آپ نے اپنے پرائے ، چھوٹے بڑے کافرق ملحوظ خاطر نہیں رکھا۔ ہر معاملہ میں آپ اپنے آباء و اجدادکی روشن اور تابناک روایتوں کی پاسداری فرماتے رہے ہیں۔شیخ عالم حضرت علامہ سیدشاہ فخر الدین اشرف الاشرفی کچھوچھوی دامت برکاتہم القدسیہ زیب سجادہ کچھوچھہ مقدسہ تحریر فرماتے ہیں: ’’علامہ (حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کا)……ہر ہر حال میں باد سموم کی تیز و تند،غضبناک آندھیوںکی زد میں بھی استقامت علی الحق کا مظاہر ہ کرنا اور ثابت قدم رہنا یہ وہ عظیم وصف ہے جس نے مجھے کافی متاثر کیا۔‘‘(تجلیّاتِ تاج الشریعہ /صفحہ :251)اس سلسلہ میں 2؍ واقعات درج ذیل ہیں۔1986ء/1406ھ میں تیسری مر تبہ ادائیگیٔ حج کے موقع پرسعودی حکومت نے آپ کو بیجا گرفتار کر لیا اس موقع پر آپ نے حق گوئی و بے باکی کاجومظاہرہ کیا وہ آپ ہی کاحصہ ہے۔ سعودی مظالم کی مختصرسی جھلک خود حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کی زبانی ملاحظہ فرمائیں:’’مختصر یہ کہ مسلسل سوالات کے باوجود میرا جرم میرے بار بار پوچھنے کے بعد بھی مجھے نہ بتایا بلکہ یہی کہتے رہے کہ : ’’میرا معاملہ اہمیت نہیں رکھتا۔‘‘ لیکن اس کے باوجود میری رہائی میں تاخیر کی اور بغیر اظہار جرم مجھے مدینہ منورہ کی حاضری سے موقوف رکھا اور11؍ دنوں کے بعد جب مجھے جدہ روانہ کیا گیا تو میرے ہاتھوں میں جدہ ائیر پورٹ تک ہتھکڑی پہنائے رکھی اور راستے میں نماز ظہر کے لیے موقع بھی نہ دیا گیا اس وجہ سے میری نماز ظہر قضاہو گئی۔‘‘(مفتیٔ اعظم ہند اور ان کے خلفاء صفحہ :150/جلد :1)ذیل کے اشعار میں حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ نے اسی واقعہ کا ذکرفرمایا ہے :

نہ رکھا مجھ کو طیبہ کی قفس میں اس ستم گر نے

ستم کیسا ہوا بلبل پہ یہ قید ستم گر میں

ستم سے اپنے مٹ جائو گے تم خود اے ستمگارو

سنو ہم کہہ رہے ہیں بے خطرہ دورِستم گر میں

سعودی حکومت کے اس متعصب رویہ ،حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کی بیجا گرفتاری اور مدینہ طیبہ کی حاضری سے روکے جانے پر پورے عالم اسلام میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ، مسلمانان اہل سنت کی جانب سے ساری دنیا میں سعودی حکومت کے خلاف احتجاجات کا سلسلہ شروع ہو گیا ، اخبارات و رسائل نے بھی آپ کی بیجا گرفتاری کی شدید مذمت کی۔ آخر کاراہل سنت و جماعت کی قربانیاں رنگ لائیں ، سعودی حکومت کو سر جھکانا پڑا ،اس وقت کے سعودی فرنروا شاہ فہدنے لندن میں یہ اعلان کیاکہ ’’حرمین شریفین میں ہر مسلک کے لوگوں کو ان کے طریقے پر عبادات کرنے کی آزادی ہو گی۔‘‘اس دور کے پاک ہند اور عرب دنیا کے اخبارات گواہ ہیں۔نیز سعودی حکومت نے آپ کو زیارت مدینہ طیبہ اور عمرہ کے لیے ایک ماہ کا خصوصی ویزہ بھی دیا۔ اس معاملہ میں قائد اہلسنّت حضرت علامہ ارشد القادری کی کاوشیں قابل ذکر ہیں۔خلیفۂ سرکار مفتیٔ اعظم ہند ، علامہ بدر الدین احمد قادر ی علیہ الرحمہ حضور تاج الشریعہ علیہ الر حمہ کی حق گوئی سے متعلق رقم طراز ہیں :’’ امسال حضرت سرکار خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کے سالانہ عرس پاک کے موقع پر میں اجمیر مقدس حاضر ہوا، چھٹویں رجب 1409ھ بروز دوشنبۂ مبارکہ (پیر) مطابق 13؍فروری1989ء کو حضرت سید احمد علی صاحب قبلہ خادم درگاہ سرکار خواجہ صاحب کے کاشانہ پر قل شریف کی محفل منعقد ہوئی ۔ محفل میں حضرت علامہ مولانا اختر رضاازہری قبلہ مدظلہٗ العالی اور حضرت مولانا مفتی رجب علی صاحب قبلہ ساکن نانپارہ بہرائچ شریف نیز دیگر علما کرا م موجود تھے ۔ قل شریف کے اس مجمع میں سرکار شیر بیشۂ اہلسنّت امام المناظرین حضور مولانا علامہ محمد حشمت علی خاں علیہ الرحمۃ و الرضوان کے صاحبزادے مولانا ادریس رضا خاں صاحب تقریر کر رہے تھے ۔ اثنائے تقریر میں مولانا موصوف کی زبان سے یہ جملہ نکلا کہ:’’ ہمارے سرکار پیارے مصطفیٰ ﷺ اپنے غلاموں کو اپنی کالی کملی میں چھپائیں گے ۔ ‘‘ فوراً حضرت علامہ ازہری صاحب قبلہ نے مولانا موصوف کو ٹوکتے ہوئے فرمایا کہ (کالی کملی کی بجائے )نوری چادر کہو۔ یہ شرعی تنبیہ سنتے ہی مولانا موصوف نے اپنی تقریر روک کر پہلے حضرت علامہ ازہری قبلہ کی تنبیہ کو سراہا ، بعدہٗ بھرے مجمع میں یہ واضح کیا کہ ’’کملی ‘‘تصغیر کا کلمہ ہے جس کو سرکار ﷺ کی طرف نسبت کرکے بولنا ہر گز جائز نہیں اور چوں کہ میری زبان سے یہ خلاف شریعت کلمہ نکلا اس لیے میں بارگاہ الٰہی میں اس کلمہ کے بولنے سے توبہ کرتاہوں ۔ اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے ۔ (ھٰذَا اَوْکَمَا قَالَ ) پھر توبہ کے بعد موصوف نے اپنی بقیہ تقریر پوری کی ۔ ‘‘ (عطیۂ ربانی در مقالۂ نورانی ،صفحہ :23،24)

زہد و تقویٰ : ترميم
حضورتاج الشریعہ علیہ الرحمہ اخلاق حسنہ اور صفات عالیہ کا مرقع ہیں۔جہاںحکمت و دانائی ، طہارت و پاکیزگی ،بلندیٔ کردار خوش مزاجی و ملنساری ،حلم و بردباری ، خلوص و للّٰہیت،شرم و حیا،صبر و قناعت ،صداقت و استقامت بے شمار خوبیاں آپ کی شخصیت میں جمع ہیں ،وہیں آپ زہد و تقویٰ کا بھی مجسم پیکر ہیں۔آپ کے تقویٰ کی ایک جھلک ذیل کے واقعات میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔مولانا غلام معین الدین قادری (پرگنہ ،مغربی بنگال)لکھتے ہیں:’’حضورتاج الشریعہ علیہ الرحمہ سے حضرت پیر سید محمد طاہر گیلانی صاحب قبلہ بہت محبت فرمایا کرتے ان کے اصرار پر حضرت پاکستان بھی تشریف لے گئے واہگہ سرحد پر حضرت کا استقبال صدر مملکت کی طرح 7؍ توپوں کی سلامی دے کر کیا گیا۔حضرت کا قیام ان کے ایک عزیزشوکت حسن صاحب کے یہاں تھا۔ راستے میں ایک جگہ ناشتا کا کچھ انتظام تھاجس میں انگریزی طرز کے ٹیبل لگے تھے حضرت نے فرمایا : ’’میں پاؤں پھیلاکر کھانا تناول نہیںکروں گا۔‘‘ پھر پاؤں سمیٹ کر سنت کے مطابق اسی کرسی پر بیٹھ گئے یہ سب دیکھ کر حاضرین کا زور دار نعرہ ’’بریلی کا تقویٰ زندہ باد ‘‘ گونج پڑا ۔ ‘‘ (تجلیّاتِ تاج الشریعہ /صفحہ :255)مولانا منصور فریدی رضوی (بلاسپور ،چھتیس گڑھ)حضرت کے ایک سفر کا حال بیان کرتے ہیں:’’محب مکرم حضرت حافظ وقاری محمد صادق حسین فرماتے ہیںکہ ، حضرت تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کی خدمت کے لیے میں معمور تھا … اور اپنے مقدر پر ناز کررہا تھا کہ ایک ذرۂ ناچیز کو فلک کی قدم بوسی کا شرف حاصل ہورہا تھا اچانک میری نگاہ حضوروالا(تاج الشریعہ ) کی ہتھیلیوں پر پڑی میں ایک لمحہ کے لیے تھرا گیا آخر یہ کیا ہورہا ہے میری نگاہیں کیا دیکھ رہی ہیں مجھے یقین نہیں ہورہا ہے ۔ آپ تو گہری نیند میں ہیںپھر آپ کی انگلیاں حرکت میں کیسے ہیں؟ میں نے مولانا عبد الوحید فتح پوری جو اس وقت موجود تھے اور دیگر افراد کو بھی اس جانب متوجہ کیا تما م کے تما م حیرت و استعجاب میں ڈوب گئے تھے ، معاملہ یہ ہے کہ آپ کی انگلیاں اس طرح حرکت کررہی تھیں گویا آپ تسبیح پڑھ رہے ہوںاور یہ منظرمیں اس وقت تک دیکھتا رہا جب تک آپ بیدار نہیں ہو گئے۔ان تمام تر کیفیات کو دیکھنے کے بعد دل پکار اٹھتا ہے کہ ؎

سوئے ہیں یہ بظاہر د ل ان کا جاگتاہے ‘‘

(تجلیّاتِ تاج الشریعہ /صفحہ :314)

ولیٔ باکرامت : ترميم
حضورتاج الشریعہ علیہ الرحمہ جہاں ایک عاشق صادق، باعمل عالم ،لاثانی فقیہ ، باکمال محدث ،لاجواب خطیب ،بے مثال ادیب ، کہنہ مشق شاعرہیں وہیں آپ باکرامت ولی بھی ہیں۔ کہا جاتا ہے استقامت سب سے بڑی کرامت ہے اور حضورتاج الشر یعہ علیہ الرحمہ کی یہی کرامت سب سے بڑھ کر ہے ۔ ضمناًآپ کی چند کرامات پیش خدمت ہیں۔مفتی عابد حسین قادری (جمشید پور، جھارکھنڈ )لکھتے ہیں:’’22؍جون 2008ء محب محترم جناب قاری عبد الجلیل صاحب شعبۂ قرأت مدرسہ فیض العلوم جمشید پور نے راقم الحروف سے فرمایا کہ: ’’5؍ سال قبل حضرت ازہری میاں قبلہ دار العلوم حنفیہ ضیا القرآن ،لکھنؤ کی دستار بندی کی ایک کانفرنس میں خطاب کے لیے مدعو تھے ۔ ان دنوں وہاں بارش نہیں ہو رہی تھی ،سخت قحط سالی کے ایام گزر رہے تھے، لوگوں نے حضرت سے عرض کی کہ حضور بارش کے لیے دعا فرمادیں ۔ حضرت نے نماز ِ استسقاء پڑھی اور دعائیں کیں ابھی دعا کرہی رہے تھے کہ وہاں موسلادھار بارش ہونے لگی اور سارے لوگ بھیگ گئے ۔ ‘‘(تجلیّاتِ تاج الشریعہ /صفحہ :229)ڈاکٹر غلام مصطفیٰ نجم القادری (ممبئی)لکھتے ہیں :’’ میسور میں حضرت کے ایک مرید کی دکان کے بازو میں کسی متعصب مارواڑی کی دکان تھی ، وہ بہت کوشش کرتاتھا کہ دکان اس کے ہاتھ بیچ کر یہ مسلمان یہاں سے چلا جائے ، اپنی اس جدو جہد میں وہ انسانیت سوز حرکتیں بھی کرگزرتا ، اخلاقی حدوں کو پار کرجاتا، مجبور ہو کر حضرت کے اس مرید نے حضرت کو فون کیا ، حالات کی خبر دی ، معاملات سے مطلع کیا ،حضرت نے فرمایا:’’میں یہاں تمہارے لیے دعا گو ہوں، تم وہاں ہر نماز کے بعد خصوصاًاورچلتے پھرتے ، اٹھتے بیٹھے سوتے جاگتے عموماً ’’یاقادر‘‘کا ورد کرتے رہو۔‘‘اس وظیفے کے ورد کو ابھی 15؍دن ہی ہوا تھا کہ نہ معلوم اس مارواڑی کو کیا ہوا ، وہ جو بیچارے مسلمان کو دکان بیچنے پر مجبور کر دیا تھااب خود اسی کے ہاتھ اپنی دکان بیچنے پر اچانک تیار ہو گیا ۔ مارواڑی نے دکان بیچی ،مسلمان نے دکان خریدی، جو شکار کرنے چلا تھا خود شکار ہو کر رہ گیا۔ آج وہ حضرت کا مرید باغ و بہار زندگی گزار رہا ہے ۔ ‘‘(تجلیّاتِ تاج الشریعہ /صفحہ :175،176)موصوف مزیدلکھتے ہیں:’’ہبلی میں ایک صاحب نے کروڑوں روپے کے صرفے سے عالیشان محل تیار کیا ، مگر جب سکونت اختیار کی تو یہ غارت گرسکون تجربہ ہوا کہ رات میں پورے گھر میں تیز آندھی چلنے کی آواز آتی ہے ۔ گھبرا کر مجبوراً اپنا گھر چھوڑ کر پھر پرانے گھر میں مکین ہونا پڑا۔ اس اثناء میں جس کو بھی بھاڑے (کرایہ )پر دیا سب نے وہ آواز سنی اور گھر خالی کر دیا۔ ایک عرصے سے وہ مکان خالی پڑا تھا کہ ہبلی میں حضرت کا پروگرام طے ہوا ، صاحب مکان نے انتظامیہ کو اس بات پر راضی کر لیا کہ حضرت کا قیام میرے نئے کشادہ مکان میں رہے گا ، مہمان نوازی کی اوردیگر لوازمات کی بھی ذمہ داری اس نے قبول کرلی ، حضرت ہبلی تشریف لائے اور رات میں صرف چند گھنٹہ اس مکان میں قیام کیا ، عشاء اور فجر کی 2؍رکعت نماز باجماعت ادا فرمائی،اس مختصر قیام کی برکت یہ ہوئی کہ کہاں کی آندھی اورکہاں کا طوفان ، کہاں کی سنسناہٹ اور کہا ں کی گڑگڑاہٹ سب یکسر معدوم ، آج تک وہ مکان سکون و اطمینان کا گہوارہ ہے ۔‘‘(تجلیّاتِ تاج الشریعہ /صفحہ :176)

تصانیف : ترميم
حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ اپنے جد امجد،مجدد دین ملت سیدنا اعلی حضرت رضی اللہ عنہ کے مظہر اتم اور پر تو کامل ہیں ۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی تحریری خدمات اور طرز تحریر محتاج تعارف نہیں ہے۔ حضور تاج الشریعہ علیہ الر حمہ میدان تحریر میں بھی اعلیٰ حضرت کا عکس جمیل نظر آتے ہیں۔ آپ کی تصانیف و تحقیقات مختلف علوم و فنون پر مشتمل ہیں۔تحقیقی انداز ،مضبوط طرزا ستدلال ، کثرت حوالہ جات، سلاست وروانی آپ کی تحریر کو شاہکار بنا دیتی ہے۔ آپ اپنی تصانیف کی روشنی میں یگانۂ عصر اور فرید الدہر نظر آتے ہیں۔حضرت محدث کبیر علامہ ضیاء المصطفیٰٰ اعظمی دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں: ’’تاج الشریعہ کے قلم سے نکلے ہوئے فتاویٰ کے مطالعہ سے ایسا لگتا ہے کہ ہم اعلیٰ حضرت امام احمد رضا علیہ الرحمہ کی تحریر پڑھ رہے ہیں، آپ کی تحریر میں دلائل اور حوالہ جات کی بھر مار سے یہی ظاہر ہوتا ہے ۔‘‘(حیات تاج الشریعہ/صفحہ :66)حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ افتاء و قضا، کثیر تبلیغی اسفار اوردیگر بے تحاشہ مصرفیات کے باوجود تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی جاری رکھے رہے۔آپ کی قلمی نگارشات(مطبوعہ و غیر مطبوعہ)کی فہرست درج ذیل ہے۔(نوٹ:اس فہرست میں بعض دیگر زبانوں میں حضرت کی کتب کے تراجم بھی شامل ہیں۔)

اردو ترميم
1 ہجرت رسول ﷺ

2 آثار قیامت (تخریج شدہ)

3 ٹائی کا مسئلہ

4 حضرت ابراہیم کے والد تارخ یا آزر(مقالہ)

5 ٹی وی اور ویڈیوکا آپریشن مع شرعی حکم

6 شرح حدیث نیت

7 سنو، چپ رہو(دوران تلاوت’’ نعرۂ حق نبی‘‘ کی ممانعت)

8 دفاع کنز الایمان(2جلد)

9 الحق المبین

10 تین طلاقوں کا شرعی حکم

11 کیا دین کی مہم پوری ہوچکی ؟(مقالہ)

12 جشن عید میلاد النبی ﷺ

13 سفینۂ بخشش (دیوانِ شاعری)

14 تبصرہ بر حدیث افتراق امت15 تصویر کا مسئلہ

16 اسمائے سورۂ فاتحہ کی وجہ تسمیہ

17 القول الفائق بحکم الاقتداء بالفاسق

18 افضلیت صدیق اکبر و فاروق اعظم رضی اللہ عنہما

19 سعودی مظالم کی کہانی اختر رضا کی زبانی

20 المواہب الرضویہ فی فتاویٰ الازہریہ المعروف فتاویٰ تاج الشریعہ

21 چلتی ٹرین پر فرض و واجب نمازوں کی ادائیگی کا حکم

22 تقدیم (تجلیۃ السلم فی مسائل نصف العلم از اعلیٰ حضرت)

23 تراجم قرآن میں کنزالایمان کی اہمیت (غیر مطبوعہ)

24 منحۃ الباری فی حل صحیح البخاری

25 ملفوظات تاج الشریعہ(غیر مطبوعہ )

26 حاشیہ المعتقد المنتقد

27 رویت ہلال کا ثبوت

28 تراجم قرآن میں کنزالایمان کی اہمیت(غیر مطبوعہ)

29متعدد مقالہ جات (مطبوعہ/غیر مطبوعہ)

30 ایک غلط فہمی کا ازالہ

عربی ترميم
31 الحق المبین

32 الصحابۃ نجوم الاھتداء

33 شرح حدیث الاخلاص

34 نبذۃ حیاۃ الامام احمد رضا

35 حاشیہ عصیدۃ الشہدہ شرح القصیدۃ البردہ

36 الفردہ شرح القصیدۃالبردۃ

37 حاشیۃ الازہری علی صحیح البخاری

38 تحقیق أن أباسیدنا إبراہیم ں (تارح)لا(آزر)

39 مراۃ النجدیہ بجواب البریلویہ(حقیقۃ البریلویہ)

40 القمح المبین لامال المکذبین

41 روح الفوٗاد بذکریٰ خیر العباد(دیوانِ شاعری )

42 نهاية الزين في التخفيف عن أبي لهب يوم الإثنين

43 سد المشارع علی من یقوان الدین یستغنی عن الشارع

تعاریب ترميم
44 برکات الامداد لاہل استمداد

45 فقہ شہنشاہ

46 عطایا القدیر فی حکم التصویر

47 صلاۃ الصفا بنور المصطفیٰ

48 تیسیر الماعون لسکن فی الطاةعون

49 شمول الاسلام لاصول الرسول الکرام

50 قوارع القھارفی الردالمجسمۃ الفجار

51 الہاد الکاف فی حکم الضعاف

52 سبحن السبوح عن عیب کذب مقبوح

53 دامان باغ سبحان السبوح

54 انہی الاکید

55 حاجز البحرین

56 اہلاک الوہابین علی توہین القبور المسلمین(صیانۃ القبور)

57 القمر المبین

58 فتاویٰ رضویہ (جلد اول)

تراجم ترميم
59 انوار المنان فی توحید القرآن

60 المعتقد والمنتقد مع المعتمد المستمد

61 الزلال النقیٰ من بحر سبقۃ الاتقی(تخریج شدہ)

62 قصیدتان رائعتان(غیر مطبوعہ)

63 عطایا القدیر فی حکم التصویر(عربی عبارات کا ترجمہ)

64 فضیلت نسب (اراءۃ الادب لفاضل النسب)

English ترميم
61 Aasar e Qiyamat

62 Azhar ul Fatawa (Few Eng. Fataw)

63 Tai ka masala

64 A Just answer to the beased Author

65 The Companions are the Stars of Guidance

66 Of Pure Origin (On the Identity of Prophet IbrhÏm’s Father

67 THE PINNACLE OF BEAUTY68 On the Lightening of Abu Lahab’s Punishment each Monday

عربی ادب : ترميم
حضورتاج الشریعہ علیہ الرحمہ عربی ادب پر بھی کمال مہارت اور مکمل دسترس رکھتے ہیںآپ کی عربی تصانیف بالخصوص تعلیقاتِ زاہرہ ( صحیح البخاری پرابتداء تا باب بنیان الکعبہ آپ کی گرانقدر تعلیقات)اور سیدنا اعلیٰ حضرت کی جن کتب کی آپ نے تعریب فرمائی ہے ہمارے دعوے کی بین دلیل ہیں۔حضورتاج الشریعہ علیہ الرحمہ کی عربی زبان و ادب پر کامل عبور کا اندازہ سیدنا اعلیٰ حضرت کے رسالہ ’’ شمول الاسلام لاصول الرسول الکرم ‘‘ (جس کی تعریب آپ نے فرمائی ہے )اورآپ کے رسالہ ’’أن أباسیدنا ابراہیم تارح -لا-آزر‘‘پر علمائے عرب کی شاندار تقاریظ اور حضورتاج الشریعہ علیہ الرحمہ کو دیے گئے القابات و خطابات سے کیا جاسکتاہے۔حضرت شیخ عبد اللہ بن محمد بن حسن بن فدعق ہاشمی(مکہ مکرمہ)فرماتے ہیں: ’’ترجمہ: یہ کتاب نہایت مفیدواہم مباحث اور مضامین عالیہ پر حاوی ہے ،طلبہ و علما کو اس کی اشد ضرورت ہے ۔‘‘آپ حضورتاج الشریعہ علیہ الرحمہ کو ان القاب سے ملقب کرتے ہیں: ’’فضیلۃ الامام الشیخ محمد اختر رضا خاں الازہری، المفتی الاعظم فی الہند،سلمکم اللہ وبارک فیکم‘‘ڈاکٹر شیخ عیسیٰ ابن عبد اللہ بن محمد بن مانع حمیری(سابق ڈائریکٹر محکمۂ اوقاف وامور اسلامیہ،دبئی و پرنسپل امام مالک کالج برائے شریعت و قانون ، دبئی )ڈھائی صفحات پر مشتمل اپنے تاثرات کے اظہار کے بعد فرماتے ہیں: ’’الشیخ العارف باللّٰہ المحدث محمد اختر رضا الحنفی القادری الازہری‘‘ حضرت شیخ موسیٰ عبدہ یوسف اسحاقی (مدرس فقہ و علوم شرعیہ،نسابۃ الاشراف الاسحاقیہ ،صومالیہ) محو تحریر ہیں: ’’استاذالاکبر تاج الشریعہ فضیلۃ الشیخ محمد اختر رضا ، نفعنااللہ بعلومہ وبارک فیہ ولاعجب فی ذلک فانہ فی بیت بالعلم معرف و بالارشاد موصوف وفی ھذا الباب قادۃ اعلام‘‘حضرت شیخ واثق فواد العبیدی (مدیر ثانویۃ الشیخ عبدالقادرالجیلانی)اپنے تاثرات کا اظہار یو ں کرتے ہیں: ’’ترجمہ: حضرت تاج الشریعہ کی یہ تحقیق جو شیخ احمد شاکر محدث مصر کے رد میں ہے قرآن و سنت کے عین مطابق ہے آپ نے اس تحقیق میں جہد مسلسل اور جانفشانی سے کام لیاہے میں نے اس کے مصادر و مراجع کامراجعہ کیا تو تمام حوالہ جات قرآن وحدیث کے ادلہ عقلیہ و نقلیہ پر مشتمل پائے اور مشہور اعلام مثلاً امام سبکی ، امام سیوطی ، امام رازی اور امام آلوسی وغیرہ کے اقوال نقل کیے ہیں۔‘‘اور آپ حضورتاج الشریعہ علیہ الرحمہ کا تذکر ہ ان الفاظ میں کرتے ہیں: ’’شیخنا الجلیل ،صاحب الرد قاطع ، مرشدالسالیکن ، المحفوظ برعایۃ رب العالمین،العالم فاضل ،محمد اختر رضا خاں الحنفی القادری الازہری ، وجزاء خیر مایجازی عبد ا مین عبادہ‘‘حضرت مفتی ٔ اعظم عراق شیخ جمال عبدالکریم الدبان حضورتاج الشریعہ علیہ الرحمہ کو ان القابات سے یاد کرتے ہیں:’’الامام العلامۃ القدوۃ ،صاحب الفضیلۃ الشیخ محمد اختر رضاالحنفی القادری ، ادامہ اللہ وحفظہ ونفع المسلمین ببرکۃ‘‘

علم حدیث: ترميم
حضورتاج الشریعہ دعلیہ الرحمہ اس میدان کے بھی شہہ سوار ہیں۔ علم حدیث ایک وسیع میدان ، متعدد انواع ،کثرت علوم اور مختلف فنون سے عبارت ہے جو علم قواعدمصطلحات حدیث ،دراستہ الاسانید ، علم اسماء الرجال ، علم جرح و تعدیل وغیرہم علوم و فنون پر مشتمل ہے ۔ علم حدیث میں حضورتاج الشریعہ علیہ الرحمہ کی قدرت تامہ ، لیاقت عامہ،فقاہت کاملہ،عالمانہ شعور ،ناقدانہ بصیرت اور محققانہ شان وشوکت علم حدیث سے متعلق آپ کی تصانیف ’’ شرح حدیث الاخلاص ‘ ‘ (عربی)شرح حدیث نیت(اردو)،’’ الصحابہ نجوم الاھتداء‘ ‘ ’’ تعلیقات الازہری علیٰ صحیح البخاری‘ ‘ ،’’ آثار قیامت ‘ ‘سے خصوصاً ودیگر کتب سے عموماً آشکار ہے۔مولانا محمد حسن ازہری (جامعۃ الازہر ،مصر)رقم طراز ہیں:’’اصحابی کالنجوم الخ کے تعلق سے حضورتاج الشریعہ مدظلہٗ العالی نے جو تحقیقی مرقع پیش کیاہے اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ اصول حدیث پر حضورتاج الشریعہ کو کس قدر ملکہ حاصل ہے ۔‘‘ [تجلیّاتِ تاج الشریعہ /صفحہ386]مفتی محمد سلیم بریلوی مدظلہٗ العالی مدرس دار العلوم منظر اسلام ومدیر اعزازی ماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی شریف ’’الصحابۃ نجوم الاھتداء‘‘ سے متعلق لکھتے ہیں:’’ فن حدیث اور اس کے متعلقہ فنون میں سرکار تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کی اگر مہارت تامہ دیکھنا ہو تو دلیل کے طور پر یہی مختصر رسالہ ہی کافی ہے۔آپ نے اس رسالے میں ’’نقدرجال ‘‘کے تعلق سے جو فاضلانہ بحث کی ہے اسے دیکھ کر یہ یقین ہوجاتا ہے کہ بلا شبہ آپ وارث علوم اعلیٰ حضرت تھے۔اگر کسی نے سیدی سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فن حدیث سے متعلق مباحث و رسائل خاص کر ’’الھاد الکاف‘‘ ،’’تقبیل الابہامین‘‘،’’حاجز البحرین‘‘ اور ’’شمائم العنبر‘‘جیسے رسائل کا مطالعہ کیا ہے تو وہ ’’الصحابہ نجوم الاہتداء‘‘ پڑھ کر ضرور یہ نتیجہ اخذ کرے گا کہ اس رسالے کی ہر بحث ، اس کی ہر بحث کی ہر سطر اور اس کے ہر ہر لفظ میں سیدی سرکار اعلیٰ حضرت ،سرکار حجۃ الاسلام ، سرکار مفتیٔ اعظم ہند اور سرکار مفسر اعظم ہند کے علوم و فنون کے جلوے نظر آتے ہیں۔سرکار تاج الشریعہ علیہ الرحمہ نے سلفی ذہن رکھنے والے معاصر محققین کا جس انداز میں روایتاً اور درایتاً تعاقب کیا ہے وہ آپ ہی کا حصہ ہے۔اس حدیث پر الزام وضع کوآپ نے 7؍وجوہات سے دفع فرمایا ہے۔‘‘(ماہنامہ اعلیٰ حضرت ،بریلی شریف ،ستمبر /اکتوبر2018ء’’تاج الشریعہ نمبر‘‘صفحہ 60،61)

ترجمہ نگاری : ترميم
ترجمہ نگاری انتہائی مشکل فن ہے۔ترجمہ کا مطلب کسی بھی زبان کے مضمون کو اس انداز سے دوسری زبان میں منتقل کرنا ہے کہ قاری کو یہ احساس نہ ہونے پائے کہ عبارت بے ترتیب ہے یا اس میں پیوند کاری کی گئی ہے۔ کماحقہٗ ترجمہ کرنا انتہائی مشکل امر ہے۔ اس میں ایک زبان کے معانی اور مطالب کودوسری زبان میں اس طرح منتقل کیا جاتاہے کہ اصل عبارت کی خوبی اور مطلب ومفہوم قاری تک صحیح سلامت پہنچ جائے۔یعنی اس بات کا پورا خیال رکھاجائے اصل عبارت کے نہ صرف پورے خیالات و مفاہیم بلکہ لہجہ و انداز ،چاشنی و مٹھاس ، جاذبیت و دلکشی ،سختی و درشتگی،بے کیفی و بے رنگی اسی احتیاط کے ساتھ آئے جو محرر کا منشا ء ہے اور پھر زبان و بیان کا معیار بھی نقل بمطابق اصل کامصداق ہو۔علمی و ادبی ترجمے تو صرف دنیاوی اعتبار سے دیکھے جاتے ہیں لیکن دینی کتب خاص کر قرآن وحدیث کا ترجمہ انتہائی مشکل اور دقت طلب ام رہے ۔ یہاں صرف فن ترجمہ کی سختیاں ہی درپیش نہیںہوتیں بلکہ شرعی اعتبار سے بھی انتہائی خطرہ لاحق رہتاہے کہ کہیں اصل معنی میں تحریف نہ ہوجائے کہ سارا کیا دھرا برباد اور دنیا و آخرت میں سخت مؤاخذہ بھی ہو۔ اس کا اندازہ وہی کرسکتا ہے جس کاا س سے واسطہ پڑ اہو۔ حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ جہاں دیگر علوم و فنون پر مکمل عبور اور کامل مہارت رکھتے ہیں وہیں ترجمہ نگاری کے میدان میں بھی آپ اپنی مثال آپ ہیں۔ حضورتاج الشریعہ علیہ الرحمہ کی ترجمہ نگاری سے متعلق نبیرۂ محد ث اعظم ہند ،شیخ طریقت علامہ سیدمحمد جیلانی اشرف الاشرفی کچھوچھوی دامت برکاتہم العالیہ کا یہ تبصرہ ملاحظہ فرمایں : ’’ارے پیارے! ’’المعتقدو المنتقد‘‘ فاضل بدایونی نے اور اس پر حاشیہ ’’ المعتمد المستند ‘‘ فاضل بریلوی نے عربی زبان میں لکھا ہے اور جس مندرجہ بالااقتباس کو ہم نے پڑھا اسے اہل سنت کی نئی نسل کے لیے تاج الشریعہ ، ملک الفقہاء حضرت العلام اختر رضا خاںازہری صاحب نے ان دونوں اکابر ین کے ادق مباحث کو آسان اور فہم سے قریب اسلوب سے مزین ایسا ترجمہ کیا کہ گویا خود ان کی تصنیف ہے ۔ ’’المعتمد‘‘ کے ترجمہ میں اگر ایک طرف ثقاہت و صلابت ہے تو دوسری طرف دِقتِ نظر و ہمہ گیریت بھی ہے ۔ صحت و قوت کے ساتھ پختگی و مہارت بھی ہے ۔ ترجمہ مذکورہ علامہ ازہری میاں کی ارفع صلاحیتوں کا زندہ ثبوت ہے ۔ اللّٰہم زد فزد ‘‘[تجلیّاتِ تاج الشریعہ/صفحہ:43]

وعظ و تقریر: ترميم
والد ماجد حضورتاج الشریعہ مفسر اعظم ہند علامہ مفتی ابراہیم رضا خاں جیلانی میاںرضی اللہ عنہ کو قدرت نے زورِ خطابت وبیان وافر مقدار میں عطا فرمایا تھا اور حضورتاج الشریعہ کو تقریروخطاب کا ملکہ اپنے والد ماجد سے ملا ہے۔آپ کی تقریرانتہائی مؤثر، نہایت جامع ، پرمغز،دل پزیر،دلائل سے مزین ہوتی ہے۔اردو تو ہے ہی آپ کی مادری زبان مگر عربی اور انگریزی میں بھی آپ کی مہارت اہل زبان کے لیے باعث حیرت ہوتی ہے ۔ اس کا اندازہ حضرت محدث کبیر علامہ ضیاء المصطفیٰٰ اعظمی دامت برکاتہم العالیہ کے اس بیان سے باآسانی کیا جاسکتا ہے ، آپ فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ نے آپ کو کئی زبانوں پر ملکہ خاص عطا فرمایا ہے۔زبان اردو تو آپ کی گھریلو زبان ہے اور عربی آپ کی مذہبی زبان ہے ۔ ان دونوں زبانوں میں آپ کو خصوصی ملکہ حاصل ہے ……عربی کے قدیم وجدید اسلوب پر آپ کو ملکۂ راسخ حاصل ہے … … میں نے انگلینڈ ، امریکا ،ساؤتھ افریقہ ،زمبابوے وغیرہ میں برجستہ انگریزی زبان میں تقریر ووعظ کرتے دیکھاہے اور وہاں کے تعلیم یافتہ لوگوں سے آپ کی تعریفیںبھی سنیں ہیںاور یہ بھی ان سے سنا کہ حضرت کو انگریزی زبان کے کلاسیکی اسلوب پرعبور حاصل ہے ۔‘‘ [تجلیّاتِ تاج الشریعہ/صفحہ:47]

شاعری : ترميم
بنیادی طور پر نعت گوئی کا محرک عشق رسول ہے اور شاعر کا عشق رسول جس عمق یاپائے کا ہوگا اس کی نعت بھی اتنی ہی پر اثر و پرسوز ہو گی ۔ سیدنا اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ کے عشق رسول نے ان کی شاعری کو جو امتیاز و انفرادیت بخشی اردو شاعری اس کی مثال لانے سے قاصر ہے ۔ آپ کی نعتیہ شاعر ی کا اعتراف اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کے آج آپ دنیا بھر میں ’’امام نعت گویاں ‘‘کے لقب سے پہچانے جاتے ہیں۔امام احمد رضا کی اس طرز لاجواب کی جھلک آپ کے خلفاء و متعلقین اور خاندان کے شعرا کی شاعری میں نظر آتی ہے۔حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کو خاندان اور خصوصاً اعلیٰ حضرت سے جہاں اور بے شمار کمالات ورثہ میں ملے ہیں وہیں موزونیٔ طبع، خوش کلامی ، شعر گوئی اور شاعرانہ ذوق بھی ورثہ میں ملا ہے۔آپ کی نعتیہ شاعری سیدنا اعلیٰ حضرت کے کلام کی گہرائی و گیرائی ، استادِ زمن کی رنگینی و روانی ، حجۃ الاسلام کی فصاحت و بلاغت ، مفتیٔ اعظم کی سادگی و خلوص کا عکس جمیل نظر آتی ہے ۔ آپ کی شاعری معنویت ، پیکر تراشی ، سرشاری و شیفتگی ، فصاحت و بلاغت ، حلاوت و ملاحت، جذب وکیف اورسوز وگدازکا نادر نمونہ ہے۔علامہ عبد النعیم عزیزی رقم طراز ہیں:’’حضرت علامہ اختر رضا خاں صاحب اخترؔ کے ایک ایک شعر کو پڑھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتاہے کہ حسن معنی حسن عقیدت میں ضم ہوکر سرمدی نغموں میں ڈھل گیا ہے ۔ زبان کی سلاست اور روانی ، فصاحت و بلاغت ،حسن کلام، طرز ادا کا بانکپن، تشبیہات و استعارات اور صنائع لفظی و معنوی سب کچھ ہے گویا حسن ہی حسن ہے ،بہار ہی بہار ہے اور ہر نغمہ وجہ سکون و قرار ہے ۔ [نغمات اختر المعروف سفینۂ بخشش/صفحہ:4]حضرت علامہ بدر الدین احمد قادری علیہ الرحمہ، سیدنا اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی شاعری سے متعلق تحریرفرماتے ہیں:’’آپ عام ارباب سخن کی طرح صبح سے شام تک اشعار کی تیاری میں مصروف نہیں رہتے تھے بلکہ جب پیارے مصطفیٰ ﷺ کی یاد تڑپاتی اور دردِ عشق آپ کو بے تاب کرتا تو از خود زبان پر نعتیہ اشعار جاری ہوجاتے اور یہی اشعار آپ کی سوزش عشق کی تسکین کا سامان بن جاتے ۔‘‘[سوانح اعلیٰ حضرت /صفحہ:385]بعینہٖ یہی حال حضور تا ج الشریعہ کاتھا ، جب یاد مصطفیٰ ﷺدل کو بے چین کردیتی تھی توبے قراری کے اظہار کی صورت نعت ہوتی تھی ۔ آپ نے اپنی شاعری میں جہاں شرعی حدود کا لحاظ رکھا ہے وہیںفنی و عروضی نزاکتوںکی محافظت میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہ ہونے دیا اور ادب کو خوب برتا، استعمال کیا ، سجایا،نبھایاتاکہ جب یہ کلام تنقید نگاروں کی چمکتی میز پر قدم رنجہ ہو توانہیں یہ سوچنے پر مجبور کر دے کہ فکر کی یہ جولانی ،خیال کی یہ بلند پرواز ،تعبیر کی یہ ندرت،عشق کی یہ حلاوت واقعی ایک کہنہ مشق اور قادر الکلام شاعر کی عظیم صلاحیتوں کی مظہر ہیں۔فن شاعری،زبان و بیان اورادب سے واقفیت رکھنے والاہی یہ اندازہ کرسکتاہے کہ حضرت اخترؔ بریلوی کے کلام میں کن کن نکات کی جلوہ سامانیاں ہیں، کیسے کیسے حقائق پوشیدہ ہیں،کلمات کی کتنی رعنائیاںپنہاں ہیں اور خیالات میں کیسی وسعت ہے؟آپ کاکلام اگرچہ تعداد میں زیادہ نہیں ہے لیکن آپ کے عشق رسول ﷺ کا مظہر، شرعی قوانین کی پاسداری کی شاندار مثال ہے ،آپ کے اسلاف کی عظیم وراثتوں کابہترین نمونہ اور اردو شاعری خصوصاً صنف نعت میں گرانقدر اضافہ بھی ہے، چند اشعار ملاحظہ کیجئے:

اس طرف بھی اک نظر مہر درخشانِ جمالہم بھی رکھتے ہیں بہت مدت سے ارمانِ جمال

وجہ نشاط زندگی راحت جاں تم ہی تو ہورو ح روان زندگی جان جہاں تم ہی تو ہو

مصطفائے ذات یکتا آپ ہیںیک نے جس کو یک بنایا آپ ہیں

جاں توئی جاناں قرار جاں توئیجان جاں جانِ مسیحا آپ ا ہیں

نور کے ٹکڑوں پر ان کے بدر و اخترؔ بھی فدامرحبا کتنی ہیں پیاری ان کی دلبر ایڑیاں

تبسم سے گماں گزرےشب تاریک پر دن کا ضیائے رخ سے دیواروں کو روشن آئینہ کر دیں

ہر شب ہجرلگی رہتی ہے اشکوں کی جھڑیکوئی موسم ہو یہاں رہتی ہے برسات کی رات

مجھے کیا فکر ہو اخترؔ میرے یاور ہیں وہ یاوربلاؤں کو جو میری خود گرفتار بلا کر دیں

آپ کو نئے لب ولہجہ اور فی البدیہہ اشعار کہنے میں زبردست ملکہ حاصل ہے۔ اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے جسے خلیفۂ مفتیٔ اعظم ہند حضرت مولانا قاری امانت رسول قادری رضوی صاحب مرتب ’’سامانِ بخشش‘‘( نعتیہ دیوان سرکار مفتیٔ اعظم ہندعلیہ الرحمہ) نے مفتیٔ اعظم ہند کی مشہور نعت شریف ؎

تو شمع رسالت ہے عالم تیرا پروانہتو ماہ نبوت ہے اے جلوۂ جانانہ

سے متعلق حاشیہ میں لکھتے ہیں :’’مولوی عبد الحمید رضوی افریقی یہ نعت پاک حضور مفتیٔ اعظم ہند قبلہ قدس سرہٗ کی مجلس میں پڑھ رہے تھے، جب یہ مقطع ؎

آباد اسے فرما ویراں ہے دل نوریؔجلوے تیرے بس جائیں آباد ہو ویرانہ

پڑھا تو حضرت قبلہ نے فرمایا ،بحمدہٖ تعالیٰ فقیر کا دل تو روشن ہے اب اس کو یوں پڑھو…ع

آباد اسے فرما ویراں ہے دل نجدی

جانشین مفتی اعظم ہند مفتی شاہ اختر رضا خاں صاحب قبلہ نے برجستہ عرض کیا،مقطع کو اس طرح پڑھ لیا جائے ؎

سرکار کے جلوؤں سے روشن ہے دل نوریؔتا حشر رہے روشن نوریؔ کا یہ کاشانہ

حضرت قبلہ (سرکار مفتیٔ اعظم ہند قدس سرہ)نے پسند فرمایا۔‘‘[سامانِ بخشش/صفحہ:154]حضورتاج الشریعہ اور علمائے عرب:سیدنااعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ کو جو عزت و تکریم اور القاب وخطابات علمائے عرب نے دیے ہیںشاید ہی کسی دوسرے عجمی عالم دین کو ملے ہوں۔بعینہٖ پرتو اعلیٰ حضرت ،حضورتاج الشریعہ علیہ الرحمہ کاجو اعزاز و اکرام علمائے عرب نے کیا شاید ہی فی زمانہ کسی کو نصیب ہوا ہو۔ اس کے چند نمونے’’ علم حدیث‘‘ کے عنوان کے تحت گزرے ہیں بعض یہاں ملاحظہ فرمائیں۔مئی 2009ء میں حضورتاج الشریعہ علیہ الرحمہ کے دورۂ مصر کے موقع پرکعبۃ العلم والعلماء’’ جامعۃ الازہر ‘‘قاہر ہ، مصر میں آپ کے اعزاز میں عظیم الشان کانفرنس منعقد کی گئی ۔ جس میں جامعہ کے جید اساتذہ اور دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے طلبہ نے شرکت کی ۔ اس کانفرنس کی انفرادیت یہ تھی کہ برصغیر کے کسی عالم دین کے اعزاز میں اپنی نوعیت کی یہ پہلی کانفرنس تھی۔اسی دورۂ مصر کے موقع پر جامعۃ الازہر کی جانب سے آپ کو جامعہ کا اعلیٰ ترین اعزاز ’’شکر و تقدیر‘‘ بھی دیا گیا۔ جید علمائے مصر خصوصاً شیخ یسریٰ رشدی (مدرس بخاری شریف ،جامعۃ الازہر) نے آپ کے دست حق پرست پر بیعت بھی کی اور اجازت حدیث و سلاسل بھی طلب کیں۔حضورتاج الشریعہ علیہ الرحمہ کے رسائل ’’ الصحابۃ نجوم الاھتداء‘‘اور’’أن أباسیدنا ابراہیم علیہ السلام تارح لاآزر‘‘کے مطالعہ کےاور آپ سے گفت و شنیدکے بعد ’’ جامعۃ الازہر‘ ‘ قاہرہ، مصر کے شیخ الجامعہ علامہ سید محمد طنطاوی نے اپنے سابقہ موقف سے رجوع کیا اور حضورتاج الشریعہ علیہ الرحمہ کے موقف کو قبول فرمایا ۔ قبل ازیں آپ کا موقف اس کے برعکس تھا آپ مذکورہ حدیث کو موضوع خیال کرتے اور’’آزر‘‘ جو ابراہیم علیہ السلام کا چچا اور مشرک تھا کو آپ علیہ السلام کا والد قرار دیتے تھے ۔ [بحوالہ:سہہ ماہی سفینۂ بخشش/ربیع الثانی تا جمادی الثانی1430ھ /صفحہ 34]یاد رہے یہ حضورتا ج الشریعہ کا’’ جامعۃ الازہر‘ ‘ سے سند فراغت کے حصول کے بعد پہلا دورہ تھا۔درمیان کے 43؍سالوں میں کسی قسم کا کوئی رابطہ نہیں ہوا۔2008ء اور2009ء میں شام کے دوروں کے موقع پر مفتیٔ دمشق شیخ عبدالفتاح البزم ،اعلم علمائے شام شیخ عبدالرزاق حلبی ،قاضی القضاۃ حمص (شام)اور حمص کی جامع مسجد ’’جامع سیدنا خالد بن ولید‘‘کے امام و خطیب شیخ سعید الکحیل،مشہور شامی بزرگ عالم دین شیخ ہشام الدین البرہانی،جلیل القدر عالم دین شیخ عبدالہادی الخرسہ ،خطیب دمشق شیخ السید عبد العزیز الخطیب الحسنی ،رکن مجلس الشعب (National Assembly) و مدیر شعبۂ تخصص جامعہ ابو النور،دکتور عبدالسلام راجع،مشہور شامی عالم و محقق شیخ عبدالہادی الشنار، مشہور حنفی عالم اور محشی کتب کثیرہ شیخ عبدالجلیل عطاء ودیگر کئی علما نے سلاسل طریقت و سند حدیث طلب کی اور کئی ایک آپ سے بیعت بھی ہوئے۔2008ء میں آپ نے شام کے علما کے سامنے جب اپنا مشہورزمانہ عربی قصیدہ ؎

اللہ، اللہ،اللہ ھُو مالی رب الاہو

پڑھا۔ جب آپ نے مقطع ؎

ہذا اخترؔادنا کم ربی أحسن مثواہٗ

پڑھاتو خطیب دمشق الدکتور عبد العزیز الخطیب الحسنی نے برجستہ یہ الفاظ کہے :

’’أختر سیدنا وابن سیدنا‘‘

مفتیٔ دمشق عبدالفتاح البزم نے 2009ء میں حضورتاج الشریعہ علیہ الرحمہ کےدورۂ شام کے موقع پراپنی ایک تقریر میںاپنے بریلی شریف کے سفر کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’جب میںنے آپ (حضورتاج الشریعہ علیہ الرحمہ )سے محبت کرنے والوں کو دیکھا تو مجھے صحابہ کی محبت کی یاد تازہ ہو گئی کہ ایمان یہ کہتاہے کہ اپنے اساتذہ اور مشائخ کی اسی طرح قدر کرنی چاہیے ۔‘‘ مولانا کلیم القادری رضوی (بولٹن ،انگلینڈ)2008ء کے دورۂ شام کی روداد میں لکھتے ہیں:’’اسی دن فخر سادات ،صاحب القاب کثیرہ ، عظیم روحانی شخصیت سیدنا موسیٰ الکاظم کے شہزادے الشیخ الصباح تشریف لائے۔آپ نے فرمایاکہ چند روز قبل میں اس علاقے کے قریب سے گزرا تو مجھے یہاں انوار نظر آئے میں سمجھ گیا کہ یہاں کوئی ولی اللہ مقیم ہیں، معلومات کرنے پر پتہ چلا کہ حضرت تشریف لائے ہوئے ہیںتو ملاقات کے لیے حاضر ہوا۔ ‘‘ [تجلیّاتِ تاج الشریعہ /صفحہ :566،567]

وصال باکمال: ترميم
مرشد کریم حضورتاج الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ کافی عرصے سے علالت کا شکار تھے۔وصال سے چار(4)دن قبل طبعیت ناساز ہونے کے سبب ہسپتال لے جایا گیا ،دو ،تین دن ہسپتال میں رہنے کے بعدبروز جمعرات حضرت کی ہسپتال سے گھر تشریف آوری ہوئی، طبیعت کافی بہتر تھی۔بروز جمعہ بعد نمازِ عصر چائے نوش فرمائی ، دلائل الخیرات سنی اور پڑھی۔بعد ازاں علامہ عاشق حسین کشمیری صاحب قبلہ(داماد شہزادۂ حضورتاج الشریعہ علامہ مفتی عسجد رضا خان قادری دام ظلہٗ علینا)حضورتاج الشریعہ علیہ الرحمہ کو نمازِمغرب کے لیے تازہ وضوکرانے کی تیاری کرنے لگے۔اسی دوران حضرت کی سا نس پھولنے لگی ، جانشین تاج الشریعہ علامہ عسجد رضا خان قادری دام ظلہٗ علیناکے حکم پر حضرت کو بسترپر لٹا دیا گیا۔لیٹتے ہی حضرت نے’’یا اللہ ‘‘’’اللہ اکبر‘‘کا ورد شروع فرما دیا،جب آواز زیادہ اونچی ہوئی تو علامہ عاشق صاحب قبلہ نےعرض کی :’’ابا!سینے میںدرد ہورہاہے ؟‘‘فرمایا:’’نہیں‘‘۔پھر ’’یااللہ‘‘ کا ورد کرتے رہے۔عین وقت غروب(7بج کر 9منٹ پر بریلی شریف میں) حضرت نے وقت دریافت فرمایا۔علامہ عاشق صاحب قبلہ نے عرض کی :’’7بجے کے آس پاس ہورہا ہے۔‘‘ادھرمؤذن نےاذان شروع کی اورآپ کی روحِ مبارکہ اپنے پروردگار کی بارگاہ میں حاضر ہو گئی۔اس دوران جانشین حضورتاج الشریعہ علامہ عسجد رضاخان قادری دام ظلہٗ علینا نے ’’اسٹیتھواسکوپ‘‘سے دل کی دھڑکن چیک کی ، حضرت کے بلند آواز سے ذکر فرمانے کے سبب سنائی نہ دی،پھر الیکٹرانک مشین سے بلڈ پریشر جانچنے کی کوشش کی لیکن اس کا نتیجہ دکھانے سے قبل ہی حضرت اپنے محبوبِ حقیقی سےجاملے۔اس سے قبل بھی کئی مرتبہ سانس پھولی تھی لیکن صحیح ہوجایاکرتی تھی۔اس لیے حاضرین میں سے کسی کا دھیان بھی اس طرف نہیں گیا کہ یہ حضرت کی آخری سانسیں ہوسکتی ہیں۔یعنی حضورتاج الشریعہ علیہ الرحمہ نے شب ہفتہ7ذیقعدہ1439ھ/ 20جولائی 2018ء کو وصال فرمایا۔موجود اہل خانہ ابھی صحیح طور پر حالات کو سمجھ بھی نہ پائے تھے،لمحوں میں محلہ سوداگران لوگوں سے بھر گیا۔تل دھرنے کی جگہ نہ رہی ۔ حضرت کو مکان کے باہر والے کمرے میں منتقل کیا گیا ،ہفتہ کی ساری رات ، پورادن اور اتوار کی ساری رات زیارت کا سلسلہ چلتا رہا لوگ میلوں دور تک قطار بنائے مرشد کریم کے دیدار کے لیے کھڑے رہے۔وصال پر ملال کی خبر وحشت انگیز لمحوں میں دنیا بھر میں پھیل گئی اور مسلمانان اہل سنت غم و الم کی تصویر نظر آنےلگے۔ نہ صرف شہر بریلی ، ہندوستان بلکہ دنیا بھر سے جس سے ممکن ہوا جنازہ میں شرکت لیے چل پڑا۔بروز اتوار8؍ذیقعدہ 1439ھ/22؍ جولائی 2018ء نمازِ فجراول وقت میں ادا کی گئی اور آپ کی رہائش گاہ’’بیت الرضا‘‘ میں غسل دیا گیا۔ غسل کےفرائض جانشین حضورتاج الشریعہ حضرت علامہ عسجد رضا خان، شہزادۂ امین شریعت سلمان میاں صاحب ،داماد تاج الشریعہ برہان میاں صاحب،جگرگوشۂ محدث کبیر علامہ جمال مصطفیٰ صاحب،علامہ عاشق حسین صاحب ،سید کیفی،محمد عارف نیپالی (خادم حضورتاج الشریعہ) نے انجام دیے۔غسل کے بعد تکفین کا مرحلہ طے ہوا ۔’’الحرف الحسن‘‘میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے جو دعائیں نقل فرمائی ہیں ان کو کپڑے کے ایک ٹکڑے پرلکھ کر سینے پر رکھا گیا،حضرت کے سرمبارک پر عمامہ شریف سجایاگیا۔بعدہٗ جنازۂ مبارکہ باہرآنگن میں(جہاں دورِ اعلیٰ حضر ت ہی سے بارہویں شریف کی محفل کا اہتمام ہوتاہے) رکھاگیا اور محفل نعت شروع ہوئی۔تقریباً ساڑھے آٹھ(30:8 )بجےجنازہ گاہ(اسلامیہ انٹرکالج گراؤنڈ)لے جانے کےلئےپہلے سے تیار شدہ گاڑی کودروازے سے لگا کر اس میں جنازہ منتقل کر دیا گیا، اہل خانہ سوار ہوئے اور طے شدہ راستے سے ہوتا ہوا یہ قافلہ اپنے شیخ کے ساتھ اسلامیہ کے لیے روانہ ہوا۔حد سے زیادہ بھیڑکے سبب جنازہ گاہ پہنچنے میںڈیڑھ سے دوگھنٹے لگےاور جنازہ گراؤنڈ کے اندر لے جانے کے بجائےباہر روڈ پر ہی جانب قبلہ لے جایاگیا اور وہیں نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔امامت کے فرائض جانشین تاج الشریعہ نے انجام دیے،کثرت اژدھام کے سبب نمازِ جنازہ گاڑی ہی میں اس طرح اداکی گئی کہ مصلیٔ امامت پر حضورعسجد میاں صاحب اور ان کے پیچھے گاڑی ہی میں پانچ ،چھ لوگوں کی صف بنادی گئی اور باقی لوگوں نے نیچے زمین پر رہ کر اقتداء کی۔اعلیٰ حضرت نے رسالہ’’المنۃ الممتازہ‘‘ میں جتنی دعائیں تحریرفرمائی ہیں حضورعسجد میاں نے وہ تمام دعائیں پڑھیں۔نمازِ جنازہ بروز اتوار صبح تقریباً 11بجے ادا کی گئی، اس کے بعد ایک گھنٹے سے کچھ زیادہ وقت میں یہ قافلہ دوبارہ اسی شان سے محلہ سوداگران پہنچا۔30:12بجے آپ کی تدفین ازہری گیسٹ ہاؤس عقب مزار اعلیٰ حضرت ،بریلی شریف میں عمل میں آئی۔پلنگ سے حاجی اقبال شیخانی،سید کیفی، محمد یوسف ،علامہ عاشق حسین کشمیری اور کچھ دیگر لوگوں نے اٹھایاپھر جانشین تاج الشریعہ ، جگرگوشۂ امین شریعت سلمان میاں صاحب اور دامادِ تاج الشریعہ برہان میاں صاحب نے قبر میں اپنے ہاتھوں سےاتارا،پھر یہ تینوں حضرت قبر سے باہر آئےاور قبرکوبند کرکے مٹی دی گئی اور فاتحہ خوانی کاسلسلہ شروع ہوا۔ان دو دنوں (ہفتہ اور اتوار)بریلی شریف میں معمولات زندگی تقریباً معطل رہے ،خصوصاً بروز اتوار،اور بالخصوص جنازۂ مبارکہ کو جنازہ گاہ تک لاتےاور لے جاتے وقت عالم یہ تھا کہ مسلم تو مسلم ،غیر مسلموں کے گھروں کی چھتیں تک لوگوں سے بھری ہوئی تھیں۔ راستے بھر جنازۂ مبارکہ پر غیر مسلم بھی گل پاشی کرتے رہے ، شہرمیں کافی مقامات پر انہوں نے بھی پینے اور وضو کے پانی کا انتظام کر رکھا تھابلکہ اور ان کے گھر کے آس پاس کوئی گر کر بے ہوش ہوجاتا تو اٹھا کر اپنے گھر لاتے اور اس کے ہوش میں آنے تک اس کا بھر پور خیال رکھتے۔اللہ والوں کی باتیں قلم و قرطاس کی قید سے ماورا ہیں۔ولیٔ کامل حضورتاج الشریعہ علیہ الرحمہ کی ذات بھی وہ آئینہ تھی جس کے بے شمار زاویے اور ہر زاویہ ہزاروں جہتوں پر مشتمل تھا۔جن کا تذکرہ نہ میرے بس کی بات ہے نہ ہی اس مختصر سے مضمون میں ممکن ہے۔میں برادرطریقت مولانا منصور فریدی رضوی کے ان الفاظ پر مضمون کا اختتام کرتا ہوں کہ : ’’مصدر علم وحکمت ،پیکر جام الفت،سراج بزم طریقت، وارث علم مصطفیٰ، مظہر علم رضا، میر بزم اصفیا،صاحب زہد وتقویٰ ، عاشق شاہ ہدیٰ ﷺ،غلام خیر الوریٰ ﷺ،حامل علم نبویہ ، سیدی آقائی ، حضورتاج الشریعہ حضرت علامہ مولانا مفتی الحاج الشاہ اختررضاخاں ازہری مدظلہٗ النورانی اس عظیم شخصیت کا نام ہے جن کی زندگی کے کسی ایک گوشہ پر اگر سیر حاصل گفتگو کی جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ ہزاروں صفحات کی ضرورت ہے ۔‘‘[تجلیّات ِتاج الشریعہ /صفحہ:311]اللہ کریم ان کی برکات سےہمیں متمتع فرمائے اور ان کے نقش قدم کی پیروی کی توفیق مرحمت فرمائے۔آمین بحرمۃ سید المرسلین ﷺ

مولانا محمد پرویز رضا فیضانی حشمتی بھوانی گنج ضلع سدھارتھ نگر 9670556798/6307986692
parvezraza015@gmail.com

پیر، 8 جون، 2020

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔15شوال المکرم سید الشہداء سیدنا امیر حمزہ کا یوم شہادت۔لمحہ فکریہ ان لوگوں کے لئے گدائےقادری۔تنویر رضا حشمتی مرکزی درگاہ مسجد حضرت سید لشکر شاہ نزد میٹرو اسٹیشن ناگپور مہاراشٹرا بھارت

گدائےقادری۔تنویر رضا حشمتی مرکزی درگاہ مسجد حضرت سید لشکر شاہ نزد میٹرو اسٹیشن ناگپور مہاراشٹرا بھارت

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔15شوال المکرم سید الشہداء سیدنا امیر حمزہ کا یوم شہادت۔لمحہ فکریہ ان لوگوں کے لئے جو یارسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کہنے پر شرک کا فتوٰی لگاتے ہیں۔انہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ  حضر سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ جو حقیقی معنوں میں جو رسول گرامی وقار صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے چچا لگتے تھے  جب سے کلمئے توحید ورسالت کا اقرار کیا کوئی تاریخ ایسی نہیں ملتی جس میں آپ نے آقائے نامدار صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کو کہاہو اے میرے بھتیجے۔بلکہ جب کچھ کہنا ہوتا تو بارگاہ رسالت مآب صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم میں  ادب کے ساتھ عرض کرتے (یارسول اللہ تعالی علیہ وسلم) میرے دوست ادب بہت بڑی چیز ہے وہ بھی بارگاہ رسالت مآب کے لیے۔                                                         یہ وہ ذات پاک ہے جس کے میدان جہاد میں تشریف لاتے ہی دشمنان اسلام کے پسینے آنے لگتے تھے مزھب اسلام کی آبادیاں جو قائم ہیں آپ ہی کے جیسے مردے مجاہد کی وجہ سے ہے۔                           جو تیرو تلوار پر یا تعداد پر بھروسہ نہ کرتے بلکہ اللّٰہ و رسول عزوجل صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کا نام لے کر میدان جنگ میں کود جاتے کتنی ہی عظیم فوج کیوں نہ ہو کتنے ہی تاقتور لوگ کیوں نہ ہو نہ پلکیں جھپکتے نہ ہی خوف کھاتے۔بس اللّٰہ پاک کی رضا اور اس کے محبوب صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کا ایک اشارہ دنیا کے کسی بھی قسم کا قلعہ فوج کیوں نہ ہو انہیں ٹھکانے لگا کر دم لیا کرتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کسی کہنے والے نے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔آئینئے جواں مرداں حق گوئی و بے باکی۔۔۔۔۔۔اللہ کے شیروں کو آتی نہیں ہے روباعی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللّٰہ تبارک وتعالیٰ ہم تمام مسلمانانِ عالم اسلام اہلسنت والجماعت حنفی بریلوی کو حضرت سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ سید المرسلین علیہ الصلاۃ والتسلیم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گدائےقادری۔تنویر رضا حشمتی مرکزی درگاہ مسجد حضرت سید لشکر شاہ نزد میٹرو اسٹیشن ناگپور مہاراشٹرا بھارت

منگل، 2 جون، 2020

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری۔۔ تاریخ......................... پیدائش.…......................اور کچھ معلوماتی

.احقر تنویر رضا حشمتی مرکزی درگاہ مسجد حضرت سید لشکر شاہ نزد میٹرو اسٹیشن ناگپور مہاراشٹرا بھارت 9161701952
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری۔۔  تاریخ......................... پیدائش.…......................اور کچھ معلوماتی باتیں......................................................................امام احمد رضا خان (14 جون 1856ء – 28 اکتوبر 1921ء) بیسویں صدی عیسوی کے مجدد، نامور حنفی فقہیہ، محدث، اصولی، نعت گو شاعر، علوم نقلیہ وعقلیہ  کے ماہر، سلسلہ قادریہ کے شیخ، عربی، فارسی اور اردو کی کثیر کتابوں کے مصنف[6] جن میں مشہور ترجمہ قرآن کنزالایمان،  فتاویٰ رضویہ اور نعتیہ دیوان حدائق بخشش مشہور ہیں۔ احمد رضا خان نے شدت سے تقلید اور حنفیت کا دفاع کیا سلسلۂ حدیث میں شاہ ولی اللہ اور عبد الحق محدث دہلوی سے استفادہ کیا اور  فقہ میں سند اجازت شیخ عبد الرحمن حنفی مکی سے حاصل کی، جن کا سلسلہ عبد اللہ بن مسعود تک پہنچتا ہے۔[7] احمد رضا خان نے دو قومی نظریہ کا پرچار کیا اور  کسی بھی سطح پر ہندو مسلم اتحاد کو رد کیا، تحریک ترک موالات اور تحریک خلافت میں مسلمانوں کو متنبہ  کیا کہ ان تحریکوں میں مسلم ہندو اتحاد کا نعرہ لگایا جا رہا ہے جو شرع حیثیت سے ناجائز ہے۔[8] عورتوں کی ضروری دینی تعلیم کی سختی سے تلقین کی،[9] عورتوں  کے زیارت قبور کے لیے گھر سے نکلنے کے مسئلے پر ممانعت کا فتوی دیا۔[10] مزید تفصیلات حیات اعلیٰ حضرت میں موجود ہے (وسیم بھائی)۔۔فقط وللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ اعلم......احقر تنویر رضا حشمتی مرکزی درگاہ مسجد حضرت سید لشکر شاہ نزد میٹرو اسٹیشن ناگپور مہاراشٹرا بھارت 9161701952