جمعرات، 23 جولائی، 2020

قربانی کے فضائل و مسائلمحمد پرویز رضا فیضانی 6307986692

قربانی کے فضائل و مسائل
محمد پرویز رضا فیضانی 
6307986692
Mohd  Parvez 
قربانی کے فضائل و مسائل
محمد پرویز رضا فیضانی 
6307986692
قربانی کا مفہوم بہت وسیع ہے لیکن ہم یہاں صرف اس قربانی کے ضروری فضائل و مسائل کا ذکرکریں گے، جو عید الاضحیٰ کے موقع پر کی جاتی ہے۔ 

 ’القربان‘کے معنی ہیں ’ہر وہ چیز جس سے اللہ تعالیٰ کی قرب جوئی کی جائے اور عرف میں قربان بمعنی ’نسیکۃ‘ یعنی ’ذبیحۃ‘ کے آتے ہیں‘۔

قربانی کرنے کا مطلب ہے؛عیدِ اضحی کو اونٹ یا دُنبہ وغیرہ قربان کرنا، ذبح کرنا۔ اس لفظ میں یاے تمنائی زائد ہے، کیوں کہ فارسی والوں کا قاعدہ ہے کہ بعض اوقات عربی مصدر کے آگے یاے مصدر ’ی‘ یا زائدہ اکثر بڑھا دیا کرتے ہیں، جیسے: خلاص سے خلاصی وغیرہ۔
قربانی کی فضیلت
رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
 عید الاضحی کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل جانور کی قربانی کرنا ہے، یہ قربانی قیامت کے دن اپنے بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گی اور یہ بہت ہی خوشی کی بات ہے کہ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش کردیا جاتا ہے، اس لیے خوش دلی سے قربانی کیا کرو۔ 
حضرت زید بن ارقمؓ فرماتے ہیں؛ اللہ تعالیٰ کے رسولﷺ کے صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! یہ قربانیاں کیا ہیں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: یہ تمھارے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ انھوں نے عرض کیا: اس میں ہمیں کیا ملے گا؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہر ہر بال کے بدلے ایک نیکی اور فرمایا: اون کے ہر بال کے بدلہ (بھی) ایک نیکی۔ 
قربانی نہ کرنے پر وعید
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
 جو صاحبِ نصاب، باوجود استطاعت کے قربانی نہ کرے، وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ پھٹکے، یعنی وہ خوشی منانے کا مستحق نہیں۔
قربانی کس پر
قربانی ہر اس مسلمان، عاقل، بالغ، مقیم، مرد وعورت پر واجب ہے، جس کی مِلک میں ساڑھے باون تولہ چاندی یا اتنی قیمت کا مال، اس کی حاجتِ اصلیہ سے زائد موجود ہو؛ خواہ یہ مال سونا، چاندی اور زیورات کی شکل میں ہو یا مالِ تجارت یا ضرورت سے زائد گھریلو سامان یا مسکونہ مکان کے علاوہ کسی مکان یا پلاٹ وغیرہ کی شکل میں۔ 
اگر کسی شخص پر قرض ہو لیکن بنیادی ضروری اشیاء، رہائشی مکان، استعمالی چیزوں اور استعمالی کپڑوں کے علاوہ جو کچھ اس کی املاک ہو وہ اتنی ہو کہ بیچ دی جائیں تو قرض ادا کرنے کے بعد بھی ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے بقدر اس کے پاس بچ رہے، تو ایسے شخص پر قربانی واجب ہے اور جس طرح دوسرے حقوق کی ادائیگی کے لیے حسبِ ضرورت قرض لینا درست ہے، ایسے ہی اس مقصد کے لیے بھی قرض لینا جائز ہے۔

خیال رہے کہ قربانی صاحب نصاحب پر  زکوٰۃ کی طرح ہر سال  ہوتی ہے لیکن اس میں زکوٰۃ کی طرح  نصاب پر  واجب سال گزرنا ضروری نہیں۔
نیز ٹی وی، وی سی آر جیسی خرافات، کپڑوں کے تین جوڑوں سے زائد لباس اور وہ تمام اشیاء جو محض زیب وزینت یا نمود ونمائش کے لیے گھروں میں رکھی رہتی ہیں اور سال بھر میں ایک مرتبہ بھی استعمال نہیں ہوتیں۔۔ زائد از ضرورت ہیں، اس لیے ان سب کی قیمت بھی حساب میں لگائی جائے گی۔
قربانی واجب ہے، محض سنت نہیں
 بعض حضرات کا خیال یہ ہے کہ قربانی واجب نہیں، محض سنت ہے، یہ درست نہیں، اس کے مفصل دلائل ہماری کتاب ’رسائل ابن یامین‘ میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہاں بس مختصراًایک سوال وجواب ملاحظہ فرمائیں:

سوال: ایک صاحب کا قول ہے کہ قربانی واجب نہیں، محض سنت ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ آنحضرتﷺ کا فرمان ہے: ’جو کوئی ذی الحجہ کا چاند دیکھے اور اس کا ارادہ قربانی کا ہو تو وہ اپنے بال، ناخن، تاوقت یہ کہ قربانی کرلے، نہ کاٹے‘۔
 مقصد وارادہ ہو، یہ لفظ بتلاتا ہے کہ قربانی واجب نہیں، صرف سنت ہے، کیا یہ دلیل برابر اور درست ہے؟
جواب: قربانی محض سنت نہیں، بلکہ واجب ہے۔ سرکارِ کائنات حضرت محمدﷺ کا ارشاد ہے: ’جو صاحب نصاب باوجود استطاعت کے قربانی نہ کرے، وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔‘
یعنی جو کشائش پائے اور قربانی نہ کرے، وہ ہماری عیدگاہ کے پاس بھی نہ پھٹکے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قربانی واجب ہے، باقی رہا یہ کہ حدیث شریف میں لفظ ’أراد‘ آیا ہے، تو یہ ایک محاورہ اور عام بول چال ہے، یہ وجوب کے خلاف نہیں۔ حج کے لیے بھی یہ لفظ آیا ہے، حدیث میں ہے؛’جو حج کا ارادہ کرے، تو چاہیے کہ جلدی کرے‘۔ تو کیا حج بھی سنت ہے، فرض نہیں؟

خلاصہ یہ کہ قربانی واجب ہے، محض سنت نہیں۔
قربانی واجب ہونے کی شرطیں
مندرجۂ ذیل شرائط کے پائے جانے پر قربانی واجب ہوتی ہے: 
(۱) مسلمان ہونا، غیر مسلم پر قربانی واجب نہیں۔
(۲) عاقل ہونا، مجنون پر قربانی واجب نہیں۔
(۳) مالکِ نصاب ہونا اور اس میں اتنے مال کا مالک ہونا کافی ہے، جس کی قیمت حاجتِ اصلیہ سے زائد ہوکر نصاب کے برابر ہوجائے۔
(۴) بالغ ہونا، نابالغ پر قربانی واجب نہیں البتہ اگر والدین صاحبِ مال ہوں اور وہ اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے قربانی کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں لیکن یہ مستحب ہے، واجب نہیں۔ 
(۵) مقیم ہونا، شرعی مسافر پر قربانی واجب نہیں۔
(۶) آزاد ہونا، غلام پر قربانی واجب نہیں۔
نوٹ: آزاد سے مراد یہ ہے کہ وہ غلام یا باندی نہ ہو، عورت خاوند کے ہوتے ہوئے بھی آزاد ہے، بیٹے اور نوکر سب آزاد ہیں۔ ہندوستان میں غلامی کا وجود نہیں، قیدی بھی آزاد ہیں اور ملازمِ سرکار وغیر سرکار سب آزاد ہیں۔ اگر یہ لوگ مالک نصاب ہوں تو ان پر قربانی واجب ہوگی۔
حاجی پر عید الاضحی کی قربانی
ابھی آپ نے اوپر پڑھا کہ عید الاضحی کی قربانی مسافر پر واجب نہیں ہوتی بلکہ مقیم پر واجب ہوتی ہے، لہٰذا جس آفاقی کا قیام مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کے بعد سے واپسی تک پندرہ دن سے کم ہو تو وہ مسافر ہے اور اس پر عید الاضحی کی قربانی واجب نہیں ہوگی اور اگر حدودِ مکہ میں داخل ہونے سے واپسی تک کے درمیان پندرہ دن یا اس سے زائد قیام رہا، تو وہ حاجی مسافر نہیں بلکہ مقیم ہوتا ہے اور ایسے حاجی پر صاحبِ نصاب ہونے کی صورت میں اہل مکہ کی طرح عید الاضحی کی قربانی بھی واجب ہوجاتی ہے لیکن یہ قربانی حدودِ حرم میں کرنا لازم نہیں بلکہ دنیا کے کسی بھی حصہ میں ایامِ قربانی میں کرنا جائز اور درست ہے، لہٰذا اپنے وطن میں قربانی کا انتظام کردے، تو بھی درست ہے۔
کسی اور کی طرف سے قربانی
کسی دوسرے شخص کی طرف سے اس کی اجازت کے بغیر واجب قربانی ادا کرنا یا اس کی طرف سے واجب قربانی کی نیت کرکے بڑے جانور میں حصہ لینا درست نہیں ہے، ایسا کرنے سے اس بڑے جانور میں شریک کسی کی قربانی بھی ادا نہیں ہوگی۔ 
خیال رہے کہ ہر صاحبِ نصاب پر قربانی کرنا مستقلاً واجب ہے، لہٰذا شوہر وبیوی دونوں صاحب نصاب ہوں تو ہر ایک پر علیحدہ علیحدہ قربانی واجب ہے، دونوں کی طرف سے ایک قربانی کافی نہیں۔
بالفاظِ دیگر جو عورت صاحبِ نصاب ہو، تو خود اس پر قربانی واجب ہے، شوہر پر اپنی بیوی کی طرف سے قربانی واجب نہیں۔ عورت کو چاہیے کہ اپنے پیسوں سے قربانی کرے یا اپنا کوئی زیور بیچ کر قربانی کرلے، یا عورت کی اجازت سے اس کا شوہر اس کی طرف سے قربانی کردے لیکن اگر عورت کی اجازت اور اس کو مطلع کیے بغیر اس کا شوہر قربانی کرے گا تو واجب قربانی ادا نہیں ہوگی۔
 اگر کسی عورت کا شوہر یا اسی طرح بالغ اولاد کے والدین وغیرہ ہر سال ان کی طرف سے قربانی کیا کرتے ہیں، تو استحساناً یہ واجب قربانی درست ہوجائے گی، خواہ اہلِ خانہ نے اجازت دی ہو یا نہ دی ہو۔ 
قربانی کا وقت
قربانی کے دن، ذی الحجہ کی دسویں، گیارھویں اور بارھویں تاریخیں ہیں، ان میں جب چاہیں قربانی کرسکتے ہیں البتہ پہلے دن قربانی کرنا افضل ہے، اس میں مزید تفصیل یہ ہے :
(۱) جن مقامات پر عیدین کی نماز نہیں ہوتی یعنی دیہات وقریہ جات، وہاں فجر کے بعد ہی قربانی کی جاسکتی ہے۔
(۲) شہر میں؛ جہاں عید کی نماز ہوتی ہے، وہاں عید کی نماز کے بعد ہی قربانی درست ہے۔ اگر ایک شہر میں کئی مقامات پر نمازِ عید ادا کی جاتی ہو تو سب سے پہلے جہاں نمازِ عید ادا کی جائے، اس کا اعتبار ہوگا، اس کے بعد قربانی کی جاسکتی ہے۔
(۳) اگر خدانہ خواستہ کسی وجہ سے ۱۰؍ذی الحجہ کو عید کی نماز ادا نہ ہوپائے تو پھر اس دن آفتاب ڈھلنے کے بعد یعنی ظہر کا وقت شروع ہونے کے بعد ہی قربانی جائز ہوگی۔
(۴) رات میں فی نفسہ قربانی کرنا مکروہ نہیںبلکہ چوں کہ تاریکی کی وجہ سے غلطی کا احتمال ہوتا ہے اور اندیشہ ہے کہ ذبح میں جن رگوں اور نالیوں کا کاٹنا مطلوب ہے وہ صحیح طور پر نہ کٹ پائیں گی، اس لیے فقہاء نے رات میں قربانی کرنے کو منع کیا ہے، لہٰذا اگر روشنی کا انتظام ایسا ہو کہ غلطی کا اندیشہ باقی نہ رہے، جیسا کہ اب ممکن ہے، تو رات میں بھی قربانی کرنے اور جانور کے ذبح کرنے میں کچھ حرج نہیں۔
نوٹ: قربانی واجب ہونے کی شرطوں میں آخری وقت کا اعتبار ہے، یعنی اگر کوئی شخص قربانی کے اول وقت میں اہل نہیں تھا اور آخر وقت میں اہل ہوگیا، تو اس پر قربانی واجب قرار پائے گی۔ مثلاً: غیر مسلم یا مرتد شخص آخر وقت میں مسلمان ہوگیا، غلام آزاد ہوگیا، مسافر مقیم ہوگیا، فقیر مالکِ نصاب ہوگیا، نابالغ بالغ ہوگیا یا مجنون عاقل ہوگیا، تو ان سب صورتوں میں اس پر قربانی واجب ہوگی اور اگر بالعکس ہوا تو قربانی واجب نہیں۔
قربانی کے جانور
احناف کے یہاں فضیلت واولیت کے اعتبار سے قربانی کے جانوروں کی ترتیب اس طرح ہے؛ اونٹ، بھینس اور اسی طرح کے چوپائے، بکری، بھیڑ، البتہ بکری یا بھیڑ اونٹ وغیرہ کے مقابلے میں نہ ہو، صرف اس ۷/۱ کے مقابلے میں ہو اور اونٹ وغیرہ کے ساتویں حصّے کے مقابلے میں بکری وغیرہ کی قیمت زیادہ ہو تو بکری کی قربانی افضل ہوگی۔
قربانی کے چند مستحبات وآداب
قربانی میں مندرجۂ ذیل امور کی رعایت کرنا مستحب و پسندیدہ ہے:
(۱) قربانی سے چند دن پہلے جانور کو گھر میں باندھ کر خوب کھلانا پلانا۔
(۲) تیز چھری سے ذبح کرنا۔
(۳) ذبح کرنے کے فوراً بعد کھال نہ اتارنا بلکہ کچھ دیر بعد جانور کے جسم کے ساکن اور ٹھنڈا ہونے کا انتظار کرنا۔
(۴) کسی اور جانور کو دوسرے جانور کے سامنے ذبح نہ کرنا۔
(۵) اگر اچھے طریقے سے ذبح کرنا جانتا ہو تو اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا اور خود تجربہ نہ رکھتا ہو تو بہتر ہے کہ کسی دوسرے سے ذبح کرائے مگر خود بھی موجود رہے تو بہتر ہے۔
(۶) جانور کو قبلہ رخ لٹانا اور خود بھی ذبح کرنے والا قبلہ رخ ہو (یہ سنت مؤکدہ ہے)۔
(۷) قربانی کی جھول، رسی وغیرہ صدقہ کردینا۔
(۸) جانور کو لٹانے کے بعد یہ دعا پڑھنا:

 اِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَالاَرْضَ حَنِیْفاً وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ، اِنَّ صَلوٰتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ لاَ شَرِیْکَ لَہٗ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ، اَللّٰہُمَّ مِنْکَ وَلَکَ۔
پھر بسم اللہ، اللہ اکبر کہہ کر ذبح کرے اور اس کے بعد یہ دعا پڑھے:
 اللّٰہُمَّ تَقَبَّلْہُ مِنِّیْ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ خَلِیِلِکَ اِبْرَاہِیْمَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ وَ حَبِیْبِکَ مُحَمّد (ﷺ)
قربانی کی کھال کا حکم
 (۱) قربانی کی کھال کو اپنے استعمال میں لانا، جیسے مصلیٰ بنالیا جائے یا چمڑے کی کوئی چیز ڈول وغیرہ بنالی جائے تو یہ جائز ہے لیکن اگر اس کو فروخت کیا تو اس کی قیمت اپنے خرچ میں لانا جائز نہیںبلکہ اس کا صدقہ کرنا واجب ہے اور قربانی کی کھال بدونِ نیتِ صدقہ، فروخت کرنا بھی جائز نہیں۔
(۲) قربانی کی کھال، کسی خدمت کے معاوضے میں دینا بھی جائز نہیں، اس لیے مسجد کے مؤذن یا امام وغیرہ کے حق الخدمت کے طور پر بھی ان کو کھال دینا درست نہیں۔
(۳) مدارسِ اسلامیہ کے غریب ونادار طلبہ ان کھالوں کا بہترین مصرف ہیں کہ اس میں صدقےکا ثواب بھی ہے اور احیائِ علمِ دین کی خدمت بھی، مگر مدرسین وملازمین کی تنخواہ اس سے دینا جائز نہیں۔
قربانی کے گوشت کا حکم
بہتر یہ ہے کہ قربانی کے جانور کے گوشت کے تین حصے کیے جائیں؛ ایک حصہ خود استعمال کریں، دوسرا حصہ اقربا واحباب پر خرچ کریں اور تیسرا حصہ فقراونادار پر۔ 
 تاہم ضرورت وحالات کے لحاظ سے اس تناسب میں کمی بیشی کی گنجائش ہے۔
حلال جانور کی حرام اشیاء
سات چیزیں حلال جانور کی بھی کھانا حرام ہیں؛
(۱) ذکر (۲) فرج(۳) مثانہ(۴) غدود (۵) حرام مغز جو پشت کے مہرے میں ہوتا ہے(۶) خصیہ اور (۷) پتّہ مرارہ، جو کلیجی کے پاس پانی کا ظرف ہوتا ہے اور حرام خون جو کہ قطعی حرام ہے۔
قربانی کی قضا
اگر ایامِ قربانی میں قربانی نہ کی، حالاں کہ قربانی اس پر واجب تھی تو بعد میں اس پر اس کی قضا واجب ہوگی، اگر خوش حال آدمی تھا اور کوئی متعین جانور اس نے قربانی کی نیت سے نہیں لیا تو قضاکی دو صورتیں ہیں:

(۱)یا تو زندہ جانور خرید کر صدقہ کردے، یا اس کی قیمت صدقہ کردے اور اگر غریب محتاج آدمی نے کوئی جانور قربانی کی نیت سے خرید لیا یا کسی جانور کے متعلق قربانی کی نذر مانی تو ایامِ قربانی گزر جانے کے باوجود قربانی نہ کیے جانے کی صورت میں بعینہٖ اسی جانور کو صدقہ کردینا واجب ہے، نیز اس کا مصرف اب صرف فقرا ہوں گے۔
(۲) اگر کوئی غنی قربانی کا جانور لے اور وہ ایامِ قربانی میں گم ہوجائے اور وہ اس کی جگہ دوسرا کوئی جانور ذبح کردے، پھر وہ پہلا جانور مل جائے تو اب اس جانور کی قربانی واجب نہیںلیکن اگر کوئی محتاج (جس پر قربانی واجب نہیں تھی) اس کے ساتھ یہی صورت پیش آئے تو اس گمشدہ جانور کے ملنے کے بعد اس کی قربانی کرنی ہوگی۔ اس طرح قربانی کی نیت سے خریدے ہوئے جانور کو اگر کسی عذر کے باعث قبل از وقت ذبح کرنا پڑے تو وہ صدقے کا جانور شمار ہوگااور اس کا اپنی ذات کے لیے استعمال درست نہ ہوگا، صرف فقرا ہی اس کے مستحق ہوں گے
محمد پرویز رضا فیضانی 
فیضانی کمپیوٹر کتاب گھر بھوانی گنج ضلع سدھارتھ نگر 
9670556798/6307986692
parvezraza015gmail.Com

بدھ، 1 جولائی، 2020

قربانی کا معنی ومفہوم اورمختصر تارِیخ ‏

قربانی کا معنی ومفہوم اورمختصر تارِیخ
 
از: فیضانی کمپنیوں کتاب گھر بھوانی گنج ضلع سدھارتھ نگر (یوپی) 9670556798/6307986692
 
قربانی کی اِبتداء
حلال جانور کو بہ نیتِ تقرب ذبح کرنے کی تارِیخ حضرت آدَم علیہ السلام کے دو بیٹوں ہابیل وقابیل کی قربانی سے ہی شروع ہوجاتی ہے، یہ سب سے پہلی قربانی تھی، حق تعالیٰ جلَّ شانُہ کا اِرشاد ہے: ”وَاتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ م اِذْقَرَّ بَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِھِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ“۔(۱)
ترجمہ:۔”اور آپ اہلِ کتاب کو آدم کے دو بیٹوں کا واقعہ صحیح طور پر پڑھ کر سنا دیجیے، جب ان میں سے ہرایک نے اللہ کے لیے کچھ نیاز پیش کی تو ان میں سے ایک کی نیاز مقبول ہوگئی، اور دُوسرے کی قبول نہیں کی گئی“۔
علامہ اِبن کثیر رحمہ اللہ نے اِس آیت کے تحت حضرت اِبن عباس رَضی اللہ عنہ سے رِوایت نقل کی ہے کہ ہابیل نے مینڈھے کی قربانی کی اور قابیل نے کھیت کی پیداوار میں سے کچھ غلہ صدقہ کرکے قربانی پیش کی، اُس زمانے کے دستور کے موافق آسمانی آگ نازل ہوئی اور ہابیل کے مینڈھے کو کھا لیا، قابیل کی قربانی کو چھوڑ دِیا۔(۲)
اِس سے معلوم ہوا کہ قربانی کا عبادت ہونا حضرت آدَم علیہ السلام کے زمانے سے ہے اور اس کی حقیقت تقریباً ہرملت میں رہی؛ البتہ اس کی خاص شان اور پہچان حضرت اِبراہیم و حضرت اِسماعیل علیہما السلام کے واقعہ سے ہوئی، اور اسی کی یادگار کے طور پراُمتِ محمدیہ پر قربانی کو واجب قرار دیا گیا۔
قربانی کی حقیقت قرآنِ کریم کی روشنی میں
قرآنِ کریم میں تقریباً نصف دَرجن آیاتِ مبارکہ میں قربانی کی حقیقت ، حکمت اور فضیلت بیان کی گئی ہے۔ سورة حج میں ہے:
۱-۲: وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰھَا لَکُمْ مِّنْ شَعَآئِرِ اللّٰہِ لَکُمْ فِیْھَا خَیْرٌ فَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْھَا صَوَآفَّ فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُھَا فَکُلُوْا مِنْھَا وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ ط کَذٰلِکَ سَخَّرْنٰھَا لَکُمْ لَعْلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ(۳۶) لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَآؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْط کَذٰلِکَ سَخَّرَھَا لَکُمْ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ ط وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِیْنَ(۳۷)“․(۳)
ترجمہ:۔”اور ہم نے تمہارے لیے قربانی کے اُونٹوں کو عبادتِ اِلٰہی کی نشانی اور یادگار مقرر کیا ہے، ان میں تمہارے لیے اور بھی فائدے ہیں، سو تم اُن کو نحر کرتے وقت قطار میں کھڑا کرکے اُن پر اللہ کا نام لیا کرو اور پھر جب وہ اپنے پہلو پر گر پڑیں تو اُن کے گوشت میں سے تم خود بھی کھانا چاہو تو کھاوٴ اور فقیر کو بھی کھلاوٴ، خواہ وہ صبر سے بیٹھنے والا ہو یا سوال کرتا پھرتا ہو، جس طرح ہم نے اِن جانوروں کی قربانی کا حال بیان کیا، اِسی طرح اُن کو تمہارا تابع دار بنایا؛ تاکہ تم شکر بجالاوٴ! اللہ تعالیٰ کے پاس ان قربانیوں کا گوشت اور خون ہرگز نہیں پہنچتا؛ بلکہ اس کے پاس تمہاری پرہیزگاری پہنچتی ہے ، اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کو تمہارے لیے اِس طرح مسخر کردِیا ہے؛ تاکہ تم اس احسان پر اللہ تعالیٰ کی بڑائی کرو کہ اس نے تم کو قربانی کی صحیح راہ بتائی، اور اے پیغمبر! مخلصین کو خوش خبری سنا دیجیے“۔
سورة حج ہی میں دوسرے مقام پر اسے شعائر اللہ میں سے قرار دیتے ہوئے اس کی عظمت بتائی گئی اورقربانی کی تعظیم کو دل میں پائے جانے والے تقویٰ خداوندی کا مظہر قرار دِیا ہے۔
۳:- ”وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّٰہِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ(۳۲)“۔(۴)
ترجمہ:”اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی نشانیوں اور یادگاروں کا پورا احترام قائم رَکھے تو ان شعائر کا یہ احترام دِلوں کی پرہیزگاری سے ہواکرتا ہے“۔
سابق انبیاء کرام علیہم السلام کی شریعتوں میں قربانی کا تسلسل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت تک پہنچتاہے، جس کا طریقہ یہ تھا کہ قربانی ذبح کی جاتی اور وقت کے نبی علیہ السلام دُعا مانگتے اور آسمان سے خاص کیفیت کی آگ اُترتی اور اُسے کھاجاتی جسے قبولیت کی علامت سمجھا جاتا تھا، قرآنِ کریم میں ہے:
۴:- ”اَلَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ عَھِدَ اِلَیْنَآ اَلَّا نُؤْمِنَ لِرَسُوْلٍ حَتّیٰ یَاْتِیَنَا بِقُرْبَانٍ تَاْکُلُہُ النَّارُ“۔(۵)
ترجمہ:۔”یہ لوگ ایسے ہیں جو یوں کہتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں حکم دے رکھاہے کہ ہم کسی رسول کی اُس وقت تک تصدیق نہ کریں؛ جب تک وہ ہمارے پاس ایسی قربانی نہ لائے کہ اُس کو آگ کھاجائے“۔
قربانی کی تارِیخ پہلے اِنسان ہی سے شروع ہوجاتی ہے:
۵:-”وَاتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ م اِذْقَرَّ بَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِھِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ“۔(۶)
ترجمہ:۔”اور آپ اہل کتاب کو آدَم کے دو بیٹوں کا واقعہ صحیح طور پر پڑھ کر سنا دیجئے، جب اُن میں سے ہرایک نے اللہ کے لیے کچھ نیاز پیش کی تو اُن میں سے ایک کی نیاز مقبول ہوگئی، اور دُوسرے کی قبول نہیں کی گئی“۔
۶:- ”قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(۱۶۲)“(۷)
آیت بالا کے تحت امام جصاص رَازی لکھتے ہیں:
”ونسکی: الاضحیة، لانہا تسمی نسکاً، وکذلک کل ذبیحة علی وجہ القرابة إلی اللّٰہ تعالیٰ فہی نسک، قال اللّٰہ تعالی: ففدیة من صیام و صدقة و نسک“۔(۸)
ترجمہ:۔”نسک“ سے مراد قربانی ہے؛اس لیے کہ اُس کا نام ”نسک“ بھی ہے، اِسی طرح ہر وہ جانور جو اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کی نیت سے ذبح کیا جائے وہ ”نسک“ کہلاتا ہے، ا رشادِ بارِی تعالیٰ ہے: ”فَفِدْیَةٌ مِّنْ صِیَامٍ اَوْ صَدَقَةٍ اَوْ نُسُکٍ“۔(۹)
قربانی کے اس حکم کو اللہ تعالیٰ نے ایک اور انداز سے نماز کے تتمے کے طور پر یوں ذِکر فرمایا”فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ“ اِبن کثیر اِس آیت کے تحت رَقمطراز ہیں:
”قال ابن عباس وعطاء ومجاہد وعکرمة والحسن: یعنی بذلک نحر البدن ونحوہا، وکذا قال قتادة ومحمد بن کعب القرظی، والضحاک والربیع وعطاء الخراسانی والحکم وإسماعیل بن أبی خالد وغیر واحد من السلف“۔(۱۰)
”حضرت اِبن عباس رَضی اللہ عنہما، حضرت عطاء، مجاہد، عکرمہ رحمہم اللہ سمیت متعدد مفسرین فرماتے ہیں کہ ”وانحر“ سے اُونٹ کا ”نحر“ ہی مطلوب ہے جو قربانی کے لیے جانے والے جانور میں سے بڑا جانور ہے“۔
اِس سے فقہاء نے مسئلہ بھی اخذ فرمایا ہے کہ عید الاضحی پڑھنے وَالے لوگوں پر لازم ہے کہ وہ نماز عید پہلے ادا کرلیں، اس کے بعد قربانی کریں، جن لوگوں پر عید کی نماز فرض ہے، اگر اُنہوں نے عید سے پہلے قربانی کردِی تو اُن کی قربانی نہیں ہوگی۔
۸:- ”لِّیَشْھَدُوْا مَنَافِعَ لَھُمْ وَیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ فِیْٓ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَھُمْ مِّنْ بَھِیْمَةِ الْاَنْعَامِ․ فَکُلُوْا مِنْھَا وَاَطْعِمُوا الْبَآئِسَ الْفَقِیْرَ(۲۸)“۔ (۱۱)
ترجمہ:۔”تاکہ یہ سب آنے وَالے اپنے اپنے فائدوں کی غرض سے پہنچ جائیں اور تاکہ قربانی کے مقررَہ دِنوں میں خدا کا نام لیں جو خدانے ان کو عطاء کیے ہیں، سوائے اُمت محمدیہ! تم ان قربانیوں میں سے خود بھی کھانا چاہو تو کھاوٴ اور مصیبت زدہ محتاج کو کھلاوٴ“۔
اِس آیت میں بھی قربانی ہی کا ذِکر ہے۔ ہرقوم میں نسک اور قربانی رَکھی گئی، جس کا بنیادِی مقصد خالق کائنات کی یاد، اس کے احکام کی بجاآورِی اس جذبے کے ساتھ کہ یہ سب کچھ اللہ کی عطا اور دین ہے، یہاں بھی اِنسان کی قلبی کیفیت کا ایسا اِنقلاب مقصود ہے کہ وہ مال ومتاع کو اپنا نہ سمجھے؛ بلکہ دِل وجان سے اس عقیدے کی مشق کرے کہ حق تعالیٰ ہی اس کا حقیقی مالک ہے، گویا قربانی کا عمل فتنہٴ مال سے حفاظت کا دَرس دیتا ہے۔
۹:-” وَلِکُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَھُمْ مِّنْ بَھِیْمَةِ الْاَنْعَامِ۔“(۱۲)
ترجمہ:۔”اور ہم نے ہر اُمت کے لیے اس غرض سے قربانی کرنا مقرر کیا تھا کہ وہ ان چوپایوں کی قسم کے مخصوص جانوروں کو قربان کرتے وَقت اللہ کا نام لیا کریں، جو اللہ نے ان کو عطا کیے تھے“۔
قربانی احادِیث مبارکہ کی روشنی میں
۱:- عن عائشة رضی اللہ عنہا قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ما عمل ابن آدم من عمل یوم النحر احب الی اللّٰہ من اہراق الدم وانہ اتی یوم القیامة بقرونہا واشعارہا وظلافہا وان الدم لیقع من اللّٰہ بمکان قبل ان یقع بالارض فطیبوا بہا نفسا“۔(۱۳)
ترجمہ:۔”حضرت عائشہ رَضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اِبن آدم (اِنسان) نے قربانی کے دِن کوئی ایسا عمل نہیں کیا، جو اللہ کے نزدِیک خون بہانے (یعنی قربانی کرنے) سے زیادَہ پسندیدہ ہو، اور قیامت کے دِن وہ ذبح کیا ہوا جانور اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا، اورقربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہوجاتا ہے، لہٰذا تم اس کی وَجہ سے (قربانی کرکے) اپنے دِلوں کو خوش کرو“۔
۲:- عن زید بن ارقم رضی اللہ عنہ قال: قال أصحاب رسول اللّٰہ: یا رسول اللّٰہ! ما ہذہ الأضاحی؟ قال: سنة أبیکم إبراہیم علیہ السلام، قالوا: فما لنا فیہا یا رسول اللّٰہ؟ قال: بکل شعرة حسنة، قالوا: فالصوف؟ یا رسول اللّٰہ! قال: بکل شعرة من الصوف حسنة“۔(۱۴)
ترجمہ:۔”حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ راوِی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رَضی اللہ عنہم نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! یہ قربانی کیا ہے؟ فرمایا: تمہارے باپ اِبراہیم علیہ السلام کا طریقہ (یعنی اُن کی سنت) ہے، صحابہ نے عرض کیا کہ پھر اس میں ہمارے لیے کیا (اجر وثواب) ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وَسلم نے فرمایا: (جانور کے) ہر بال کے بدلے ایک نیکی، اُنہوں نے عرض کیا کہ (دُنبہ وَغیرہ اگر ذبح کریں تو اُن کی) اُون (میں کیا ثواب ہے؟) فرمایا: کہ اُون کے ہربال کے بدلے ایک نیکی“۔
۳:- عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی یوم اضحیٰ: ما عمل آدمی فی ہذا الیوم افضل من دم یہراق إلا أن یکون رحماً توصل“۔(۱۵)
ترجمہ:۔”حضرت اِبن عباس سے رِوَایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وَسلم نے عید الاضحی کے دِن اِرشاد فرمایا: آج کے دِن کسی آدمی نے خون بہانے سے زیادَہ افضل عمل نہیں کیا، ہاں! اگر کسی رِشتہ دار کے ساتھ حسن سلوک اس سے بڑھ کر ہو تو ہو“۔
۴:- ”عن أبی سعید رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یا فاطمة! قومی إلی أضحیتک فاشہدیہا، فإن لک بأول قطرة تقطر من دمہا أن یغفرلک ما سلف من ذنوبک․ قالت: یا رسول اللّٰہ! ألنا خاصة أہلَ البیت أو لنا وللمسلمین؟ قال: بل لنا وللمسلمین“۔
ترجمہ:۔”حضرت ابو سعید رَضی اللہ عنہ سے رِوَایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی بیٹی حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے) فرمایا: اے فاطمہ! اُٹھو اور اپنی قربانی کے پاس رہو (یعنی اپنی قربانی کے ذبح ہوتے وقت قریب موجود رہو) کیونکہ اس کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرنے کے ساتھ ہی تمہارے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے، حضرت فاطمہ رَضی اللہ عنہا نے عرض کیا! اللہ کے رسول! یہ فضیلت ہم اہل بیت کے ساتھ مخصوص ہے یا عام مسلمانوں کے لیے بھی ہے؟ آپ … نے فرمایا ہمارے لیے بھی ہے اور تمام مسلمانوں کے لیے بھی“۔
۵:- ”عن علی رضی اللہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: یا فاطمة! قومی فاشہدی ضحیتک، فإن لک بأول قطرة تقطر من دمہا مغفرة لکل ذنب، ما انہ یجاء بلحمہا ودمہا توضع فی میزانک سبعین ضعفا۔ قال ابو سعید: یا رسول اللّٰہ! ہذا لآل محمد خاصة، فانہم اہل لما خصوا بہ من الخیر، و للمسلمین عامة؟ قال: لآل محمد خاصة، وللمسلمین عامة“۔(۱۶)
ترجمہ:۔”حضرت علی رَضی اللہ عنہ سے رِوَایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وَسلم نے (حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے) فرمایا: اے فاطمہ! اُٹھو اور اپنی قربانی کے پاس (ذبح کے وقت) موجود رہو؛ اِس لیے کہ اس کے خون کا پہلا قطرہ گرنے کے ساتھ ہی تمہارے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے، یہ قربانی کا جانور قیامت کے دِن اپنے گوشت اور خون کے ساتھ لایا جائے گا اور تمہارے ترازو میں ستر گنا (زیادہ) کرکے رَکھا جائے گا، حضرت ابوسعید نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ فضیلت خاندانِ نبوت کے ساتھ خاص ہے جو کسی بھی خیر کے ساتھ مخصوص ہونے کے حق دار ہیں یا تمام مسلمانوں کے لیے ہے؟ فرمایا: یہ فضیلت آلِ محمد کے لیے خصوصاً اور عموماً تمام مسلمانوں کے لیے بھی ہے“۔
۶:-”عن علی رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: یا أیہا الناس! ضحوا واحتسبوا بدمائہا، فان الدم وإن وقع فی الأرض، فإنہ یقع فی حرز اللّٰہ عز وجل۔“(۱۷)
ترجمہ:۔”حضرت علی رَضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے لوگو! تم قربانی کرو اور ان قربانیوں کے خون پر اجر وثواب کی اُمید رَکھو؛ اِس لیے کہ (اُن کا) خون اگرچہ زمین پر گرتا ہے؛ لیکن وہ اللہ کے حفظ وامان میں چلاجاتاہے“۔
۷:- ”عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ما انفقت الورق فی شییٴٍ حب إلی اللّٰہ من نحر ینحر فی یوم عید“۔(۱۸)
ترجمہ:۔”حضرت اِبن عباس رَضی اللہ عنہ سے رِوَایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وَسلم نے فرمایا: چاندی (یا کوئی بھی مال) کسی ایسی چیز میں خرچ نہیں کیا گیا جو اللہ کے نزدِیک اُس اُونٹ سے پسندیدہ ہو جو عید کے دِن ذبح کیا گیا“۔
۸:- ”عن ابی ہریرة رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من وجد سعة لان یضحی فلم یضح، فلایحضر مصلانا“۔(۱۹)
ترجمہ:۔”حضرت ابو ہریرہ رَضی اللہ عنہ سے رِوَایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص قربانی کرنے کی گنجائش رَکھتا ہو پھر بھی قربانی نہ کرے تو وہ ہمارِی عیدگاہ میں نہ آئے“۔
۹:- ”عن حسین بن علی رضی اللہ عنہما قال:قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من ضحی طیبة نفسہ محتسباً لاضحیتہ کانت لہ حجاباً من النار۔“(۲۰)
ترجمہ:۔”حضرت حسین بن علی رَضی اللہ عنہ سے مروِی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وَسلم نے فرمایا: جو شخص خوش دِلی کے ساتھ اجر وثواب کی اُمید رَکھتے ہوئے قربانی کرے گا تو وہ اس کے لیے جہنم کی آگ سے رُکاوَٹ بن جائے گی“۔
قربانی کافلسفہ
”والثانی: یوم ذبح ابراہیم ولدہ اسماعیل علیہما السلام، وانعام اللّٰہ علیہما: بان فداہ بذبح عظیم، اذ فیہ تذکر حال ائمة الملة الحنیفیة والاعتبار بہم فی بذل المہج، والاموال فی طاعة اللّٰہ، وقوة الصبر، وفیہ تشبہ بالحاج، وتنویہ بہم، وشوق لماہم فیہ ولذلک سن التکبیر“۔(۲۱)
ترجمہ:۔”اور دُوسرا (عید الاضحی) وہ دِن ہے کہ جس میں حضرت اِبراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اِسماعیل علیہ السلام کے ذبح (کااِرادہ کیا)، اور اللہ کا اُن پر اِنعام ہوا کہ حضرت اِسماعیل علیہ السلام کے بدلے عظیم ذبیحہ (جنتی مینڈھا) عطا فرمایا؛ اِس لیے کہ اس میں ملت اِبراہیمی کے ائمہ کے حالات کی یاد دِہانی ہے، اللہ کی اِطاعت میں اُن کے جان ومال کو خرچ کرنے اور اِنتہائی دَرجہ صبر کرنے کے وَاقعہ سے لوگوں کو عبرت دِلانا مقصود ہے، نیز اس میں حاجیوں کے ساتھ مشابہت ہے اور ان کی عظمت ہے اور جس کام میں وہ مشغول ہیں اُس میں اُن کو رَغبت دِلانا ہے، یہی وَجہ ہے کہ تکبیرات (تشریق) کو مسنون کیا گیا ہے“۔
قربانی کی حقیقت
مندرجہ بالا آیات واحادِیث کی روشنی میں قربانی کی حقیقت معلوم ہوئی، اس کو مختصر الفاظ میں بیان کرنا چاہیں تو یوں کہا جاسکتا ہے:
۱:- قربانی سنت اِبراہیمی کی یادگار ہے۔
۲:- قربانی کی ایک صورَت ہے اور ایک رُوح ہے، صورَت تو جانور کا ذبح کرنا ہے، اور اس کی حقیقت اِیثارِ نفس کا جذبہ پیدا کرنا ہے اور تقرب اِلی اللہ ہے۔(۲۲)
اصل میں قربانی کی حقیقت تو یہ تھی کہ عاشق خود اپنی جان کو خدا تعالیٰ کے حضور پیش کرتا؛ مگر خدا تعالیٰ کی رحمت دیکھئے، ان کو یہ گوارا نہ ہوا؛ اِس لیے حکم دِیاکہ تم جانور کو ذبح کرو ہم یہی سمجھیں گے کہ تم نے خود اپنے آپ کو قربان کردِیا۔ اِس وَاقعہ (ذبح اِسماعیل علیہ السلام) سے معلوم ہوا کہ ذبح کا اصل مقصد جان کو پیش کرنا ہے؛ چنانچہ اس سے اِنسان میں جاں سپارِی اور جاں نثارِی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اوریہی اس کی رُوح ہے تو یہ رُوح صدقہ سے کیسے حاصل ہوگی؟ کیونکہ قربانی کی رُوح تو جان دینا ہے اور صدقہ کی رُوح مال دینا ہے، نیز صدقہ کے لیے کوئی دِن مقرر نہیں؛ مگر اس کے لیے ایک خاص دِن مقرر کیا گیا ہے اور اس کا نام بھی یوم النحر اور یوم الاضحی رکھا گیا ہے۔(۲۳)
قربانی کی اصل حکمت و فلسفہ
حضرت شاہ وَلی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”والسر فی الہدی التشبة بفعل سیدنا إبراہیم علیہ السلام فیما قصد من ذبح ولدہ فی ذلک المکان طاعةً لربہ، وتوجہاً إلیہ، والتذکر لنعمة اللّٰہ بہ وبأبیہم إسماعیل علیہ السلام، وفعل مثل ہذا الفعل فی ہذا الوقت والزمان ینبہ والنفس ایّ تنبہ․ وإنما وجب علی المتمتع والقارن شکراً لنعمة اللّٰہ حیث وضع عنہم أمر الجاہلیة فی تلک المسئلة۔“(۲۴)
ترجمہ:”(حج کے موقع پر) ہدی میں حکمت یہ ہے کہ اس میں حضرت اِبراہیم علیہ السلام کے ساتھ مشابہت ہے، اُنہوں نے اپنے رَب کے حکم بجا آورِی اور اس کی طرف توجہ کی نیت سے اس جگہ اپنے بیٹے حضرت اِسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنا چاہا تھا، اللہ تعالیٰ نے حضرت اِسماعیل علیہ السلام پر جو اِنعامات کیے ہیں، اُن کی یاد دہانی ہوتی ہے، اور حج تمتع و قران کرنے والے پر یہ ہدی واجب ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کا شکرادا ہو کہ اس نے معاملے میں جاہلیت کے وبال کو دُور کردِیا“۔
قربانی کا حکم
قربانی کی دو قسمیں ہیں: ایک واجب، دوسری مستحب۔
اگر کوئی آدمی، عاقل، بالغ آزاد، مقیم، مسلمان اور مال دار ہو تو اس پر قربانی کرنا واجب ہے، اور قربانی نہ کرنے کی وجہ سے وہ گنہگار ہوگا۔
اگر کوئی مسلمان سفر میں ہو یا فقیر وغریب ہو یا محتاج ہو اور قربانی کرے تو یہ مستحب ہے۔ جس طرح زکوٰة صاحب نصاب مسلمان پر الگ الگ لازم ہوتی ہے، اِسی طرح قربانی بھی ہر صاحب نصاب پر الگ الگ لازم ہوگی؛ چنانچہ ایک قربانی ایک گھرانے کی طرف سے کافی ہونے کا خیال دُرست نہیں ہے اور ہر مال دَار مقیم مسلمان شخص پر قربانی اس کے اپنے نفس اور ذَات پر وَاجب ہوتی ہے؛ اِس لیے پورے گھر، خاندان یا کنبے کی طرف سے ایک آدمی کی قربانی کافی نہیں ہوگی؛ بلکہ ہر صاحب نصاب پر الگ الگ قربانی لازم ہوگی، ورنہ سب لوگ گنہگار ہوں گے، ہاں مردوں کے اِیصالِ ثواب کے لیے ایک قربانی کئی افراد کے ثواب کی نیت سے کرسکتے ہیں۔
مردوں کے اِیصالِ ثواب کے لیے یا زندہ لوگوں کو ثواب پہنچانے کے لیے قربانی کرنا جائز ہے، اگر کسی آدمی نے قربانی کی نذر مانی یا فقیرنے قربانی کی نیت سے جانور خریدا تو اُن پر قربانی واجب ہے۔
وجوبِ قربانی کی شرائط
کسی شخص پر قربانی اُس وقت واجب ہوتی ہے، جب اس میں چھ شرائط پائی جائیں: اگر ان میں سے کوئی ایک شرط بھی نہ پائی جائے تو قربانی کا وجوب ساقط ہوجائے گا اور قربانی وَاجب نہ رہے گی۔
۱- عاقل ہونا، کسی پاگل، مجنون وَغیرہ پر قربانی وَاجب نہیں۔
۲- بالغ ہونا، نابالغ پر قربانی نہیں خواہ مال دَار ہی ہو، اگر کوئی ایامِ قربانی میں بالغ ہوا اور مال دار ہے تو اُس پر قربانی واجب ہے۔
۳- آزاد ہونا، غلام پر قربانی نہیں۔
۴- مقیم ہونا، مسافر پر قربانی وَاجب نہیں۔ ہاں! اگر مسافر مال دَار ہے اور قربانی کرتا ہے تو ا س کوقربانی کرنے کا ثواب ضرور ملے گا۔
۵- مسلمان ہونا، غیر مسلم پر (خواہ کسی مذہب کا ہو) قربانی واجب نہیں۔ ہاں اگر کوئی غیرمسلم ایامِ قربانی میں مسلمان ہوگیا اور وہ صاحبِ نصاب ہو تو اُس پر بھی قربانی واجب ہے۔
۶- صاحب نصاب ہونا، لہٰذا فقیر پر قربانی واجب نہیں؛ لیکن اگر فقیر اپنی خوشی سے قربانی کرے تو اسے ثواب ملے گا۔ اگر کسی آدمی کے پاس نصاب کی مقدار رقم موجود ہو؛ مگر اُس پر اِتنا قرض ہو جو اگر وہ ادَا کرے تو اس کو صاحب نصاب ہونے سے نکال دے، ایسے شخص پر قربانی واجب نہیں، خلاصہ یہ ہے کہ ہر عاقل، بالغ، آزاد، مقیم، مسلمان اور صاحب نصاب پر قربانی واجب ہے۔
وجوبِ قربانی کا نصاب
قربانی ہر اُس عاقل، بالغ، مقیم، مسلمان پر واجب ہوتی ہے جو نصاب کا مالک ہو یا اس کی ملکیت میں ضرورتِ اصلیہ سے زائد اِتنا سامان ہو جس کی مالیت نصاب تک پہنچتی ہو اور اس کے برابر ہو، نصاب سے مراد یہ ہے کہ اس کے پاس ساڑھے سات تولہ صرف سونا یا ساڑھے باوَن تولہ چاندی یا اُس کی قیمت کے برابر نقد رَقم ہو یا ضرورَتِ اصلیہ سے زائد اِتنا سامان ہو جس کی قیمت ساڑھے باوَن تولہ چاندی کے برابر ہو۔
وَاضح رہے کہ ضرورتِ اصلیہ سے مراد وہ ضرورت ہے جو اِنسان کی جان یا اس کی عزت وآبرو کی حفاظت کے لیے ضروری ہو، اُس ضرورت کے پورا نہ ہونے کی صورت میں جان جانے یا ہتک آبرو کا اندیشہ ہو، مثلاً کھا نا، پینا، رہائش کا مکان، پہننے کے کپڑے، اہل صنعت و حرفت کے اوزار، سفر کی گاڑِی، سوارِی وَغیرہ، نیز اس کے لیے اُصول یہ ہے کہ جس پر صدقہ فطر واجب ہے اُس پر قربانی بھی واجب ہے یعنی نصاب کے مال کا تجارَت کے لیے ہونا یا اُس پر سال گزرنا ضروری نہیں؛ چونکہ نصاب کے لیے ضرورَتِ اصلیہ سے زائد مال کا اعتبار ہوتا ہے؛ اِس لیے یاد رکھنا چاہیے کہ بڑی بڑی دیگیں، بڑے فرش، شامیانے، ریڈیو، ٹیپ رِیکارڈر، عام رِیکارڈر، ٹیلی وِیژن، وِی سی آر یہ ضرورت میں دَاخل نہیں، اگر ان کی قیمتیں نصاب تک پہنچ جائیں تو بھی ایسے شخص پر قربانی واجب ہوگی۔
اگر کسی کے پاس مالِ تجارت، مثلاً: شیئرز، جیولری کا کام، فریج، گاڑیاں، پنکھے وَغیرہ کسی طرح کا مال ہو اور بقدرِ نصاب یا اس سے زیادَہ ہو تو اُس پر بھی قربانی وَاجب ہے۔ اگر کوئی فقیر آدمی قربانی کے ایام میں سے کسی دِن بھی صاحب نصاب ہوگیا تو اُس پر قربانی وَاجب ہوجائے گی۔ اگر کوئی صاحب نصاب کافر قربانی کے ایام میں مسلمان ہوجائے تو اُس پر قربانی لازم ہوگی۔ اگر عورَت صاحب نصاب ہو تو اُس پر بھی قربانی وَاجب ہے، بیوی کی قربانی شوہر پر لازم نہیں، اگر بیوی کی اِجازت سے کرلے تو ہوجائے گی۔
بعض لوگ نام بدل کر قربانی کرتے رہتے ہیں، باوجود یہ کہ دونوں میاں بیوی صاحب نصاب ہوتے ہیں، مثلاً: ایک سال شوہر کے نام سے، دوسرے سال بیوی کے نام سے، تو اس سے قربانی ادا نہیں ہوتی؛ بلکہ ہر صاحب نصاب میاں، بیوی پر علیحدہ علیحدہ قربانی ہوتی ہے۔
اگر بیوی کا مہر موٴجل (یعنی اُدھار) ہے جو شوہر نے ابھی تک نہیں دِیا اور وہ نصاب کے برابر ہے تو اس پر قربانی واجب نہیں ہے۔ اور اگر مہر معجل (یعنی فورِی طور پر نقد) ہے اور نصاب کے برابر یا اُس سے زیادَہ ہے تو اس پر بھی قربانی وَاجب ہے۔ اگر مشترک کارُوبار کی مالیت تقسیم کے بعد ہرایک کو بقدرِ نصاب یا اُس سے زائد پہنچتی ہو تو سب پر زکوٰة واجب ہوگی۔ اگر کاشت کار، کسان کے پاس ہل چلانے اور دُوسری ضرورَت سے زائد اِتنے جانور ہوں جو بقدرِ نصاب ہوں تو اُس پر قربانی ہوگی اور اگروہ جانور نصاب کی مقدار کے برابر نہ ہوں تو واجب نہ ہوگی۔ اگر کسی کے پاس کتب خانہ ہے اور مطالعہ کے لیے کتب رکھی ہیں تو اگر وہ خود تعلیم یافتہ نہیں اور کتابوں کی قیمت نصاب تک پہنچی ہوئی ہے تو اُس پر قربانی واجب ہے اور اگر صورَتِ مذکورَہ میں وہ تعلیم یافتہ ہے تو قربانی وَاجب نہیں ہوگی۔ ہر سرکارِی وغیر سرکارِی ملازم جس کی تنخواہ اِخراجات نکالنے کے بعد نصاب کے بقدر یا اس سے زائد بچ جائے تو اس پر قربانی واجب ہے۔
محمد پرویز رضا فیضانی حشتمی 
فیضانی کمپیوٹر کتاب گھر بھوانی گنج 
parvezraza015@gmail.com
6307986692/9670556798