اتوار، 6 دسمبر، 2020

6دسمبر۔آہ بابری مسجد آج کا عموماً دن دنیا کے تمام اسلامی ممالک کے لئے خصوصاً بھارت کے مسلمانوں کے لئے سیاہ دن ہے

6دسمبر۔آہ بابری مسجد آج کا عموماً دن دنیا کے تمام اسلامی ممالک کے لئے خصوصاً بھارت کے مسلمانوں کے لئے سیاہ دن ہے
 افسوس آج ہمارے اور تمام امت مسلمہ لئےیوم سیاہ ہے 6 دسمبر 1992کا وہ دن جب ظلم و جبر کی مثال قائم کی گئی اور ایک عناصر پسند تنظیم نے اللّٰہ کے گھر کو جبراً منہدم کردیا یہی نہیں بیت اللہ کے گرد و نواح میں بسنے والے اقلیتوں کو بھی نشانہ بنایا بہو بیٹیوں کو بے آبرو کیا گیا کتنوں کی جانیں چلیں گیئں بہتوں کے آشیانوں کو نزر آتش کیاگیا مگر ہم کچھ نہ کرسکے آج کی تاریخ ظلم کے باب کا وہ حصہ ہے جو کبھی غیرت مند مسلمان نہیں بھول سکتا جب ایک قوم کوخاص نشانہ بناکر اپنی اکثریت ہونےکا احساس دلایا جاتا ہے بابری مسجد کے گنبد پر لگنے والا ایک ایک ضرب ہمیں خون کے آنسوں رلات ہے افسوس اس پر سارے تماشائی رہے قوم کے ایک ایک فرد سے اس کاحساب مانگا جائے گا اور پوچھا جائے گا کہ جب ہمارے گھرکی حفاظت تمہاری ذمہ داری تھی تو اس ذمہ داری سے تم نے منہ پھیرلیا اے اقوامِ عالم اسلام اس وقت تمہارے پاس کیا جواب ہوگا افسوس جمہوریت کا ڈھونگ رچانے والے افراد پر ایک قوم کو باربار نشانہ بناکر اسے ذلیل وخوار کرنا یہی جمہوریت ہے فسادات آر ایس ایس اور دیگر تنظمیں کریں اور جیل میں ہمارے نوجوان جائیں یہی جمہوریت ہے بابری مسجد کو شہید تم کرو مندر کا فیصلہ تم کرو اور فسادی ہماری قوم کو بتاؤ یہی جمہوریت ہے اگر اتنا خود اعتمادی ہے تو جب حق بنا کہ کوئی مندر وہاں نہیں تھی تو کس ضمیر سے اپنے حق فیصلہ کروالیا سارے اویڈنس جب ہمارے حق میں صدیوں سے موجودتھے پھر بھی ہمیں ہمارے حق سے محروم رکھا گیا یہی جمہوریت ہے ہر بار ہمارے حب الوطنی کا سرٹیفیکیٹ طلب کرنا یہی جمہوریت ہے آتنکی کارروائی تمہارے لوگو کریں گرفتاری ہمارے لوگوں کی ہو یہی جمہوریت ہے کبھی وطن کے نام پر کبھی فیصلے کے نام پر کبھی وائرس کے نام پر یہی جمہوریت ہے اب میں اپنی قوم سے مخاطب ہوں یاد رکھیں جب کوئی قوم ظلم سہنے کی عادت ڈال لیتی ہے تو اس کی کوئی مدد نہیں کرتا خودکو ثابت کرنا ہے ہر ظلم کے خلاف آواز بلند کرنی ہے ظالموں کے بڑھتے ہوئے جذبات کچلنا ہوگا جبر کا جواب دینا ہوگا تم ایک بار پھر سے سر بلند ہوجاؤ گے کبھی یاد تو کرو تمہاری تاریخ کیا سکھاتی ہے جب بنیادی چیزوں سے واقف ہو پھر گھبراہٹ کیسی میں یہاں(
 قطب مینار )
 (تاج محل)
  (چار مینار )
  (لال قلعہ )کی بات نہیں کرتا یہ سب تو ہمارے دیئے ہوئے خیرات ہیں جس پر ان ناز ہے
  
بات 313 کی یعنی میدان بدر کی ہے 
میدان قادسیہ کی ہے
میدان تبوک کی ہے 
میدان احد کی ہے
 میدان کربلا کی ہے
  اسے ا پنے طور پر ذہن نشین کرلیں اور وہی جذبات کو سلامت رکھیں ان شاءاللہ تعالیٰ فتح مبیں ہوگی اور دشمنان اسلام تباہی کے دہانے تک پہنچ جاہیں گے اور ماضی قریب کی بات کریں علامہ فضل حق خیرآبادی
  مولانا اشفاق اللہ خان
  جیسی شخصیت کو پائیں گے 
 کیوں ہم بے چارگی کی زندگی جیئں یہ ہمارا ملک ہے یہ ہماری زمیں ہے کسی کے ٹکرے پر ہم پلنے والے نہیں ہمیں ناز عطائے رسول سلطان الہند پر ہے 
  
خود کو پہچانوں تو سب اب بھی سنور سکتا ہے
   
  اب فقط شورمچانے سے نہیں کچھ ہوگا
  صرف ہونٹوں کوہلانےسے نہیں کچھ ہوگا
  
  زندگی کے لیے بے موت ہی مرتے کیوں ہو
  اہل ایمان ہو تو موت سے ڈرتے کیوں ہو
  
  سارے غم سارے گلےشکوے بھلا کے اٹھو
  دشمنی جو بھی آپس میں بھلا کے اٹھو
  
  اپنے اسلاف کی تاریخ الٹ کر دیکھو
  اپنا گزارا ہوا ہر دور پلٹ کر دیکھو
  
  خود پہچانوں تم لوگ وفا والے ہو 
  مصطفیٰ والے ہو مومن ہو خدا والے ہو
  
  کفر دم توڑ دے ٹوٹی ہوئی شمشیر کے ساتھ
  تم نکل آؤ اگر۔ نعرۂ تکبیر کے ساتھ
  
  اب ا گر ایک نہ پا ئے تو مٹ جاؤ گے
  خشک پتوں کی طرح تم بھی بکھر جاؤ گے
  
  رہ کے محلوں میں ہر آیت حق بھول گئے
  عیش وعشرت میں پیمبرکاسبق بھول گئے
  
  ٹھنڈے کمرے حسیں محلوں سے نکل کر آؤ
 پھر سے تپتے ہوئے صحراؤں میں چل کر آؤ
 
 تم پہاڑوں کا جگر چاک کیا کرتے تھے
 تم تو دریاؤں کا رخ موڑ دیا کرتے تھے
 
 خود کو پہچانوں تو سب اب بھی سنور سکتا ہے
 دشمن دیں کا شیرازہ اب بھی بکھر سکتا ہے
 
 تم جو چاہو تو زمانے کو ہلا سکتے ہو 
 فتح کی ایک نئی تاریخ بنا سکتے ہو
 
 راہ حق میں بڑھو سامان سفر کا باندھو
 تاج ٹھوکر پہ رکھو سر پر عمامہ باندھو


از.. تنویر رضا حشمتی مرکزی درگاہ حضرت سیدلشکرشاہ ناگپور 9161701952